سیرالیون
Sierra Leone
محل وقوع
مغربی افریقہ مےں واقع سیرالیون کے شمال مشرق مےں گنی، جنوب مشرق مےں لائبیریا اور مغرب مےں بحراوقیانوس واقع ہے۔ سیرالیون کا مشرقی حصہ پہاڑی ہے جس مےں لوما پہاڑ کی اونچائی سطح سمندر سے 1800میٹر ہے۔ ملک کا عام ڈھلان مشرق سے مغرب کی جانب ہے۔ یہاں کے ساحلی علاقے نشیبی اور دلدلی ہےں جن مےں آبی نباتات اگی رہتی ہےں۔ سیرالیون کا ساحلی علاقہ کٹا پھٹا ہے جو قدرتی بندرگاہوں کی تعمیر مےں معاون ثابت ہوا ہے۔
لوگ
سیرالیون کی آبادی کا بڑا حصہ سیاہ فام افریقی نژاد باشندوں پر مشتمل ہے جو بیس مختلف نسلی گروہوں مےں منقسم ہےں۔ سب سے بڑا گروہ جنوب مےں آباد منڈے اور شمال مےں آباد تمنے کا ہے۔ تقریباً 63فیصد افراد دیہی علاقوں مےں رہتے ہےں۔ اسلام کے پیروکاروں کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مقامی عقائد پر یقین رکھتے ہےں۔ سرکاری زبان انگریزی ہے تاہم مقامی طور پر منڈے اور تمنے بڑی زبانیں ہےں۔
یہاں مسلمان 60فیصد، عیسائی 10فیصد اور دہریئے 30فیصد ہےں۔ سیرالیون کی شرح پیدائش 2.3فیصد ہے اور شرح خواندگی 31فیصد ہے۔
وسائل
سیرالیون کی معیشت کا انحصار زراعت اور کان کنی پر ہے۔ ملکی آبادی کا 67فیصد حصہ کھیتی باڑی، ماہی گیری اور شجرکاری سے منسلک ہے۔ لوہا، کرومائٹ اور ہیرے یہاں کی خاص معدنیات ہےں۔ ملک کے جنوب مشرقی حصے مےں ہیرے پائے جاتے ہےں۔ مارمپا کے پاس لوہے کے ذخائر ہےں جبکہ کینی ماکے پاس کرومائٹ کی کانیں ہےں۔ لوہے اور کرومائٹ کی کانوں کو ریلوے لائن کے ذریعے فری ٹاﺅن بندرگاہ سے منسلک کیا گیا ہے۔ ابھی تک ملک صنعتی ترقی کے ابتدائی مراحل مےں ہے۔ زیادہ تر لوہا، کرومائٹ اور ہیرے برآمد کئے جاتے ہےں۔
ملک کا قابل کاشت رقبہ 7فیصد ہے۔ اہم فصلوں مےں کافی، کوکو، پام آئل، چاول اور مونگ پھلی شامل ہےں۔ اہم درآمدات اشیائے خوردنی، مشینری اور پرزہ جات، اور گاڑیاں ہےں جبکہ برآمدات مےں ہیرے، کوکو، کافی اور مچھلی کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
پرتگالی سیاح پیڈرو ڈی چنتا نے 1460ءمےں اس ملک کو سیرالیون یعنی ”شیروں کے پہاڑ“ کا نام دیا کیونکہ اس کی پہاڑیوں پر چھائے ہوئے بادلوں کی گرج اسے شیروں کی دھاڑ جیسی معلوم ہوئی۔ 1787ءمےں برطانیہ نے یہاں فری ٹاﺅن کے نام سے ایک نو آبادی بنائی اور اس نوآبادی کے راستے یہاں سے لوگوں کو غلام بنا بنا کر برطانیہ اور امریکہ بھیجنا شروع کیا۔
1924ءمےں یہاں نیا آئین نافذ کیا گیا اور قبائلی سرداروںپر مشتمل ایک کونسل بنائی گئی مگر اس کونسل مےں عوام کو براہ راست کوئی نمائندگی حاصل نہ تھی، اس لئے عوام نے اسے مسترد کر دیا۔ 1943ءمےں انہیں بھی اس کونسل مےں تھوڑی بہت نمائندگی ملنا شروع ہوگئی۔
1951ءمےں نیا آئین بنایا گیا اور 1958ءمےں کونسل کی جگہ ایوان نمائندگان کا قیام عمل مےں آیا۔ اس کے انتخابات مےں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی اور ڈاکٹر ملٹن مارگئی کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔
سیرالیون 1961ءمےں ایک آزاد مملکت بنا اور دولت مشترکہ کی رکنیت حاصل کی۔ 1964ءمےں ڈاکٹر ملٹن کا انتقال ہوگیا اور ان کے بھائی کو گورنر جنرل کی طرف سے نئی حکومت بنانے کی دعوت دی گئی۔ 1967ءمےں حزب اختلاف آل پیپلز کانگریس کے رہنما سیاکاسٹی وینس انتخابات مےں جیت جاتے ہےں۔ ان کی وزارت عظمیٰ کو فوج نے قبول نہ کیا اور پرامن انقلاب کے ذریعے انہیں معزول کر دیا گیا۔ آئین معطل کر دیا گیا اور فوج اور پولیس کے اعلیٰ افسروں پر مشتمل ”نیشنل ریفارمیشن کونسل“ بنائی گئی۔
1968ءمےں فوج اور پولیس کے جونیئر افسروں نے ایک اور انقلاب برپا کیا اور ایوان نمائندگان بحال کر کے سیاکاسٹی وینس سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کی درخواست کی۔ 1971ءمےں ان کے خلاف ایک اور بغاوت ہوئی مگر اسے کچل دیا گیا۔ اسی سال سیرالیون کو جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔
1978ءمےں ہونے والے انتخابات مےں آل پیپلز کانگریس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ 1976ءمےں سیاکا کو دوسری مرتبہ صدر منتخب کر لیا گیا۔ 1978ءمےں نیا آئین متعارف کرایا گیا جس کے تحت عہدہ صدارت کی معیار پانچ سال سے بڑھا کر سات سال کر دی گئی۔ آل پیپلز کانگریس کے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ یوں ملک مےں یک جماعتی نظام نافذ ہوگیا۔ اگست 1985ءمےں ہونے والے انتخابات مےں آرمی چیف میجر جنرل موماہ کو بہ حیثیت صدر منتخب کر لیا گیا جو اگلے سات سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1992ءمےں فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا اور کثیر جماعتی سیاسی نظام کو ازسرنو نافذ کیا گیا۔
1996ءکے عام انتخابات مےں پیپلز کانگریس کے احمد تیجان کباہ کو فتح حاصل ہوئی اور وہ پہلے منتخب صدر مملکت بنے۔ 1997ءمےں ان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی اور لیفٹیننٹ کرنل جونی پال کوروما نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس پر بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے مےں آیا۔ نائیجریا نے سویلین حکومت کو واپس لانے کے لئے اپنی فوج سیرالیون مےں داخل کر دی۔ مارچ 1998ءمےں صدر احمد تیجان کباہ واپس سیرالیون آگئے۔ تاہم باغی فوجیوں نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ جولائی 1999ءمےں حکومت اور باغیوں کے درمیان معاہدہ ہوگیا اور دونوں فریقوں نے اقتدار مےں مساویانہ شرکت کا اصول تسلیم کر لیا۔
2002ءمےں ہونے والے صدارتی انتخابات مےں ایک بار پھر احمد کباہ کو فتح حاصل ہوئی اور وہ ستر فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر کے صدر بن گئے۔ مارچ 2003ءمےں سیرالیون کی خصوصی عدالت نے خانہ جنگی کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں پر فرد جرم عائد کی۔ زیادہ تر مجرمان حراست مےں لے لئے گئے یا روپوشی کے دوران قتل کر دیئے گئے۔
11اگست 2007ءکے روز ہونے والے انتخابات مےں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سرکاری مشاہدہ نگاروں نے ان انتخابات کو آزاد، منصفانہ اور قابل بھروسہ قرار دیا۔ پیپلز پارٹی کو فتح حاصل ہوئی اور اس کے قائد ارنسٹ بائی کوروما نئے صدر بنے۔
No comments:
Post a Comment