Ad

Ad

Saturday, 11 August 2012

”اسلام کا گاندھی“ فتح اللہ گولین Muslim Gandhi

ترکی کے ایک سکالر فتح اللہ گولین کے دنیا بھر میں لاکھوں عقیدت مند ہیں۔ فتح اللہ گولین خود کو ”اسلام کا گاندھی“ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ گولین تحریک کے 140 ممالک میں سکول ہیں اور یہ تحریک بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کی دعویدار ہے تاہم اس کے مطابق ارکان اس تحریک کو ایک فرقہ قرار دیتے ہیں۔ اور ان کے خیال ہے کہ یہ فرقہ ترکی میں اقتدار کی سازش کررہا ہے۔ اس تحریک کے کام کا انداز بھی انوکھا ہے۔ گولین تحریک نے جرمنی میں ”کلچرل اولمپکس“ کا منصوبہ بنایا ہے جس کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس اولمپکس کےلئے کوالیفائنگ مقابلے جاری ہیں۔ اس انوکھے المپک میں رقص اور موسیقی کے مقابلے ہوںگے۔ بظاہر اس اولمپک کا مقصد مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو مل جل کر رہنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس تحریک کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے اس کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے گھبراتے ہیں اور وہ اس تحریک کو ”قدامت پسند خفیہ تنظیم“ کا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ تنظیم ترکی میں سیمات (Cemmat)کے نام سے جانی جاتی ہے اور اپنے مستقبل کی لیڈر شپ کی تربیت کےلئے تنظیم نے ’ہاﺅسز آف لائٹ“ کے نام سے ادارے بنا رکھے ہیں جن میں ہاسٹل کا انتظام ہے اور قرآن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ تنظیم کے ارکان فتح اللہ گولین کو ”گرو“ قرار دیتے ہیں۔ تنظیم کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب اسلام مغرب پر غالب آجائےگا“۔ وکی لیکس نے ایک مراسلہ جاری کیا تھا جو 2010ءکا تھا اس میں امریکی سفارتخانے نے لکھا تھا کہ گولین تحریک ترکی کا سب سے مضبوط اسلامی گروپ ہے۔ گولین تحریک بڑے کاروبارں ، تجارت اور اشاعتی اداروں میں اثر و رسوخ کی حامل ہے“ گولین تحریک کے چند ایک سابق ارکان نے تنظیم کے بارے میں ڈرتے ڈرتے ایک جرمن جریدے سے بات کی کیونکہ ان کو گولین اور ان کے پیروکاروں سے خطرہ ہے۔ جرمنی میں گولین تحریک سے وابستہ رہنے والے ایک شخص نے جو ”ہاﺅس آف لائٹ“ میں بھی مقیم رہا نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک جرمن ادارے سے گریجویشن کرنے کے بعد ”ہاﺅس آف لائٹ“ میں منتقل ہوا تھا۔ وہ گولین کے خطابات سے متاثر تھا جو اس نے انٹرنیٹ پر دیکھے تھے۔ اس کے مطابق ہاﺅس آف لائٹ میں زندگی عام طالبعلم کی زندگی سے بہت مختلف اور مشکل تھی۔ ہاﺅس آف لائٹ میں صرف مرد رہتے تھے اور خاتون ملاقاتی کا داخلہ ممنوع تھا۔ ایک سپروائزر جسے سب ”بڑا بھائی“ کہہ کر پکارتے تھے ہر روز کے معمولات کا تعین کرتا تھا۔ اس کا حکم چلتا تھا کہ کب پڑھنا ہے کب کھانا اور کب سونا ہے۔ ہمارے گرد اس طرح گارڈ ہوتے تھے جیسے کہ ہم قیدی ہوں۔ ہاﺅس آف لائٹ ترکی، جرمنی اور امریکہ سمیت کئی ممالک میں قائم ہیں۔ صرف برلن میں ان کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔ گولین تحریک سکول سے یونیورسٹی تک بچوں کو رہائش اور تعلیم کی سہولت دیتی ہے اور اس کے بدلے ان سے تاحیات خدمات کی توقع رکھتی ہے۔ فتح اللہ گولین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ طالبعلم کو دن رات پڑھنا اور کام کرنا چاہیے اور سویا ہوا نظر نہیں آنا چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو وہ دن میں 3گھنٹے آرام کر سکتا ہے۔ اور 2گھنٹے دیگر ضروریات پر صرف کر سکتا ہے اور باقی تمام وقت اسے خدمت اور پڑھنے پر لگانا چاہیے۔ طالبعلم کی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہونی چاہیے۔ ماسوائے چند ایک مخصوص حالات کے، گولین طالبعلموں کو کافروں سے دوستی کا مشورہ دیتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ اگر اپنے اصل مقاصد چھپانا پڑیں تو کوئی حرج نہیں ہمیں ایک مکڑے کی طرح ہونا چاہیے جو خاموشی سے جال بنتا ہے اور لوگ اس جال میں گھر جاتے ہیں“ تنظیم کے سابق رکن نے بتایا کہ تنظیم انے اس پر فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی کہ اسے کس شعبہ زندگی میں جانا چاہیے۔ اور کیا پیشہ اختیار کرنا چاہیے۔ دیگر سابق ارکان کے مطابق انہیں تحریک کے اندر ہی شادی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس تحریک نے کئی ”مذاکراتی فورم“ بھی بنا رکھے ہیں جن میں ایک فورم بین الثقافتی امور پر ہے اس فورم کے تحت یہودیوں کے ربی، عیسائیوں کے پاسٹر اور مسلمان ائمہ کو اکٹھا کرکے استنبول کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ گولین کے حامیوں کا ایک اخبار بھی ترکی سے شائع ہوتا ہے۔ ”زمان“ ترکی میں کثیر الاشاعت اخبار ہے۔ جس کے یورپ کے ایڈیشن بھی ہیں۔ ایک ماہانہ میگزین ” دی ناﺅنٹین“ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔ ان کے دو ٹی وی چینل بھی ہیں۔ آجروں کی ایک تنظیم بھی بنی ہوئی ہے۔ جس میں صرف جرمنی کی 150کمپنیوں کے مالک شامل ہیں۔ جرمنی کے کئی اہم سیاستدان جن میں وزیر بھی شامل ہیں۔ اور تنظیم کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔ گولین تحریک کو بڑے کاروباری لاکھوں کے عطیات دیتے ہیں جبکہ پیشہ ور ملازم بھی چھوٹے چھوٹے عطیات دیتے ہیں۔ اس تحریک کے ارکان اپنی آمدن کا دس فیصد تنظیم کو دیتے ہیں۔ گولین کا ایک نعرہ یہ بھی ہے کہ ”مسجدوں کے بجائے سکول بناﺅ“ ایک تقریر میں گولین نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی کہ وہ ترکی حکومت کو کمزور کریں اور اقتدار کےلئے کام کریں۔ اس نے کہا ”تم سب اس نظام کو رگوں میں داخل ہو جاﺅ اور کسی کو علم بھی نہ ہو جہاں تک کہ تم طاقت کے مراکز میں پہنچ جاﺅ“ اس تقریر کی ریکارڈنگ منظر عام پر آنے کے بعد گولین کو ترکی چھوڑنا پڑا اور وہ امریکہ چلا گیا۔ اس تنظیم کا کوئی خط وکتابت کا پتہ ، ای میل ایڈریس یا بنک اکاﺅنٹ نہیں۔ گولین تحریک جہاد یا شریعت کا نام نہیں لیتی اور خفیہ طریقے سے کام کرتی ہے۔ گولین کے معتمدین کو ”برادر“ کہا جاتا ہے، کسی بھی خطے کا انچارج ”برادر“ کہلاتا ہے اور اسی طرح نیچے کی سطح پر انچارج ”برادر“ کہاجاتا ہے۔ امریکی سفارتخانے کے ایک مراسلے کے مطابق طیب اردگان کی جماعت گولین تحریک کی مدد سے اقتدار میں آئی اور ارکان پارلیمنٹ کی نصف تعداد گولین تحریک کی رکن ہے۔ ترک پولیس کے 80فیصد بڑے عہدے گولین تحریک کے ارکان کے قبضے میں ہیں۔ ترکی میں امریکی سفیر جیمز جیفری نے 2009ءمیں ایک مراسلے میں لکھا تھا کہ ترک نیشنل پولیس گولین تحریک کے احکامات پر عمل کرتی ہے اس کی تصدیق مشکل ہے لیکن اصل حقیقت یہی ہے، ترک پولیس میں بڑے عہدوں پر براجمان گولین تحریک کے ارکان مخالفین کے فون تک ٹیپ کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment