لبنان
Lebanon
آزادی، 22نومبر 1943ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ لبنان۔ سرکاری زبان، عربی، فرانسیسی۔ طرز حکومت، پارلیمانی جمہوریہ۔ کرنسی، لبنانی پاﺅنڈ۔ فی کس آمدن، 13373ڈالر۔ کل رقبہ، 10452مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، بیروت۔ اہم شہر، طرابلس، زاہلے، بابدا، بعلبک، جزین۔ آبادی، 4,224,000 (تخمینہ 2009ئ)۔
محل وقوع
یہ مشرق وسطیٰ کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ براعظم مغربی ایشیاءمےں واقع ہے۔ اس کے شمال اور مشرق مےں شام، جنوب مےں اسرائیل اور مغرب مےں بحیرہ روم واقع ہےں۔ اس کی شمالاً جنوباً لمبائی 135میل اور شرقاً غرباً چوڑائی 55میل ہے۔
جبل لبنان اہم پہاڑی سلسلہ۔ بلند ترین چوٹی قرنات السودا 10131 فٹ بلند ہے۔ عاصی اور لیطافی یہاں کے مشہور دریا ہےں۔ اس کی آب و ہوا بحیرہ روم سے ملتی جلتی ہے۔ گرمیاں خشک اور بارشیں کم اور سردیوں مےں سردی کم پڑتی ہے۔ یہ براعظم ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔
لوگ
یہاں کے 75فی صد لوگ مسلمان ہےں جبکہ 25فی صد عیسائی ہےں۔ نسلی اعتبار سے 95فیصد باشندے عرب جبکہ 4 فیصد آرمینیائی ہےں۔ لوگ عرب کے علاوہ فرانسیسی، جرمن، اطالوی، آرمینی اور انگریزی زبانیں بول اور سمجھ لیتے ہےں۔
5سال کے بچے کو پڑھنے کے لئے سکول بھیجنا لازمی ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کا سب سے زیادہ خواندہ علاقہ ہے۔ 95فیصد بچے سکولوں مےں جاتے ہےں۔ خواندگی کا تناسب 75فی صد ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 66سال اور عورتوں کی 71سال ہے۔ آبادی مےں اضافے کی شرح 2.1فیصد سالانہ ہے۔ 263افراد کے حصے مےں ہسپتال کا ایک بستر اور 771افراد کے لئے ایک ڈاکٹر آتا ہے۔ اطفال مےں اموات کی شرح 52فی ہزار ہے۔
وسائل
تر شادہ پھل، سیب، انگور،آلو، چقندر، جو، تمباکو، کیلا، انجیر اور گندم یہاں کی اہم فصلیں ہےں۔ 35فی صد رقبہ زیر کاشت ہے اور 11 فی صد لوگ اس پیشے سے منسلک ہےں۔ خام لوہا، تانبا، چینی مٹی، فاسفیٹ اور اسفالٹ اہم معدنیات ہےں۔ سیاحت اس ملک کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ اس کے علاوہ خوراک کو ڈبہ بند کرنا، سیمنٹ، کیمیائی اشیاءاور تیل کی مصنوعات اہم صنعتیں ہےں۔ ریلوے کا نظام کافی وسیع ہے جو شام اور ترکی سے مربوط ہے۔ 6000ہزار میل لمبی سڑکیں ہےں۔ بیروت، طرابلس اور حیرا مشہور بندرگاہیں ہےں۔
تاریخ
یہ بہت قدیم ملک ہے۔ اس پر حطیطی، رومی اور بازنطینی حکمران حکومت کرتے رہے۔ ساتویں صدی عیسوی مےں عربوں نے اس کے کچھ حصہ پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کی فتح کے بعد سے پہلی جنگ عظیم تک اس پر ترک حکمران رہے۔
