یحییٰ بختیار سے منیر احمد منیر کا انٹرویو
سوال: آپ شروع دن سے مسلم لیگ میں رہے۔ ایوب خاں کے زمانے میں جب بعض بڑے بڑے مسلم لیگی کنونشن مسلم لیگ کی آڑ لے کر اقتدار سے وابستہ ہو گئے تھے اس وقت بھی آپ نے کونسل مسلم لیگ کو اپنی سرگرمیوں کا محور بنائے رکھا۔ ایک طرح سے یہ بات کی ثابت قدمی پردال کرتی تھی، لیکن پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آتے ہی آپ نے اٹارنی جنرل کا عہدہ قبول کرلیا۔ وہ کیا عوامل تھے جنہوں نے آپ کو اس طرف رغبت دلائی کہ آپ جیسے جمہوریت پسند سیاسی آدمی کو بھٹو کی شخصیت میں چارم نظر آیا؟
جواب: پہلے آل انڈیا مسلم لیگ تھی۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان مسلم لیگ بنی اور آپ کو یاد ہے کہ چودھری خلیق الزماں صاحب اس کے صدر بنے تو اسی وقت مسلم لیگ کا زوال شروع ہو گیا، کیونکہ وہ لیڈر شپ اس قابل نہ تھی کہ ملک میں اسے ایک منظم پارٹی بنا سکتی۔ ایک وقت آیا کہ وزیراعظم صاحب مسلم لیگ کے بھی صدر بن گئے۔ صوبائی وزرائے اعلیٰ صوبائی تنظیموں کے صدر بنے۔ اس طرح مسلم لیگ حکومت کی لونڈی بن کر رہ گئی۔ مجھے یہ انداز پسند نہ آیا، چنانچہ میں نے سیاست میں ایکٹو حصہ لینا چھوڑ دیا۔ میں متنفر ہو چکا تھا۔ اس کے بعد 1962 ءمیں ایوب خاں نے اپنا آّئین بنایا اور سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت ملی تو انہوں نے مسلم لیگ پر قبضہ کرلیا۔ ہمارے مسلم لیگی زیادہ تر کنونشن مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ چودھری خلیق الزماں صاحب بھی ان کی طرف چلے گئے تو خواجہ ناظم الدین صاحب کو کچھ دوستوں نے کہا کہ وہ میدان میں آجائیں۔ خواجہ صاحب تیار ہو گئے۔ انہوں نے مجھے خط لکھا کہ میں بلوچستان میں ان کا ساتھ دوں۔ اس خیال سے کہ خواجہ صاحب نیک انسان ہیں اور اصلی مسلم لیگی ہیںِ، میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ اس زمانے میں محترمہ فاطمہ جناحؒ سے ملنے کا شرف حاصل رہا۔ محترمہ کے الیکشن میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ میں تین بار مغربی پاکستان کونسل مسلم لیگ کا بلا مقابلہ صدر منتخب ہوا۔ 1970 ءکے انتخابات میں ہمیں شکست ہوئی، کیونکہ ہماری سوچ بالکل مختلف تھی۔ عوام کے مسائل ، غریبوں کے مسائل ، کسانوں اور مزدوروں کے مسائل پر ہم خاص توجہ نہیں دے رہے تھے۔ ہمارے لیڈر اس طرح سوچتے تھے کہ برادری یا سرداری کی بنیاد پر کون کہاں سے الیکٹ ہو سکتا ہے، جبکہ بھٹو صاحب نے لوگوں کو نئی سوچ دی ، نیا شعور دیا۔ آپ اس سے پورا اتفاق کریں یا نہ کریں حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب عوام تک پہنچ چکے تھے۔ جس طرح کہ قائداعظمِؒ نے عوام تک رسائی کی تھی اور عوام سے ڈائریکٹ تعلق قائم کرکے پاکستان حاصل کیا تھا۔ بھٹو صاحب بھی اسی طریقے سے ڈائریکٹ عوام تک گئے۔ انہوںنے مڈل مین یعنی وڈیرے یا زمیندار کا سہارا نہیں لیا تھا۔ نتیجتاًانہیں الیکشن میں کامیابی ہوئی۔
الیکشن کے بعد 1971 ءمیں بھٹو صاحب نے ممتاز بھٹو کو میرے پاس بھیجا کہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوجاﺅں۔ میں نے انہیں جواب دیا: بھٹو صاحب نے ایک بیان میں کہا ہے ، شکست خوردہ سیاستدانوں کو حق نہیں پہنچتا کہ سیاست پر کوئی بات کریں۔ میںبھی شکست خوردہ ہوں۔ میں شامل ہوا تو وہ کہیں گے کہ کسی نوکری کےلئے ، کسی عہدے کےلئے آرہا ہے، اس لئے میں شامل نہیں ہوںگا۔ ویسے مجھے کئی چیزوں سے جو آپ کررہے ہیں، اگرچہ اتفاق ہے تاہم کئی چیزوں سے اتفاق نہیں لیکن پارٹی تبدیل کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔
کچھ عرصہ بعد بھٹو صاحب خود کوئٹہ آئے۔ انہوںنے مجھے فون کیا۔ میں نے انہیں لنچ پر بلایا۔ میر رسول بخش تالپور اور ممتاز بھٹو ان کے ساتھ تھے۔ بھٹو صاحب نے بھی وہی بات کی۔ میں نے جواب دیا کہ میں پیپلزپارٹی میں شامل نہیں ہوسکتا۔ البتہ ممکن حد تک آپ کی مدد ضرور کروں گا کیونکہ ملک پر برا وقت ہے۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں انڈیا کی خاصی مداخلت شروع ہو چکی تھی۔ میں نے کہا ، آپ کی مدد ضرور کروں گا، پارٹی میں شامل نہیں ہوںگا۔ وہ چلے گئے اور پھر جو دسمبر 71ءمیںبھارت کی مداخلت ہوئی، ادھر بھی جنگ ہوئی۔ جس طریقے سے بھٹو صاحب باہر سے آئے۔ صدر اور چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر بنے تو اسی رات دو تین بجے کے درمیان انہوںنے مجھے فون کیا کہ آپ اٹارنی جنرل کا عہدہ سنبھال لیں۔ میںنے سوچا کہ پاکستان اس وقت جب حالات سے دوچار ہے، انکار کی گنجائش نہیں رہتی۔ اٹارنی جنرل تو بہت بڑا اعزاز تھا، اگروہ کہتے کہ چپڑاسی کا کام کرو تو ملک کی خاطر میں وہ بھی کرتا۔ میں نے انہیں جواب دیا، سوچوں گا، کہنے لگے، سوچنے کی بات نہیں۔ میں نے کہا، پھر ٹھیک ہے۔ میں پہلا آدمی تھا جسے انہوں ن اپوانئٹ کیا۔ منسٹر بھی بعد میں اپوائنٹ ہوئے۔ کیبنٹ بھی بعد میں بنی۔ اس کے باوجود میںنے چارج نہیںلیا۔ میں دولتانہ صاحب سے رابطہ پیدا کرتا رہا۔ وہ لاہور سے راولپنڈی گئے تھے۔ وہاں نہ ملے۔ شام کو لاہور واپس گئے تو میں نے کہا، میاں صاحب! میں آپ سے اجازت لینا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ پیش کش ہوئی ہے۔ میں آپ کی پارٹی میں ہوں۔ آپ لیڈر ہیں۔ میں آپ کی اجازت کے بغیر تو نہیں جا سکتا۔ میاں دولتانہ کہنے لگے، ملک پر بڑا مشکل وقت ہے۔ میری طرف سے پوری اجازت ہے۔ میں نے کہا ، میںمسلم لیگ کے تمام عہدوں سے ریزائن کر دوں گا لیکن دو آنے کا ممبربدستور رہوں گا۔
تو جب میں بھٹو صاحب کی حکومت میں شامل ہوا، میں مسلم لیگی ہی تھا۔ میںبھٹو صاحب کی داد دیتا ہوں، ان کی پارٹی میں اچھے وکیل موجود تھے، سب کو چھوڑ کر انہوںنے مجھے کہا کہ آپ یہ عہدہ سنبھالیں، حالانکہ میںبلوچستان جیسے صوبے سے تھا۔ اس کے باوجود جب میں چارج لینے کراچی آیا تو میں چودھری محمد علی صاحب سے ملنے گیا۔ میں ان کی بڑی عزت کرتا ہوں۔ بڑے محب وطن ہیں۔ اسلام دوست پاکستان دوست انسان ہیں۔ میں ان سے پوچھا ، چودھری صاحب چارج لے رہا ہوں، آپ کا خیال ہے؟ جو کچھ میں کررہا ہوں ، غلط ہے یا ٹھیک ہے؟ چودھری صاحب کہنے لگے، بالکل ٹھیک ہے۔ جو ملک پر گزر رہی ہے اس کے پیش نظر آپ کو کرلینا چاہئے۔
اس طرح دسمبر 1971 ءسے 6اکتوبر 1974 تک میںبھٹو صاحب کا اٹارنی جنرل اور ان کی کیبنٹ کا ممبر ہونے کے ساتھ ہی ساتھ مسلم لیگی بھی رہا۔ انہوں نے مجھے کسی بھی سٹیج پر یہ نہیں کہا کہ میری پارٹی میں شامل ہو جاﺅ۔ انہوں نے مجھ پر پورا اعتماد کیا۔ میں سیاحت میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ میں مسلم لیگ کا دو آنے کا ممبررہا۔
ولی خاں بڑے لیڈر ہیں، مگر ہمارے ان سے ہمیشہ سیاسی اختلاف رہے۔ مجھے بڑا فسوس رہا کہ مسلم لیگ والوں نے اسمبلی میں انہیں اپنا لیڈر بنالیا۔ چودھری ظہور الٰہی اور شوکت حیات نے ان کے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ ایک طرف تو یہ ہو رہا تھا، دوسری طرف بلوچستان میں ان دنوں بڑی بری حالت تھی۔ میں نہیں کہتا کہ غلطی نیپ کی تھی یا ہمارے حالات اتنے خراب تھے کہ ہماری فوج اور ہماری قوم کے لوگ آپس میں لڑ رہے تھے۔ غلط فہمی سمجھئے ، غلطی کہئے یا علیحدگی پسندی قرار دیجئے، اس تفصیل میںجانے کی ضرورت نہیں۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ فوج بھی تو ہماری جو وہاں لڑرہی تھی اور یہ ہمارے مسلم لیگی لیڈر ولی خاں کی قیادت میں سفارت خانوں میں گئے کہ آپ بلوچستان میں مداخلت کریں۔ یہ بات وہ فارن پاورز کو کہہ رہے تھے۔
سوال: متحدہ محاذ والوں نے سفارت خانوں میں جو یادداشت پیش کی تھی، اس میں یہ لکھا تھا کہ آپ پاکستان میں مداخلت کریں؟
جواب: آپ ایمبیسی میں کس لئے جاتے ہیں؟ فارن پاورز کو کیا کہتے ہیں کہ بچاﺅ ان سے ؟ جبکہ یہ ہمارا اندرونی مسئلہ تھا۔ بھائیوں کا جھگڑا تھا۔ اس بارے میں آپ غیر ممالک کو دخل دینے کا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اس پر میں نے کہا کہ آپ اب میں مسلم لیگ میںنہیں رہ سکتا۔ حالانکہ اس وقت قادیانی مسئلے کا فیصلہ ہوا تھا، مجھے بڑا کر یڈٹ مل رہاتھا۔ اس میں استعمال کرکے آسکتا تھالیکن میںنے مکہا کہ یہ پیپلز پارٹی کا معرکہ نہیں، سب نے مل جل کر کیا ہے۔
جب مسلم لیگ والوں نے یہ حرکت کی تو مجھے افسوس ہوا کہ یہ لوگ مسلم لیگی نہیں رہے، جبکہ میں اب بھی مسلم لیگی ہوں۔ ان حالات میں ، میں نے 6اکتوبر 74 ءکو مسلم لیگ چھوڑنے اور پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا بیان دےدیا۔ بھٹو صاحب اس وقت پشاور میں تھے انہیں بہت تعجب ہوا۔ کہنے لگے، آپ نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونا تھا۔ کم از کم ہمیں بتا تو دیتے ، ہم آپ کے اعزاز میں استقبالیہ دیتے۔ آپ نے تو ایسے ہی کر دیا۔
سوال: گویا آپ نے بھٹو صاحب سے مشورہ کئے بغیر اور اپنی مرضی سے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی؟
جواب: بالکل اپنے طور پرکیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ پریس کانفرنس بلاﺅں یا کسی استقبالیے کا اہتمام کروں، جیسا کہ شوکت حیات نے کیا تھا۔
میرا یہ خیال تھا کہ اس پارٹی میں ہر قسم کے لوگ ہیں۔ جیسا کہ مسلم لیگ میں ہوا کرتے تھے۔ مسلم لیگ میں میاں افتخار الدین بھی تھے۔ وہ ایک دیانتدار اور نیک آدمی تھے۔ بائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے۔ اسی طرح ممدوٹ تھے، جو دائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے۔، وغیرہ ، تو میرا خیال تھا کہ میں پیپلز پارٹی میں جا کر انہیں آمادہ کرسکتا ہوں کہ وہ وہی پالیسی اپنائیں جو قائداعظمؒ کی تھی اور بھٹو صاحب کے بھی یہی ویوز تھے۔ ایک طرف جے اے رحیم ، ڈاکٹر مبشر حسن اور معراج محمد خاں تھے جو بعد میں پارٹی چھوڑ گئے۔ دوسری طرف کوثر نیازی جیسے دائیں بازو کے تھے۔ مجھے ان سے بھی اتفاق نیہں تھا۔ میں تو درمیانی پالیسی کا حامی تھا۔ صحیح پاکستان ازم، وہی بات جو قائداعظم ؒ نے کہی تھی۔ قائداعظم ؒ ترقی پسندانہ اسلامی نظریات رکھتے تھے۔ ہم وہی اسلام چاہتے تھے جو قائداعظمؒ کے دماغ میں تھا، جو علامہ اقبالؒ کے دماغ میںتھا۔ ہم ملا کا اسلام نہیں چاہتے تھے۔ اسی خیال سے میں پیپلز پارٹی میں آیا۔ دوسری پارٹیوں کا حال میرے سامنے تھا۔ تین تین چار چار ممبر تھے، کوئی عہدے کے پیچھے بھاگ رہا ہے، کسی کو پر مٹ کی فکر، کوئی سینما بنوانے کے چکر میں ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ یہ مسلم لیگ ہے۔ تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ تین حصوں میں ہی پہلے بٹی ہوئی تھی۔ یہ ایک رہ نہیں سکتی۔ جس پارٹی کو عوام کی تائید حاصل نہ ہو وہ ایک رہ نہیں سکتی۔ میرے خیال میں پیپلز پارٹی ہی ایسی پارٹی ہے جو صحیح معنوں میں غربت آدمی کی پارٹی کہی جا سکتی ہے۔
سوال: جس طرح بھٹو صاحب نے آپ کو اٹارنی جنرل کے عہدے کی پیش کش کی، ایوب خاں کے زمانے میں بھی کوئی ایسی آفر آئی تھی؟
جواب: انہوںنے براہ راست تو کوئی پیش کش نہیں کی۔ جس زمانے میں منظور قادر چیف جسٹس تھے، 62، 63 ءکی بات ہے کہ جسٹس سجاد احمد جان نے مجھے کہا کہ آپ ہائی کورٹ کا جج بن جائیں لیکن میںنے انکار کر دیا۔
سوال : آپ سارا عرصہ ایوب خاں کی مخالفت کرتے رہے کہ آپ جمہوریت پسند تھے۔ بھٹو صاحب کو آپ نے جائن کر لیا جبکہ ان کو دور نسبتاً خاصہ سخت گیری کا تھا، بلکہ لوگوں نے تنگ آکر انہیں فاشسٹ کہنا شروع کر دیا۔
جواب: بھٹو صاحب بھی جمہوریت پسند ہیں۔ بعض اقدامات ایسے تھے جو ضروری تھے۔ سختی بعض جگہ ضروری بھی تھی۔ مگر انہیں فاشسٹ کہنا بڑی غلط بات ہے۔ لیبل لگانا بڑا آسان ہوتا ہے۔ جن حالات میں انہوں نے حکومت سنبھالی، آپ کا پانچ ہزار مربع میل ہندو کے قبضے میں تھا۔ ہمارے نوے ہزار سے زیادہ قیدی وہاں پڑے تھے۔ سرھد میں پولیس ہڑتال ، پنجاب میںپولیس ہڑتال، چھاﺅنیاں آپ کی خالی پڑی ہوئیں۔ ان حالات میں اگر رپورٹیں آئیں کہ فلاں آدمی انتشار پسند ہے، تخریب کاری کررہا ہے، ان میں چانسز لینے بڑے مشکل ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کیا اتنے زیادہ آدمی جیلوں میں تھے، جتنے آج ہیں؟ اتنے زیادہ تو نہیں تھے، کبھی بھی نہیں تھے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ میں انٹرنیشنل ایمنسٹی کو چیلنج کیا کہ ہمارے ہاں صرف 23 سیاسی نظر بند ہیں۔
سوال: یہ تعداد زیادہ سے زیادہ تھی؟
جواب: نہیں یہ تعداد کم سے کم تھی، زیادہ بھی رہے تھے۔
سوال: قومی اتحاد کی موومنٹ میں رہے ہوں گے؟
جواب: اس کے علاوہ سندھ میں لسانی فسادات کے زمانے میں یا پھر جب متحدہ محاذ نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ ہمارے پاس آئین تھا۔ ہم آئین کے مطابق چل رہے تھے۔ ملٹری کورٹس کام نہیں کر رہی تھیں۔
سوال: آئین میں عدالتوں کے اختیارات گھٹانے سے متعلق جو ترمیمیں کی گئیں، ان کے بارے میں آپ کیا صفائی پیش کریں گے؟ یہاں میں خاص طور پر دفعہ 199 کا ذکر کروں گا جس کا مقصد عدالتوںکے اختیارات گھٹا کر سیاسی تشدد کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس ترمیم کے بعد ڈی پی آر وغیرہ مقدمات کے ضمن میں کوئی عدالت عالیہ سے رجوع نہیں کر سکتا تھا اور سنا ہے کہ ایسا خاص طور پر چودھری ظہور الٰہی اور حنیف رامے کی خاطر کیا گیا؟
جواب: چودھری ظہور الٰہی اور حنیف رامے کا کہیں ذکر بھی نہیں آیا۔ آئین کے تحت عدالتی اختیارات کم کئے جا سکتے ہیں، بڑھائے جا سکتے ہیں۔ عدالت کے پیدائشی اختیارات تو ہوتے نہیں کہ انہیں گھٹایا بڑھایا نہ جا سکے۔ ایک ایسی سٹیج آئی کہ یہاں غلام مصطفےٰ کھر کا الیکشن ہو رہا تھا، تو یہاں کے قائم مقام چیف جسٹس صاحب نے ہمشین جو اطلاع دی اس کے مطابق انہوںنے ایک سوبیس یا ایک سو تیس سٹے آرڈر جاری کئے کہ فلاں شخص کو کسی جرم میں قید نہیں کیا جائے گا۔ کسی آئندہ جرم میں بھی قید نہ کیا جائے اور نہ اسے نظر بنا کیا جائے۔ امتناعی نظر بندی بھی نہیں ہو سکے گی۔ اتنی زیادہ تعداد کو انہوں نے بلینک چیک دے دیا۔ چیف منسٹر صادق حسین قریشی راولپنڈی آئے۔ مجھے بلایا گیا۔ بھٹو صاحب تھے، پنجاب کے چیف سیکرٹری صاحب تھے اور چیف منسٹر صاحب تھے۔ بھٹو صاحب نے کہا: چیف منسٹر صاحب کہتے ہیں، میں حکومت کیسے کروں گا؟ اگر مجھے کسی آدمی پر شک ہے کہ یہ تخریب پسند ہے، میں اس کو گرفتار کر سکتا ہوں۔ اس کا حق ہے کہ وہ کمرہ عدالت میں جائے ، جج صاحب کا حق ہے ، دیکھیں کہ میرے پاس میٹریل ہے کہ نہیں۔ اس کے بعد فیصلہ کریں، میں نے ٹھیک بند کیا کہ نہیں۔ اگر جج صاحب پہلے ہی کہہ دیں کہ کسی طریقے سے بھی اسے قید نہیں کیا جا سکتا، خواہ وہ جج کو بھی گولی سے مار دے۔ آپ مجھے بتائیں کہ پھر میری حکومت کیسے چلے گی؟ یا پھر مجھے چھٹی دے دیجئے۔ قریشی صاحب کہنے لگے، ان کے پاس سٹین گن ہے، غنڈوں کے سٹے آرڈر ہیں، اگر میں غنڈے لاﺅں، سٹین گن تو میں بھی دے دوںگا، سٹے آرڈر کہاں سے ملے گا، یہ کسی کیس میں گرفتار نہیں کئے جائیں گے۔ قریشی صاحب نے وہاں جو کچھ بتایا، کہاں تک درست تھا۔ تاہم آرڈر موجود تھے کہ رات کو دو دو بجے تین تین بجے گھر جا کر لوگ سٹے آرڈر لیتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں جہاں تک ضمانت کا تعلق ہے، ضابطہ فوجداری میں جو اختیارات موجود ہیں، کوئی آدمی جرم کرتا ہے، اسے ضمانت پر چھوڑا جاتا ہے، وہ اختیارات آئین میں استعمال نہیں ہوتے۔ آئین میں اگر Preventive Detention (حفاظتی نظر بندی) کے معاملات ہیں، اسی میں آپ کر سکتے ہیں۔ اسی میں آپ کر سکتے ہیں۔ کس حد تک کر سکتے ہیں؟ اس کی انہوں نے وضاحت کر دی۔ باقی اس میں جو اختیارات ہیں وہی استعمال ہوں گے۔ یہ ایک طرح سے اختیارات کم نہیں کئے گئے تھے۔ پوزیشن واضح کی گئی تھی۔ کیونکہ ہمارا یہ خیال تھا کہ جج تجاوز کررہے ہیں۔
سوال: یہ جو کہا جاتا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس یعقوب علی سے خوش ہوئی تو ان کی مدت بڑھانے کےلئے ترمیم کر دی، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس سرار محمد اقبال سے ناراض ہوئی تو حد مقرر کر دی گئی؟
جواب: یہ بات غلط ہے کہ کسی خاص جج سے ناراض ہوئے تو ترمیم کر دی، یا کسی جج سے خوش ہوئے تو ترمیم کر دی۔ یہ بات عرصہ پہلے سامنے آگئی تھی کہ کمانڈر انچیف کے چار سال ہوتے ہیں، وزیراعظم کے پانچ سال ہوتے ہیں، صدر مملکت کے پانچ سال ہوتے ہیں لیکن چیف جسٹس آٹھ سال ، بارہ سال ، چودہ سال تک بیٹھا رہے؟ جسٹس منیر عرصے تک چیف جسٹس رہے۔ اسی طرح کارنیلئس بھی لمبے عرصے کےلئے چیف جسٹس رہے۔ ان سے پہلے ایس اے رحمان صاحب اور جسٹس فضلِ اکبر صاحب کو دو دو تین مہینے سے زیادہ عرصہ نہیں ملا۔ جسٹس شہاب الدین تھے، انہیں بھی بہت کم وقت ملا۔ تو اس پر لوگ سوچ رہے تھے کہ یہاں بھی مدت کا تعین ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس ریٹائر ہو کر پھر سینئر جج بن سکتا ہے۔ امریکہ میں اور بعض دوسرے ممالک میں یہی سسٹم چل رہا ہے۔ چیف جسٹس Rotation پر آتے ہیں۔
سوال: جسے چاہا چیف جسٹس بنا دیا؟
جواب: یہ تو ہمیشہ ہے، یہ تو ہر جگہ ہے، انگلینڈ میں بھی ہے۔
سوال: سینیارٹی کا لحاظ نہیں رکھا جاتا؟
جواب: سینیارٹی کا کہیں بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ انگلینڈ میںلارڈ پار کر چیف جسٹس بنے۔ ان سے پہلے لارڈ گارڈ چیف جسٹس تھے تو لارڈ پار کر کو سترہ ججوں پر ترجیح دی گئی۔ یہاں بھی کب سینیارٹی چلی ہے؟ جسٹس منیر کب سینئر تھے؟ ایک بنگالی جج اکرم صاحب تھے، وہ منیر صاحب سے سینئر تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں اور رضامندی دے دی۔ بھارت میں بھی یہی طریقہ ہے۔ ساری دنیا میں ایسا ہو رہا ہے۔
سوال: مولانا مودودی نے ایک بار اپنی ایک تقریر کے دوران میں آئین میں ترامیم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی آئین میں دو سو سال کے دوران میں کل پچیس ترمیمیں ہوئیں، جبکہ ہمارے ہاں تین سال کے اندر اندر نو دس ترمیمیں ہو گئیں۔
جواب: کیوں نہ ہوں؟ نئی سوسائٹی ہے، نئی گورنمنٹ ہے۔ آپ نے پہلی دفعہ متفقہ آئین پاس کیا۔ اگر اپوزیشن چاہے کہ اس کی مرضی کی ترمیم ہو تو پھر وہ دو تہائی اکثریت پر متفق کیوں ہو گئے تھے؟ سب نے دستخط کئے تھے۔ یہ تو نہیں کہا گیا تھا کہ ان کے ہاتھ میں ویٹو ہے۔ جو ترمیم چاہیں کریں۔ آپ تجربہ کررہے ہیں۔ اب بیٹھے بیٹھے بروہی صاحب کہتے ہیں، ترمیم ہو گئی۔ اس وقت تو پارلیمنٹ میں کی جاتی تھی۔ اسمبلی میںبحث ہوتی تھی اور اپوزیشن واک آﺅٹ کر جاتی تھی۔ یہ پانچ سال میں پانچ ماہ بھی اسمبلی میں نہیں بیٹھے۔ ہر بات پر واک آﺅٹ۔ یہ تو اقلیت کی لیڈر شپ چاہتے تھے۔ حالانکہ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ احتجاج کیا اور پھر واپس آگئے۔ یہاں تو اَخیر تک من مانی کرتے رہے اور تنخواہ بھی باقاعدہ وصول کرتے رہے۔
سوال: اگر یہ واک آﺅٹ نہ کریں تو انہیں اسمبلی کی سیڑھیوں پر سے دھکیلا جاتا ہے، پانچویں یا چھٹی ترمیم تھی جب دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اسمبلی ہال سے ایف ایس ایف منفتی محمود اور چودھری ظہور الٰہی کو دھکے دے رہی تھی۔
جواب: یہ بالکل غلط بات ہے۔ میں اسمبلی میں موجود تھا۔ نہ وہاں ایف ایس ایف تھی اور نہ اس کا کوئی تعلق تھا۔ (محمود علی) قصوری صاحب کچھ بولنا چاہتے تھے، احمد رضا قصوری بولنے نہیں دے رہے تھے۔ ان کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ سپیکر نے انہیں ہاﺅس سے باہر نکل جانے کا آرڈر کیا۔ ساری دنیا میں ہوتا ہے کہ جب سپیکر کہہ دے غلط ہے یا صحیح ، ڈسپلن یہی ہے کہ آپ اسے فالو کریں۔ وہ کہتا ہے ، میں نہیں کروں گا، نہ میں اسے بولنے دوں گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا، جو دیر تک ملتوی ہی رہا۔ میںنے خود دیکھا کہ سپیکر صاحب کہہ رہے ہیں، میں آرڈر کرتا ہوں کہ انہیں باہر پھینک دیا جائے۔
سوال: سنا ہے ، بھٹو صاحب وہاں بیٹھے یہ سب کچھ کنٹرول کر رہے تھے؟
جواب: بھٹو صاحب وہاں اپنے چیمبر میںبیٹھے تھے۔ میری سپیکر سے بات ہوئی۔ انہوںنے کہا کہ میں انہیں نکال رہا ہوں اور کوئی طریقہ ممکن نہیں۔ ممکن ہے انہوں نے بھٹو صاحب سے بات کی ہو۔ فیڈرل سکیورٹی فورس والی بات بالکل غلط ہے۔
سوال: آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھٹو صاحب جمہوریت پسند تھے۔ کیا آپ کے پاس اس دعوے کی سچائی میں کوئی دلیل ہے؟
جواب: مارچ 77ءکے انتخابات کے فوراً بعد قومی اتحاد نے مہم چلائی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔ بھٹو صاحب نے کہہ دیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے الیکشن نہیں کرائیں گے۔ لیکن پانچ یا چھ اپریل کو میرا ٹی وی انٹرویو ریکارڈ ہوا۔ اس میں، میں نے یہ بات بھی کہی کہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن منعقد کراتے ہیں، اگر اس میں قومی اتحاد جیت جاتا ہے تو قومی اسمبلی کے الیکشن بھی کروا دین گے۔ یہ بات بھٹو صاحب کے خیالات کے خلاف تھی۔ وزیر اطلاعات طاہر محمد خاں نے یہ انٹرویو روک دیا کہ یہ تو پارٹی فیصلے کے خلاف ہے۔ میں کراچی چلا گیا۔ جہاں نو اپریل کو میںنے وہی بیان دے دیا۔ بھٹو صاحب نے مجھے لاہور بلایا۔ لوگ مجھے کہہ رہے تھے کہ بھٹو صاحب آپ کے اس بیان پر سخت ناراض ہیں۔ میں لاہور پہنچا تو وہ ناراض نہیں ہوئے، بلکہ مجھے کہنے لگے، آپ میرے کو لیگ ہیں۔
آپ نے کہہ دیا، مجھے منظور ہے، میںنے کہا، لوگوں کا خیال تھا کہ آپ الیکشن سے گھبرا رہے ہیں۔ آپ نے اصولی بات کی کہ الیکشن فیئر ہوا، جو دھاندلی ہوئی ہے وہ تو ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ کچھ ہمارے وزیروں نے بہت زیادتی کی، آگے بڑھ کر حرکتیں کیں۔ لوگوں کی نظروں می آگئی بات ، یہ کہ ہر شخص کہتا ہے کہ آپ الیکشن جیت رہے تھے۔ یہ سن کر بھٹو صاحب نے مجھے کہا کہ آپ یہ فارمولا نوابزادہ نصر اللہ خاں صاحب کو دے دیجئے۔ اگر بھٹو صاحب فاشسٹ ہوتے یا جمہوریت پسند نہ ہوتے تو میرے بات کا نوٹس لیتے ۔ لیکن انہوںنے مجھ سے اتفاق کیا۔
نوائے وقت نے لکھا کہ یہ بڑ اچھا فارمولا ہے، اس پر عمل کیا جائے۔ نوابزادہ صاحب نے کہا کہ ہم اس پر غور کرنے کےلئے تیار ہیں۔ کہنے لگے ، تمہارا فارمولا ہے ،تم ہمارے پاس پہنچا دو۔ میں نوابزادہ صاحب کے پاس گیا۔ وہ کہنے لگے کہ میں تو تیار ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں بدامنی نہ ہو لیکن ہمارے دو آدمی ایسے ہیں جو نہیں چاہتے۔
سوال: انہوںنے کن اصحاب کا نام لیا تھا؟
جواب: (1) .................... (2) ........................ دونوں نام آف دی ریکارڈ ہی رکھئے۔
سوال: اخبارات میں آیا تھا کہ آپ کی نوابزادہ صاحب سے ملاقات ہوئی لیکن نوابزادہ صاحب انکار کر گئے۔
جواب: انکار نہیں کیا، چپ رہے تھے۔
سوال: نوابزدہ صاحب کے بار میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: اچھے آدمی ہیں، نیک آدمی ہیں۔ میں ہمیشہ ان کا احترام کرتا رہا ہوں۔ میرے ساتھ متحدہ حزبِ اختلاف میں تھے۔ ہم نے اکٹھے کام کیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین صاحب ایسٹ پاکستان گئے تو مجھے کہا کہ متحدہ حزب اختلاف میں آپ میری جگہ کام کریں گے۔ مولانا مودودی تھے، بھاشائی تھے، نوابزادہ صاحب تھے، محمود الحق عثمانی تھے۔ میںنے دیکھا کہ نوابزادہ صاحب بڑی سوجھ بوجھ کے آدمی ہیں، محب وطن ہیں۔ لوگ باتیں کرتے ہیں کہ یہ پہلے احراری تھے۔ میںکہتا ہوں ، جو کچھ بھی تھے، پاکستان کے ہمدرد ہیں۔ عالی ظرف آدمی ہیں، نر آدمی ہیں، صوبائی تعصب ان میں نہیِں۔
سوال: نوابزادہ نصر اللہ خاں چاہتے تھے کہ مذاکرات ہو جائیں؟
جواب: اگر ان کے بس میں ہوتا تو بہت پہلے معاملہ سدھر چکا ہوتا۔
سوال: پھر تو مارشل لا بھی نہ لگتا؟
جواب: مارشل لا بھی نہ لگتا، خیر وہ تو انہوں نے لگانا ہی تھا۔
سوال: بہرحال اس طرح تباہی نہ مچتی؟
جواب: تباہی نہ مچتی۔
سوال: ہنگاموں کے دنوں میںبھٹو صاحب نے اسمبلی تقریر میں کہا تھا کہ یہ موومنٹ اب اتحاد والوں کے ہاتھ میں نہیں رہی، اسے کوئی اور ہی ہینڈل کررہا ہے؟
جواب: صاف معلوم ہے، جس طرح ہمارے پروفیسر غفور صاحب، ان کی بیگم صاحبہ سوزوکیوں پر راشن تقسیم کررہے تھے۔ یہ ان کے گھروں سے تو نہیں آیا ہوتا تھا۔ لاکھوں روپے کا روزانہ تقسیم ہوتا تھا۔ آج کل ہمارے لوگ جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ مجھے یہ جان کر دکھ ہوا کہ ان کے گھروں میں دال تک نہیں اور کوئی لے جاتا بھی نہیں۔ اگر ان کے پیچھے پیسے والے ہوتے تو انہیں اور ان کے گھر والوں کو اشیا پہنچیتی رہتیں۔
سوال: بھٹو صاحب نے خارجہ معلامات کی پروا کئے بغیر اسمبلی تقریر میں امریکی صدر جمی کارٹر پر کیوں انتی نکتہ چینی کی؟ کیا واقعی وہ لوگ بھٹو صاحب کے خلاف تھے؟
جواب: شہنشاہِ ایران کے خلاف کیوں ہو گئے؟ وہ (امریکی) شاہ کا سبق سکھانا چاہتے تھے لیکن خود سبق سیکھ گئے ہیں۔ یہاں بھی بے چینی پھیلائی ، وہاں بھی۔ تو بھٹو صاحب نے ری پراسینگ پلانٹ کی تنصیب پر جو سٹینڈ لیا اور تیسری دنیا کو اٹھا رہا ہے۔ اس سے پریشر بہت بڑھ جائے گا۔ اگست 76ءمیں کسنجر لاہور آیا اور اس نے بھٹو صاحب پر زور دیا کہ وہ ری پراسیسنگ پلانٹ کا پروگرام ملتوی کر دیں لیکن بھٹو کہاں ماننے والا تھا۔
سوال: رفیق باجوہ کا قصہ کیا ہوا؟
جواب: رفیق باجوہ بھٹو صاحب سے ملا تھا لیکن وہ اچھی نیت سے ملا تھا۔ ایجنٹ بننے کےلئے نہیں آیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ شائد ملک کے مفاد میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے۔ نیک آدمی ہے۔ کئی لیڈر ملتے ہیں، بات نہیں نکلتی لیکن اتحاد والے باجوہ کے تو پیچھے ہی پڑ گئے۔ میںنے بھی بھٹو صاحب کی اجازت کے بغیر فارمولا پیش کیا تھا، وہ مان گئے۔ نورانی صاحب بھی سوچ سکتے تھے کہ اگر باجوہ صاحب وزیراعظم سے ملاقات کر ہی آئے ہیں تو ہرج کیا ہے؟لیکن وہ تو غصے میں آگئے۔
سوال: آپ کا خیال ہے کہ اگر بھٹو صاحب کو اندازہ ہوتا کہ معاملہ بگڑ بھی سکتا ہے تو وہ الیکشن کراتے؟ جبکہ وہ الیکشن ایک سال تک ملتوی رکھ سکتے تھے؟
جواب: آئین میں گنجائش تھی۔ انہوںنے الیکشن کو ایک سال آگے اس لئے نہ رکھا کہ انہیں یقین تھا کہ اکثریت ان کے ستھ ہے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ الیکشن کا ایک ریگولر پراسیس شروع ہوجائے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں الیکشن سے پہلو تہی کرتا ہوں۔ ہماری اپوزیشن میں سے بیشتر الیکشن پر یقین نہیں رکھتے لیکن وہ تاثر یہی دیتے رہے کہ بھٹو صاحب الیکشن نہیں کروانا چاہتے۔
سوال: سن رہے ہیں کہ ائیر مارشل اصغر خاں کا پیپلز پارٹی سے سمجھوتہ ہو گیا ہے؟
جواب: سمجھوتہ تو نہیں ہے ، باقی یہ ہے کہ وہ بھی جمہوری عمل پر یقین کریں تو بڑی اچھی بات ہے۔
سوال: وائٹ پیپروں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے؟
جواب: میرے خیال میں تاریخ میں ایسی مثال کہیں نہیں ملے گی۔میں کیبنٹ میں بھی کہتا رہا، بعد میں بھی کہتا رہا ہوں کہ اتنی زیادہ دفعہ 144 نہیں لگانی چاہیے۔ غلط بات تھی۔ ٹھیک ہے کہ جب آرمی بھارتی قید سے واپس نہیں آئی تھی، اس وقت اگر بہت زیادہ ایکٹویٹی کرنے دیتے تو خطرہ تھا۔ پھر بھی جب ولی خاں نے کہا تھا کہ یہاں تقریر کی آزادی نہیں ہے، تو میں نے سپریم کورٹ میںبتایا کہ انہوں نے نو مہینے میںپچاس پبلک تقریریں کی تھیں۔ اگر ہفتے میں ایک بھی کریں تو سال میں 52 ہفتے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود میں کہوں گا کہ دفعہ 144 کا بہت غلط استعمال ہوا ہے۔
سوال: قومی اتحاد کی تحریک سے پہلے اپوزیشن لیڈر بھٹو صاحب سے ملتے رہے؟
جواب: لیڈر ہمیشہ ملتے رہتے ہیں۔ اسمبلی میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ چودھری ظہور الٰہی کا آپ نے ذکر کیا تھا۔ جس روز اسمبلی سے باہر پھینکنے کا واقعہ رونما ہوا تو اس سے اگلے روز چودھری صاحب ممتاز بھٹو کے پاس چلے گئے۔ کئی چیزوں پر دستخط کرائے کہ بھئی یہ کرو، وہ کرو۔ اپوزیشن والوں کو بھی ٹائم دیا کرو۔ ایک دفعہ تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میرے بچوں نے بھٹو کی تصویر رکھی ہوئی ہے۔ تب ان کے ڈیمانڈ پورے نہیں ہوتے تھے۔ اب تو وہ کہتے ہیں ، اسلام جلدی لاﺅ، سود ختم ہو، کیونکہ انہوںنے حکومت سے جو قرضے لے رکھے ہیں ان پر پچپن ساٹھ لاکھ روپیہ سود ان کے ذمے واجب الادا ہے۔ یہ اس زمانے کے فگرز ہیں جب میں گورنمنٹ میں تھا۔ جب تک چودھری صاحب جیل نہیں گئے، بھٹو صاحب سے سودے بازی کرتے رہے۔
سوال: بھٹو صاحب نہیں مان رہے تھے؟
جواب: مجھے نہیں پتہ کیا تھا۔ یہ اپنی طرف سے تیار تھے اور ہمیشہ ملتے رہے۔ چیمہ صاحب (جسٹس افضل چیمہ) کو سپریم کورٹ میں جج انہی نے بنوایا تھا۔ میںنے مخالفت کی تھی۔ صاف صاف بات کرتا ہوں۔
سوال: حکومت میں اس وقت جو لوگ ہیں، آپ کے خیال میں وہ اسلام نافذ کرنے میں مخلص ہیں؟
جواب: بعض مخلص ہوں گے اور بعض یقیناً مخلص نہیں۔ یہ اسلام جس طریقے سے لانا چاہتے ہیں، لوگ اسلام سے متنفر ہو جائیں گے۔ اسلام کی اصل سپرٹ کے خلاف باتیں کررہے ہیں۔ ڈنڈے کے زور سے اسلام نہیں آتا۔ لا اکرہ فی الدین والی بات نہیں ہے۔
سوال: تو پھر کس طرح اسلام کا نفاذ ہونا چاہیے؟
جواب: اسلام لوگوں کی مرضی سے آئے گا، ڈیمو کریسی سے آئے گا، پارلیمنٹ سے آئےگا۔ آپ دیکھیں کہ مسلمانوں کا حکومتی مرکز دہلی، آگرہ تھا لیکن اسلام پھیلا سندھ ، بلوچستان ، سرحد ، پنجاب اور بنگال میں، اس لئے کہ وہاں اللہ والے بیٹھے تھے، جنہوںنے لوگوں سے محبت کے ساتھ باتیں کیں اور لوگ مسلمان ہو گئے۔ جہاں ڈنڈا موجود تھا وہاںکوئی اسلام کے نزدیک نہیں جاتا تھا۔
سوال: بھٹو صاحب نے آپ کے سامنے شیخ مجیب الرحمن کے بارے میں کبھی کوئی بات کی؟
جواب: مجیب نے بھٹو صاحب سے کہا کہ آپ مجھے رہا کر دیں، میںبھارت نہیں جاﺅں گا۔ میں آپ سے اچھے تعلقات رکھوں گا۔ کوشش کریں گے کہ پھر قریب آئیں۔ اسی لئے میں نہیں چاہتا کہ انڈیا جاﺅں اور وہاں سے ڈھاکہ جاﺅں، بلکہ میں لندن جاﺅں گا۔ وہاں سے جہاز چارٹر کرکے سیدھا ڈھاکہ جاﺅںگا۔ پتہ نہیں ، بھٹو صاحب نے اس مقصد کےلئے مجیب کو کتنے ہزار یا کتنے لاکھ ڈالر دئیے لیکن اس نے لندن جا کے اپنے بینک میں جمع کرا دئیے اور وہاں سے بی او اے سی کے ذریعے دہلی چلا گیا اور پھر ڈھاکہ گیا۔
سوال: سقوطِ ڈھاکہ کے بعد میںنے پاکستان میں موجود تقریباً ہر سیاسی لیڈر سے انٹرویو کیا، ہر کوئی یہی کہتا رہا کہ مجیب محب وطن تھا، پاکستان کا بڑاہی خیر خواہ تھا جبکہ بھٹو علیحدگی پسند تھا؟
جواب: غلط بات ہے۔
سوال: بھٹو صاحب نے اُدھر تم ، اِدھرہم کا نعرہ لگایا تھا، اس سے اس موقف کو تقویت نہیں ملتی؟
جواب: غلط ہے۔ ہم نے سپریم کورٹ میں بھی کہا ہے ، جس تاریخ کو بھٹو صاحب نے بات کی، اس کے اگلے روز انہوں نے پریس کانفرنس میں اس کی تردید کر دی تھی۔ مگر پی پی آئی کے معظم علی تب تک بات کو بہت اچھال چکے تھے۔ بعد میں تردید کوئی نہیں پڑھتا۔ انہوںنے کہا تھا اُدھر سے تم ، اِدھر سے ہم ، گرینڈ کولیشن بناتے ہیں،۔ اگر چھ نکات کو چھوڑ دیتے ہوتو آپ اکثریت میں ہونے کی وجہ سے حکومت کریں۔ میں اپوزیشن میں بیٹھتا ہوں۔ اگر آپ چھ نکات نہیں چھوڑتے تو یہ بریک اَپ آف پاکستان ہے۔ اس سے کنفیڈریشن بنے گی، فیڈریشن نہیں رہے گی۔ کم از کم پانچ یا ساڑھے چار نکات میں ہم آپ کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ اگر آپ چھ نکات پر بضد ہیں تو ہم اسمبلی میںنہیں بیٹھیں گے، کیونکہ آپ اکثریت کے بل بوتے پر ایک دم اپنی مرضی نافذ کر دیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ پہلے ہم آپس میں بات چیت کریں۔ ہاں اگر آئین بنانے کےلئے 120 دن کی حد ختم کر دی جائے تو ہم اسمبلی میںبیٹھنے کےلئے بھی تیار ہیں۔ شیخ مجیب 6نکات پر مصر تھے، اس لئے بھٹو صاحب نے گرینڈ کولیشن والی بات کی۔
بھٹو اور مجیب میں کون نیک تھا؟ اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ جب بھٹو صاحب صدر پاکستان کی حیثیت سے ڈھاکہ گئے تو بہت بڑا استقبال ہوا۔ مجیب حکومت کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب کا ڈھاکہ میں اس طرح استقبال نہیں ہوگا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ حالت ہو گئی ہے تو واپسی کے وقت انہوںنے ڈھاکہ میں کرفیو لگا دیا۔ کرفیو کے باوجود لوگ آگئے ، درختوں پر چڑھ گئے، مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئے، مسلمان جانتا ہے کہ بھٹو نے اسلام کی خدمت کی ہے، میاں طفیل محمد نے نہیں کی۔ اس صدی میں قائداعظم ؒ سے بڑھ کر کسی نے بھی اسلام کی خدمت نہیں کی۔ کوئی مثال ہی نہیں ملتی لیکن اب ع
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے میںآپ کہہ سکتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے بھی خدمت کی۔ اسلامی کانفرنس کی ، قادیانی مسئلہ حل کیا، آئین میں پاکستان کو اسلامی ریاست لکھا۔ کمیٹی میں مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر مبشر اور جے اے رحیم صاحب نہیں چاہتے تھے کہ آئین میں پاکستان کو اسلامی سٹیٹ لکھا جائے۔ میں اس وقت لاہور میں تھا۔ مجھے فون آیا۔ میں وہاں گیا۔ اس سے پہلے سوال یہ تھا کہ مسلمان کون ہے؟ ہیڈ آف دی سٹیٹ مسلمان ہونا چاہئے۔ مولانا شاہ احمد نورانی صاحب کہہ رہے تھے کہ اس میں مشکل یہ ہے کہ پہلے آپ مسلمان کو ڈیفائن کریں۔ آپ قادیانیوں کو اس میں سے نکالیں۔ آئین میں اس کی تعریف ہونی چاہیے کہ مسلمان کیا ہے؟ قیوم خاں کہتے تھے ، اس کے بعد ہر عدالت میں جھگڑا ہو گا کہ حلف نامہ داخل کرو کہ تم مسلمان ہو کہ نہیں ہو۔ بڑا الجھاﺅ پیدا ہوگا۔ اس پر میں نے کہا، بھئی معاملہ ہے صدر کا ، اس کے حلف نامے میں کہہ دیجئے کہ میں مسلمان ہوں۔ میں ان سب باتوں پر یقین رکھتا ہوں۔ معاملہ صاف ہو جائے گا۔ نورانی صاحب نے میرا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے مسئلہ حل کر دیا۔
اس کے بعد دوسرا جھگڑا آگیا کہ اسلام State Religion(سرکاری مذہب) نہیں ہونا چاہئے، اس لئے یہ نہ لکھیں۔ میں نے کہا، کیوں نہ لکھیں؟ ہم مسلمان ہیں ، ہمیں اس بات پر فخر ہے۔ میری اس بات سے بھٹو صاحب ایک دم متفق ہو گئے ۔ جے اے رحیم صاحب ناراض ہو گئے کہ تم ملاﺅں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہو۔ میں نے کہا، یہ بات نہیں۔ مجھے تو فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ اس کاسرکاری مذہب اسلام ہوگا۔ آپ اس کی تصدیق نورانی صاحب سے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مجھے خود کہا کہ انہوں نے میری تعریف پبلک جلسے میں کی ہے۔ میں نے نورانی صاحب سے مذاقاً کہا، تو پھر آپ مجھے گورنمنٹ سے نکلوانا چاہتے ہیں۔ تویہ چیزیں ہیں۔ بھٹو صاحب کبھی بھی اسلام کے خلاف نہیں جانا چاہتے تھے۔ مسلم بلاک کےلئے انہوں نے جو خدمات انجام دیں اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔
گزشتہ دونوں کوئٹہ میں مجھے ایک آدمی کہنے لگا، اندراگاندھی نے بھٹو صاحب کے حق میں جوبیان دیا ہے، اس پر جماعت اسلامی کہتی ہے کہ اندرا بھٹو کی دوست ہے۔ میںنے اس شخص کو بتایا کہ اندرا گاندھی نہرو کی بیٹی ہے۔ نہرو پاکستان کے خلاف تھا۔ وہ بھٹو صاحب کے خلاف رہی ہے کیونکہ بھٹو صاحب شملہ معاہدہ میں اسے شکست دے آئے تھے۔ قیدی لے آئے تھے۔ پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ واپس لے لیا تھا۔ وہ بھٹو کی دوست کیونکر ٹھہری ؟ بات دراصل یہ ہے کہ اسے بھارتی مسلمانوں کے ووٹ چاہئیں۔ بھارتی مسلمان بھٹو کی عزت کرتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ وہاں بعض علاقوں میں خون خرابہ ہو رہا ہے، جنتا پارٹی بدنام ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کے دل جیتنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس کا یہی طریقہ ہے کہ بھٹو صاحب کے حق میں بیان دے دو۔ اب اس نے دس کروڑ بھارتی مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرلی ہے۔ وہ الیکشن جیتے ہی جیتے، اس لئے کہ وہاں سیاست کا بیلنس مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ بات یہ ہے جی ، مسلمان جہاں بھی ہے، بھٹو کی عزت کرتا ہے۔ ترکی میں آپ چلے جائیں، افغانستان میں چلے جائیں، کسی بھی جگہ چلے جائیں، یہی کیفیت آپ کو ملے گی۔
میرا ایک دوست ہے جو گورنمنٹ سروینٹ ہے، میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا۔ وہ کسی کانفرنس میں گیا تھا۔ وہاں ایک عرب لیڈر نے اسے کہا: بھٹو کی آنکھ ساری دنیا کی سیاست کو دیکھ سکتی تھی لیکن اس آنکھ پر آپ نے پردہ ڈال دیاہے۔
سوال: بھٹو صاحب جیل میں کیسے ہیں؟ زیادہ پریشان ہیں؟ بیمار ہیں؟ کیا صورت ہے؟
جواب: میں صحیح بتا رہا ہوں کہ کئی دفعہ میں کیس پر بات کرتا تھا تو وہ ملک کے بارے میں بات کرتے تھے۔ پھانسی کے تختے پر بھی مجھ سے ملکی مفاد کی بات کرتے رہے۔ میں حیران ہوتا تھا کہ میں کیس پر بات کرتا تھا تو ان کی نظر انٹرنیشنل معاملات پر ہوتی۔ یہ باجپائی کیا کررہا ہے؟ انہیں سمجھ نہیں آ رہا۔ فلاں مسئلہ یوں ہے اسے یوں ہونا چاہئے تھا۔ اس میں حکومت نے جو قف لیا وہ نہیں لینا چاہئے۔ فلاں بات جو ہے .... یہ باتیں میں نے آپ سے کی ہیں۔ خارجہ معاملات کا ان سے تعلق ہے، انہیں آف دی ریکارڈ ہی رکھئے۔
سوال: اوپر آپ نے بھٹو صاحب کو جمہوریت پسند کیا۔ یہ کیا جمہوریت پسندی ہوئی کہ سرحد اور بلوچستان میں انہوں نے منتخب حکومتیں ہی برطرف کر دیں؟
جواب: دیکھیں جی! سرحد میں تو مفتی صاحب نے خود استعفا دیا تھا۔
سوال: وہ گورنر کی برطرف پر احتجاجاً مستعفی ہوئے تھے؟
جواب: جیسے بھی ہو۔ انہیں ڈسمس تو نہیں کیا تھا۔ رہی بات بلوچستان کی، بلوچستان میں بیس سیٹیں تھیں۔ نیپ کی آٹھ ، پیپلز پارٹی کی ایک، جمعیت العمائے اسلام کی تین ، اکبر بگٹی کے ساتھ دو یا تین تھے، نہیں نہیں وہ نیپ کے ساتھ ہی تھے۔ دو شائد مسلم لیگ کی تھیں۔ بہت چھوٹی اسمبلی تھی۔ نیپ کی میجارٹی نہیں تھی۔ جمعیت العلمائے اسلام کے ساتھ مل کر وہ گیارہ ہو گئے اور مخلوط حکومت بنالی۔ ایک عورت الیکٹ کی اور بارہ ہو گئے۔ جمعیت العلمائے اسلام اور نیپ میںبڑا فرق ہے۔ گورنمنٹ بنانا اور بات ہے۔ ایک مذہبی پارٹی تھی دوسری اپنے آپ کو سوشلسٹ سیکولر کہتی تھی۔ تاہم جب ان کی حکومت بن گئی تو بھٹو صاحب ان کی پوری مدد کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں عدالت میں کیس بھی آگیا۔ اس کی تفصیلات آپ دیکھ چکے ہیں۔ بہرحال اختلافات پیدا ہو گئے، چھوٹی باتوں پر، بڑی باتوں پر ، مرکز کو یہ حق تھا کہ صوبے کو ہدایات جاری کرے۔ ایمرجنسی میں یہ آئینی اختیارات تھے۔ وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ممکن ہے ، انہیں یہ بات غلط لگی ہو کہ کیوں یہاں ڈائریکشن دیتے ہو، حالانکہ دخل اندازی کی بات نہیں تھی۔ بھٹو صاحب نے انہیں ڈویلپمنٹ کے لئے بڑا پیسہ دیا تھا۔ جبکہ نیپ سمجھتی تھی کہ بلوچستان میں ان کی انڈیپنڈنٹ گورنمنٹ بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ ساحل مکران کے علاقے میں کوسٹ گارڈ کے جو آفیسر جاتے تھے ان کی ڈیوٹی تھی۔ ممکن ہے وہ وہاں جا کے اپنی ڈیوٹی میں تجاوز کرتے ہوں۔ چیف منسٹر نے کہا، یہ تو میری اجازت کے بغیر نہیں آسکتے۔ آپ سوچیں کہ ایک ملک ہے، وہاں فیڈرل گورنمنٹ ہے جس کے اپنے قانون رہیں، کسٹم قانون ہوتا ہے مگر ان کے افسر کو وزیراعلیٰ کی اجازت کے بغیر صوبے کے اندر جانے کی اجازت نہ ہو۔
میں ایک چھوٹی سی مثال دے رہا ہوں۔ وزیراعلیٰ عطا اللہ مینگل کا جھگڑا تھا جام صاحب لسبیلہ کے ساتھ۔ ان کے تعلقات مدت سے خراب چلے آرہے تھے۔ وہاں جھگڑا ہو گیا تو چیف منسٹر مینگل لشکر لے کر پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ وزیراعلیٰ صاحب لشکر کو لیڈ کرتے ہوئے جا رہے ہیں۔ لطف یہ کہ انہوںنے کوئٹہ میں موجود پولیس سے کہا کہ اپنے ہتھیار میرے قبیلے کو دے دو۔ اگر واقعی وزیراعلیٰ صاحب کو کوئی پرابلم تھی تو انہیں چاہئے تا کہ مرکزی حکومت کو بتاتے کہ جام صاحب کے لوگ، بقول ان کے، بغاوت کررہے ہیں۔ مشورہ کرتے کہ کیا کرنا چاہئے۔ وہاں فورسز موجود تھیں، آرمی بھی تھی، لیکن وہ اپنا لشکر لے کر وہاں پہنچ گئے۔ پہاڑوں میں جا کر چھپ گئے۔ کھانا نہیں مل رہا تھا۔ حکومت کو جہاز پر سے کھانا پھینکنا پڑا اور لوگ مرے بھی۔ جب یہ حالات ہو رہے تھے، ساتھ ہی چیف منسٹر صاحب کے بیانات دیکھیں تو معلوم ہوتا تھا کہ کنفرنٹیشن شروع ہو گئی ہے۔
سوال: انہی دِنوں مینگل صاحب نے لاہور میں یہ بیان دیا تھا کہ اگر پاکستان کو کچھ ہو گیا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ لیں گے۔
جواب: خیر، وہ تو ٹھیک ہے لیکن نیپ کے جن بیانات کا میں ذکر کررہا ہوں، وہ نیپ کیس میں آپ دیکھ لیں۔ یہاں میں تفصیل میںنہیں جانا چاہتا۔ حد تو یہ ہے کہ رابطہ کمیٹی کی میٹنگ ہوتی تھی، یہ لوگ اس میں آتے ہی نہیں تھے۔
سوال: یہ تفصیل بتائیں گے آپ؟
جواب: بہت ٹائم لگے گا اس میں۔ اس کی تفصیل سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں موجود ہے جو اس نے نیپ کیس کے سلسلے میں دیا۔
سوال: نیپ کی حکومتوں نے اردو کو صوبائی زبان قرار دے دیا، اس سے ان کا قومی جذبہ آشکارا نہیں ہوتا کیا؟
جواب: دراصل انگریزی ان کے منسٹر لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ملا جو بیٹھے ہوئے تھے ان کے لئے اردو صوبے کی سرکاری زبان ہوئی تھی، ورنہ انہیں اردو سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ بزنجو نے مجھے قصوری کے گھر کہا تھا کہ میں صرف بلوچی کو زبان بناﺅں گا۔ میںنے پوچھا ، پشتو کا کیا ہو گا ، اردو کا کیا ہو گا۔ کہنے لگا: ”اس کا جو مرضی ہوتا رہے“۔ وہ لوگ کہتے تھے کہ آپ پٹھان فرنٹیئر میں چلے جائیں۔ تومیں کہہ رہا تھا کہ وہ لوگ اردو زبان سے کوئی مخلص نہیں تھے۔
سوال: سرحد والوں نے آخر اردو کو کیوں اختیار کیا جبکہ وہ تو پشتو بنا سکتے تھے؟
جواب: پشتو لکھی نہیں جاتی، سب لوگ جانتے بھی نہیں، پنجاب اور یوپی سے آئے ہوئے سٹاف کےلئے مشکل ہو جاتا۔ میںنہیں کہتا، ان کی نیت خراب تھی کہ وہ اردو نہیں چاہتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ انہیں مجبوراً اردو کو اختیار کرنا پڑا۔ اس میں کوئی جذبہ کار فرما نہیں تھا۔
سوال: اس سلسلے میں آپ کا مطالعہ ، مشاہدہ کیا کہتا ہے، کیا یہ لوگ واقعی غدار تھے؟
جواب: میرے ان کے بارے میں اچھے خیالات تھے۔ میںنہیں کہتا کہ وہ ملک دشمن ہیں۔ کیونکہ مینگل صاحب کی بیک گراﺅنڈ ہے۔ بزنجو صاحب تو شروع سے کانگریسی تھے۔ ان کے حالیہ بیانات بھی اس پر شاہد ہیں۔ البتہ مینگل صاحب ، بگٹی صاحب ، مری صاحب یہ کانگریسی نہیں تھے۔
سوال: اچھا!
جواب: یہ تو پاکستان کے وقت ینگ آدمی تھے۔ حکومت کی تائید بھی کرتے رہے ہیں۔
سوال: انہوں نے پاکستان بنتے وقت ووٹ بھی پاکستان کو دیا تھا کیا؟
جواب: ان کے بزرگوں نے ووٹ دیئے تھے۔ ان کے ووٹوں سے بلوچستان پاکستان میں شامل ہوا۔ غلط فہمیاں انہوںنے ضرور پید اکیں۔ ان کی زیادہ تر کوشش یہ تھی کہ سرداری رہے۔ بجائے اس کے ملک و قوم کے لئے کچھ کرتے ، سرداریوں کےلئے لڑتے رہے۔ سوشلسٹ ہیں لیکن سوشلزم اور سرداری میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سڑک نہیں بننے دیتے، سکول نہیں بننے دیتے، مسجد نہیں بننے دیتے اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ہم سوشلسٹ ہیں۔
سوال: یہ لوگ واقعی سڑک بننے کی مخالفت کرتے ہیں؟
جواب: یہ تو کالا باغ کے زمانے سے شروع ہے۔ آرسی ڈی ہائی وے کراچی سے شروع ہوتی ہے اور ایران تک جاتی ہے۔ راستے میں مینگل صاحب کا علاقہ ہے۔ سڑک کا وہ ساٹھ میل حصہ ابھی تک نہیں بنا۔ انہیں خطرہ ہے کہ سڑک بن گئی تو ہمارے لوگوں میں زندگی آجائے گی، انہیں ہوا لگ جائے گی لیکن اپنے بچوں کو تعلیم کےلئے آکسفورڈ میں داخل کراتے ہیں۔
سوال: سرداری نظام کا خاتمہ اس سلسلے کی کڑی تو نہیں تھا؟
جواب: اور پھر لے آئے اس کو ۔ ٹھیک بات ہے جی کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں یہ لوگ جیل میں گئے۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں یہ ہوا۔ میں پوچھتا ہوں، آپ کے زمانے میں کیا ہوا؟ یحییٰ خاں کے زمانے میں کوڑے پڑ رہے تھے۔ بہت کم لوگوں کو پڑتے تھے۔ وہ بھی سیاسی بنیاد پر نہیں پڑتے تھے۔ پھر بھی بھٹو صاحب نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ہمیں پی این اے کے ہنگاموں کی وجہ سے تین شہروں میں مارشل لا لگانا پڑا تو یہ محدود مارشل لا تھا۔ وہ بھی ہمارے بعض جنرل صاحبان کہتے تھے کہ لوگوں کو کوڑوں کی سزا ملے تو موومنٹ ختم ہو سکتی ہے۔ ہم نے کہا، یہ نہیں ہوگا۔
سوال: آپ آپ مارشل لا کی کیسے مخالفت کر سکتے ہیں جبکہ آپ کے اپنے دور میں مارشل لا نافذ رہا؟
جواب: مارشل لا تو آئرلینڈ میں بھی لگا ہوا ہے۔ حکومت آرمی سے کہتی ہے کہ وہ آکر ہماری مدد کرے۔ یہ چیز آئین میں درج ہے۔ ہمارا مارشل لا آئین کے تحت تھا، جبکہ موجودہ مارشل لا نوے دن کےلئے آیا تھا۔
سوال: نیپ کے بارے میں آپ نے جو کچھ کہا ہے ، یا پھر جس طرح سے بھٹو صاحب کہتے رہے، پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہوا۔ ان ڈھیر ساری باتوں کے باوجود بھٹو صاحب نیپ کے لیڈروں کے ساتھ جیلوں میں مذاکرات کیوں کرتے رہے؟
جواب: بھئی دیکھیں! کابل کے ان کے دوست کہنے لگے، ہم ڈیورنڈ لائن مان لیں گے، آپ انہیں (ولی خاں وغیرہ کو) راضی کرلیں۔ اس اہم قومی معاملے کی خاطر بھٹو صاحب کیسے مذاکرات نہ کرتے۔ سو دفعہ بات کرتے۔ بھٹو صاحب نے کہا، ٹھیک ہے میں انہیں چھوڑنے کےلئے تیار ہوں۔ ہوتے ہواتے بات یہاں تک آپہنچی کہ افغان گورنمنٹ نے کہا کہ پہلے آپ انہیں چھوڑیں بعد میں ہم ڈیورنڈ لائن تسلیم کرلیں گے۔ بھٹو صاحب نے کہا، نہیں پہلے آپ ڈیورنڈ لائن تسلیم کریں پھر ہم انہیں چھوڑیں گے۔ ان کے خلاف کوئی کیس نہیں ہوگا۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں باتیں بیک وقت ہوں گی۔ ایک ہی وقت مین نیپ والے رہاں ہوں گے، عین اسی وقت افغان گورنمنٹ ڈیورنڈلائن تسلیم کرنے کا اعلان کررہی ہوگی۔
اب آپ دیکھ رہے ہیں کیا ہوا؟ انہوں نے نیپ والوں کو چھوڑ دیا لیکن وہ (افغان حکومت) ڈیورنڈ لائن کی طرف آہی نہیں رہے۔
سوال: گویا بھٹو صاحب کابل حکومت کے ساتھ باقاعدہ سودے بازی کررہے تھے؟
جواب: جی ہاں! اس طرح پختونستان کا مسئلہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو جاتا۔ یہ تو جنرل صاحب بڑے جوش میں چلے گئے کہ ہم جلد فیصلہ کرا دیں گے، اور یہ بلوچ لیڈر بڑے خوش ہوں گے۔ بڑی اچھی بات ہے کہ انہیں چھوڑا، لیکن ڈیورنڈ لائن کا معاملہ تو وہیں کا وہیں رہ گیا۔
سوال: ٹھیک ہے کہ بھٹو صاحب نے ڈیورنڈلائن کی خاطر کابل سے مذاکرات کئے، پھر بھی اگر نیپ والے غدار تھے تو بھٹو صاحب کو انہیں کسی صورت چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے تھا جبکہ بھٹو گورنمنٹ انہیں مسلسل غدار کہتی رہی۔
جواب: یہ بات آپ جنرل صاحب سے پوچھیں۔ میں کسی کو غدار نہیں کہتا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ لوگ ملک کے تحفظ کے خلاف کام کررہے ہیں۔
سوال: سپریم کورٹ نے بھی غدار کا لفظ استعمال نہیں کیا؟
جواب: نہیں کیا۔
سوال: آپ تو بھٹو صاحب کے خاصے قریب رہے۔ اس بیان میں کہاں تک صداقت ہے کہ وہ مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے؟
جواب: وہ بڑے مہربان تھے۔ میری بات سنتے تھے۔ میں نے ان کی رائے کی کئی معاملات پر مخالفت کی۔ وہ اس وقت اگر ناراض بھی ہوتے لیکن بعد میں کہہ دیتے کہ میں آپ سے اتفق کرتا ہوں۔
سوال: وہ اپنے فیصلے میں ترمیم کرلیتے تھے؟
جواب: ترمیم کرلیتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا۔
سوال: ٹھونسنے والی بات غلط ہے؟
جواب: بالکل غلط ہے۔
سوال: کوئی ایسا واقعہ آپ بتائیں گے ہمیں؟
جواب: کابینہ کی باتیں ہیں۔ آفس سیکرٹ میں آگئیں۔
سوال: لوگ بھٹو صاحب سے خوفزدہ کیوں ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں پھر آگئے یا بچ گئے تو تہس نہس کر دیں گے؟
جواب: انہوںنے پہلے کیا کیا ہے جو اب کریں گے۔
سوال: خواجہ رفیق ، ڈاکٹر نذیر ، دلائی کمیپ ............
جواب: کس آدمی کو آج گولی نہیں لگتی۔ سیاستدان نہیں مارے جا رہے؟ ان کا نام تک نہیں سنا کہ کون ہے، خواجہ رفیق۔ مولوی شمس الدین کو کس نے مارا؟ مراد خان جمالی کو کس نے مارا؟ چار مہینے کی بات ہے سندھ میں جماعت اسلامی کا ایک آدمی مرا۔ وہ کس نے مارا؟ (حیات محمد) شیر پاﺅ کو کس نے مارا؟
سوال: تب سے یہی قیاس کیا جا رہا ہے کہ شیرپاﺅ کو بھٹو صاحب نے ہلاک کروایا تھا، نیپ پر پابندی لگانے کےلئے؟
جواب: میں یہ بات نہیں کرنا چاہتا، وہ بھی ................ بھٹو صاحب نے ہی کروایا تھا۔ آج 22 جنوری 1979ءمیں نے اخبارات میں پڑھا کہ شیر باز خاں مزاری صاحب کا بیٹا انگلینڈ جا رہا تھا، اسے جانے نہیں دیا گیا کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں رُول بنا تھا کہ اپوزیشن کے لیڈر اور ان کے گھر والے باہر نہیں گئے۔ حیرت ہے ، مزاری صاحب خود تو چلے جاتے ہیں، ان پر پابندی نہیں، ان کے بیٹے پر پابندی لگ گئی۔ حرکت یہ خود کر جاتے ہیں، بعد میں کہتے ہیں، بھٹو کے کھاتے میں ڈال دو، چل جائےگا۔
اگر بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کی پالیسی اختیار کی تو یہ ان کا منشور تھا۔ لینڈ ریفارمز انہوں نے کیں۔ حیرت ہے کہ جئے بھٹو پر کوڑے لگتے ہیں اور جئے بیدی (بش سنگ بیدی) پر کوڑے نہیں لگتے اور اروڑہ سے ہاتھ ملانے والے دندنانے پھر رہے ہیں۔
سوال: بھٹو صاحب نے کبھی سقوطِ مشرق پاکستان میں نیازی کے رول پر بھی آپ سے گفتگو کی؟
جواب: رول کا ہمیں پتہ نہیں۔ البتہ یحیی خاں نے وارکمشن میں کہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں، کیونکہ میں انچارج تھا، میں کمانڈر انچیف تھا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ مجھ کو تو پتہ نہیں ، میں نے نیازی کو اختیار دے دئیے تھے،۔ ایک طرف یحیی خاں کا آتش فشاں میں چھپنے والا انٹرویو ہوگا، دوسری طرف وار کمشن میں جسٹس حمود الرحمن ،مسٹر جسٹس طفیل علی عبدالرحمن ، مسٹر جسٹس انوارالحق کے سامنے ان کا بیان آئےگا، تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کیا پابندی تھی کہ وہ اس کمشن کے سامنے ٹھیک ٹھیک باتیں کر سکتے تھے۔
سوال: جنرل یحیی خاں نے یہ بیان دیا تھا کہ میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں؟
جواب: میں نے انہیں اس بات پر داد دی تھی۔ بڑا جرا ¿ت مندانہ بیان تھا کہ انہوں نے ذمہ داری قبول کرلی۔ (مزید تفصیل کےلئے ملاحظہ ہو: ”المیہ مشرقی پاکستان ، پانچ کردار“)
سوال: وہ رپورٹ شائع کیوں نہ کی گئی؟
جواب: اس وقت جو لوگ جی ایچ کیو میں تھے وہ مصر تھے کہ وہ رپورٹ شائع نہ کی جائے۔ مجیب الرحمن نے جو الزامات لگائے تھے وار کمشن میں کس حد تک وہ ثابت ہو چکے ہیں۔ ہم ملک کا منہ نہیں کالا کرنا چاہتے تھے، ورنہ بھٹو صاحب کے خلاف اس میں کوئی بات نہیں تھی۔ میں نے دو دفعہ کہا کہ اس رپورٹ کے کچھ حصے شائع کردو۔ باہر کا جو ہے وہ چھوڑ دیجئے، ڈیفنس سٹرٹیجی چھوڑ دیجئے۔ بنگال میں جو کچھ ہوا، لوگ کہتے ہیں کہ بھٹو کے بارے میں ہے، وہ چھاپ دیجئے۔ تاکہ لوگوں کو اصل بات کا پتہ چل سکے۔ (مزید تفصیل کے ملاحظہ: ”المیہ مشرقی پاکستان، پانچ کردار“)۔
بھٹو صاحب کو گئے اٹھارہ مہینے ہو گئے، ابھی تک کیوں شائع نہیں کی، کی پابندی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار بھٹو تھا۔ اتنے وہائٹ پیپر آچکے ہیں تو وہ بھی چھاپ دیتے۔ کیوں نہیں چھاپتے؟ ........................
میں ٹکا خاں کو داد دیتا ہوں۔ مومن آدمی ہیں۔ مشرقی پاکستان میں یہ گورنر تھے۔ انہیں پتہ چلا کہ فلاں افسر نے غلط حرکت کی ہے، انہیں ساتھ ہی ساتھ سزائیں دیں۔ اور یہ نیازی ، یہ اپنے افسروں سے کہتا تھا، تمہارا سکور کتنا ہے؟ کتنی عورتوں کو ریپ کیا ہے۔
(1) ........................(2) ........................ (3) ........................ (4) ........................(5) ........................(6) .................... ان چھ آدمیوں کے متعلق وار کمشن نے کہا تھا کہ ان پر مقدمہ چلایا جائے۔
سوال: بھٹو صاحب کے حوالے سے ان کے ایک قریبی ساتھی نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ نیازی جب عین جنگ کے زمانے میں ایک روز کےلئے اچانک مغربی پاکستان آیا تو وہاں سے لوٹے ہوئے نوٹوں کا جہاز بھر کے لایا تھا؟
جواب: بھیجے ہوں گے، عزیزوں کے ذریعے۔
سوال: حکومت کے نوٹس میں یہ باتیں آئیں کہ نیازی وغیرہ وہاں عیاشی کرتے رہے؟
جواب: ہاں جی! وار کمشن کی رپورٹ گواہ ہے۔ (مزید تفصیل کے ملاحظہ ہو: ”المیہ مشرقی پاکستان، پانچ کردار“)۔
بھئی! بلیک بیوٹی کی جو باتیں یحیی خاں کرتے ہیں، 16دسمبر 1971ءکو جب یہ سرنڈر کررہے تھے تو وہ گورنمنٹ گیسٹ ہاﺅس کے، جہاں کہ یہ رہتی تھی، پردے تبدیل کروا رہی تھی۔ (اس سانحے پر مزید تفصیل کے ملاحظہ ہو: ”المیہ مشرقی پاکستان ، پانچ کردار“)۔
سوال: آپ کو پاکستان کا مستقبل کیسا دکھائی دیتا ہے؟
جواب: دو چیزیں آپ کی نظر میں ہیں۔ پاکستان کس لئے وجود میں آیا، کیسے آیا؟ مسلمان انڈیا میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا مسلمان ہونا ایک جرم تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسا معاشرہ ہو جہاں وہ اپنے نظریے کے مطابق رہیں اور آزاد رہیں۔ اس کےلئے انہوںنے ایک ڈیموکریٹک موومنٹ بنائی اور یہ ملک جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا۔
مجھے ایک امریکی نے پوچھا کہ 31برس ہو گئے آپ ابھی تک صحیح معنوں میں ایک قوم نہیں بن سکے۔ ٹھیک ہے آپ اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتے ہیں، اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن آپ میں قومی یکجہتی پید انہیں ہوسکی۔ میں نے انہیں کہا، امریکہ میں دو سو سال سے آئین بنا ہے۔ آپ میں پوری طرح قومی یکجہتی کیوں پیدا نہیں ہو سکی؟ ابھی تک وہاں کوئی اپنے آپ کو آئرش کہتا ہے، کوئی سکاٹش کہلاتا ہے، کسی کو ڈچ ہونے پر فخر ہے۔ دراصل قومی یکجہتی پیدا ہونے میں ایک وقت لگتا ہے اور ایسا جمہوری عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جمہوریت میں ایک پارٹی آتی ہے، جس میں پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور سرحد سبھی جگہوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ میں اور آپ اگر بیٹھ جائیں ایک ہی پارٹی میں۔ ہمارا ہی پروگرام ہو، تو پھر میں کہوں گا، منیر صاحب! یہ میرا حصہ ہے۔ آپ کہیں گے، ہاں! ٹھیک ہے یہ آپ کا حق ہے، یہ آپ لے لیں۔ میں کہوں گا ہمارا علاقہ زیادہ پسماندہ ہے، ہمیں تعلیم کی زیادہ ضرورت ہے، پیسے زیادہ دے دیں۔ آپ کہتے ہیں، ہاں! لے لیں، آپ ہمارے بھائی ہیں۔ تو یہ احساس ڈیموکریسی میں ہے۔ مل بیٹھتے ہیں نا! ایک دوسرے کے پرابلم کو سمجھتے ہیں۔ ہمدردی ہوتی ہے۔ارادے بہت بلند ہوتے ہیں کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ ملک کو آگے بڑھانا ہے۔ جیسا کہ میں مسلم لیگ میں تھا، محمد حسین چٹھہ صاحب سے میں بات کرتا تھا تو وہ بلوچستان کےلئے انکار نہیں کر سکتے تھے۔ میں اگریہی باتیں بیورو کریٹ سے کہوں گا تو وہ نہیں مانے گا۔ ایک بیورو کریٹ جب دوسرے سے بات کرے گا تو وہ فیصد تناسب کے لحاظ سے بات کرےگا۔ بس یہیں سے نفرتیں ابھرتی ہیں، جبکہ جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔
سوال: ہمارے ہاں جب بھی جمہوریت کا زیادہ چرچا ہوا، ملک میں افراتفری مچی اور فوج کو مارشل لا لگانا پڑا۔ خاص طور پر الیکشن کے مواقع پر۔ تو یہ ہمارے سیاستدانوں کی نا اہلی نہیں؟
جواب: پاکستان میں کسی بھی سٹیج پر مارشل لا کی ضرورت نہیں تھی۔
سوال: بعض لوگوں کے خیال کے مطابق 77ءکا مارشل لا بالکل بہ امر مجبوری لگانا پڑا۔ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ ہی نہیں رہا تھا، جب اندرونی طور پر خلفشار بڑھ کر خوفناک صورت اختیار کرلے و ایسے میں فوج کا فرض ہوتا ہے کہ وہ مداخلت کرکے ملک کا ابتری سے بچائے۔ یہاں ہمیں پرسنل ہو کر نہیں سوچنا چاہئے کہ اس سے پیپلز پارٹی یا قومی اتحاد میں سے کس کو فائدہ پہنچا اور کس کو نقصان۔ اصل بات ملک کی ہے، اب دیکھیں مذاکرات میں آخری بار جو ڈیڈ لاک پید اہوا ہے، اس سے حالات بہت بگڑ گئے تھے؟
جواب: 2جولائی کو سارا سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ اخبارات میں بھی آگیا لیکن اصغر خاں کہنے لگے اور ڈیمانڈ کرو، بھٹو صاحب کا رنر ہو چکے ہیں۔ وہ تمہاری سب باتیں مانے گا۔ پھر دو کی شام کو دس ڈیمانڈ اور لے آئے۔ ہم ان پر بھی غور کرنے کےلئے تیار ہو گئے۔ بھٹو صاحب نے جنرلوں کو بلایا کہ پی این اے والے کہتے ہیں، حیدر آباد ٹربیونل توڑ دو۔ جنرل عبداللہ ملک اور جنرل جیلانی تو چپ بیٹھے رہے، جنرل ضیاءالحق صاحب کہنے لگے کہ اگر حیدر آباد ٹربیونل ختم کیا تو ہماری آرمی میں کریک پڑ جائیں گے۔ ہمارے اتنے لوگ بلوچستان میںمارے گئے۔ یہ ہوا، وہ ہوا۔
سوال: بات اصل موضوع سے ہٹ رہی ہے؟
جواب: ہاں! تو پی این اے میں بعض لوگ ایسے تھے جو کسی کے ہاتھ میں کھیل رہے تھے کہ انہوں نے مزید مطالبات پیش کروا دئیے۔ ورنہ یہ بات طے ہو چکی تھی۔
سوال: یہ اصغر خاں تو نہیں تھے؟
جواب: میں نہیں کہتا کون تھا؟ بہرحال مزاری صاحب بھی کہہ رہے تھے کہ حیدر آباد کیس کے بارے میں بھٹو پر زور دو۔
خیر! جب تاریخ لکھی جائے گی تو سب کے نام سامنے آ جائیں گے۔
سوال: اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ ملک کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں ، اندر سے ہے۔ وہ بھی جمہوری عمل کے ذریعے چھٹ سکتا ہے؟
جواب: اور کوئی طریقہ نہیں۔
سوال: فرض کریں بھٹو صاحب کو سزا ہو جاتی ہے اور صدر مملکت رحم کی اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کر دیتے ہیں تو بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ بھٹو صاحب ملک کو نقصان پہنچائیں گے؟
جواب: کیسے پہنچائیں گے؟ اگر وہ غریب آدمی کے دوست ہے۔ غریب آدمی نے قربانی دی ہے۔ ملک غریبوں کا ہے۔ سرمایہ داروں کو اگر چوٹ لگتی ہے او اس سے ملک کو فائدہ ہوتا ہے تو مجھے اس کی پروا نہیں۔ بلاوجہ وہ کسی کو چوٹ نہیں لگائیں گے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے خلاف یہ بڑا الزام ہے کہ جو انہیں نقصان پہنچاتا ہے وہ اس کی بری حالت کرتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں ایوب خاں نے ان کے خلاف ٹریکٹروں کا مقدمہ نہیں بنایا تھا؟ جیل میں نہیں بند رکھا تھا؟ ہتھیار نہیں لے لئے تھے؟ یحییٰ خاں نے اس پر سانگھڑ میں فائرنگ نہیں کرائی تھی؟ جس میں ان کا ڈرائیور اور ایک آدمی مارا گیا تھا۔ یحییٰ خاں کو انہوں نے کوئی تکلیف نہیں دی۔ یحییٰ خاں وار کمشن میں آئے تو انہوں نے کہا کہ جس ریسٹ ہاﺅس میں مجھے رکھا گیا ہے، وہاں مجھے تکلیف ہے۔ آپ صدر صاحب سے کہیں کہ مجھے ایبٹ آباد فیملی کے ساتھ بھیج دیں۔ اس وقت بھٹو صاحب صدر تھے۔ تو یحییٰ خاں کےلئے ایبٹ آباد میں کرائے پر کوٹھی لی گئی۔ ایوب خاں خود ان کے پاس آئے کہ مجھے ٹیکس والے تنگ کررہے ہیں۔
سوال: ایوب خاں خود آئے تھے؟
جواب: ہاں! خود آئے تھے۔ یہ سب کچھ آپ کے سامنے موجود ہے۔ بھٹو صاحب ایوب خاں سے کہہ سکتے تھے کہ آپ نے مجھے مارنے کی کوشش کی، میں آپ کو بھی کچھ دن کےلئے جیل میں ڈالوں گا۔
سوال: ایک زمانے میں بھٹو صاحب کی یحییٰ خاں کے ساتھ دوستی بھی تو بہت رہی؟
جواب: اگر یحییٰ خاں سے ان کے تعلقات ہوتے تو سانگھڑ کا واقعہ نہیں پیش آتا۔ یحییٰ خاں کے وزیر کارنیلئس سے جھگڑا ہوا تھا۔ وہ ان دنوں آئین بنا رہے تھے۔ وہ تو اس وقت بھی غریب کا دوست تھا۔ بھٹو کا پنجاب کا چودھری بے شک برداشت نہ کرے، پنجاب کے لوگ اسے چاہتے ہیں۔ پنجابیوں نے اس کے ساتھ جس محبت کا اظہار کیا ہے، خود سوزی تک کر دی۔ وہ تو جیل میں مجھے بتاتا ہے کہ میںپنجاب کو کیسے Let Down (مایوس) کر سکتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے حوصلہ ہے۔ یہ ایک بہت بڑے زمیندار اور ہندوستان میں حکومت برطانیہ کے ایک مہرے نے قائداعظمؒ سے ایک بار کہا تھا کہ ”آپ پنجاب میں نہیں آسکتے“۔ یہ ابتدائی زمانے کی بات ہے۔ قائداعظمؒ اس وقت پنجاب میں تھے اور جاتے ہوئے انہوں نے بیان دیا، ”میں واپس آﺅں گا اور تم لوگوں(جاگیرداروں ، زمینداروں) کو خس و خاشاک کی طرح بہادوں گا۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا کیونکہ قائداعظمؒ کا براہِ راست رابطہ غریب سے تھا۔ یہی بھٹو کی حالت ہے۔
سوال: لیکن بھٹو صاحب نے سکندر مرزا کو جو لکھ دیا کہ میں آپ کو قائداعظمؒ سے زیادہ سمجھتا ہوں؟
جواب: ہوتے ہیں، زندگی میں لوگ ہر قسم کی چیزیں لکھتے ہیں۔ ینگ آدمی تھا، لکھ دیا۔
سوال: بھٹو صاحب کی صحت کیسی ہے؟
جواب: کمزور ہیں۔
سوال: سنا ہے بھٹو کی بیماری نر ڈراما ہے؟
جواب: یہ بھٹو کے خلاف فاشٹ پروپیگنڈا ہے۔
سوال: الیکشن ہوں گے؟
جواب: نہیں!
سوال: کیوں؟
جواب: ان کی نیت نہیں۔
سوال: ثبوت؟
جواب: جب انہوں نے آتے ہی نوے دِن کے اندر الیکشن کرانے کا وعدہ کیا تھا، ایک مرحلے پر تو بھٹو صاحب کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ یہ الیکشن کرائیں گے۔ میں نے بھٹو صاحب سے (جیل میں) اختلاف کیا کہ یہ الیکشن نہیں کرائیں گے۔ بھٹو صاحب نے کہا: آغاشاہی، یو این او میں اس اعلان کا اعادہ کر چکے ہیں، اس لئے اب انہیں الیکشن کرانا پڑیں گے۔ میںنے بھٹو صاحب سے کہا، یہ اس کے باوجود الیکشن نہیں کرائیں گے۔ اس کی دلیل میں نے بھٹو صاحب کو یہ دی کہ یہ اپنے مارشل لاہیڈ کوارٹرز میں مستقل قسم کی فرنشنگ کرا رہے ہیں۔ جس نے نوے روز کے بعد چلے جانا ہو وہ تو اپنے دفاتر میں مستقل نوعیت کی تبدیلیاں نہیں کراتا۔
(22 جنوری 1979ئ)
(2)
یحییٰ بختیار سے منیر احمد منیر کا انٹرویو
سوال: بےنظیر سے آپ کے اختلاف کی وجہ؟
جواب: میرا کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ بےنظیر اختلاف، رائے کےخلاف ہے۔ اس دن میں نے مذاق سے کہا تھا کہ ہماری پارٹی میںفیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں۔ رائے ان کی اتفاق باقیوں کا۔
سوال: جب صدر غلام اسحق خاں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرنے کےلئے پَر تول رہے تھے اور بےنظیر بھی صدر اسحق خاں کی ہمنوا بن گئی تھیں، آپ نے اختلاف کیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے وہیں سے آپ کا بےنظیر سے اختلافِ رائے شروع ہوا؟
جواب: نواز شریف کو جب اسحق نے ڈسمس کیا تو میں نے اس پر احتجاج کیا۔ میںنے کہا، آٹھویں ترمیم کے تحت جب اس نے بےنظیر کےخلاف اختیارات استعمال کئے تو ہم نے اس کی مذمت کی تھی۔ بےنظیر نے بھی مذمت کی تھی۔ ہم عدالتوں میںبھی گئے۔ ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ۔ اس وقت تو اسحق کا یہ آرڈر غلط تھا۔ اب بی بی اسحق سے مل گئی ہے اور اس کو (وزیراعظم نواز شریف کو) اسی آرڈر کے تحت، اسی قانون کے تحت، اسی آئینی ترمیم کے تحت ڈسمس کرارہی ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے۔ غلط بات کی ہے اس نے۔ اس پر وہ ناراض ہو گئی کہ آپ نے مجھ پر اعتراض کیا ہے۔ اعتراض کرنا تھا تو ایگزیکٹو کمیٹی کے اندر کرتے۔ میں نے کہا، میں ایگزیکٹو کمیٹی کا ممبر نہیں ہوں۔ میں استعفا دے چکا ہوں۔ بہت عرصہ پہلے۔ 86ءمیں ، میں نے استعفا دے دیا تھا۔ میں پارٹی کا وائس چیئرمین تھا۔ بلوچستان کا پریذیڈنٹ تھا۔ ایگزیکٹو کمیٹی کا ممبر تھا۔
سوال: ان عہدوں سے مستعفی ہونے کی وجہ؟
جواب: میں نے بےنظیر سے کہا تھا کہ آپ پارٹی میں الیکشن نہیں کرا رہیں۔ کہنے لگیں ، وہ میں نہیں کراﺅں گی۔ صرف ڈسٹرکٹ لیول پر کراﺅں گی۔ میں نے استعفا دے دیا۔
سوال: پارٹی کی بنیادی رکنیت سے آپ مستعفی نہ ہوئے؟
جواب: میں عام ممبر رہا۔ ایگزیکٹو کمیٹی میں یہ مجھے انوائٹ کرتی رہیں۔ میں نے کہا ، میں نہیں جاتا۔ جب میں کمیٹی کا ممبر ہی نہیں تو کیوں جاﺅں۔ کہنے لگیں، کمیٹی کی سپیشل میٹنگ ہے۔ سینیٹ میں جو آپ کی پوزیشن ہے اس مناسبت سے آپ آئیں۔ میں نے کہا، اس ضمن میں آپ کا کانسٹی ٹیوشن خاموش ہے۔ میں کیسے آکے بیٹھوں۔
سوال: سنا ہے کہ ایگزیکٹو کمیٹی میںبات چیئرپرسن کی ہی چلتی ہے۔ باقی صرف ہاں میں ملاتے ہیں؟
جواب: کمیٹی کے اندر ایک دو خوشامدی انہوں نے اپنے ساتھ ایسے بٹھائے ہوئے تھے کہ میں بات ہی نہیں کر سکتا تھا۔ اب تو وہ چلے گئے ہیں، مگر ایک تو ایسا تھا کہ میں بات کرتا تو وہ اچھل پڑتا تھا جواب دینے کےلئے۔
سوال: وہ کون صاحب تھے؟
جواب: افتخار گیلانی۔
سوال: یہ عالم تھا ان کا؟
جواب: میں نام نہیں لینا چاہتا تھا۔
سوال: اس قدر وفادار تھے؟
جواب: بہت زیادہ۔ اس کے بارے میں بےنظیر کا رویہ یہ تھا کہ وہ جو کچھ بھی کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے۔ افتخار گیلانی کبھی غلطی کرہی نہیں سکتا۔ اور وہ پارٹی کا بھی ، اس کا بھی چیف سپوکس مین بنا ہوا تھا۔ میں نے کہا، وہاں توبیٹھنا بھی مشکل ہے۔ باقی سب جو ہیں وہ وہاں میں ہاں ملانے والے ہیں۔ میں اپنی رائے ظاہر کرتا ہوں۔ میں بھٹو صاحب کے سامنے اپنی رائے ظاہر کرتا تھا۔ وہ غصے میں بھی آجاتے تھے، لیکن یہ بات کبھی بھی نہیں تھی۔ یہاں توا ختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تو وہ ناراض ہو گئیں۔
سوال: صدر غلام اسحق خاں نے آٹھویں ترمیم کے تحت جب 18 اپریل 93ءکو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو میاں صاحب نے آپ کو وکیل کیا۔ اس پر بےنظیر نے کوئی رد عمل دکھایا؟
جواب: اظہار امرو ہی بی بی کا سیکرٹری ہے۔ انہوںنے اسے میرے پاس بھیجا کہ آپ نواز شریف کا کیس کیوں کررہے ہیں۔ میںنے کہا، یہ میرا پروفیشنل کام ہے۔ اگر کوئی آکے کہتا ہے کہ میرا کیس کرو تو میں وکیل کی حیثیت سے کروںگا۔ میاں صاحب نے مجھے ٹیلیفون کیا، بات چیت کی کہ کیس کرو۔ یہ تو آپ نامناسب بات کررہے ہیں کہ میں کیس کیوں کررہا ہوں۔ ویسے بھی میں تو اس آرڈر کو غلط سمجھتا ہوں جو غلام اسحق نے پاس کیا ہے۔
سوال: اس کے بعد؟
جواب: اس کے بعد ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔
سوال: جب آپ صدارتی امیدوار بنے تب بھی نہیں؟
جواب: پھر پیغامات آئے کہ آپ صدارتی انتخاب نہ لڑیں۔ پھر ٹیلی فون آیا۔ میں نے کہا ، میں پارٹی بھی چھوڑ دیتا ہوں۔ نہیں، پارٹی نہ چھوڑیں۔ پھر اس کے بعد لغاری صاحب (فاروق احمد لغاری) آصف زرداری، آفتاب شیر پاﺅ، ملک قاسم، افضل خاں، یہ سب آگئے میرے پاس۔ اسی کمرے میں۔ زرداری نے کہا، یہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ لغاری نے کہا، مجھے آپ کا ووٹ نہیں چاہئے، مگر آپ پارٹی نہ چھوڑیں۔ میں نے کہا، حق میرا تھا۔ پارٹی میں سینئر میں تھا۔ قائداعظمؒ کے ساتھ کام کرتا رہا۔ اگر میرے ساتھ جھگڑا نہ ہوتا تو وہ خود میرا نام تجویز کرتیں۔ اسے خیال ہو گا کہ اس نے مخالفت کی ہے، اوپر بیٹھ کر بھی یہ میر مخالفت کر سکتا ہے۔ انڈٰ پینڈٹ آدمی ہے۔ انڈی پینڈنٹ آدمی کو نہیں بیٹھنا چاہئے۔
سوال: نواز شریف کے سلسلے میں آپ کے موقف کو عام آدمی نے اصولی قرار دیا تھا؟
جواب: صاف بات ہے کہ آٹھویں ترمیم کے آپ خلاف ہیں۔ میں بھی خلاف ہوں۔ اسحق نے اسے استعمال کیا۔ غلط کیا۔ گندہ آرڈر تھا اس کا۔ بلکہ آپ اسے ایم این ایز کے استعفے دے رہی ہیں کہ نواز شریف کو ہٹاﺅ۔ بڑی مفاد پر ستانہ چیز ہے۔
سوال: لیکن بعد میں لوگوں نے محترمہ کو داد بھی دی کہ انہوں نے ایک تیر میں دو نشانے کئے۔ اسحق خاں بھی گئے اور نواز شریف بھی؟
جواب: نہیں۔ وہ کریڈٹ اگر ملے گا تو نواز شریف کو ملے گا۔ اسحق سے پیچھا چھڑانے کےلئے اس نے اپنی گورنمنٹ بھی ختم کرلی۔
سوال: آپ اسے بےنظیر کی سیاسی چال یا فراست نہیں کہیں گے؟
جواب: وہ تو نواز شریف کو کریڈٹ جاتا ہے میرے خیال میں۔
سوال: نواز شریف کو یہ کریڈٹ بھی تو جاتا ہے کہ انہوں نے قائداعظمؒ کی مسلم لیگ کو، پاکستان کی بانی جماعت کو ........
جواب: کوئی کریڈٹ نہیں۔ وہ تو ضیا کا Follower(پیروکار) ہے۔
سوال: میرا مطلب ........؟
جواب: آپ خود دیکھیں منیر صاحب ، اس آدمی نے دو تین دفعہ کہا ہے۔ میں لندن میں تھا جب ضیا کی وفات ہوئی تھی۔ میں سن رہا ہوں وہاں ٹیلی ویژن پر کہ ”ضیا کا مشن جاری رکھوں گا۔“
اس دو تین بار نہیں میاں صاحب تو بار بار یہ کہتے ہیں؟
جواب: پھر یہاں سپریم کورٹ نے اسمبلی بحال کر دی تو یہ فیصل مسجد میں نفل پڑھنے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ضیا کی قبر پر بھی گئے: ”میں اس کے مشن کو جاری رکھوں گا۔“ اب آپ دیکھیں کہ مارشل لاءمنافقت، جھوٹ ، 90دن کے وعدے ، کوڑے، منہ کالے کرنا، کرپشن ، اس کے علاوہ ضیا نے اور کوئی چیز ملک کو دی ہے؟ کلاشنکوف کلچر، ہیروئن کلچر آپ کوئی چیز بھی بتا دیں؟ کون سامشن آپ جاری رکھیں گے۔ پھر قائداعظمؒ کا نام ہی نہ للیں۔ ضیا نے انہیں منسٹر بنایا۔ ضیا نے ان کو چیف منسٹر (پنجاب) بنایا۔ یہ اس کے شکر گزار ہیں، ممنون ہیں۔ ٹھیک ہے۔ مگر قائداعظمؒ کا نام نہیں لینا چاہئے۔ نہ یہ مسلم لیگی ہیں۔
سوال: میرا سوال ادھورا ہی چلا آرہا ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ مسلم لیگ کو سٹریٹ پاور بنانے کا کریڈٹ تو انہیں جاتا ہے؟
جواب: کون سی بنائی۔
سوال: مسلم لیگ جو اتنی طاقت بن گئی ہے؟
جواب: جو بھی گورنمنٹ ہو گی اتنی اپوزیشن تو آجاتی ہے۔ اگر یہ واقعی قائداعظمؒ کے پیرو کار ہوتے تو قائداعظمؒ کے مشن کی بات کرتے۔ ٹھیک ہے پنجاب میں زیادہ جذبہ ہے قائداعظمؒ کے حوالے سے ، مسلم لیگ کے حوالے سے۔ یہ اس کو ایکسپلائٹ کررہے ہیں۔ یہ اس کا فائدہ تو اٹھاتے ہیں کہ پنجابی وزیراعظم ہے۔ ”نوائے وقت“ پیچھے لگا ہے۔ سپورٹ کررہا ہے۔ اور کچھ نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ غلط پالیسی ہے۔ غلط طریقہ چل رہا ہے۔
سوال: اگر آپ سے بےنظیر اور نواز شریف میں موازنہ کرنے کو کہا جائے؟
جواب: میں دونوں کو Criticise(ہدفِ تنقید) کرتا ہوں۔ صاف بات کرتا ہوں۔ ملک کے سامنے دو لیڈر ہیں، بےنظیر اور نواز شریف۔ دونوں ینگ ہیں۔ دونوں ہی تھرڈ گریڈ۔
سوال: دونوں ہی تھرڈ گریڈ؟
جواب: دونوں ہی تھرڈ گریڈ ´
سوال: وہ کیسے؟
جواب: بےنظیر Narrow-Minded، تنگ نظر ، تنگ دل۔ اور نواز شریف بیوقوف۔ اگر میاں صاحب سے رول بیک کا لفظ واپس لے لیں تو ان کے پاس کہنے کو کوئی بات ہی نہیں رہے گی۔ ”نیو کلیئر پروگرام رول بیک کررہے ہیں“۔ ”کشمیر کے مسئلے کو رول بیک کررہے ہیں“۔ ”موٹر وے کو رول بیک کررہے ہیں“۔ خدا کا نام لو۔ کسی آدمی کی پاکستان میں ہمت نہیں ہو گی کہ کشمیر کے مسئلے کو رول بیک کرے۔ کسی کی ہمت نہیں ہو گی کہ نیو کلیئر پروگرام کو رول بیک کرے۔ کوئی بھی گورنمنٹ ہو۔ یہ بچوں کی باتیں چھوڑ دیں۔ موٹر وے، اس بات پر نعرے بازی ہو رہی ہے۔
سوال: ان حالات میں ملک کا سیاسی اور جمہوری مستقبل آپ کو کیا نظر آتا ہے؟
جواب: کچھ بھی نہیں۔ یہی مصیبت ہے۔
سوال: اگر دونوں لیڈروں کا یہ حال ہے؟
جواب: اگر دونو لیڈروں کا یہ حال ہے۔ بےنظیر کی سیاست کیا ہے۔ کوئی ایسا اقدام نہیں کررہیں کہ آپ کہہ سکیں کہ کوئی نیا راستہ دکھا رہی ہوں۔ لوگوں نے بہت شور کیا تو ایک اچھا بیان دے دیا۔
سوال: اس سے لوگوں میں یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ فوج کا کنٹرول زیادہ ہے۔ اس کے پاس اتنے اختیارات نہیں؟
جواب: نہیں جی۔ اختیار کی بات ہوتی تو ہم کہتے کہ فوج اختیار دے دے۔ یہ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ ایجنڈا آپ کا کیا ہے۔ بےنظیر کا کیا ایجنڈا ہے۔ نواز شریف کا کیا ایجنڈا ہے۔
سوال: اس ایجنڈے میں بھی بےنظیر نے ترمیم کر دی۔ وہ جو انتخابی منشور تھا؟
جواب: کچھ بھی نہیں۔ غلط بات ہے۔
سوال: کمال اظفر نے پریس کانفرنس کی کہ اب ہم ڈسٹرکٹ گورنر نہیں بلکہ ڈسٹرکٹ میئر بنائیں گے؟
جواب: ڈسٹرکٹ گورنر بنائیں گے۔ کیسے ڈسٹرکٹ گورنر بن سکتا ہے۔ اس کی کابینہ ہو گی۔ اتنے ڈسٹرکٹ ہیں ملک میں۔ ہر ایک میں گورنر بیٹھے گا۔ اس کی کابینہ بیٹھے گی۔ اس کی پھر شوریٰ ہو گی۔ اس کی پھر اسمبلی ہو گی۔ یہ آپ افورڈ نہیں کر سکتے۔ یہ جولیڈر شپ ہے نا، اس کے علاوہ کوئی نظر بھی نہیں آتی۔
سوال: یہ تو پھر افسوسناک صورتحال ہوئی؟
جواب: مجھے تو سمجھ نہیں آرہی کہ ان کا کیا ایجنڈا، کیا پروگرام ہے۔ ہم بیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں جا رہے ہیں۔ جاتو رہے ہیں، بتاﺅ ایجنڈا کیا ہے۔ کیا کریں گے آپ؟ ایجوکیشن پالیسی آپ کی کیا ہے؟ فنانشل پالیسی آپ کی کیا ہے؟ اکنامک پالیسی آپ کی کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ یہ باپ کے مزار پر پیسہ خرچ کررہی ہے۔ یہ کہتی ہے کہ تم نے موٹر وے پر پیسہ ضائع کیا۔
سوال: بےنظیر صرف ڈسٹرکٹ لیول پر پارٹی الیکشن کےلئے تیار تھیں۔ اوپر کے لیول پر کیوں نہیں۔ خوفزدہ تھیں؟
جواب: مجھے تو اس نے کہا تھا کہ میں پارٹی کے اوپر کے لیول پر الیکشن نہیں کرانا چاہتی۔ میں نے کہا، دیکھیں، آپ کی کرسی کےلئے کوئی نہیں لڑے گا۔ نہ مجھے شوق ہے نہ کسی اور نے کرنا ہے۔ پارٹی میں الیکشن بہت ضروری ہوتا ہے۔ قائداعظمؒ ہر سال الیکشن لڑتے تھے۔ خواجہ ناظم الدینؒ نے کہا، تین سال بعد۔ آپ بھی تین چار سال بعد الیکشن کرلیا کریں۔ لیکن نہیں۔ وہی چار پانچ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کوئی پنجاب میں، کوئی بلوچستان میں، کوئی سرحد میں، کوئی سندھ میں۔ پندرہ بیس سال سے وہی بیٹھے ہیں۔ بار بار انہی کو آپ نامزد کرتی ہیں۔ اوروں کو بھی چانس دیں تاکہ وہ بھی اوپر آئیں۔ بہت اچھے لوگ ہیں۔ ان کو Destablisation (عدم استحکام) کی فکر پڑ گئی۔ Insecurity (عدم تحفظ) کی حد ہے۔
سوال: مرتضیٰ بھٹو اور نصرت بھٹو کے ساتھ ان کا جھگڑا بھی اسی عدم تحفظ کے باعث تو نہیں؟
جواب: اس نے جھگڑا شروع کیا اپنی ماں کے ساتھ اور بھائی کے ساتھ۔ احساسِ کمتری اور عدم تحفظ کہ مجھے ہٹا دیں گے۔
سوال: آپ کے خیال میں واقعی ایسا ممکن ہے کہ مرتضیٰ بھٹو پارٹی پر قابض ہو جائیں گے؟
جواب: وہ لڑکا سولہ سال کے بعد آیا ہے۔ اس کے پاﺅں نہیں ابھی جمے۔ وہ تمہاری عزت کرتا ہے۔ تم نے کام کیا ہے۔ تم نے قربانی دی ہے۔ تمہیں تو اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہئے۔ تم ڈٹ کے بیٹھی تھی۔
سوال: مرتضیٰ بھٹو اتنا طویل عرصہ ملک سے باہر رہنے کی بجائے اگر ملک کے اندر رہ کر جدوجہد کرتے تو سیاسی جانشینی پر بہن بھائی میں جھگڑا پیدا نہ ہوتا؟
جواب: بھٹو صاحب نے میرے سامنے کہا، بیٹوں سے کہیں کہ وہ چلے جائیں۔
سوال: بھٹو صاحب کو بیٹوں کے حوالے سے جنرل ضیا کی طرف سے کوئی خوف تھا؟
جواب: ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو ، عورتوں کو ضیا کچھ نہیں کہے گا۔
سوال: بھٹو صاحب نے یہ بات بیگم صاحب سے کہی تھی کہ بیٹوں سے کہیں کہ چلے جائیں؟
جواب: مجھے کہا۔ ان کو بھی کہا ہوگا۔ وہ چلے گئے۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ ضیا عورتوں کو کچھ نہیں کہے گا۔ اتنی شرم آئے گی اس کو۔ لڑکوں کو جیل میں ڈالے گا۔ ٹارچر کرے گا۔ وہ بڑا کمینہ آدمی ہے۔ انہیں کہو کہ اسی وقت چلے جائیں۔ یہ نہیں تھا کہ وہ بھاگ گئے تھے یا انہوں نے باپ کو چھوڑ دیا تھا۔
سوال: آپ کے خیال میں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو نے یہاں سے جا کر اچھا کیا؟
جواب: اچھا کیا۔ ضیا نے انہیں تنگ کرنا تھا۔
سوال: تنگ تو ضیا نے بےنظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کو بھی کیا؟
جواب: بیگم صاحبہ کو جیل میں ڈالا۔ بےنظیر کو بھی جیل میں ڈالا۔ تنگ کیا۔ ٹارجر کیا۔ سب کچھ کیا۔
سوال: آپ کے خیال میں بےنظیر کو مرتضیٰ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے؟
جواب: اب وہ (مرتضیٰ بھٹو) آیا ہے سولہ سال کے بعد۔ اس نے ابھی پاﺅں جمائے نہیں۔ تمہاری پوزیشن بن گئی ہے۔ تم نے قربانی دی ہے۔ تم انٹیلی جنٹ ہو۔ کام کر سکتی ہو۔ تم نے کام کیا ہے۔ تمہیں فکر نہیں ہونی چاہئے۔ ڈر نہیں جاناچاہئے۔ پبلک اتنی بےوقوف نہیں کہ وہ ایک دم مرتضیٰ کے پیچھے چلی جائے گی۔ کہ ”مردوں کا سماج ہے۔ یہ آدمی کے پیچھے جاتے ہیں۔“ غلط ہے۔ دیکھیں ، اس وقت مسلمان ملکوں میں سے تین (پاکستان ، بنگلہ دیش ، ترکی) میں خواتین وزیراعظم ہیں۔ کوئی ان کے خلاف نہیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا۔ مسلمان بڑے حوصلے والا ہوتا ہے۔
سوال: مادر ملتؒ ............
جواب: مادر ملتؒ آپ کے سامنے ہے۔ میں ان کے ساتھ تھا۔ کتنا ایوب خاں چیختا تھا، چلا تا تھا، مگر عوام مادر ملتؒ کے ساتھ تھے۔ وہ پھر دھاندلی کرکے جیتا۔ بےنظیر کا خیال ہے کہ یہ مردوں کی سوسائٹی ہے۔ یہ مرد کی طرف جائیں گے۔ یہ غلط بات ہے۔ کوئی بھی نہیں جاتا۔ لاڑکانے کا جووڈیرہ ہے وہ ھی نہیں جاتا۔ اس کو احساسِ کمتری اتنا ہو گیا ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں۔ ماں کو ابرا کہتی ہے۔ بھائی کو برا کہتی ہے۔ جو ان کو ملنے جاتا ہے اس کو برا کہتی ہے۔
سوال: بات اس حد تک بڑھ چکی ہے؟
جواب: ابھی ان کی والدہ ٹھہری تھیں اسلم صاحب کے ہاں۔ اسلم صاحب کی بیٹی بیگم صاحبہ کی پرائیوٹ سیکرٹری ہیں۔
سوال: اسلم صاحب کون ہیں؟
جواب: اسلم صاحب ایک ریٹائرڈ گورنمنٹ آفیسر ہیں۔ انسپکشن ٹیم کے پریذیڈنٹ تھے۔ بھٹو صاحب کے بھی۔ بےنظیر کے بھی۔ ریونیو میں بھی تھے۔ ریٹائرڈ آدمی ہیں۔ پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب کے کیس میں ہمیشہ سپریم کورٹ میں آتے تھے۔ یہ اور عزیز احمد صاحب۔ اب ان کے گھر میں جا کے بیگم صاحبہ ٹھہری تھیں، کیونکہ ان کی بیٹی میرا خیال ہے بیگم صاحبہ کی پرائیویٹ سیکرٹری ہے۔ بے نظیر آصف زرداری کے ساتھ ان کے پاس گئیں، لیکن باہر کار میں بیٹھی رہیں۔ آصف زرداری سے کہا کہ ماں کو لے آﺅ۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان لوگوں نے بیگم صاحبہ کا ساتھ کیوں دیا۔ اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
سوال: کہ انہیں اپنے گھر پر کیوں ٹھہرایا؟
جواب: یہی بات ہے۔
سوال: حالاں وہ سیاسی لوگ تو ہیں نہیں؟
جواب: وہ سیاسی لوگ تو ہیں نہیں۔ وہ بیگم صاحبہ کی عزت کرتے ہیں۔ چونکہ بیگم صاحبہ ان کے گھر جا کر ٹھہری ہوئی تھیں۔ ان کی بیٹی بیگم صاحبہ کی پرائیویٹ سیکرٹری بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگیں، جا کے لے آﺅ ان کو۔ خود باہر کار میں بیٹھی رہیں۔ آصف زرداری گیا۔ اس نے جا کے کہا کہ آپ باہر آئیں۔ انہوں نے کہا، آپ بیٹھیں۔ زرداری نے کہا کہ مہمان باہر بیٹھے انتظار کررہے ہیں۔ یہ ہے بےنظیر ۔ تنگ نظر، تنگ دل۔
سوال: آپ کو انہوں نے سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن سے ہٹادیا؟
جواب: مجھے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کے آپ نے غلط کیا ہے۔ آرڈر کیا کہ اسے سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن سے ہٹا دو۔ پانچ چھ آدمی اور تھے۔ انہوں نے لکھ دیا کہ یہ ہمارا لیڈر نہیں۔ میں نے کہا ، ٹھیک ہے جو عزت ہے وہ اس کے بغیر بھی ہے۔ اس کے بعد لیڈر آف دی ہاﺅس میں نے بننا تھا۔ سینئر میں تھا۔ انہوں نے ملک قاسم کو بنا دیا۔ اتنی زیادہ تنگ نظر۔ میری خدمات دیکھیں۔ میں نے بھٹو صاحب کی خدمت کی ہے۔ بیگم صاحبہ کی کی ہے۔ ان کی کی ہے۔ منیر صاحب، مجھے بیگم صاحبہ نے پہلے اسلام آباد بھیجا کہ ضیا کہتا ہے پارٹیوں کی رجسٹریشن کراﺅ۔ وہ ہماری پارٹی کو رجسٹرنہیں ہونے دے گا۔ میں گیا۔ لڑتا رہا۔ اپنے خرچ پر۔ انہوںنے کبھی ایک پیسہ بھی آفر نہیں کیا۔ خرچہ تک نہیں دیا۔
سوال: اور بھٹو صاحب؟
جواب: بھٹو صاحب تو خرچہ دیتے تھے۔ فیس میں نہیں لیتا تھا۔ ہوٹل میں رہتا تھا۔ خرچہ وہی دیتے تھے۔ میں تھا۔ غلام علی (میمن) تھا۔ ساری ٹیم ۔ وہی خرچہ دیتے تھے۔
سوال: جبکہ انہوںنے خرچہ تک نہیں دیا؟
جواب: خرچہ تک نہیں دیا۔ ذکر بھی نہیں کیا۔ اتنی مروت ہے۔ پارٹی کا پیسہ ان کے پاس بہت ہے۔ رجسٹریشن ختم ہو گئی۔ پھر انہوںنے کہا کہ جماعتی بنیادوں پر الیکشن نہیں کرا رہے۔ یہ گھبرائے۔ مجھے کہا۔ میں پھر لڑتا رہا۔ اپنے خرچ پر اسلام آباد جاتا رہا۔ وہ بھی توڑ دیا آرڈر۔ کہ اب الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ پھر اس کی گورنمنٹ کو ڈسمس کیا گیا۔ ریفرنسز ہوئے ان کےخلاف۔ ایک سال میں کراچی میں کیس لڑتا رہا، اپنے خرچے پر۔ لاہور میں اعتزاز کرتا رہا، کراچی میں، میں کرتا رہا۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ آپ کوئٹہ جاتے ہیں، واپس آتے ہیں، آپ کی پریکٹس ختم ہے، آپ کا خرچہ ورچہ، کچھ نہیں۔ اپنی پریکٹس کا نقصان ، لاکھوں روپے، بھٹو صاحب کےلئے میں نے خوشی سے کیا جو کچھ کیا۔ بیگم صاحبہ کے کیسز بھی لڑتا رہا، ان کے کیسز بھی لڑتا رہا۔ وہاں رہتا رہا۔ گھر بار چھوڑ کر، سب کچھ۔ ہاں، اس نے مخالفت کی ہے نکال دو اس کو (سینیٹ میں) پارٹی کی لیڈر شپ سے۔
سوال: مخالفت بھی نہیں اختلاف کیا؟
جواب: اختلاف کیا۔ اسے پارٹی کی لیڈر شپ سے نکال دو۔ یہ کیسے ملک کی بڑی لیڈر بن سکتی ہے۔
سوال: آپ نے کہا کہ ”میں بھٹو صاحب کے سامنے اپنی رائے ظاہر کرتا تھا۔ وہ غصے میں بھی آجاتے تھے۔“
جواب: بھٹو صاحب کی بھی میں نے مخالفت کی۔ کئی چیزوں ، کئی مسئلوں پر۔ بگڑ پڑتے تھے۔ چیخ پڑتے تھے۔ میں کمرہ چھوڑ کر چلا جاتا تھا۔ پھر خود کہتے تھے، آپ ٹھیک تھے۔
سوال: کچھ یاد ہے، کتنی بار ایسا ہوا؟
جواب: تین چار دفعہ بڑے بڑے مسئلوں پر۔ چھوٹے مسئلوں پر نہیں۔
سوال: مثلاً۔
جواب: مثلاً یہ کہ ایک دفعہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا۔ مجھے بلایا۔ رفیع رضا صاحب کے گھر میں ڈنر تھا۔ میں پہلے ہی گیا ہوا تھا کھانا کھانے۔ رات کو واپس آیا ساڑھے دس گیارہ بجے۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ رفیع رضا کا فون تھا: آپ آئیں کھانا کھائیں۔ میں نے کہا، اب کوئی کھانے کا ٹائم ہے۔ گیارہ بج رہے ہیں۔ میرے پاس گاڑی بھی نہیں ہے۔ کہنے لگے، پریذیڈنٹ صاحب بھی یہاں ہیں۔ اس وقت بھٹو صاحب پریذیڈنٹ بھی تھے، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ کوئی ضروری بات ہے۔ میں نے کہا، چلو گاڑی بھیج دو۔ گاڑی بھیج دی انہوںنے۔ میں گیا وہاں ۔ سب بیٹھے تھے۔ حمود الرحمن ، انوارالحق ، نسیم حسن شاہ، شمیم حسین قادری وغیرہ۔ چھ سات ججوں کے انہوں نے نام لئے کہ ان کو تو میں مارشل لا کے تحت ڈسمس کر رہا ہوں۔ کوئی اور نام ڈالتے ہیں تو ڈال دو۔ میںنے کہا، آپ سرئیس بات کررہے ہیں۔ ایک سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہے (حمود الرحمن)۔ ایک ہائیکورٹ کا چیف جسٹس ہے۔ انوار الحق میرا خیال ہے ہائیکورٹ (لاہور) کا چیف جسٹس تھا اس زمانے میں۔ باقی سینئر ججوں کو آپ ڈسمس کر رہے ہیں۔ مارشل لا ریگولیشنز میں چودہ سو کو تو آپ نے چھٹی دے دی۔ میں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اور اب آپ یہ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ہاں میں ہاں ملاﺅں۔ اگر آپ ٹھیک کام کریں گے تو ضرور آپ کی مدد کروں گا، آپ کے ساتھ رہوں گا۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ یہاں ڈیمو کریسی لا رہے ہیں۔ رول آف لا لا رہے ہیں۔
سوال: آپ نے کہا ہے کہ وہاں ”سب بیٹھے تھے“۔ کسی اور نے بھی اختلاف کیا؟
جواب: باقی چپ بیٹھے تھے۔
سوال: کون کون تھے؟
جواب: جتوئی صاحب تھے۔ مصطفیٰ کھر تھے۔ رفیع رضا تھے۔ حفیظ پیرزادہ تھے۔ ایک جنرل اکبر صاحب تھے۔
سوال: جنرل اکبر جو منسٹر بھی تھے، پنڈی سازش کیس والے؟
جواب: ہاں وہ۔ وہ بھی بیٹھے تھے۔ انہوںنے مجھے پشتو میں کہا، بالکک ٹھیک کہہ رہے ہو۔
سوال: وہ بھی آہستہ سے کہا ہوگا؟
جواب: آہستہ سے کہا۔
سوال: بھٹو صاحب سن نہ لیں۔
جواب: پشتو میں کہا، بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔
سوال: اس کے بعد؟
جواب: اس کے بعد جھگڑا ہوتا رہا۔ ایک بج گیا۔ بھٹو صاحب نے رفیع رضا سے کہا، ان کی برطرفی کا نوٹیفکیشن کر دو۔ میں چلا گیا وہاں سے۔ میں پنجاب ہاﺅس میں ٹھہرا تھا۔ وہیں ٹھہرتا تھا۔ ڈیڑھ بجے وہاں جا کے سو گیا۔ صبح اخبارات دیکھے۔ کوئی چیز نہیں تھی۔ ہو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ رات اتنی دیر ہو گئی تھی۔ میرا آفس تھا پریذیڈنٹ ہاﺅس میں ہی۔ انہوںنے خود کہا تھا، میرے نزدیک رہو۔ میں گیا۔ بھٹو صاحب نے سب کے ساتھ ملاقاتیں کینسل کر رکھی تھی۔ میں اپنے آفس میں دو اڑھائی بجے تک رہا۔ چلا آیا۔ دوسرے دن بھی اخبارات میں کوئی نوٹیفکیشن نہیں تھا۔ تیسرے دن پھر اخبار دیکھے۔ مارشل لا ریگولیشنز کے تحت کسی کو نہیں نکالا تھا۔ میں چلا گیا اپنے آفس میں۔ میں نے ان کے اے ڈی سی کو ٹیلیفون کیا۔ اس نے بتایا کہ پرائم منسٹر آنے والے ہیں۔ آپ آ جائیں۔ آپ کا نام سب سے پہلے لکھا لیا ہے۔ میں پانچ دس منٹ کے بعد گیا۔ بھٹو صاحب غصے میں بیٹھے سگار پی رہے تھے۔ میںنے ایسے ہی ایک فائل اٹھائی۔ ان کے سامنے رکھی کہ اس پر دستخط کر دیں۔ باتیں کیں۔ پھر میں نے پوچھا، ججوں کا کیا بنا؟ کہتے ہیں، میںنے سوچا کہ آپ کا موقف درست تھا۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔
کئی چیزوں پر میں اختلاف کرتا تھا۔ بڑی باتوں پہ، چھوٹی باتوں پہ، یہ ہوتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک بار کیبنٹ کی میٹنگ میں، مجھے یاد نہیں کیا بات تھی، بھٹو صاحب نے کوئی بات کی۔ عبدالقیوم خاں سے پوچھا وہ خاموش رہے۔ جے اے رحیم سے پوچھا، کیا خیال ہے۔ وہ خاموش رہے۔ وہ آئیڈیا غلط تھا جو انہوں نے پیش کیا۔ وہ سمجھدار لوگ تھے۔ خاموش رہے۔ باقی جو تھے، میں نام نہیں لینا چاہتا، بہت خوشامد: ”کمال ہے، بہت اچھا آئیڈیا ہے۔“ مجھ سے پوچھا، میں نے کہا، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ کہنے لگا، اور کوئی مخالفت نہیں کرتا۔ آپ میرے اٹارنی جنرل ہیں، آپ کر رہے ہیں۔ میںنے کہا: آپ نے پوچھا ، میں نے اپنی رائے دے دی۔ آپ اسے Overrule(نامنظور) کر دیں۔ میں نے کہا یہ غلط ہے۔ اس کی وجوہ یہ ہیں: (1) ، (2) ، (3) ، (4)، (5) .... سوچ لیں۔ اوور رول کریں۔ Boss(کار پرواز) تو آپ ہیں۔ میںنے آپ کا ایڈوائزر ہوں۔ آپ نے ایڈوائز (مشورہ) مانگی۔ میںنے دے دی۔ ناراض کیوں ہو گئے۔ گرم ہو گئے بہت ۔ Drop it. Drop it میرے ایڈویزر میرے خلاف ہو گئے۔ Drop this issue (اس مسئلے کو ختم کریں)۔ پھر تین چار روز گزر گئے، خود ہی کہنے لگے۔ میںنے سوچا آپ ٹھیک تھے۔
ایک دفعہ لامنسٹری (وزارت قانون) سے نوٹ آیا۔ (میاں محمود علی) قصوری صاحب نے لکھا۔ بھٹو صاحب نے کوئی رائے مانگی تھی۔ اس سے رفیع ضیا نے بھی ایگری کرلیا تھا کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ میں نے اپنی رائے دی اور لکھا کہ میں نے ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ مجھے یاد ہے کہ رومن کا ایک Maxim(اصول) ہے، وہ بھی میں نے کوٹ کیا تھا۔ میں نے وہ نوٹ بھیج دیا ان کو۔ بہرحال، بھٹو صاحب نے میری رائے کو رد کر دیا۔ قصوری صاحب اور رفیع رضا کی بات کو مان لیا۔ اور آرڈر کر دیا کہ اس کے مطابق کام کیا جائے۔ مہینہ دو مہینے گزر گئے۔ ایک دن کا بینہ کی میٹنگ تھی۔ میں بیٹھا ہوں اس میں۔ کبھی wheat(گندم) پالیسی ہوتی تھی۔ کبھی ٹریڈ کی بات ہوتی تھی، جن میں مجھے دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ تو میں خاص توجہ نہیں دے رہا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ بھٹو صاحب بڑے غصے سے بول رہے ہیں، اور دیکھ میری طرف رہے ہیں۔ کہ میں اپنے ایڈوائزرز پر، مشیروں پر انحصار کررہا ہوں، ان کے صلاح مشورے پر۔ اور وہ مجھے غلط مشورے دیتے ہیں۔ بعد میں بڑے پرابلم ہو جاتے ہیں۔ یہ ، وہ۔ گھور مجھے رہے ہیں اور بول غصے میں رہے ہیں۔ پھر میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ بات کیا ہے۔ میں نے تھوڑی توجہ دی تو معلوم ہوا کہ وہ جو میں نے نوٹ لکھا تھا یہ اس سلسلے کی بات ہے۔ میں نے کہا، جی میں نے جو آپ کو مشورہ دیا تھا، آپ کا مطلب اس ایشو سے تو نہیں۔ کہنے لگے، ہاں اسی سے ہے۔ میں نے کہا، آپ نے میرے مشورے کو رد کرکے لامنسٹر (میاں محمود علی قصوری) اور سپیشل اسسٹنٹ (رفیع رضا) کے مشورے پر عمل کیا تھا۔ میرا مشورہ تو مختلف تھا۔ You overruled me ۔ پھر ان کو یاد آگیا۔ کہنے لگے Yes, you are right۔ آپ نے بڑی اچھی وجوہ بیان کی تھیں۔ آپ نے تو رومن میکسم بھی کوٹ کیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میں نے ان کی بات مان لی۔ پھر ان کے پیچھے پڑ گئے۔
سوال: جب بھٹو صاحب گھور آپ کو رہے تھے اور بول غصے میں رہے تھے تو قصوری صاحب اور رفیع رضا خاموش رہے؟
جواب: دونوں چپ بیٹھے تھے۔ انہوںنے نہیں کہا کہ صاحب ہم نے یہ بات کہی تھی۔
سوال: پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس۔ پاکستان قومی اتحاد) کی موومنٹ کے دوران میں آپ نے کراچی میں تجویز پیش کی تھی کہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن پہلے کرا دیتے ہیں۔ اگر پی این اے والے اس میں جیت گئے تو پھر قومی اسمبلی کے الیکشن بھی کرا دیں گے۔ آپ کا کہنا ہے کہ یہ بھی آپ نے بھٹو صاحب سے مشورہ کئے بغیر کہہ دیا تھا؟
جواب: پی این اے والوں نے کہا کہ الیکشن پھر کراﺅ۔ الیکشن کرانا پڑےگا۔ بھٹو صاحب کہتے تھے میں نہیں کراﺅں گا الیکشن ۔ یہ کرسی بڑی مضبوط ہے۔ ٹیلی ویژن پر کہا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ٹیلی ویژن والے مجھے ملنے آ گئے کہ آپ کا الیکشن پر کیا خیال ہے۔ میں نے کہا، بھٹو صاحب الیکشن کیوں نہیں کرائیںگے۔ الیکشن ہونے چاہئیں۔ یہ کوئی بری بات نہیں۔ ایک بات میں کرتا ہوں کہ صوبائی الیکشن کرا لیں۔ صوبائی الیکشن کا پی این اے نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ الیکشن نہیں تھا۔ اگر پی این اے کو اچھے خاصے ووٹ مل گئے تو قومی اسمبلی کا الیکشن بھی ہو گا۔ انہوںنے کہا، ٹی وی پر بات کرو گے۔ میں نے کہا، کروںگا۔ ٹی وی پر لے گئے۔ میںنے وہی بات کی کہ الیکشن کرائے گے، ضرور کرائیں گے۔ پہلے آپ یہ کرلیں۔ طاہر محمد خاں انفارمیشن منسٹر تھے۔ انہوںنے یہ روک لیا۔ میں گیا کراچی۔ میٹروپول میں میٹنگ تھی وکیلوں کی۔
سوال: میں بھی تھا اس میں؟
جواب: آپ تھے۔
سوال: ان دنوں میں روزنامہ ”نوائے وقت“ لاہور کی کراچی میں نمائندگی کررہا تھا؟
جواب: وہ یاد ہے آپ کو۔
سوال: وہ تو بڑی اہم خبر تھی۔
جواب: پھر بھٹو صاحب نے مجھے لاہور بلایا۔ کہنے لگے، ایس ایم مسعود نے مجھے بتایا کہ مجھے یوں لگا جیسے مجھے یہاں (ماتھے) پر گولی لگی ہے۔ یہ آپ نے کیا کہہ دیا۔ میں نے اس پر سوچا کہ
This is a Proposal from a good man, patriotic person. I accept it.
(یہ تجویز ایک اچھے انسان اور محب وطن شخص کی طرف سے ہے۔ میںاسے قبول کرتا ہوں۔
بھٹو صاحب میں یہ تھا کہ غصے بھی ہو جاتے تھے۔ بگڑ پڑتے تھے۔ مگر سوچتے تھے۔
سوال: اس کے مقابلے میں بےنظیر؟
جواب: بی بی میں سوچ کی طاقت ہی نہیں ہے۔ برداشت ہی نہیں۔ ایک پاس بیٹھا ہوتا ہے وزیر۔ بیورو کریٹ۔ بات پر بات کہے گا۔ بریلئنٹ (ذہن) ۔ بریلئنٹ ۔ بریلئنٹ۔ بریلئنٹ۔ بریلئنٹ۔ وہ گانا ہے نا:
اک بار پھر کہو تو بہت حسین ہے
وہی بات ہے:
اب بار پھر کہو تو بہت ذہین ہے
اتنی سمجھدار خاتون ہے۔ اتنی پڑھی لکھی ہے۔ اتنی انٹیلی جنٹ ہے۔ پریس کافرنس ہو۔ کسی جگہ ہو۔ اچھی طرح سمجھتی ہے۔ ہینڈل کر سکتی ہے۔ ایکسپریشن بہت اچھا ہے۔ مگر دل چھوٹا ، نظر چھوٹی، تنگ دل، تنگ نظر، مجھ پر کوئی تنقید ہی نہ ہو۔ مجھ سے کوئی اختلاف رائے نہ ہو۔ یہ کیسے پرائم منٹر رہ سکتی ہیں۔ سیاست کی تیس سال ، چالیس سال آپ کے سامنے زندی ہے۔ کیسے گزاریں گی آپ۔ ختم کر رہی ہیں۔ اور بقول نواز شریف رول بیک کر رہی ہیں۔
سوال: ان واقعات کی روشنی میں اگر بےنظیر اور بھٹو صاحب میں موازنہ کیا جائے تو بالکل مختلف صورتحال سامنے آتی ہے؟
جواب: بہت مختلف ہے۔ بہت مختلف ہے۔ ان کا ویژن تھا۔ ان کا حوصلہ تھا۔ ان کی سمجھ تھی۔ ان کا بہت بڑا دل تھا۔ ان میں بہت کمزوریاں تھیں۔ یہ مانتا ہوں میں۔ وہ بی اختلاف رائے کےخلاف تھے۔ برداشت کم کرتے تھے۔ مگر یہ کہ آخر میں سوچ لیتے تھے۔ غور کرتے تھے۔ دروازہ بند نہیں ہوجاتا تھا۔ غصے میں آجاتے تھے۔ بات کرو توسمجھتے تھے۔ انہوںنے پی این اے سے بات کرلی تھی۔ الیکشن پر ایگری کر گئے تھے۔ امریکن سفری بائی روڈ کےلئے الوداعی ڈنر تھا۔ بائی روڈ بیٹھا ہوا تھا۔ ضیا بیٹھا ہوا تھا۔ بھٹو صاحب بول رہے تھے کہ ” میں نے الیکشن کی مخالفت کی تھی۔ پھر میں مان گیا۔ کیونکہ میرے اٹارنی جنرل نے مجھے کہا کہ ہونا چاہئے۔“ جو میںنے کہا کہ الیکشن ہوگا۔ ”اس نے مجھ سے کنسلٹ بھی نہیں کیا۔ مجھ سے مشورہ تک نہیں کیا۔ اور کہہ دیا کہ الیکشن ہو گا۔
Since it was an advice and opinion of an honest man, patriotic person, good man. I accepted it."
چونکہ یہ مشورہ ایک دیانتدار، محب وطن اور اچھے شخص کی طرف سے تھا۔ میں نے اسے مان لیا)۔ جنرل ضیا نے کہا، واقعی آپ الیکشن پر راضی ہو گئے ہیں۔ کہنے لگے ، ہاں۔
س: بقول آپ کے، آپ کا بےنظیر کے ساتھ اختلاف پارٹی الیکشن نہ کرانے پر ہوا۔ پارٹی الیکشن تو بھٹو صاحب نے بھی نہیں کروائے تھے؟
جواب: میں نے ان سے بات کی تھی۔ کہتے تھے، میں نے پارٹی بنائی تو کرائسس میں پھنس گئے۔ اس کے بعد ہمیں گورنمنٹ مل گئی۔ پھر ایک آئین بنا۔ اس کے بعد دوسرا آئین بنا۔ پھر بلوچستان میں ایجی ٹیشن ۔ کہتے تھے، ہم نہیں کر سکتے تھے۔ اب میں کروں گا۔ انہوں نے رفیع ضیا کو بلایا۔ اس نے سارا پلان بنایا ہوا تھا۔ اوپر تک الیکشن کررہے تھے۔
سوال: 67ءمیں پیپلز پارٹی بنی۔ 77ءمیں بھٹو صاحب سے اقتدار چھینا گیا۔ سارا عرصہ وہ نامزدگیوں پر ہی انحصار کرتے رہے؟
جواب: نامزد لوگوں نے انہیں دھوکا دیا۔ حقیقت ہے۔ میںنے سیاست سیکھی ہے قائداعظمؒ سے۔ دیکھیں، سیاست میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے قائداعظمؒ جیسا لیڈر۔ وہ ایک آدمی کےلئے الیکشن کو بنیاد بناتا ہے۔ وہ منیر صاحب کو پسند کریں یا نہ کریں۔ اگرمنیر صاحب کو ان کے علاقے کے لوگوں نے ووٹ دیئے ہیں، الیکٹ کیا ہے تو قائداعظمؒ کو منظور۔ قبول۔ اور اگر منیر صاحب کو لوگوں نے ووٹ نہیں دیئے اور وہ قائداعظمؒ کو بہت ہی پسند ہیں تو وہ کہیں گے میں مجبور نہیں۔ آپ کےلئے کوئی جگہ نہیں۔ دوسری طرف یہ کہ جو کسی صوبے میں کسی جگہ پہ الیکٹ ہو جاتا تھا وہ اس کے ہاتھ مضبوط کرتے تھے۔ اس کے مقابلے میں کسی اور آدمی کو لا کر ، ٹکراﺅ کراکے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کرتے تھے۔ پارٹی کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ قائداعظمؒ کی یہ بڑی خوبی تھی۔ لیاقت علی خاںؒ کےخلاف کوئی شخص کھڑا ہو گیا۔ کراچی سیشن (43ئ) میں۔ جنرل سیکرٹری شپ کےلئے۔ اس نے کہا کہ لیاقت علی خاںؒ قابل آدمی نہیں۔ یہ پارٹی کو نہیں چلا سکتے۔ قائداعظمؒ کھڑے ہو گئے کہ یہ میرے دست راست ہیں۔ انہوں نے بڑا کام کیا ہے۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ انہیں الیکٹ کریں۔ یہ نہیں کہا کہ میں انہیں نامی نیٹ(نامزد) کرتا ہوں۔ انہوںنے کنویسنگ کی۔ دوسری پارٹی جو تھی وہ خوب ڈٹی ہوئی تھی۔ پھر آخر میں دوسری پارٹی نے وِد ڈرا کرکے ان کو الیکٹ کر دیا۔
سوال: آپ نے کہا کہ سیاست میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے قائداعظمؒ جیسا لیڈر۔ وہ ایک آدمی کےلئے الیکشن کو بنیاد بناتا ہے .... آپ کے نزدیک سیاست میں دوسری قسم کس قسم کے لیڈرز پر مشتمل ہوتی ہے؟
جواب: جو ڈیوائیڈ اینڈ رُول (لڑاﺅ اور حکومت کرو) کی پالیسی اپناتے ہیں کہ ہر جگہ ڈیوائیڈ ہو گی پارٹی تو میرے ہاتھ مضبوط ہوںگے۔ ایک لیڈر بیٹھا ہوا ہے۔ پاپولر ہے۔ اھچ کام کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مقبول ہو جائے گا۔ کل میرے خلاف بغاوت کرے گا۔ اس کو کمزور کرنے کےلئے اس کے مقابلے میں فلاں کو اٹھاﺅ۔
قائداعظمؒ کا یہ تھا کہ ایک آدمی صوبے میں اگر مضبوط ہے، الیکٹڈ ہے، پاپولر ہے۔ کام اچھی طرح کر رہا ہے۔ اس کے ہاتھ مضبوط کرو تو پارٹی بہت یونائٹ ہو جاتی ہے۔ اور یہ قائداعظمؒ کی کامیابی تھی۔
سوال: قائداعظمؒ تو بڑے جمہوری مزاج کے تھے؟
جواب: وہ کبھی نامی نیشن (نامزدگی) نہیں کرتے تھے۔ ورکنگ کمیٹی جو ان کی تھی وہ نامزد کرتے تھے۔
سوال: بطور صدر آل انڈیا مسلم لیگ انہیں پارٹی آئین کی رو سے اپنی ورکنگ کمیٹی نامزد کرنے کا اختیار تھا؟
جواب: قائداعظمؒ کی ورکنگ کمیٹی میں یہ پوزیشن تھی۔ مثال کے طورپر سہروردیؒ پر ان کو اعتماد نہیں تھا۔ وہ بنگال کے وزیراعظم تھے۔ ان کی ورکنگ کمیٹی میں نہیں تکھا۔ نشترؒ کو قیوم خاںؒ نے شکست دلوائی تھی۔ ان کو ورکنگ کمیٹی میں رکھا۔ کہتے تھے یہ میری پرسنل چائس ہے۔ جس کو چاہوں رکھوں۔ جی ایم سید ایک زمانے میں (آل انڈیا مسلم لیگ) ورکنگ کمیٹی کے ممبر تھے۔ عبدالمجید سندھی ورکنگ کمیٹی کے ممبر تھے۔ جی ایم سید سندھ پراونشل مسلم لیگ کے صدر بھی ہو گئے، مگر انہوں نے انہیں ورکنگ کمیٹی میں نہیں رکھا، کیونکہ اعتماد جاتا رہا۔ کہتے تھے، لوگوں نے الیکشن کیا ہوا ہے، وہ صدر ہے۔ لیکن ورکنگ کمیٹی میری پرسنل کیبنٹ ہے۔ میرے صلاح کار ہیں۔ یہاں کوئی وزیراعظم ہوتا ہے وہ اپنی مرضی کے وزیر چنتا ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کو کوئی یہ نہیں کہ فلاں کو لو، فلاں کولو۔
سوال: جی ایم سید پر اعتماد جاتارہا۔ قائداعظمؒ نے انہیں ورکنگ کمیٹی میں نہ لیا۔ لیکن ان کی صوبائی صدارت کو نہ چھیڑا کہ لوگوں نے انہین الیکٹ کیا ہوا ہے۔ یہ ہے برداشت۔ یہ ہے جمہوریت۔
جواب: ورکنگ کمیٹی ان کی اپنی صوابدید پر ترکیب پاتی تھی۔ تو میں یہی چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی میں بھی یہ ہو۔ جہاں تک بےنظیر کا تعلق ہے۔ ان کی جو سنٹرل کمیٹی ہے اس میں تو ان کو پورا اختیار ہے کہ اس میں صوبے کے صدر کولیں، سیکرٹری کولیں یا نہ لیں۔ ایسے آدمی کو لیں جس کو شکست بھی ہوئی ہو لیکن جن پر ان کو اعتماد ہو۔ ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ میرے ساتھ یہ ٹھیک ہے۔ ملک کے فائدے میں ہے۔ اور سمجھدار آدمی ہے۔ بعض اوقات بہت سمجھدار ہوتے ہیں۔ اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن وہ لوگوں سے رابطہ نہیں رکھتے۔ لوگ انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ باقی ہر لیول پر، صوبے کا صدر ، صوبے کا جنرل سیکرٹری، ہر تحصیل کا، ہر ایک ڈسٹرکٹ کا، ہر ایک ڈویژن کا، یہ سب منتخب ہونے چاہئیں۔
سوال: آپ کے خیال میں نامزد گیوں میں غلطی کا امکان زیادہ ہوتا ہے؟
جواب: ہو جاتا ہے جی۔ نامی نیشن غلط بات ہے۔ میں جانتا ہوں نامزدگیوں کے ذریعے پارٹی میں بہت غلط قسم کے لوگ آگئے ہیں۔ خوشامدی۔
سوال: خوشامدی تو عین وقت پر دغا دے جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا؟
جواب: بھٹو صاحب کو پھانسی پر پہنچایا خوشامدیوں نے۔
سوال: کوئی تفصیل؟
جواب: جب بھٹو صاحب جیل میں تھے۔ یہ میں 8، 9 ستمبر (77ئ) کی بات کررہا ہوں۔ بدیع الزمان نے ان کی ضمانت کےلئے درخواست دی تھی۔ میں کرا چی میں تھا۔ جب انہوں نے درخواست تیار کی تھی حفیظ پیرزادہ وغیرہ ان کے ساتھ تھے۔ کمال اظفر کہتے ہیں کہ وہ بھی تھے۔ وہ بھی ہوں گے شاید۔ مجھے پتہ نہیں۔ مجھے یاد نہیں۔ بہرحال آٹھ دس وکیل تھے۔ بدیع الزمان 8 تاریخ کو میرے پاس آئے اور کہا کہ مجھے مجبوری ہے میں یہ کیس نہیں کر سکتا۔ انہوں نے فائل مجھے دے دی۔
سوال: انہوں نے کوئی مجبوری نہیں بتائی؟
جواب: پی این اے کی طرف سے .... ان کے والد کیونکہ ذرا صوفی قسم کے آدمی تھے۔ مذہبی آدمی تھے۔ شاید وہ دباﺅ پڑا ہو یا کوئی اور وجہ ہو۔ میں نہیں کہہ سکتا۔ انہوںنے مجھے فائل دے دی۔ میں نے کہا، مجھے کیوں دے رہے ہیں۔ پیرزادہ صاحب وغیرہ اور آپ لوگوں نے (کیس) تیار کیا ہے۔ میں تو کل ہی آیا ہوں۔ مجھے کچھ پتہ نہیں اس کا۔ کہنے لگے، آپ اٹارنی جنرل تھے۔ میں آپ کا ایڈووکیٹ جنرل (پنجاب) تھا۔ آپ وکیل ہیں بھٹو صاحب کے، آپ ہی کریں۔ فائل چھوڑ چکے ہیں۔ تو بھٹو صاحب نے مجھے کہا کہ میری ضمانت کی درخواست تم کرو گے۔ میںنے کہا ، آپ حکم دیں تو میں کیوں نہیں کروں گا۔ باقی اور ایڈووکیٹس ہیں۔ آپ جو کو چاہیں دیں۔ انہوں نے تیاری کی ہوئی ہے۔ یہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ بھٹو صاحب نے کہا، نہیں آپ کریں۔ تو پھر میں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ جب چھوٹا مارشل لا لگا ہوا تھا اور کیس چل رہا تھا چودھری ظہور الٰہی وغیرہ نے باہر سے بہت سے لوگ لا کر عدالت کے کمرے کو بھر دیا تھا۔ اور جناب مجھے بحث نہیں کرنے دے رہے تھے۔ وہ چیخ رہے تھے۔ شور کررہے تھے۔ ایک طوفان بپا کیا ہوا تھا۔ یہ سلسلہ نہ ہو کہ آپ کی پارٹی کے لوگ وہاں نہ ہوں۔ عدالت میں کچھ ایسے بھی ہوں جو ہمارے ہمدرد ہوں۔کیونکہ دوسری پارٹی والے بھی آ جائیں گے۔ کھلی عدالت ہوتی ہے۔ تو اس موقع پر ہمارے لیڈر صاحب چیخ کے بولے: ہم ان کے فلاں کر دیں گے۔ ڈھمکان کر دیں گے۔ کیا سمجھا ہوا ہے انہوں نے ۔ لاہور ہمارا Stronghold (قلعہ) ہے۔ یہ معمولی بات نہیں۔ بھٹو صاحب کا کیس چلے گا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ آرگو کریں۔ آپ دیکھیں کہ کتنے لوگ آتے ہیں۔
سوال: یہ کون صاحب تھے جو یہ کہہ رہے تھے؟
جواب: وہ ہمارا ہی آدمی ہے۔
سوال: اب بھی ہیں؟
جواب: آج کل نہیں ہیں۔ آج کل نہیں ہیں۔ آج کل فرنٹ (سندھی، بلوچ، پختون فرنٹ) میں چلے گئے ہیں۔
سوال: وہ تو پھر حفیظ پیرزادہ ہوں گے؟
جواب: جو بھی سمجھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم عدالت کو جلا دیں گے۔ چلنے نہیں دیں گے۔
سوال: پھر پیر زادہ ہی ہوئے؟
جواب: پیرزادہ تو باہر سے تھے۔ سندھ سے تھے۔ یہ پنجاب سے ہیں۔
سوال: پنجاب کا کوئی آدمی تو فرنٹ میں نہیں رہا؟
جواب: بات تو انہی نے کی۔ پیرزادہ نے کی۔ اور بھی ساتھ ان کے ملے ہوئے تھے۔ پنجاب والے بھی تھے۔ جو یہ کہہ رہے تھے۔ ہم یہ کر دیں گے۔ ہم وہ کر دیں گے۔
سوال: اچھا پھر؟
جواب: بہرحال ، اس موقع پر کچھ ہمارے لوگ تھے۔ اور صمدانی صاحب جج تھے۔ نیک آدمی تھے۔ غیر جانبدار تھے۔ چودھری ظہور الٰہی کافی لوگ لائے تھے۔ وہ خود بھی عدالت میںبیٹھے ہوئے تھے۔ بحث ہو گئی۔ میری بحث ہو گئی۔ ایم انور کی بحث ہو گئی۔ دوسرے دِ ن قائداعظمؒ کی برسی (11 ستمبر 1977ئ) کی وجہ سے چھٹی تھی۔ 12 کو پھر بحث ہوئی۔ 13کو بحث ہوئی اور انہوںنے فیصلہ کر دیا۔ بھٹو صاحب کو بری کر دیا۔ ضمانت ہو گئی۔ بڑی خوشی ہوئی ہمیں۔ اس کے بعد بھٹو صاحب کا ٹرائیل شروع ہو ا تو مولوی صاحب بیٹھ گئے۔ توا نہوںنے ایسے کنٹرول کیا کہ آگے کی تقریباً ساری کی ساری سیٹوں پر سی آئی ڈی والے صبح آکے قبضہ کرلیتے تھے۔ پیچھے کوئی وکیل وغیرہ آ کے بیٹھ جاتے تھے۔ ہماری پارٹی کے لوگ، میں نے نہیں دیکھے۔ ایک آدھ کے علاوہ۔ کبھی آگیا ، آگیا۔ مجھے تعجب ہوتا تھا۔ کیس میں نہیں کر رہا تھا۔ میں نے بھٹو صاحب کو کہہ دیا تھا کہ میں مولوی مشتاق کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گا، کیونکہ یہاں انصاف کی توقع نہیں۔
سوال: کیوں انصاف کی توقع نہیں تھی؟
جواب: اس کو Supersede کیا تھا۔ وہ بننا چاہتا تھا چیف جسٹس۔ اس کو ہم نے چیف جسٹس نہیں بنایا۔ وہ چاہتا تھا کہ سپریم کورٹ میں جائے۔ حالانکہ بھٹو صاحب چاہتے تھے کہ وہ چلا جائے، لیکن میں نے مخالفت کی تھی۔
سوال: آپ نے کیوں مخالفت کی؟
جواب: میںنے کہا تھا کہ میرے خیال میں وہ چیف جسٹس بننے کےلئے فٹ نہیں ہے۔ پھر سپریم کورٹ ہارپوزیشن ہے، بڑی پوزیشن ہے۔ تو میں اس کےخلاف ہوں۔
سوال: آپ بتا رہے تھے کہ ساری سیٹوں پر سی آئی ڈی والے آ بیٹھے تھے؟
جواب: انہوں (مولوی مشتاق) نے ایسے کنٹرول کیا کہ کورٹ کے اندر سارے کے سارے سی آئی ڈی والے تھے۔ ہمارے آدمی جو تھے وہ کوٹ میں کیا، کورٹ کے باہر لان میں بھی نظر نہیں آتے تھے۔
سوال: وجہ؟
جواب: نامزد لوگوں پر مشتمل لیڈر شپ تھی۔ چھپ گئی۔ بھاگ گئی۔ اگر آپ منتخب ہیں تو آپ کے پیچھے پچاس ، سو آدمی ہوتے ہیں۔ وہ آپ کو گردن سے پکڑیں گے کہ ہمارے لیڈر پر کیس چل رہا ہے تم کیا کررہے ہو؟ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ منتخب آدمی کو کام کرنا پڑتا ہے۔ سامنے آنا پڑتا ہے۔ جو نامی نیٹڈ (نامزد) ہے، کتنا ہے جس نے مجھے نامزد کیا تو وہ اندر کوٹھڑی میں پڑا ہوا ہے۔ اسے کوئی پوچھے تو وہ کہتا ہے، تم کون ہو؟ تمہارا کیا تعلق ؟ آپ نے تو مجھے نامزد نہیں کیا۔ آپ نے تو مجھے ووٹ نہیں دیا۔ آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔ تو یہ وہی نامزد لوگ تھے جو مال (روڈ) پر نظر نہیں آتے تھے۔ سڑک پر نظر نہیں آتے تھے۔ عدالت میں نظر نہیں آتے تھے۔ دو مہینے ، تین مہینے کیس چلتا رہا۔ میں بیٹھتا تھا۔ آتا تھا۔ جاتا تھا۔ میں کیس نہیں کررہا تھا۔ کسی پر جایا کرتا تھا۔ تو اس سے مجھے بڑا شاک ہوا۔
سوال: سپریم کورٹ میں کیا پوزیشن تھی؟
جواب: یہی حالت راولپنڈی میں تھی۔ عدالت میں بھی سوائے عزیز احمد صاحب کے ، اسلم صاحب کے ، دو چار آدمی اور تھے۔ باقی لوگ اپنی فوٹو ووٹو کھنچوانے کےلئے آ جاتے تھے۔ ایک دفعہ ، دودفعہ سارے ٹرائل میں ، تاکہ اخباروں میں پتہ چل جائے کہ ہم بھی گئے تھے۔ عام طور سے یہی حالت تھی کہ ان کی طرف سے لوگ ہوتے تھے ہماری طرف سے نہیں ہوتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وجہ یہی تھی کہ لیڈر شپ نامی نیٹڈ (نامزد) تھی۔ اور نامزد لیڈر شپ بیک گراﺅنڈ میں چلی گئی۔ یا کچھ شریف آدمی تھے۔ اچھے آدمی تھے۔ مخلص آدمی تھے۔ ان کو Detain (نظر بند) کیا ہوا تھا۔
سوال: مثلاً ؟
جواب: شیخ رشید جیسے لوگ۔ ان کو جیل میں رکھاہوا تھا۔ لیکن باقی کہاں چلے گئے تھے؟ اس لئے نامزد آدمی بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ اچھے بھی ہوتے ہیں۔ برے بھی ہوتے ہیں۔ الیکشن میں یہ ہوتا ہے کہ وہ آدمی ذمے دار ہوتا ہے۔ جو ووٹر ہے وہ پیچھے پڑ جاتا ہے۔ تو اگر بھٹو صاحب کی پارٹی کا الیکشن ہوا ہوتا۔ اور یہ لوگ سارے عہدوں پر جو بیٹھے ہوئے تھے، ڈسٹرکٹ پریذیڈنٹ۔ یہ ڈپو والے نہیں ہوتے، بلکہ الیکٹڈ ہوتے۔ ان کو لوگ مجبور کرتے ۔ کیونکہ لوگ ٹھیک تھے۔ لوگوں کو باہر لانے کےلئے مال پر کھڑا کرنے کےلئے لیڈر نہیں تھے۔ نامزد لوگ تو الٹا یہ کہہ رہے تھے کہ آپ یہ نہ کریں۔ بیگم صاحبہ بیچاری کو بڑا تنگ کیا ہوا تھا گورنمنٹ نے۔ کراچی جیل میں رکھا ہواتھا۔ ایک ہمارے پنجاب کے لیڈر ایک ایک ڈسٹرکٹ میں جا کے کہہ رہے تھے کہ بیگم صاحبہ نے حکم دیا ہے کہ بالکل کوئی گڑ بڑ مت کرو۔
سوال: نام بیگم صاحب کا لے رہے تھے کہہ اپنی طرف سے رہے تھے؟
جواب: اپنی طرف سے کہہ رہے تھے۔ بالکل گڑبڑ مت کرو۔ مجھے تکلیف ہوگی۔ اور آج کل بھی وہ لیڈر بڑی اپوزیشن میں ہیں۔ نامزد ہیںنا۔ بہت قریب ہیں۔
سوال: نام ؟
جواب: جوبھی ہیں نام نہیں لینا۔ بیگم صاحبہ اس کی تعریف کرتی تھیں۔ اخیر تک کرتی تھیں۔ اور اس نے جا کے سب کو کہا کہ یہ مت کرو۔ بیگم صاحبہ کو بہت تکلیف ہو گی۔ ایجی ٹیشن مت کرنا۔ فلاں مت کرنا۔ فلاں مت کرنا۔ یہ نامزد تو اُلٹا گورنمنٹ سے مل گئے تھے۔ اور کوثر نیازی جیسے لوگ Upstart(نو دولتا، چھچھورا) ان سے کیا توقع تھی۔ مصطفی کھر سے کیا تو قع کر سکتے تھے آپ ۔ وہ ٹکٹ لے کے چلا گیا۔ یورپ میںبیٹھ گیا۔ یہ ان کی حالت تھی۔
سوال: وہ تویہی کہتے ہیں کہ مجھے بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ملک سے باہر چلے جاﺅ؟
جواب: مجھے مصطفی کھر صاحب ملے تھے وہاں لندن۔ میں تو نہ ملتا۔ مجھے حفیظ پیرزادہ نے کھانے پر بلایا تھا۔ دو سال پہلے (84ئ) کی بات ہے۔ شیخ رشید صاحب بھی تھے وہاں ۔ اچانک مصطفی کھر بھی آگئے۔ انہوں نے کہا، بھئی دیکھو یہ بات ہے کہ اب اگر میں جاﺅں پاکستان میں تو آپ کا کیا خیال ہے کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ میں نے کہا ، ملک صاحب ! مجھے نہیں پتہ کہ ضیا کے ساتھ آپ کے کیا تعلقات ہیں۔ کیونکہ ان کی مرضی سے ہی آپ آئے یہاں۔ ایسے تو نہیں آسکتے تھے۔ مگر ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہوں گے جو چاہیں گے کہ آپ کی چمڑی اتاریں یا آپ کو پھانسی دیں۔ کیونکہ میرے اپنے نقطہ نظر سے جتنا نقصان پیپلز پارٹی کو آپ نے پہنچایا ہے کسی نے نہیں پہنچایا۔ میاں طفیل ہمارے مخالف تھے۔ ٹھیک ہے، لیکن وہ ایک شریف آدمی تھے۔ آپ نے انہیں جیل میں بے عزت کیا۔ پارٹی کو بدنام کیا۔ بھٹو صاحب بدنام ہوئے۔ ملک قاسم صاحب ہمارے مخالف تھے۔ بڑے شریف آدمی ہیں۔ آپ نے انہیں جیل میں ٹارچر کیا۔ پارٹی بدنام ہوئی۔ (چودھری محمد حسین) چٹھہ صاحب میرے ساتھی ہیں۔ ہم اکٹھے کونسل مسلم لیگ میں تھے۔ شریف آدمی ہیں۔ ان کی سب عزت کرتے ہیں۔ آپ نے سی کلاس میں ڈال کر ان کو غنڈوں کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ سٹوڈنٹس کو آپ نے ننگا کر دیا تھا۔ (محمد خان) خاکوانی کا خاندان تھا۔ اس کی ماں وغیرہ کے گھروں کو بلڈوزر لگا کے توڑا تھا۔ میںنے کہا ، یہ چیزیں آپ نے ایسی کی ہیں کہ بہت سے لوگ آپ کے خلاف ہیں۔ پارٹی تو بدنام ہوئی۔
سوال: کھر صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں نے بھٹو صاحب سے کہا تھا کہ وہ پاکستان سے بھاگ جائیں یہ جنرل انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے؟
جواب: ایک دن بھٹو صاحب نے مجھے کہا تھا کہ کھر نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔ یہ لوگ آگئے ہیں۔ یہ چھوڑیں گے نہیں۔ کہتے ہیں ، میں نے کہا، میں نہیں جاﺅں گا۔
سوال: اقتدار پر قابض ہو جانے کے بعد جنرل ضیا کے اقوال و افعال سے صاف عیاں ہو گیا کہ یہ ان کی پرانی آرزو تھی۔ بھٹو صاحب اور ان کے ساتھی، جن میں آپ بھی ہیں، جنرل ضیا کے ارادوں سے بالکل بے خبر رہے؟
جواب: پی این اے کی ایجی ٹیشن کے دوران میں بھٹو صاحب نے مجھے لا اینڈ آرڈر کمیٹی کا چیئرمین بنایا۔ مجھ سے بہت کام کراتے تھے۔ ٹاپ کے کام ۔ لا اینڈ آرڈر کمیٹی کی میٹنگیں ہوتی تھیں۔ کراچی میں بھی ہوئی۔ لاہور میں بھی ہوئی۔ راولپنڈی میں بھی ہوتی تھی۔ اس میں آرمی کی طرف سے جنرل عبداللہ ملک آتے تھے۔ وہ چیف آف دی جنرل آرمی سٹاف تھے۔ باقی جنرل ٹکا خان تھے۔ جنرل جیلانی تھے اس میں۔ جنرل فضل مقیم ہوتے تھے ڈیفنس کے سیکرٹری۔ باقی گورنمنٹ کے سیکرٹریز تھے۔ ہوم سیکرٹری تھے، پراونشل چیف سیکرٹریز تھے۔ پنجاب کے اس وقت بریگیڈئیر ظفر تھے۔ بڑی کمیٹی تھی۔ پچیس تیس آدمی تھے، کہ لا اینڈ آرڈر ، ایجی ٹیشن جو شروع تھی اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ اور ہم نے کنٹرول بھی کیا۔ اس میں ایک دن عبداللہ ملک نہیں آئے۔ان کی جگہ سعادت آئے۔ بعد میں جنرل بن گئے تھے۔ اس وقت وہ بریگیڈئیر تھے یا میجر جنرل تھے۔ انجینئرتھے آرمی کے، کیونکہ ان کے کندھے پر انجینئر لکھا ہوا تھا۔ مجھے ایسے یاد آتا ہے۔ عبداللہ ملک کسی کام کے گئے ہوں گے۔ ان کی جگہ یہ سعادت آئے۔ فیصلہ تو ہو چکا تھا کہ الیکشن ہوں گے۔ جنرل جیلانی وغیرہ سب بیٹھے تھے۔ سعادت نے مجھ سے پوچھا کہ آرمی کا اس الیکشن میں کیا رول ہوگا۔ میں نے کہا کہ ہمیں آرمی کی ضرورت ہے، لا اینڈ آرڈر مین ٹین کرنے کےلئے آ پ سے کام لینا ہے تو آپ کو کہہ دیں گے۔ ممکن ہے کہ پولنگ افسر آپ کے دے دیں۔ پریذائیڈنگ افسر دے دیں۔ آرمی کے کرنل ، میجر، کیپٹن۔ تو آپ کو کہہ دیں گے۔ تو کہتے ہیں کہ بحیثیت انسٹی ٹیوشن ، بحیثیت ایک ادارے کے آرمی کا کیا رول ہو گا۔ میں نے ان سے کہا، دیکھیں میں ہوں وکیل۔ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا کہ انسٹی ٹیوشن کیا ہوتی ہے۔ اس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ ہمارے آئین میں تین انسٹی ٹیوشنز ہیں: ایگزیکٹو ، لیجسلیچر اور جوڈیشری۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ۔ آپ انتظامیہ کی ایک شاخ ہیں۔ ایک ونگ ہیں اس کا۔ سول ایگزیکٹو گورنمنٹ کے ماتحت ہیں۔ آپ انسٹی ٹیوشن نہیں ہیں۔ آئین میں آپ انسٹی ٹیوشن نہیں ہیں۔ ویسے تو انسٹی ٹیوشن ہر چیز کو کہتے ہیں، مگر آئین میں آپ انسٹی ٹیوشن نہیں ہیں۔ آپ کو جو حکم سویلین گورنمنٹ دے گی آپ اس کی تعمیل کریں گے۔ یہ پوزیشن ہے آپ کی۔ کہتا ہے ہمارے تو اور خیالات تھے۔ میٹنگ میں کہا۔ تیس آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ کہتا ہے ہمارے تو اور خیالات تھے۔ میں نے کہا، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ کے خیالات تھے۔ تو اس نے کچھ اشارہ کیا کہ سارا الیکشن یہی کنڈکٹ کریں گے۔ میں نے کہا، ایسی کوئی بات نہیں۔ چپ ہو گیا۔ میٹنگ ختم ہوئی۔ سب لوگ چلے گئے۔ اٹارنی جنرل کے چیمبرز میں ہی کانفرنس ہو رہی تھی۔ میں اُٹھ کے اپنے کمرے میں آگیا۔ اس کے کوئی آدھا گھنٹہ بعد، میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کررہا تھا ہوں کہ جنرل ضیا کا ٹیلیفون آگیا، گرین لائن پر۔ بختیار صاحب آپ نے سعادت کو کچھ باتیں کہی ہیں۔ یہ کہا ہے کہ ہم انسٹی ٹیوشن نہیں ہے۔ سول گورنمنٹ جو کہے گی ہمیں انہی احکامات کی بجا آوری کرنا ہوگی۔ میں نے کہا ، جنرل صاحب یہ تو ٹھیک بات ہے۔ میںنے کہا ہے ان کو۔ کہتا ہے ، نہیں میں فوج کو کبھی بھی پالیٹکس میں Involve (ملوث) نہیں کرنے دوںگا۔ میں نے کہا، آپ کا مطلب کیا ہے؟ حیدر آباد میں ، کراچی میں اور لاہور میں ہم کو چھوٹا مارشل لا لگانا پڑا، سویلین گورنمنٹ کے تحت۔ آپ کو حکم دیا گیا۔ آپ نے حکم کی تعمیل کی۔ یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔ یہ کانسٹی ٹیوشن کے آرٹیکل 2 اور 45 میں لکھا ہے:
You come to the aid of civil power.
