سعودی عرب
Saudi Arabia
محل وقوع
سعودی عرب براعظم ایشیا مےں مشرق وسطیٰ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مےں اردن، عراق اور کویت واقع ہےں۔ سعودی عرب کے جنوب مےں شمالی اور جنوبی یمن مغرب مےں بحیرہ ¿ احمر جبکہ مشرق کی سمت خلیج فارس، قطر، متحدہ عرب امارات اور عمان واقع ہےں۔
سعودی عرب کے میدانی علاقوں مےں آب و ہوا صحرائی ہے۔ سخت گرمی اور رطوبت ہوتی ہے۔ بارشیں بہت کم ہوتی ہےں۔ پہاڑی علاقوں مےں موسم معتدل ہوتا ہے اور تھوڑی بہت سردی ہوتی ہے۔ گرمیوں مےں بھی معمولی بارشیں ہوتی ہےں۔ بارشیں باقاعدہ نہیں ہوتی ہےں۔ تہامنتراشام اہم پہاڑی سلسلہ ہے۔
لوگ
یہاں کے سو فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ 121فی مربع میل مےں رہتے ہےں۔ یہ تمام لوگ عرب نسل ہےں۔ لوگ 65فیصد پڑھے لکھے ہےں۔ تعلیم عام اور مفت ہے۔ نجی طور پر سکول اور کالج قائم ہےں۔
سعودی عرب مےں مردوں کی اوسط عمر 65سال اور عورتوں کی 68سال ہے۔ آبادی مےں 3.1فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 406افراد کےلئے ہسپتال کا ایک بستر اور 852کےلئے ایک ڈاکٹر حصہ مےں آتا ہے۔ تمام ہسپتالوں مےں علاج معالجے کی سہولیات مفت ہےں۔
وسائل
جو، کھجوریں، گندم، باجرہ، پھل اور دالیں اہم زرعی اجناس ہےں۔ حکومت جدید خطوط پر زراعت کو بڑھا رہی ہے جس کے نتیجے مےں گندم مےں ملک خودکفیل ہوگیا ہے۔ یہاں زرعی بنک قائم ہے۔ تیل سعودی عرب مےں بہت ہے۔ سونے، لوہے، تانبے اور گیس کے ذخائر بھی موجود ہےں۔ سعودی عرب کے بجٹ کے 90فیصد اخراجات تیل کی آمدنی سے پورے ہوتے ہےں۔
صنعتوں سے ملک کی تقریباً 4فیصد آبادی منسلک ہے۔ کل قومی پیداوار کا 8فیصد صنعت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ٹیکسٹائل، قالین سازی، جفت سازی اور کھجوروں کی ڈبہ بندی، سنگ مر مر، چونا سازی، سیمنٹ، صابن، فرنیچر اور المونیم کی تیاری اہم صنعتیں ہےں۔ کھاد کی تیاری اور تیل صاف کرنے کے کارخانے بھی ہےں۔ یہاں کے کارخانوں مےں زیادہ تر غیر ملکی افراد کام کرتے ہےں۔ ایلومنیم پلانٹ بھی قائم ہےں۔ دمام، جدہ اور دہران اہم صنعتی شہر ہےں۔ سمندر سے موتی نکالنے کی صنعت بھی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ حکومت چھوٹے تباہ کن جہاز بھی بنا رہی ہے۔ یہاں ریل، گاڑیاں اور ہوائی جہاز آمد و رفت کا ذریعہ ہےں۔ 550میل لمبی ریلوے لائن موجود ہے جو دمام اور ریاض کے درمیان ہے۔ پچیس ہزار میل لمبی سڑکیں ہےں۔ 25ایئرپورٹس ہےں، اپنا بحری بیڑا ہے۔ دمام، جدہ اور راس تنورہ اہم بندرگاہیں ہےں جہاں ہر وقت بڑے بڑے تیل اور بردار جہاز کھڑے نظر آتے ہےں۔ یہ ملک اور اس کے باشندے دنیا کے خوشحال ترین لوگ ہےں۔
دنیا مےں تیل کے سب سے بڑے ذخیروں کے مالک ہونے کے باولت، اور تیل کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اس کی قیمتوں مےں ہونے والے اضافے نے سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ کی ایک بڑی اقتصادی قوت بنا دیا ہے۔ حالیہ سالوں مےں سعودی عرب مےں انفراسٹرکچر، سائنس اور ٹیکنالوجی مےں سرمایہ کاری مےں بے پناہ اضافہ دیکھنے مےں آیا ہے جو کہ آئندہ معاشی ترقی کے لئے نہایت خوش آئند ہے۔
اہم درآمدت مےں اشیائے صرف و خوردنی، مسافر کاریں، کیمیکل پروڈکٹس، عمارتی سامان اور ٹرانسپورٹ کا سامان شامل ہےں جبکہ برآمدات 99فیصد پٹرولیم اور پٹرولیم کی مصنوعات پر مشتمل ہےں۔
تاریخ
سعودی عرب کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اتنی ہی قدیم جتنا خود انسان۔۔۔۔ دنیائے اسلام کے لئے یہ ملک بہت مقدس ہے۔ اس کی سرزمین بہت مقدس ہے کیونکہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ یہاں موجود ہے اور یہیں سے اسلام کا نور پھوٹا تھا جس کی روشنی سے چہاردانگ عالم منور ہوئے اور جس ہستی کے ذریعے اسلام ہم تک پہنچا، اس نے یہاں ہی جنم لیا۔ 571ءمےں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ مکرمہ مےں پیدا ہوئے اور ان کے جد امجد حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام نے یہاں خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اسلام کو پھیلایا اور اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ صدیق کے دور حکومت مےں اسلامی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی۔
644ءتک مشرق وسطیٰ کا بیشتر علاقہ اسلامی قلمرو مےں شامل ہو چکا تھا اور اس کی سرحدیں سپین، شمالی افریقہ اور ہندوستان تک پھیل گئی تھیں۔ 1055ءمےں سلجوق اور ترکوں نے بغداد کو فتح کر لیا۔ اس کے بعد ایوبیوں اور مملوکوں نے یہاں حکومت کی۔ 1517ءمےں سلطان سلیم اول نے مصر و حجاز پر قبضہ کر لیا اور خادم الحرمین کا لقب اختیار کیا۔ 1741ءمےں محمد بن عبدالوہاب نے توحید کا پرچم بلند کیا۔ پھر محمد بن سعود کے فرزند اور جانشین عبداللہ اول نے مصری حکمران محمد علی کو 1815-16ءمےں شکست دی۔ 1902ءمےں عبدالعزیز بن سعود نے پورے نجد پر قبضہ کر لیا اور 1925ءمےں حجاز تک اپنا تسلط جما لیا۔ عبدالعزیز نے 1932ءمےں اسے متحد کیا۔
1935ءمےں یہاں سے تیل دریافت ہوا۔ 1945ءمےں اقوام متحدہ کا ممبر ملک بن گیا۔ 9فروری 1953ءکو شاہ سعود ابن عبدالعزیز یہاں کے بادشاہ بنے جو 2نومبر 1964ءکے روز شاہ فیصل کے حق مےں دستبردار ہوگئے۔ 1967ءمےں سعودی عرب نے عرب اسرائیل جنگ مےں مصر، شام اور اردن کی مالی مدد کی۔ 1968ءمےں ایران کے ساتھ ساحلی پٹی کی نشاندہی کا معاہدہ ہوا۔ رباط مےں 1969ءمےں اسلامی ممالک کی تنظیم کے قیام کے سلسلے مےں اہم کردار ادا کیا۔ 1975ءمےں شاہ فیصل کو ان کے بدبخت بھتیجے نے شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد شہزادہ خالد بادشاہ بنے۔ 1979ءمےں 25مسلح انتہاپسندوں نے بیت اللہ پر قبضہ کر لیا تاہم جلد ہی ان پر قابو پا لیا گیا۔ 1981ءمےں عراق کے ساتھ نیوٹرل زون کی تقسیم ہوئی۔ 1987ءمےں شاہ خالد انتقال کر گئے۔ ان کی وفات کے بعد شہزاد فہد بادشاہ بن گئے۔
جولائی 1987ءمےں مکہ مکرمہ مےں ایرانی عازمین حج کے احتجاج کے نتیجے مےں 350حاجی شہید ہوئے۔ 1990ءمےں عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو کویت کو آزاد کرانے مےں سعودی عرب نے بڑی مدد کی اور اس سلسلہ مےں متحدہ فوجوں نے سعودی عرب کے تعاون سے ہی عراق کے خلاف جنگ لڑی۔ سعودی عرب کے اس اقدام نے کئی مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کر دیئے کیونکہ ان کے خیال مےں غیر ملکی افواج کو سعودی عرب مےں اترنے کی اجازت دینا اس مقدس سرزمین کی بے حرمتی تھی۔ 1991ءکی جنگ خلیج سے پہلے اور اس کے دوران شاہ فہد نے کلیدی کردار ادا کیا۔ سعودی عرب نے کویت کے شاہی خاندان کو پناہ دی اور اس کے ساتھ چار لاکھ پناہ گزینوں کو بھی قبول کیا۔ جنگ کے دوران عراق نے سعودی عرب پر سکڈ میزائل فائر کئے تاہم کوئی قابل ذکر نقصان پہنچانے مےں ناکام رہا۔
نومبر 1995ءمےں شاہ فہد پر فالج کا حملہ ہوا۔ اس دوران عسکریت پسند سعودی عرب مےں موجود غیر ملکی افواج کے خلاف حرکت مےں آچکے تھے۔ اسی ماہ سعودی عرب مےں نیشنل گارڈ بیس پر حملہ ہوا اور سات افراد ہلاک ہوگئے۔ جون 1996ءمےں الخوبار مےں امریکی فوجیوں پر ٹرک بم سے حملہ کیا گیا جس مےں 19امریکی فوجی ہلاک ہوگئے۔ ان حملوں کے بعد دنیا کو دہشت گردی سے لاحق خطرے کے خدوخال اجاگر ہونا شروع ہوگئے۔
جون 2000ءاور مارچ 2001ءمےں ہونے والے معاہدوں کے ذریعے سعودی عرب نے یمن اور قطر کے ساتھ اپنی سرحدوں کا تعین کر کے پرانے تنازعات ختم کر دیئے۔
11ستمبر 2001ءکے حملوں کے بعد انکشاف ہوا کہ 19مبینہ ہائی جیکروں مےں سے 15کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ اس انکشاف نے ایک بار پھر سعودی عرب کو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ عسکریت پسندوں کے خلاف سعودی عرب کے موقف پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ مےں اپنے تعاون کی بھرپور یقین دہانی کرائی تاہم مئی 2003ءمےں القاعدہ کی پشت پناہی مےں عسکریت پسندوں نے حکومت کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ ان کارروائیوں مےں غیر ملکیوں پر حملوں کو خصوصی اہمیت حاصل تھی تاکہ سعودی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ اگرچہ اب ان کارروائیوں پر خاصی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن سعودی عرب مےں امریکہ مخالف جذبات مےں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
جولائی 2005ءمےں شاہ فہد کا انتقال ہوگیا اور ان کی جگہ ان کے بھائی شہزادہ عبداللہ تخت نشین ہوئے۔
No comments:
Post a Comment