جنگ عظیم اول مےں جب خلافت عثمانیہ بکھر گئی اور اس کے زیر اقتدار علاقوں کو الگ الگ ریاستوں مےں تقسیم کر کے یورپی ممالک نے ان پر قبضہ جما لیا تو شام کا شمالی حصہ فرانس کے تسلط مےں چلا گیا۔ شام کا جنوبی حصہ، جس مےں فلسطین کا علاقہ شامل تھا، برطانیہ نے اپنے قبضے مےں لے لیا کیونکہ برطانیہ اعلان بالفور کے تحت یہودیوں سے فلسطین کے علاقے مےں ان کی حکومت قائم کرنے کا وعدہ کر چکا تھا۔
1943ءتک لبنان کسی مستقل ملک کا نام نہ تھا۔ فرانس نے اپنی نو آبادیاتی مصلحتوں کے تحت شام کے پانچ اضلاع کو ملا کر لبنان کے نام سے ایک نئی ریاست قائم کی۔ 1944ءمےں جنگ عظیم دوم مےں شکست کھانے کے بعد فرانس نے شام اور اپنی ساختہ نئی مملکت لبنان کے عوام کو الگ الگ اختیارات حکومت دے دیئے۔ تاہم اس کے فوجی دستے 1946ءتک دونوں ملکوں مےں موجود رہے۔
1958ءمےں صدر کمال شمعون کی مغرب نواز پالیسی کی مخالفت نے بغاوت کا روپ دھار لیا۔ بغاوت اتنی شدید کہ صدر شمعون نے امریکہ سے فوجی امداد کی درخواست کی۔ نئی حکومت بننے تک امریکہ کی فوجیں لبنان مےں رہیں۔
1970ءمےں سلیمان صدر منتخب ہوئے اور رشید کرامی کی جگہ وزارت عظمیٰ سلام کے حصے مےں آئی۔ 1972ءمےں میونخ اولمپکس کے کھلاڑیوں کے قتل کا انتقام لینے کے لئے اسرائیل نے لبنان مےں فلسطین کے گوریلا ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ 1973ءمےں اسرائیلی چھاپہ ماروں نے بیروت پر حملہ کیا اور تین گوریلا لیڈر ہلاک کر دیئے۔ اس واقعے کے نتیجے مےں بیروت مےں گوریلوں اور لبنانی فوج کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی جو دو ہفتوں تک جاری رہی۔ وزیراعظم سلام کو استعفیٰ دینا پڑا۔ نئے وزیراعظم تقی الدین صلح نے مصالحت کی کوشش کی لیکن گوریلوں کی سرگرمیاں اور اسرائیلی فوجی کارروائیاں اکتوبر 1973ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بھی جاری رہیں۔
1975ءمےں عیسائیوں، مسلمانوں اور فلسطینی گوریلوں کے مابین جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ 1976ءمےں الیاس سارکس لبنان کے صدر بنے۔ 19اپریل 1981ءکو عیسائی ملیشیا کے سربراہ میجر سعد مراد جنوبی لبنان کے صدر بنے اور اس کا نام آزاد لبنان رکھا۔ اس پر ان کے اوپر غداری کا مقدمہ چلا۔ یکم اپریل 1981ءکے روز شامی فوجوں اور عیسائی ملیشیا کے مابین پھر جھڑپیں ہوئیں۔ 24جولائی 1981ءکو اسرائیل اور فلسطینی گوریلوں کے درمیان جنگ بندی کا سمجھوتہ ہوا مگر اس کے باوجود جنگ جاری رہی۔ 10جون 1982ءکو اسرائیلی فوجیں بیروت کے نواح تک پہنچ گئیں۔ اس جنگ مےں ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے اور بالآخر جنوبی لبنان فلسطینیوں کو خالی کرنا پڑا۔ 14ستمبر 1982ءتک تمام فلسطینی لبنان سے چلے گئے۔
مئی 1985ءمےں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ 1986ءمےں پی ایل او کے اڈوں پر اسرائیل نے فضائی حملے کئے۔ یکم جون 1987ءکو وزیراعظم رشید کرامی فضائی حادثے مےں جاںبحق ہوگئے۔ 1988ءمےں امین جمائل صدارت سے دستبردار ہوگئے۔ میکائل عون نے اقتدار سنبھالا مگر وزیراعظم سلیم الحوص نے ان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا۔ کاسابلانکا، مراکش مےں عرب راہنماﺅںکی کوششوں سے لبنانی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا۔ مارونی عیسائی رینی معوض صدر اور مسلم الحوص وزیراعظم نامزد ہوئے۔ 22نومبر 1989ءمےں صدر کار بم دھماکے مےں ہلاک ہوگئے۔ ان کی جگہ الیاس ہراوی 24نومبر 1989ءکو صدر بنے۔ مئی 1991ءمےں منعقدہ انتخابات مےں عیسائیوں نے حصہ نہ لیا۔ ان کا موقف تھا کہ لبنان سے شامی فوجیں چلی جائیں۔ جنوری 1993ءمےں عیسائی ملیشیاءدو حصوں مےں منقسم ہوگئی۔
3اپریل 1991ءکو بیروت مےں متعین فرانسیسی سفیر نے سابق صدر جنرل عون کو فرانس مےں سیاسی پناہ کی پیش کش کی جو انہوں نے مان لی۔ 27اگست 1991ءکو لبنان حکومت نے جنرل عون کو 5سال لبنان مےں نہ آنے اور سیاست مےں ساری زندگی حصہ نہ لینے کی شرط پر معاف کر دیا۔ لبنانی مسلمان جنرل عون کو قاتل اور جلاد کہتے ہےں۔ لبنان مےں یرغمالیوں کی رہائی اگست 1991ءکے پہلے عشرے مےں شروع ہوئی۔ ایران نے اس سلسلہ مےں اہم کردار ادا کیا۔ ایک صحافی جو 5سال سے یرغمال تھا، رہا کر دیا گیا۔ انہی دنوں مےں امریکی یرغمالی بھی رہا ہوئے۔ اسی سال مےں لبنان نے شام کی پشت پناہی سے تمام پرائیویٹ گوریلا تنظیموں کا خاتمہ کیا اور یوں سولہ سالہ خانہ جنگی ختم ہوئی۔
جون 1999ءمےں اسرائیل کی فضائیہ نے جنوبی لبنان پر شدید بمباری کی تاکہ شامی فوج اور حزب اللہ کے گوریلا ٹھکانوں کو ختم کیا جاسکے۔ مئی 2000ءمےں اٹھارہ سال بعد اسرائیل نے لبنان سے اپنی فوج واپس بلا لی۔ 2001ءمےں شام نے بھی بیروت اور اردگرد کے علاقے سے اپنے پچیس ہزار فوجی واپس بلا لئے تاہم اندرون لبنان مےں پندرہ ہزار شامی فوجی موجود رہے۔
2004ءمےں لبنان کے شام نواز صدر ایملی لاہود کو مزید تین برس کے لئے صدر منتخب کر لیا گیا۔ فروری 2005ءمےں سابق وزیراعظم رفیق الحریری بم دھماکے مےں ہلاک ہوگئے اور شام پر بین الاقوامی دباﺅ ڈالا جانے لگا کہ وہ لبنان سے اپنی فوج واپس بلا لے۔
2005ءکے انتخابات کے نتیجے مےں حزب اللہ بھی لبنانی حکومت کا حصہ بن گئی تاہم اقوام متحدہ کی طرف سے اس کے عسکریت پسند حصے کو ختم کرنے کی قرارداد منظور ہونے کی وجہ سے ابھی تک اس کی حیثیت کا تعین نہیں ہو سکا۔
12جولائی 2006ءکے روز اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ حزب اللہ کے نیم فوجی دستوں نے اسرائیل کی باقاعدہ فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور 33دن تک انہیں پیش قدمی کرنے سے روکے رکھا۔ بالآخر اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور 14اگست 2006ءکے روز فائر بندی کا معاہدہ ہوگیا۔ اس جنگ نے اسرائیلی فوج کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو پاش پاش کر دیا۔
٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment