چاڈ
Chad
محل وقوع
براعظم شمال وسطی افریقہ مےں واقع اس ملک کے شمال مےں لیبیا، مشرق مےں سوڈان، جنوب مےں جمہوریہ وسطی افریقہ اور مغرب مےں نائیجریا اور کیمرون واقع ہے۔ زیادہ تر حصہ صحرائی ہے۔ چاروں طرف سے خشک پہاڑوں مےں گھرا ہوا ہے۔ نشیب کے علاقے مےں جھیل چاڈ ہے جو 7000 مربع میل علاقے مےں پھیلی ہوئی ہے جو ملک کی معیشت مےں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
لوگ
85فیصد لوگ مسلمان ہےں۔ 23فیصد لوگ شہروں مےں رہتے ہےں۔ نسلی گروہوں کی تعداد کم و بیش 200 ہے۔ بربر، عرب، بنتو، زعاوا اور کانم اہم قبیلے ہےں۔ لوگ فرانسیسی اور عربی بولتے ہےں۔ 100کے قریب دیگر علاقائی زبانیں ہےں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شرح خواندگی 47فیصد کے قریب ہے تاہم غیر سرکاری اعداد و شمار اسے 20فیصد سے بھی کم ثابت کرتے ہےں۔ لوگوں کی اوسط عمر بہت کم ہے۔ 39سال مرد اور 41سال عورتوں کی اوسط عمر ہے۔ شرح پیدائش 3فیصد ہے۔
وسائل
چاڈ دنیا کا غریب ترین ملک ہے اور اس کی غربت کی بڑی وجوہات خانہ جنگی اور قحط سالی ہےں۔ زراعت 85فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش ہے۔ اہم فصلوں مےں گندم، چاول، مونگ پھلی، باجرہ، چمڑا اور کھالیں ہےں۔ آمدنی کا دوسرا ذریعہ گلہ بانی ہے۔ کپاس سے بڑی فصل ہے۔ یونیم، نمک، نیٹرون اور باکسائٹ کے ذخیرے موجود ہےں۔
پارچہ بافی اہم صنعت ہے۔ دارالحکومت انجمینہ اہم صنعتی مرکز ہے۔ غذاﺅں کو ڈبہ بند کرنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ ماہی گیری بھی اہم صنعت ہے۔
ریلوے کا نظام یہاں نہیں ہے۔ 31000کلومیٹر لمبی سڑکیں ہےں۔ چاڈ کی اپنی فضائی سروس ہے اور دارالحکومت مےں ہوائی اڈہ موجود ہے۔
اہم درآمدات مےں موٹریں، آٹا، چینی، سیمنٹ، پٹرولیم، چائے، مشینری اور ٹیکسٹائلز شامل ہےں جبکہ برآمدات مےں محض مویشیوں کا گوشت، مچھلی، روئی اور کپاس کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
آج سے 500سال ق م مےں بھی یہاں زندگی کے آثار موجود تھے۔ مسلمان یہاں آٹھویں صدی عیسوی مےں آئے۔ یہاں اسی دوران بربر قبائل آکر آباد ہوئے۔ گیارہویں صدی مےں یہ ملک سارے کا سارا مسلمان ہوگیا۔ بورنو اور کانم حکومتوں کے ایک ہونے پر مملکت چاڈ معرض وجود مےں آئی۔ 1910ءمےں اسے فرانسیسی استوائی فیڈریشن مےں شامل کیا گیا۔ 1946ءمےں فرانس کی نوآبادیاتی بستی بن گیا۔ چاڈ ایک عظیم الشان اور طویل جدوجہد کے بعد 28نومبر 1958ءمےں آزاد ہوا۔ مکمل آزادی 1960ءمےں 11اگست کے روز ملی۔ اس کے پہلے صدر فرانسو نجیلور تھے۔ 1975ءمےں ان کی وفات کے بعد جنرل فلیکس میلورا صدر بن گئے۔
1977ءمےں لیبیا نے یہاں فوجی کارروائی کی جس کے نتیجے مےں ملک مےں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ 1980ءمےں صدر گوکون اودی نے مذاکرات کے ذریعہ لیبیا کو اپنی فوجیں واپس بلانے پر رضامند کر لیا۔ 1982ءاکتوبر مےں چاڈ کے نئے صدر حسن ہیبرے ملک بن گئے۔ امن و امان کے لئے فرانس کے تین ہزار فوجی 1983ءمےں آئے۔ 1984ءمےں فرانس اور لیبیا نے یہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا لینے پر رضامندی کا اظہار کیا مگر 1987ءتک لیبیا کی فوجیں یہاں موجود رہیں جس کے نتیجے مےں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات ختم ہوگئے جو اکتوبر 1988ءمےں بحال ہوئے۔
اگست 1989ءمےں دونوں ملکوں مےں اتفاق رائے ہوا اور متنازعہ علاقے (جس مےں یورینیم کی فراوانی ہے) کے اختلافی مسائل ایک سال مےں مل بیٹھ کر حل کر لئے گئے۔ 10دسمبر 1989ءکو عام انتخابات کے نتیجے مےں حسن ہیبرے مزید سات سال کے لئے صدر منتخب ہوگئے۔ دسمبر 1990ءکو ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور کرنل ادریس دبائی نئے صدر بن گئے۔ 4مارچ 1991ءکو ژاں ایلنگوے بادےو ملک کے نئے وزیراعظم بنے۔ مئی 1992ءمےں جوزف یورومن اور 1993ءمےں ڈاکٹر فیڈلمونگر ملک کے نئے وزیراعظم بنے۔
1994ءمےں نئے آئین کی تشکیل ہوئی اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہائی مل گئی۔ 1996ءمےں ادریس دبائی نے انتخابات جیت لئے اور 2001ءمےں بھی دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔ تاہم انکے خلاف ہر سال بغاوتیں ہوتی رہیں۔
2000ءمےں عالمی بنک کے تعاون سے پائپ لائن تعمیر ہوئی جس کے ذریعے چاڈ مےں تیل کے کنوﺅں کو کیمرون کے کنوﺅں سے منسلک کیا گیا۔ اس منصوبے کی نگرانی ورلڈ بنک نے اپنے ہاتھ مےں رکھی جس پر اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اکتوبر 1998ءسے لے کر ستمبر 2002ءتک ”تریک چاڈ برائے انصاف و جمہوریت“ کے باغیوں اور حکومت کے درمیان جنگ چلتی رہی جس مےں سینکڑوں شہری، حکومتی سپاہی اور باغی مارے گئے مگر کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اس تحریک کا دائرہ کار تبستی کے علاقے تک محدود تھا۔ دیگر علاقوں سے اگرچہ مسلح مزاحمت کے آثار ہویدا نہیں ہوئے مگر فسادات وغیرہ ہوتے رہے جنہیں دبانے کے لئے حکومتی افواج کو حرکت مےں آنا پڑا۔
مئی 2001ءمےں دبائی نے صدارتی انتخابات مےں کامیابی حاصل کی لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان انتخابات کو ”نقص زدہ“ قرار دیا اور نئی حکومت کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کی تاہم ان کی کوششیں ناکام رہیں۔
2003ءمےں مشرقی چاڈ مےں مغربی سوڈان کے خطے دارفور کے پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دو لاکھ سے زیادہ پناہ گزین دو باغی گروہوں اور حکومت کی حمایت ملیشیاز کے درمیان ہونے والی جنگ سے بچنے کے لئے چاڈ مےں آگئے۔ صدر ادریس دبائی نے سوڈان کے صدر عمر حسن احمد البشیر پر الزام لگایا کہ وہ دارفور کی جنگ کو چاڈ مےں دھکیل کر چاڈ کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہےں۔ سرحد پر ہونے والے کئی دیگر واقعات کا نتیجہ چاڈ اور سوڈان کے درمیان جنگ کی صورت مےں نکلا۔
حکومت چاڈ کے بقول، چاڈ مےں اٹھنے والی بغاوتوں کو سوڈان کی حمایت حاصل ہے۔ چھوٹی بڑی جھڑپوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد 25نومبر 2006ءکے روز باغیوں نے مشرقی قصبے ابیچے پر قبضہ کر لیا۔ اسی روز بلتائن کے قصبے پر بھی باغیوں کا قبضہ ہوگیا۔ باغیوں کے ان دونوں گروہوں کو سوڈانی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اگلے روز چاڈ کی حکومت نے اعلان کیا کہ دونوں قصبوں کا کنٹرول باغیوں سے چھین لیا گیا ہے۔
یکم اپریل 2008ءکے روز باغیوں کے ایک گروہ نے چاڈ کے دارالحکومت انجمینہ پر حملہ کر دیا اور صدارتی محل کے گرد گھیرا ڈالنے مےں کامیاب ہوگئے۔ تاہم چاڈ کی افواج لڑ کر باغیوں کو پیچھے ہٹانے مےں کامیاب ہوگئیں۔ فرانسیسی افواج کی طرف سے ملنے والے اسلحے نے اس کامیابی مےں اہم کردار ادا کیا۔
No comments:
Post a Comment