Ad

Ad

Thursday, 30 August 2012

Libya History


لیبیا
Libya
آزادی، 24دسمبر 1951ئ۔ سرکاری نام، الجماہیریة العربیة البیة الشعبیة الاشعراکیة العظمیٰ۔ سرکاری زبان، عربی۔ طرز حکومت، جمہوریہ۔ کرنسی، دینار۔ فی کس آمدن، 14533ڈالر۔ کل رقبہ 1759541مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، طرابلس۔ اہم شہر، بن غازی، مسوراتا، الزائیوہ، طبرق، اجدابیہ۔ آبادی، 6420000 (تخمینہ 2009ئ)
محل وقوع
لیبیا براعظم افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مےں بحیرہ ¿ روم، مشرق مےں مصر، جنوب مشرق مےں سوڈان، جنوب مےں چاڈ اور نجد، مغرب مےں الجزائر اور شمال مغرب مےں تیونس واقع ہےں۔ ساحل ایک ہزار ایک سو میل لمبا ہے۔ جبل سودا، الاسودلحروج اور جبل نفوسہ پہاڑی سلسلے ہےں۔ 92فی صد حصہ ریگستانی یا نیم ریگستانی ہے۔ اس کا ایک مقام عزیزیہ دنیا کا گرم ترین علاقہ ہے۔ موسم گرما مےں درجہ حرارت 100سے 125درجے فارن ہائیٹ تک ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر آب و ہوا گرم اور خشک ہے۔ تاہم ساحلی علاقوں کا موسم معتدل رہتا ہے۔ صحرائی علاقوں مےں بارشیں نہ ہونے کے برابر ہےں۔
لوگ
یہاں مسلمانوں کی آبادی 97فیصد ہے۔ نسلی اعتبار سے بربر اور عرب نژاد باشندے بھی 97فیصد ہےں۔ بقیہ تین فیصد مےں یونانی، مالٹائی اور اطالوی شامل ہےں۔ آبادی مےں اضافے کی شرح 2.3فیصد سالانہ ہے۔ اطفال مےںاموات کی شرح 30.8 فی ہزار ہے۔ اوسط عمر 75سال ہے۔ مردوں مےں یہ شرح 73سال اورخواتین مےں 77سال ہے۔ شرح خواندگی 95.4فیصد ہے۔ مردوں مےں یہ شرح 96.9فیصد ہے اور خواتین مےں 94فیصد ہے۔
وسائل
ملک کے پانچ فی صد علاقے پر کاشت کاری ہوتی ہے۔ ملک کا ایک بڑا حصہ ریگستان پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ویران ہے۔ مونگ پھلی، زیتون، انگور، کھجوریں، گندم، جو اور ترشادہ پھل اس ملک کی اہم زرعی پیداواریں ہےں۔ لوگ بھیڑ بکریاں بھی پالتے ہےں۔ 31فی صد افراد کاشت کاری کے شعبے سے منسلک ہےں۔
تیل اس ملک کے سب سے بڑی معدنی دولت ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ملک دنیا کا 37واں بڑا امیر ملک ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی گیس اور جپسم کے وسیع ذخائر بھی یہاں موجود ہےں۔ 27فی صد لوگ صنعت سے وابستہ ہےں۔ 40فی صد ملکی پیداوار صنعت سے حاصل ہوتی ہے۔ زیادہ تر صنعتیں قومی ملکیت مےں ہےں۔ مشروبات، کپڑا، سگریٹ، سیمنٹ، پٹرولیم کی مصنوعات اور قالین بافی اہم صنعتوں مےں شامل ہےں۔ کھاد، پانی سے کشید کر کے تازہ پانی حاصل کرنے کا پلانٹ بن غازی کے ساحل پر واقع ہے۔ 5لاکھ کاریں اور تقریباً اتنی ہی کمرشل گاڑیاں ہےں۔ سڑکوں کی لمبائی تیس ہزار کلومیٹر ہے۔ ریلوے کا نظام قائم نہیں۔ بن غازی اور طرابلس بین الاقوامی ہوائی اڈے اور اہم بندرگاہیں ہےں۔
اہم درآمدات مےں خوراک، کیمیکلز مشینری اور ٹرانسپورٹ شامل ہےں جبکہ برآمدات مےں اون، زیتون کا تیل، کھالیں، ترشادہ پھلوں اور قدرتی گیس کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ 