(آپ سویلین حکومت کی مدد کو آئیں گے)
میںنے کہا، یہ تو آپ کی ڈیوٹی ہے۔ Involve (ملوث ہونے) کا کیا مطلب ہے۔ اگر پولیٹیکل ایجی ٹیشن چلتی ہے ملک کو تباہ کرنے کےلئے اور اس کو ہم نے دبانا ہے۔ اس کو ختم کرنا ہے تو آرمی مدد کو آئے گی۔ یہ آئین میں دیا ہوا ہے۔ کہتا ہے کہ میں فوج کو کسی حالت میں بھی پالیٹکس میں Involve نہیں کروں گا۔ میں نے Involve کا کیا مطلب ہے۔ آپ نے خود ہی بیان دیا کہ بھٹو صاحب کی جو گورنمنٹ ہے یہ Legitimate (جائز) گورنمنٹ ہے۔ یہ الیکشن جائز الیکشن ہو رہے ہیں۔ ہم اس کو سپورٹ کرتے ہیں۔
سوال: آئینی حکومت کی ہم مدد کرتے ہیں؟
جواب: آپ نے خود کہا چند دن ہوئے۔ آپ کے چیفس آف سٹاف نے میٹنگ کرکے بیان دیا ہے۔ یا تو کہیں کہ گورنمنٹ غلط ہے۔ غیر نمائندہ ہے۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ میں نہیں مانتا۔ وہ تو اور بات ہے۔ آپ تو مانتے ہیں کہ الیکشن جائز ہوا ہے۔ گورنمنٹ جائز ہے۔ Legitimate ہے۔ اگر گورنمنٹ جائز ہے تو آپ کو احکامات کی تعمیل کرنا پڑے گی۔ ہماری کافی تلخ بات ہوئی۔ تو کہتا ہے کہ نہیں میں تو نہیں چھوڑوں گا فوج کو کسی بھی حالت میں۔ میں نے کہا، میں نہیں سمجھا کہ آپ کا مطلب کیا ہے کہ فوج کو کسی طرح سیاست میں Involve نہیں کریں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ Involve ہو۔ لیکن جو گورنمنٹ کے آرڈرز ہوں گے وہ تو Carry Qut (تعمیل) کریں گے۔ کہتا ہے میں یہ بات نہیں مانتا۔ ہمارے تو اپنے آئیڈیاز ہیں۔ میں نے کہا، آپ پرائم منسٹر سے بات کرلیں کہ آپ کے اپنے آئیڈیاز ہیں اور کیا آئیڈیاز ہیں آپ کے ، اور کیا خیالات ہیں۔ آپ کے کیا عزائم ہیں۔ جو بھی ہیں وہ آپ پرائم منسٹر سے بات کریں۔ اس نے گرم بات کی، میں نے بھی گرم بات کر دی۔ کہتا ہے، میں پرائم منسٹر سے بات کروں گا۔ میں ٹیلیفون رکھ دیا۔ اس کے بعد میں نے بھٹو صاحب کو گرین لائن پر ٹیلیفون کیا۔ میں نے کہا، آپ کے جنرل صاحب کے ارادے مجھے عجیب سے معلوم ہوتے ہیں۔ وہ تو ایسی بات کررہا ہے کہ آرمی انسٹی ٹیوشن ہے۔ ہم تو اسے ملوث نہیں کریں گے سیاست میں۔ اور یہ کہ ہمارے اپنے اور آئیڈیاز ہیں۔ بھٹو صاحب نے کہا، اچھا ضیا کہہ رہا تھا یہ ۔ میں نے کہا ، ضیا کہہ رہا تھا۔ کہتے ہیں ، یہی کہا۔ میں نے کہا ، بالکل یہی کہا۔ میں نے کہا، وہ آپ سے ملنے آئے تو مجھے بھی بلالیں۔ کہتے ہیں ، ٹھیک ہے۔ شام کو میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ساڑھے سات آٹھ بجے بھٹو صاحب کے اے ڈی سی کا ٹیلیفون آیا کہ پرائم منسٹر بلا رہے ہیں۔ میں گیا۔ بھٹو صاحب مجھے کہتے ہیں You are alarmist ّآپ تو خوامخواہ خوفزدہ ہیں)۔ تم ایسے ہی گھبراتے ہو،۔ وہ بیچارا آیا۔ دونوں ہاتھ جوڑ کے میرے سامنے کھڑا ہو گیا، اور کہا: اٹارنی جنرل صاحب مجھے غلط سمجھے ہیں۔ کوئی ایسا آپ کا حکم نہیں ہو گا۔ کوئی آپ کا ایسا آرڈر نہیں ہوگا جس کو میں obey نہیں کروں گا۔ جس پر عمل نہیں کروں گا۔ عبداللہ ملک ساتھ تھے۔ بھٹو صاحب نے بتایا کہ عبداللہ ملک کو ساتھ لے کے آیا۔ کہتے ہیں کہ وہ تو بالکل ہی Obedient(وفا دار) آدمی ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے کہا ، یہ آدمی بڑا گندا ہے۔ اس کے عزائم ٹھیک معلوم نہیں ہوتے۔ کہنے لگے ، نہیں۔ جب تک ضیا ہے مجھے آرمی کی کوئی فکر نہیں۔ جو بھی میں کہوں گا کرے گا۔ میں نے کہا، جی ٹھیک ہے، لیکن مجھے تو اس نے یہ بات کہی ہے۔
سوال: یہ جنرل ضیا کی ایک اور احتیاطی تدبیر تھی۔ کیونکہ ذرا سا شائبہ بھی ان کی برطرفی کا باعث بن سکتا تھا۔ جبکہ آپ کے ساتھ تو انہوںنے خاصی کھل کر بات کر دی تھی؟
جواب: اِس دوران میں اُس نے سوچا ہو گا کہ میں نے بات تو کر دی ہے۔ ارادے تو میرے ہیں۔ اس کے کہنے پر ابھی مجھے ڈسمس کر دیں گے۔
سوال: کچھ یاد ہے یہ کب کی بات ہے؟
جواب: یہ جون کی بات ہے۔ 15یا 16 جون (1977ئ) ۔
سوال: بھٹو صاحب پر جنرل ضیا نے اس قدر جعلی عکس ڈال رکھا تھا؟
جواب: اسی ملاقات میں انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ باقی سب چھوڑ جائیں گے، یہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔
سوال: اسی امید پر مارے گئے؟
جواب: اسی امید پر مارے گئے۔
سوال: بعد میں تو کفِ افسوس ملتے ہوں گے؟
جواب: مجھے جیل میں کہتے تھے کہ جب تم سے یہ بات ہوئی تو تم نے مجھے کیوں نہ کہا کہ اس کو ڈسمس کرو۔ میںنے کہا کہ میں نے تو کہا تھا کہ یہ شخص یہ باتیں کر رہا ہے۔ آپ نے کہا کہ تم alarmist (گھراہٹ کا شکار) ہو۔ اس نے آپ کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے تو آپ مان گئے تھے۔
سوال: دوسرے جنرلوں کے بارے میں ان کی کیا سوچ تھی؟
جواب: اس ے پہلے مجھے ایک دفعہ بھٹو صاحب نے کہا کہ کورکمانڈروں کے ارادے ٹھیک معلوم نہیں ہوتے۔ یہ شاید مارشل لا لگائیں گے۔ میں نے کہا، انہیں کیسے ہمت ہو گی مارشل لا لگانے کی۔ ایک متفقہ آئین بنا ہے بڑی مشکل سے۔ پھر بنگال میں انہوں نے جو حالتیں کی ہیں، جو آرمی کی ذلت ہوئی ہے۔ اس کے بعد کیا ان کی ہمت ہو گی کہ یہ پھر مارشل لا لگائیں اور آئین کو ختم کریں۔ پہلے آدھا ملک ان کے ہاتھوں چلا گیا۔
سوال: اس پر بھٹو صاحب نے آپ کو کیا جواب دیا؟
جواب: پھر وہ چپ کر گئے۔ لیکن ان کا یہ خیال تھا کہ کورکمانڈر واقعی ambitious (سخت حریص) ہیں۔ جنرل چشتی ہو یا ارباب ہو یا کوئی اور ہو۔ مگر ضیا پر بڑا اعتماد تھا۔
سوال: بقول راﺅ رشید صاحب ”.... بھٹو صاحب کو احساس ہو گیا تھا کہ یہ آدمی خطرناک ہے۔ اگر کچھ گڑ بڑ کی تو یہ شخص کرے گا۔ چنانچہ انہوں نے مجھے کہا بھی کہ چشتی بڑھ چڑھ کے باتیں کرتا ہے۔ اسے دیکھو کہ کس قسم کا آدمی ہے۔....۔“ (بحوالہ: ”جو میںنے دیکھا“۔ راﺅ رشید سے منیر احمد منیر کا انٹرویو)
جواب: بھٹو صاحب نے مجھے اتنا کہا تھا کہ چشتی جو ہے اس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ پہلے جو مارشل لا تھے نا، ایوب خاں کے ، یحییٰ خاں کے ، وہ فیل ہو گئے کیونکہ ان میں پھانسیاں نہیں لگیں۔ لوگوں کو مارا نہیں گیا۔
سوال: جنرل چشتی نے یہ کہاں کہا؟
جواب: کور کمانڈرز کی میٹنگ میں ۔ وہ مارشل لا فیل ہو گئے کیونکہ ان میں پھانسیاں نہیں لگیں۔
سوال: بھٹو صاحب نے آپ کو کب بتایا؟
جواب: جب جیل میں تھے۔
سوال: انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے بھی کوئی سُن گُن نہ ملی؟
جواب: راﺅ رشید صاحب انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر تھے۔ حال ہی میں لگے تھے۔ انہوں نے رپورٹ بھیجی تھی کہ فوج میں کچھ ہو رہا ہے۔ جیلانی صاحب نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
سوال: بھٹو صاحب کو جنرل ضیا پر جو اعتماد تھا وہ نہیں لے ڈوبا؟
جواب: وہ خوشامد بڑی کرتا تھا۔ کہتے تھے کہ میٹنگیں ہوتی تھیں فوجیوں کی کاکول میں۔ ادھر اُدھر۔ کوئی فنکشن ہوتا تو ضیا کھڑا ہو کے تقریر کرتا۔ بھٹو صاحب کہتے تھے مجھے شرم آتی تھی۔ لکھی ہوئی، پڑھی ہوئی موجود ہیں۔ ریکارڈ میں موجود ہیں جو یہ بہت تعریفیں کرتا تھا۔ بھٹو صاحب بیچارے۔ خوشامد بڑی خطرناک چیز ہوتی ہے اور یہ خوشامد کرتا تھا۔
سوال: بس کورکمانڈروں پر انہیں شبہ رہا؟
جواب: ان کا یہ خیال تھا کہ چشتی جو ہے ambitious (سخت حریص) ہے۔ ارباب (جہاں زیب) بھی ambitious ہے۔ یہ کچھ کریں گے۔ ضیا جب تک ہے ، نہیں ہو گا۔ اس غلط فہمی میں رہے وہ آخر تک۔
سوال: جب آپ نے لاہور، حیدر آباد ، کراچی میں منی مارشل لا لگائے تھے۔ ظاہر ہے جنرل ضیا کی مرضی سے لگائے گئے۔ اس دوران میں بھی ان کا ambitious (سخت حریص) ہونا سامنے نہ آیا؟
جواب: چھوٹا مارشل لا لگانے کےلئے ایک میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ میں کہا گیا کہ یہ مجبوری ہے۔ فوج نے کہا ، ٹھیک ہے ہم کریں گے۔
سوال: یہ میٹنگ کس سطح کی تھی؟
جواب: میں تھا۔ بھٹو صاحب تھے۔ ائیر مارشل ذوالفقار صاحب تھے۔ ایڈمرل شریف صاحب تھے۔ ضیا صاحب تھے اور مجھے یاد نہیں کہ کون تھا۔ میرا خیال ہے اور کوئی نہیں تھا۔ میںنے پوزیشن بیان کی کہ یہ چھوٹا مارشل لا ہم لگا رہے ہیں تاکہ لا اینڈ آرڈر قائم کیا جائے۔ تین شہروں میں بہت زیادہ گڑ بڑ ہے اس لئے وہاں کے جو کمانڈر ہیں وہی مارشل لا کے انچارج ہوں گے۔ جنرل ضیا نے کہا کہ سزا وزا دیں۔ کچھ لوگوں کو کوڑے دوڑے ماریں۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ پہلے بھی میں نے یحییٰ خان کے زمانے میں کوڑو کی مخالفت کی تھی۔ ہم کوڑے دوڑے نہیں ماریں گے۔ باقی اگر آپ ضروری سمجھتے ہیں کہ جو سبوتاژ کرے یا آگ لگائے اس کےلئے ملٹری کورٹ بیٹھ کے کوئی فیصلہ کرے۔ وہ آپ مناسب سمجھتے ہیں کرلیں۔ وہاں آرمی کی بات ہوئی تو بھٹو صاحب نے کہا بھئی جو ضیا ہے وہی آرمی ہے۔ بڑا عتماد تھا۔ یہ بھی اکڑ کے بیٹھ گئے۔ تو میں نے جو انتظام کیا وہ یہ تھا کہ یہاں کے جو میجر جنرل تھے۔ لاہور کے ، کراچی کے اور حیدر آباد کے جی او سی، ان سے کہا کہ یہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کے چلائیں۔ میرے سیکرٹری تھے کرنل حسن، اٹارنی جنرل کے سیکرٹری، شام کو ان کا ٹیلیفون آیا کہ جنرل ضیا صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری بڑی بے عزتی ہو گئی ہے۔ آپ نے ان لوگوں کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا ہے۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو ئی نیہں ہے۔ یہ تو میرے قابو میںنہیں ہوں گے۔ جنرل ضیا صاحب کہتے ہیں کہ اٹارنی جنرل صاحب کو بولو کہ مجھے بھی کوئی عہدہ دے دیں۔ میں حقیقت بات کررہا ہوں جھوٹی بات نہیں کر رہا۔ بھٹو صاحب سے نہیں کہہ رہے۔ خود مجھ سے بات نہیں کررہے۔ کرنل حسن سے بات کررہے ہیں۔ میرے سیکرٹری سے۔ تو میں نے کہا، حسن یہ تو چھوٹی چیز ہے۔ جنرل صاحب بڑے آدمی ہیں۔ میجر جنرل بھی بہت بڑی چیز ہے۔ اس کےلئے تو کرنل بھی کافی ہے جو کنٹرول کرے۔ ایک کرنل ہوتا ہے اس علاقے کا ، وہ کنٹرول کرتا ہے۔ لاہور شہر ہے وہاں میجر جنرل ہوتا ہے۔ جی اوسی، وہ کافی ہے۔ وہ کہتا ہے، جنرل صاحب کہتے ہیں کہ جی وہ میرے کنٹرول میںنہیں ہوں گے۔ اور پتہ نہیں وہ کیا کر جائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے کنٹرول میں ہوں۔ یہ ہو وہ ہو۔ مجھے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا جائے۔ آپ مجھے اجازت دیں۔ میں نے کہا، اگر انہیں بہت زیادہ شوق ہے تو بنا دو انہیں۔ میرے کہنے پر وہ اس زمانے میں چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر بن گئے۔ چھوٹے مارشل لا کے۔ تو یہ شوق ان کو پہلے دِن سے تھا۔ اور انہوں نے ایک انٹرویو دیا امریکن میگزین کو۔ وہ میں نے سپریم کورٹ میں پڑھ کر سنایا تھا۔ شروع شروع میں ۔ ستمبر یا اکتوبر۔
سوال: ٹیک اوور کرنے کے بعد؟
جواب: ٹیک اوور کرنے کے مہینہ دو مہینے بعد انہوں نے انٹرویو دیا۔ اس میں کہا تھا:
Whether people like it or not. Whether constitutional or not. it is always the Chief of Army Staff who will rule this Country.
لوگ مانیں یا نہ مانیں۔ لوگ تسلیم کریں یا نہ کریں۔ یہ آئینی بات ہو یا نہ ہو۔ چیف آف آرمی سٹاف ہمیشہ اس ملک پر حکومت کرے گا۔
آج تک اس کو نہیں چھوڑتا وہ۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کے باپ کی جائیداد ہے۔ دس سال سے بیٹھا ہوا ہے اس پر ۔ (انٹرویو کا یہ حصہ 19جون 86ءکو ریکارڈ کیا گیا)۔ اس کا یہ خیال ہے کہ یہ پوسٹ میں نے چھوڑ دی تو پھر میری حکومت ختم۔ وہ پریذیڈنٹ جو ہے وہ تو پرائیویٹ پریکٹس ہے۔ شریف الدین پیرزادہ صاحب وزیر بھی تھے اور پرائیویٹ پر یکٹس بھی کرتے تھے۔ صدارت ان (ضیا) کےلئے پرائیویٹ پریکٹس ہے۔ اصلی عہدہ ان کا چیف آف آرمی سٹاف کا ہے۔ صدارت پرائیویٹ پریکٹس ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست کسی کی جدی جائیداد نہیں ہے۔ بےنظیر سمجھتی ہے کہ یہ ان کی میراث ہے۔ بےنظیر نے تو ثابت کر دیا ہے کہ وہ میرٹ پر آج کل (19 جون 86ء) بول رہی ہے۔ وہ اس لیے لیڈر نہیں بنی ہوئی کہ وہ بھٹو کی بیٹی ہے۔
سوال: ”یہ بات ہو تو بھی کیا حرج ہے ....“ یہ بھی ایک نقطہ نظر ہے؟
جواب: انڈیا میں تو ہوا۔ اندرا گاندھی اس واسطے بنی کہ نہرو کی بیٹی تھی۔ ایمرجنسی اس نے لگائی۔ اس کو ہٹایا۔ اس کے بعد جب پھر آئی تو اپنے میرٹ پر آئی۔ بےنظیر ابھی آئی ہے اپنے میرٹ پر۔ ہر جگہ اس نے ثابت کر دیا ہے کہ سیاست جانتی ہے۔ سیاست سمجھتی ہے۔ ممکن ہے ان کے گرد بھی ایسے آدمی ہوں، ایسے لوگ ہوں جو ان کو دھوکا دیں۔ ہر ایک آدمی کے گرد ہوتے ہیں۔ ضیا کے آدمی اس کے گرد بھی ضرور ہیں جو دھوکا دیں یا یہ دھوکا کھا جائے۔ اب تک تو ٹھیک چل رہی ہیں۔ پورے لوگوں کو اعتماد ہے۔ ہر ایک صوبے کے لوگوں کو اعتماد ہے کہ یہ اس ملک کی فیڈریشن کو متحد کر سکتی ہے۔ اور کوئی شخص نہیں رکھ سکتا۔
سوال: یہ ملک کےلئے بہتر نہیں کہ یہ ہر صوبے میں، ہر علاقے میں پاپولر ہے۔ نیشنل پارٹی، نیشنل لیڈر؟
جواب: اور کسی پارٹی کے بارے میں آپ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے۔
سوال: آج تک (19 جون 86ئ) تو یہی صورت ہے کہ اور کوئی ہے ہی نہیں؟
جواب: سوائے اس کے۔ اور کسی لیڈر کے بارے میں نہیں کہہ سکتے۔ باقی یہ ہے کہ جیسا میں کہہ رہا ہوں غلطی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ان کے گرد میں خود دیکھ رہا ہوں کہ ضیا کے لوگ ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں جو ایجنٹ ہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور یہ بھی بےوقوف نہیں ہے۔ سمجھدار ہے۔ یہ جانتی ہو گی کہ کون کون ہے، کون کون نہیں ہے۔ کیونکہ بھٹو صاحب کو دھوکا ایسے ہی لوگوں نے دیا ہے۔ ان سے کہا بھی تھا کہ اصولاً پارٹی کے اندر الیکشن ہونا چاہئے۔ اور یہ بھی چاہتی ہیں کہ الیکشن ہوں۔ یہ بھی اس کےخلاف نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ لمبا پراسیس ہے۔ ہمیں پہلے ضیا سے نجات حاصل کرنی ہے۔ بھٹو صاحب کا بھی یہ ہوا کہ پہلے Wave(لہر) آگئی۔ waveکے بعد موومنٹ چلی۔ موومنٹ کے بعد وہ پریذیڈنٹ بن گئے۔ حکومت بنی۔ اس کے بعد ایک کانسٹی ٹیوشن بنا۔ اس کے بعد دوسرا کانسٹی ٹیوشن بنا۔ پھر بلوچستان میں ایجی ٹیشن۔ پھر سارے ملک میں گڑبڑ۔ تو پارٹی کا الیکشن وہ نہیں کر اسکے۔
سوال: بھٹو صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد جنرل ضیا نے انہیں مری میں نظر بند رکھا۔ وہاں انہوں نے 15جولائی 77ءکو بھٹو صاحب سے ملاقات کی۔ کہتے ہیں کہ اس موقع پر بھٹو صاحب نے جنرل ضیا کو جھاڑا؟
جواب: جھاڑاواڑا کچھ تھا۔ مجھے یاد کچھ آتا ہے۔
سوال: بعض کی رائے میں ”وہیں سے جنرل ضیا نے 90 دِن والے الیکشن ملتوی کرنے کا سوچا“۔
جواب: ضیا نے پہلے دِن سے ، جب یہ چیف آف آرمی سٹاف بنا، ارادہ کیا تھا کہ وہ اس ملک پر، حکومت پر قبضہ کرے گا۔
سوال: ”منی مارشل لا بعد میں بڑے مارشل لا کا پیشہ خیمہ ہوئے۔“ یہ بھی کہا جاتا ہے؟
جواب: ہماری بدقسمتی ہے، ورنہ یہ باتیں حقیقت میں ہوئی ہیں جو منی مارشل لا لگائے ہم نے۔ منی مارشل لا اس واسطے کہا ان کو کہ حمود الرحمن صاحب نے عاصمہ جیلانی کیس میں کہا تھا کہ مارشل لا کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ ہوتا ہے کہ جنرل چلا جائے کسی غیر ملک کو فتح کرلے۔ تو اس ملک کا قانون ختم ہوجاتا ہے۔ تو وہ جو کمانڈر ہوتا ہے اس کے جو آرڈرز ہوتے ہیں وہی قانون ہوتا ہے۔ ایک وہ مارشل لا ہے، جس کو کہتے ہیں ڈیوک آف ولنگڈن مارشل لا۔ ایک یہ ہے کہ ایک ملک کے اندر کوئی گڑبڑ ہو تو فوج کو بلایا جاتا ہے کہ تم لا اینڈ آرڈر کو بحال کرو۔ سویلین گورنمنٹ کی اتھارٹی کے ماتحت، ایک یہ ہوتا ہے جس کو سویلین گورنمنٹ ہمیشہ کر سکتی ہے۔ اور جب سویلین گورنمنٹ چاہے اس کو ختم کر سکتی ہے۔ اسے منی مارشل لا، چھوٹا مارشل لا کہتے ہیں۔ ایک یہ جو ہمارے ملک میں آیا ہے تیسری قسم کا کہ اپنے ملک کے جنرل اپنے ہی ملک کو فتح کرکے حکومت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ مارشل لا ناجائز ہے۔ یہ غاصب ہوتا ہے۔
سوال: یہ جسٹس حمود الرحمن نے کہا؟
جواب: جسٹس حمود الرحمن نے کہا، عاصمہ جیلانی کیس میں۔
سوال: یحییٰ خاں کے ججمنٹ میں۔
جواب: یحییٰ خان کے ججمنٹ میں ۔ یہ 21 اپریل 72ءکا فیصلہ ہے۔
سوال: جب بھٹو صاحب نے مارشل لا ہٹا لیا اس کے بعد؟
جواب: جب بھٹو صاحب نے مارشل لا ہٹالیا اس کے بعد۔ پہلے جب تک مارشل لا تھا، کبھی بھی فوجی بیٹھا ہوا ہے۔ ہماری سپوریم کورٹ نے نہیں کہا کہ یہ غاصب ہے۔ جب وہ چلے جاتے ہیں پھر ضرور کہا ہے۔ تو انہوںنے کہا یہ (یحییٰ خاں) غاصب ہے۔ بھٹو صاحب اس کو ڈسمس کر چکے تھے۔ بیچار یحییٰ خاں جیل میں پڑا ہوا تھا۔ بیچارہ کہیں یا نہ کہیں۔ بہرحال۔
سوال: آپ نے کہا ہے کہ منی مارشل لا والی میٹنگ کے موقع پر جنرل ضیا نے کہا کہ لوگوں کو کوڑے لگاتے ہیں۔ لیکن بھٹو صاحب نے اس سے اختلاف کیا؟
جواب: یحییٰ خاں کے زمانے میںبھٹو صاحب کا بیان موجود ہے۔
سوال: وہ ٹھیک ہے لیکن ان کا موقف تھا کہ کوڑے لگانے سے موومنٹ دب جائے گی؟
جواب: جنرل صاحب کو لطف آتا ہے کہ لوگوں کو کوڑے لگیں ، پھانسی لگے۔
سوال: ورنہ ان کی نیت نہیں تھی کہ موومنٹ دب جائے؟
جواب: نہیں نہیں۔ وہ ایسے ہی انہوںنے کہہ دیا۔
سوال: وہ چاہتے ہوں گے کہ کوڑے لگانے سے موومنٹ کو اورانگیخت ملے۔
جواب: کہ اس طرح سے لوگوں میں نفرت پیدا ہو جائے گی۔
سوال: بھٹو صاحب کےخلاف ، کہ کوڑے لگ رہے ہیں؟
جواب: کہ دیکھو یہ الیکشن بھی ہار گیا ہے، لوگوں کو کوڑے بھی مار رہا ہے۔
سوال: جنرل چشتی ، جنرل ضیا اور اصغر خاں کہتے ہیں کہ پی این اے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں مسلح تصادم ہونے والا تھا، اس لیے مارشل لاناگزیر ہو گیا تھا؟
جواب: غلط کہتے ہیں۔ مصطفی کھر نے انار کلی (لاہور) میں گڑ بڑ کی تھی۔ میرے خیال میں مصطفی کھر نے جنرل ضیا کے کہنے پر کروائی ہوگی۔ ایک دِن پہلے ۔ شیشے ویشے تڑوائے تھے۔
سوال: آ پ نے جو واقعات بتائے ہیں وہ ان تینوں کے موقف سے مختلف ہیں۔ اصغر خاں عوامی سطح پر تو یہ نہیں کہتے ”جنرلز ان پالیٹکس“ میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس وجہ سے مارشل لا ناگزیر ہو گیا تھا؟
جواب: نہیں۔ کوئی ناگزیر نہیں ہوا تھا۔ نوابزدہ صاحب قابل احترام آدمی ہیں ہمارے۔ پی این اے کے لیڈر تھے۔ کوئی کلیش ولیش نہیں تھا۔ ایگریمنٹ ہو گیا تھا۔ موومنٹ ختم ہو گئی تھی۔ لانگ مارچ کررہے تھے پیر صاحب (پگاڑو) ۔ وہ فیل ہو گیا تھا۔
سوال: ایگریمنٹ کے باوجود پی این اے کی مذاکراتی ٹیم مزید ڈیمانڈز لے آئی۔ کہتے ہیں اس کے پیچھے بھی جنرل ضیا کا ہاتھ تھا؟
جواب: بھٹو صاحب کہہ رہے تھے کہ میں داﺅد خاں (صدر افغانستان) سے بات کررہا ہوں ڈیورنڈ لائن پر۔ اس نے اتفاق کرلیا ہے کہ آپ ولی خاں وغیرہ کو چھوڑ دیں۔ ان کےخلاف مقدمات واپس لے لیں۔ میں ڈیورنڈ لائن تسلیم کرلیتا ہوں۔ تو اس وقت بھٹو صاحب بات چیت کررہے تھے۔ ان کے آدمی جا رہے تھے بات چیت کر رہے تھے اور ادھر ولی خاں سے بھی بات ہو رہی تھی۔ پی این اے کو فوجیوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ بھٹو کا رنر ہو چکا ہے ، ڈر رہا ہے اس لئے اپنی ڈیمانڈز بڑھا دو اور حیدر آباد ٹرائل وِد ڈرا کراﺅ۔ ہماری میٹنگ ہو رہی تھی۔ میں نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے اتنے زیادہ ڈاکوﺅں ، چوروں ، حملہ کرنے والوں اور قاتلوں کو چھوڑ دیا ہے۔ جنہوں نے کراچی میں بم چلائے۔ یہ کیا، وہ کیا۔ یہ تو تقریروں والے ہیں۔ بم بلاسٹ والے ہیں۔ بم بلاسٹ والوں کے کیس چلنے دو۔ ان کے خلاف مقدمات واپس لے لیں کیا حرج ہے۔ خٹک صاحب نے بھی اتفاق کیا۔ ٹکا خاں نے کہا کہ آرمی بہت مخالفت کررہی ہے کہ یہ کسی کسی بھی حالت میں واپس نہیں لینا چاہیے۔ انہوںنے کہا کہ ان کو بلاﺅ کیوں نہیں مانتے۔ جنرل ضیا کو بلایا تو انہوں نے تقریر شروع کر دی۔ نیپ کےخلاف جو میں نے بحث کی تھی سپریم کورٹ میں ، جنرل ضیا نے اس میں سے پڑھ کے سنان شروع کر دیا کہ غفار خاں کےخلاف یہ چارجز ہیں۔ ولی خاں کے خلاف یہ چارجز ہیں۔ یہ پاکستان کےخلاف یہ کررہے ہیں، وہ کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کےخلاف فیصلہ دیا ہے۔ تو نوابزادہ صاحب نے جنرل ضیا کو ڈانٹا۔
سوال: آپ کو بھٹو صاحب نے بتایا؟
جواب: ہاں، بھٹو صاحب نے بتایا کہ نوابزادہ صاحب نے اس کو ڈانٹا کہ جنرل صاحب ہم آپ سے پالیٹکس نہیں سیکھ رہے۔ نہ آپ ہمیں پالیٹکس سکھائیے۔ آپ فوجی نقطہ نظر سے دکھائیے کہ اگر یہ کیس واپس لیا جاتا ہے تو کیا نقصان پہنچتا ہے۔ اس کا کوئی خاص جواب نہیں تھا۔ یہ کہا کہ آرمی میں کریکس پڑ جائیں گے۔ آرمی ڈیوائیڈ ہو جائے گی۔
سوال: ایک طرف تو جنرل ضیاءکا یہ موقف تھا، دوسری طرف آپ نے بتایا کہ پی این اے والوں سے کہہ رہے تھے کہ اور ڈیمانڈ کرو بھٹو کارنر ہو چکا ہے؟
جواب: Coup(بغاوت) کے بعد یہ حیدر آباد گئے۔ عطاءاللہ مینگل کو جب ملے، ولی خاں وغیرہ کو تو انہوں نے کہا کہ میں تو کیس واپس لینے کے حق میں تھا بھٹو صاحب نہیں چاہتے تھے۔
سوال: لیکن پی این اے کی ڈیمانڈز میں بھی انہوں نے ہی شامل کرایا؟
جواب: پی این اے کی ڈیمانڈز میں شامل کرایا۔ اور ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میری ٹکا خاں سے بحث ہوئی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ کیس کو وِدڑرا کرنے دو۔ اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ کہنے لگے، آرمی والے لڑ رہے ہیں وہ نہیں مانتے۔
سوال: پی این اے کی پوری قیادت کیس کی واپسی چاہتی تھی یا چند ایک ہی؟
جواب: شیر باز مزاری چاہتے تھے۔ وہ ان (نیپ والوں) کے لیڈر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کیس وِدڈرا ہو ۔ باقی بھی کہہ رہے تھے۔ نوابزادہ صاحب نے بھی کہا۔ مفتی صاحب نے بھی کہا کہ یہ ہماری ڈیمانڈ ہے۔ کیس کو وِدڈرا کرو۔
سوال: آپ کے خیال میں ان کی یہ ڈیمانڈ ٹھیک تھی؟
جواب: ڈیمانڈ تو ٹھیک تھی کہ آپ کیس واپس لیں۔
سوال: سپیشل ٹربیونل کی تشکیل پر بھی بڑا اعتراض ہوتا رہا ہے کہ کیس عام عدالت میں کیوں نہ چلایا گیا؟
جواب: اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر ایک صوبے کے لوگ تھے۔ بلوچستان کے بھی تھے۔ سرحد کے بھی تھے۔ پنجاب کے بھی تھے۔ سندھ کے بھی تھے۔ اب کسی ایک ہائیکورٹ میں کیس چل نہیں سکتا تھا۔ اس لئے ہمیں سپیشل عدالت بنانا پڑی۔ ہر صوبے کے لوگ تھے۔ کسی نے جرم کیا تھا پشاور میں۔ کسی نے کیا تھا لاہور میں۔ کسی نے کیا تھا کوئٹہ میں۔ کسی نے کیا تھا سندھ میں۔ وہ اتنے کیسز چلا نہیں سکتے تھے۔ اکٹھا کروان کو۔ بہت سارے لوگ تھے۔ ٹربیونل کورٹ بنانا پڑی۔
سوال: ایک وکیل کی حیثیت سے آپ سپیشل کورٹ کے حق میں تھے؟
جواب: سپیشل کورٹ کے اصولاً میں خلاف ہوں۔ اور میں نے مخالفت بھی کی۔ سپیشل کورٹ کا میں ہمیشہ سے مخالف رہا ہوں۔ میں کیس واپس لینے کے حق میں بھی تھا۔
سوال: اِدھر جنرل ضیا بھٹو صاحب سے کہتے تھے کہ اگر کیس واپس لیا تو فوج میں کریکس پڑ جائیں گے۔ فوج ڈیوائیڈ ہو جائے گی۔ اُدھر پی این اے سے کہتے تھے کہ حیدر آباد کیس کی واپسی کا مطالبہ کرو؟
جواب: مطالبہ کرو۔ بھٹو دبا ہوا ہے۔
سوال: پی این اے کی ساری قیادت کو نہیں کہتے ہوں گے۔ چند ایک کو ہاتھ میں رکھا ہو گا؟
جواب: وہی ہے نا جو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے مارشل لا لگوایا ۔ یہ اور وہ۔
سوال: معاہدہ ہو جانے کے بعد جب پی این اے کی مذاکراتی ٹیم مزید ڈیمانڈز لے آئی، کوئی ٹھوس شواہد ملے کہ اس کے پیچھے بھی جنرل ضیا کا ہاتھ تھا؟
جواب: بہر حال، 2جولائی کو ایگریمنٹ ہو گیا تو شام کے وقت مفتی صاحب ، نوابزادہ صاحب اور پروفیسر غفور بھٹو صاحب سے ملنے کےلئے آگئے اور کہا کہ کچھ ہمارے اور ڈیمانڈز ہیں اور لمبی چوڑی لسٹ دے دی جس میں حیدر آباد کیس واپس لینے کا مطالبہ بھی تھا۔ حالانکہ وہ پہلے ایگری کر چکے تھے کہ یہ وِدڈرا نہیں ہوگا۔
سوال: پی این اے کی مذاکراتی ٹیم ایگری کر چکی تھی کہ حیدر آباد ٹربیونل کیس وِدڈرا نہیں ہوگا؟
جواب: ایگری کر چکے تھے کہ کیس وِدڈرا نہیں ہو گا۔ بہت میلے۔
سوال: بحث کے بعد۔
جواب: بحث کے بعد۔
سوال: بھٹو صاحب نے انہیں قائل کر لیا تھا؟
جواب: کہ آرمی والے نہیں مانتے۔جنرل ضیا کو بلایا تھا۔ جنرل ضیا نے تقریر شروع کر دی تھی۔ اور سپریم کورٹ میں ، میں نے نیپ کےخلاف جو بحث کی تھی اس میں سے اس نے چیزیں پڑھ کر سنائی تھیں۔
سوال: اچھا، آپ بتا رہے تھے کہ 2جولائی کو ایگریمنٹ ہو گیا تو شام کے وقت مفتی صاحب، نوابزادہ صاحب اور پروفیسر غفور بھٹو صاحب کے پاس اور ڈیمانڈز لے آئے۔ جن میں حیدر آباد کیس کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا تھا؟
جواب: اس کے بعد بھٹو صاحب نے ہماری میٹنگ بلائی۔ 3کی صبح کو ہماری میٹنگ تھی۔ 3جولائی کو اس میٹنگ میں مصطفی کھر نے اور حامد رضا گیلانی نے کہا کہ یہ ڈیمانڈز جو ہیں یہ فوج والوں نے پی این اے والوں سے کہا ہے کہ آپ اٹھائیں۔ یہ بھٹو کیا ہے۔ یہ کارنر ہو گیا ہے۔ یہ ہر ایک بات مانے گا۔ آپ مانیں نہیں۔
سوال: یہ جو دس ڈیمانڈز اخیر میں لے آئے تھے؟
جواب: ہاں دس ڈیمانڈز۔ اس پر بھٹو صاحب نے اپنے ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ جنرل ضیا، جنرل جیلانی اور جنرل عبداللہ ملک کو بلاﺅ۔ جب وہ آگئے تو بھٹو صاحب نے کہا کہ بھئی میرے وزیر یہ کہہ رہے ہیں۔ مصطفی کھر سے کہا کہ کیا بات ہے؟ کھر نے ساری بار دہرائی کہ ہم نے یہ سنا ہے کہ یہ فوج کی طرف سے کہا جا رہا ہے۔ یہی بات حامد رضا گیلانی نے کی توجنرل ضیا نے کہا کہ بالکل غلط ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ پھر عبداللہ ملک سے پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایسی کسی چیز کا کچھ علم نہیں پھر جنرل جیلانی سے پوچھا کہ انٹیلی جنس کے آدمی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ نہیں کوئی بات نہیں۔ یہ غلط ہے۔
سوال: تینوں نے انکار کر دیا؟
جواب: تینوںنے انکار کر دیا۔ کیبنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ساتھ بھٹو صاحب کا دفتر تھا۔ پھر بھٹو صاحب ان تینوں کو اپنے دفتر میں لے گئے۔ کوئی دس پندرہ منٹ بات ہوئی۔ بھٹو صاحب واپس آئے اور کہا، دیکھیں ہم ہیں مسلمان۔ اگر قرآن پر کوئی آدمی قسم کھا کے کہے کہ یہ بات غلط ہے تو یقین کرلینا چاہئے۔ انہوں نے قرآن پر قسم کھائی ہے۔
سوال: تینوںنے؟
جواب: تینوں نے یا جنرل ضیا نے۔
سوال: چیف تو جنرل ضیا ہی تھے؟
جواب: بھٹو صاحب نے کہا کہ انہوں نے قرآن پر بھی بات کہہ دی ہے۔ اب تو ہمیں مان لینا چاہئے کہ یہ بات غلط ہے۔ ڈراپ اِٹ (اب اسے چھوڑ دیں)۔ باقی ان کے (پی این اے) ڈیمانڈز ہیں وہ جہاں تک مانے جا سکتے ہیں وہ ہم کریں گے۔ ان سے بات چیت ہو گئی۔ رات کو انہوں نے (بھٹو صاحب) پریس کانفرنس بھی کی کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ اتنی بڑی باتیں ہو گئی ہیں یہ بھی ہو جائیں گی۔
اس کے باوجود ہم کیس واپس لینے پر راضی ہو گئے تھے کہ کوئی بات نہیں کیس وِد ڈرا ہونے دو۔
سوال: جنرل ضیا نے اخیر تک ایسی یقین دہانیاں کرا کرا کے بھٹو صاحب کو بے خبر کئے رکھا؟
جواب: بعد میں سہ پہر کو پھر میٹنگ ہوئی تھی۔ پھر اس کو بلایا تھا۔ پھر بات چیت ہوئی۔ میں اس میٹنگ میں نہیں تھا۔ مجھے جنرل ٹکا خاں نے بتایا کہ جب جانے لگے تو بھٹو صاحب نے کہا: Thanks God, Zia is incharge. (خدا کا شکریہ ہے کہ ضیا فوج کے انچارج ہیں) ورنہ کوئی اور ہوتا تو فوج ٹیک اوور کر جاتی۔ اخیر تک ان کو اس آدمی پر اعتماد تھا۔ ورنہ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ فوج کچھ کرنا چاہتی ہے تو وہ ان کو ڈسمس کر دیتے۔
سوال: بعض لوگ جنرل ٹکا خاں پر الزام دیتے ہیں کہ وہ وزیر دفاع تھے۔ اور انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ فوج ٹیک اوور کررہی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
جواب: وہ تو بھٹو صاحب نے مجھے کہا تھا۔ میں نے کہا، انڈیا میں جو کچھ ہوتا ہے آپ اس سے با خبر ہوتے ہیں۔ کون اقتدار میں آئے گا۔ کیا ہو رہا ہے وہاں۔ باقی دنیا میں آپ کو دلچسپی ہے۔ آپ کے جی ایچ کیو والے ٹیک اوور کررہے تھے آپ کو پتہ نہیں تھا۔ کہتے ہیں: ”Tikka and Jilani were my ears and eyes. (ٹکا اور جیلانی میرے کان اور آنکھیں تھے)۔ ٹکا پر میں الزام نہیں دیتا بیچارہ سمپل آدمی ہے۔ جیلانی نے مجھے نہیں بتایا۔“
سوال: ان واقعات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے خاصی چابکدستی سے بھٹو صاحب کو متاثر کئے رکھا۔ مثلاً جیسا کہ آپ نے بتایا، ہاتھ جوڑنا؟
جواب: ہاتھ چومنا ، پاﺅں پڑنا۔
سوال: چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا الحق وزیراعظم بھٹو کے ہاتھ چومتے تھے؟
جواب: ہاں۔
سوال: پاﺅں پڑجاتے تھے؟
جواب: پاﺅں نہیں۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ اس نے میرے ہاتھ چومے۔
سوال: کب اور کہاں؟
جواب: ملتان میں قرآن پر ہاتھ رکھا تھا۔
سوال: بھٹو صاحب نے آپ کو بتایا؟
جواب: خود بتایا۔
سوال: جب بھٹو صاحب پنجاب کے دورے پر نکلے ہوئے تھے؟
جواب: ہاں۔
سوال: اس کی کوئی تفصیل بھٹو صاحب نے آپ کو بتائی؟
جواب: انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ ملتان میں کورکمانڈرتھے۔ کور کی میٹنگ تھی۔ ٹی پارٹی تھی۔ یہ آگئے ۔ میں چلا گیا۔ افسروں سے ملے۔ سب سے ملے۔ دوسرے دِ ن صادق قریشی کہنے لگے کہ جنرل صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہں۔ میں نے کہا، کل تو بڑی دیر تک ان سے ملاقات ہوئی۔ تفصیل سے۔ اب کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ صادق قریشی نے کہا، وہ کہتے ہیں کہ پانچ منٹ دے دیں۔ ضروری کام ہے۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ میں وائٹ ہاﺅس (صادق قریشی کی رہائش گاہ) کی لائبریری میں بیٹھا ہوا تھا۔ جنرل ضیا آگئے ۔ کہنے لگے: Sir, I want Holy Book. I want Holy Book. میں نے کہا، کیوں کیا بات ہے؟ کہتا ہے، یہاں قرآن شریف ہے؟ میں نے کہا، یہ مسلمان کا گھر ہے، کیسے نہیں ہو گا۔ کیا کرنا ہے تم نے۔ کہتا ہے مجھے دے دیجئے۔ کہتے ہیں، میں نے اے ڈی سی کو بلایا کہ قرآن شریف لے آﺅ۔ وہ قرآن شریف لے آیا۔ جنرل ضیا نے قرآن شریف اٹھایا، چوما ، رکھا اور کہا: میں اس پر قسم کھاتا ہوں کہ میں آپ کا وفادار ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ملک کی جو خدمت کررہے ہیں آپ کو ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو آپ کو تسلی دے کہ آ پ کو آرمی کی طرف سے فکر نہ ہو۔ بھٹو صاحب کہتے ہیں کہ پھر اس نے میر ے ہاتھ چومے۔ اور کہا، آپ کو تسلی ہونی چاہیے کہ آرمی کی طرف سے کم از کم جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ پہلے والی بات نہ ہو۔
سوال: اس تسلی میں اتنے جرنیلوں کو ریٹائر کرکے انہیں چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا؟
جواب: اس تسلی میں چھ آدمیوں کو Supersede کرکے انہیں بنا دیا۔
سوال: کہتے ہیں اس میں جنرل جیلانی ، جو اس وقت آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے ، کی بھی سفارش تھی؟
جواب: بھٹو صاحب نے بتایا کہ جیلانی نے سفارش کی تھی۔ ٹکا خان نے بھی اس کی سفارش کی تھی۔ میں نے ٹکا خاں سے پوچھا انہوں نے انکار کیا ہے۔ جیلانی نے بھی کہا ہے کہ میں ان کی سفارش نہیں کی تھی۔
سوال: یہ جنرل جیلانی نے کس سے کہا کہ انہوں نے اس کی سفارش نہیں کی تھی؟
جواب: جیلانی میرے دوست بھی تھے۔ لا اینڈ آرڈر کمیٹی میںمیرے ساتھ تھے۔ اچھے آدمی ہیں۔ میں ان سے ملا تھا کہ بھئی یہ تاریخ کی بات ہے واضح ہو جانی چاہئے۔ میرے خلاف پشاور میں الیکشن رگنگ (دھاندلی) کا کیس چل رہا تھا۔ میں لاہور میں رکا تھا۔ الفتح ایک دُکان ہے وہاں سے میں سگریٹ وگریٹ لے رہا تھا۔ میں اس وقت سگریٹ بہت پیتا تھا۔ باہر نکلا۔ گرمی کے دِ ن تھے۔ جون کا مہینہ تھا۔ جنرل صاحب کھڑے ہیں۔ اس وقت گورنر (پنجاب) نہیں تھے۔ ڈیفنس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ مجھے ملے: کیا حال ہے۔ میںنے آپ کو دیکھا کھڑا ہوا گیا۔ بہت افسوس ہے کہ بھٹو صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا۔ یہ اور وہ۔میں نے کہا، آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں۔ میں کہہ نہ سکتا کچھ۔ باقی بھٹو صاحب کو چڑھایا پھانسی پر اس نے۔ وہ تو آپ کو معلوم ہے۔ بھٹو صاحب کہتے تھے آپ نے اس کی سفارش کی تھی۔ کہنے لگے ، میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ غلط ہے۔ میرے ساتھ بات کریں۔ مجھے ملیں۔ میں نے کہا، یار میرے خلاف کیس چل رہا ہے۔ مجھے رکنگ کے کیس میں پھنسایا ہوا ہے ضیا نے۔ بیمار آدمی ہوں۔ ہر دفعہ پشاور جاتا ہوں۔ آُ سے ملنے جاﺅں گا پھر پتہ نہیں کیا کیس چلائے گا۔ جیل میں ڈالے گا۔ میری ہمت نہیں پڑتی۔ بہرحال میں پھر دیکھوں گا۔ اس کے بعد وہ گورنر (پنجاب) بن گئے۔ کچھ مہینوں کے بعد میں لاہور آیا تھا۔ پھر کیس کے لئے پشاور جا رہا تھا۔ میری طبیعت خراب ہو گئی۔ جہاز بھی خراب تھا۔ میں جا نہیں سکا۔ میںنے انہیں ٹیلیفون کیا۔ میں نے کہا، جنرل صاحب آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ بات جوہے رہ نہ جائے۔ کہنے لگے، آپ گورنر ہاﺅس آجائیں۔ میں نے کہا ، گورنر ہاﺅس نہیں جاﺅں گا۔ کہنے لگے، میرا اپنا گھر ہے وہاں آجائیں۔ میںنے کہا، جہاں بھی گورنر ٹھہرتا ہے وہ گورنر ہاﺅس ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں، ٹھیک ہے میں آپ کو گاڑی بھیجتا ہوں۔ کسی اور جگہ ملاقات ہو جائے گی۔ میں گلبرگ ایک دوست کے ہاں ٹھہرا ہواتھا۔ انہوںنے کوئی پرائیویٹ گاڑی بھیجی مجھے۔ انٹرنیشنل ہوٹل کے پیچھے کوئی کوٹھی تھی وہاں لے گئے۔ وہاں مٹھائی وٹھائی رکھی تھی۔ خدمت کے پورے لوازمات رکھے تھے۔ بڑی تواضع کی انہوںنے ۔ چائے وائے پی۔ انہوں نے بڑی سخت لہجے میں ضیا کو برا بھلا کہا۔
No comments:
Post a Comment