630ق م مےں یونانی سب سے پہلے یہاں آئے۔ اس وقت اس علاقے کو سائریکا کہتے تھے۔ اس دوران فینیقوں نے یہاں حکومت قائم کی۔ پہلی صدی مےں رومی یہاں آئے۔ 642ءمےں اسے عربوں نے فتح کیا۔ 1551ءمےں عثمانی سلطنت کا حصہ بن کر یہ علاقہ ترکوں کے زیر سایہ آگیا اور یہ 1910ءتک اس ملک کا حصہ رہا۔ 1911ءمےں اس پر اٹلی نے قبضہ کر لیا مگر سنوسی قبائل نے غیر ملکی فوجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 1941-42ءمےں لیبیا دوسری عالمگیر جنگ کا اکھاڑہ بن گیا۔ اس جنگ مےں لیبیا کو بغیر کسی وجہ سے شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ سے برطانوی جنرل منٹگمری، جرمن رومیل اور امریکی جنرل آئزن ہاور نے عالمی شہرت حاصل کی۔ 1942ءمےں دوسری عالمگیر جنگ کے دوران انگریزوں نے سنوسیوں سے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد انہیں آزاد کر دیں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 
انہیں آزادی 24دسمبر 1951ءکے روز ملی اور 2جنوری 1952ءکو آزادی کا عمل مکمل ہوگیا۔ شاہ ادریس سنوسی یہاں کے حکمران بنے۔ یکم ستمبر 1969ءکو کرنل معمر قذافی نے ان کا تختہ الٹ کر ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اب تک وہی حکمران ہےں۔
1972ءمےں مصر اور لیبیا کے وفاق کا قیام اور 12جنوری 1974ءکو تیونس لیبیا کا ادغام کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔ 1977ءمےں امریکہ کے طیاروں نے خلیج سدرہ کی جھڑپ مےں لیبیا کے دو جنگی طیارے مار گرائے۔ 6جنوری 1986ءکو امریکہ نے اس ملک پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں۔ امریکہ لیبیا پر جوہری اور کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔ اگست 1989ءکے معاہدے کی رو سے اوزوکی متنازعہ پٹی کا معاملہ بین الاقوامی عدالت انصاف مےں پیش کیا گیا جس پر 1993ءمےں لیبیا کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ 
21دسمبر 1988ءکے روز امریکہ کا ایک مسافر بردار بوئنگ 747سکاٹ لینڈ کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے مار گرایا گیا جس کے تمام 259مسافر ہلاک ہوگئے۔ امریکہ نے لیبیا کے محکمہ جاسوسی کے دو افسران کو اس کا ذمہ دار قرار دیا لیکن لیبیا نے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ 1992ءمےں اقوام متحدہ کی جانب سے لیبیا پر تجارتی اور فضائی ٹریفک کی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
5اپریل 1999ءکے روز بالآخر لیبیا نے امریکہ کا مطالبہ مان لیا اور دونوں افسروں عبدالباسط علی اور خلیفہ مہمہ کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا۔ لیبیا کے تعاون کی وجہ سے اقوام متحدہ نے بھی اپنی پابندیاں اٹھا لیں۔ اس کے ساتھ یورپ کی آئل کمپنیوں نے فی الفور لیبیا سے رابطے کرنا شروع کر دیئے۔
دسمبر 2003ءمےں امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ مذاکرات کے بعد کرنل قذافی نے یہ کہہ کر سب کو حیرت زدہ کر دیا کہ لیبیا وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیار کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ جون 2004ءمےں چوبیس سال کے بعد امریکہ اور لیبیا کے درمیان دوبارہ سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔ 
٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment