Ad

Ad

Wednesday, 15 August 2012

صومالیہ Somalia History


صومالیہ
Somalia
محل وقوع
یہ ملک براعظم افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مےں خلیج عدن، مشرق اور جنوب مےں بحرہند واقع ہے۔ مغرب مےں کینیا، ایتھوپیا اور جبوتی واقع ہےں۔ ساحلی علاقہ 1700میل تک پھیلا ہوا ہے۔ شمالی علاقہ پہاڑی ہے اور جنوبی علاقہ میدانی ہے۔ یہ تین خطوں الجوبان، اوگو اور ٹوگ پر مشتمل ہے۔ یہاں کی آب و ہوا بڑی گرم اور خشک ہے، مگر جہاں پانی ملتا ہے وہ زمین کاشت کاری کے لئے مفید ہے۔ دس انچ سالانہ سے زیادہ بارشیں نہیں ہوتیں۔
لوگ
یہاں کے 99فیصد لوگ شہروں مےں آباد ہےں۔ زیادہ تر لوگ صومالی نسل سے تعلق رکھتے ہےں۔ 50فی صد بچے سکول جاتے ہےں اور سات فی صد ہائی سکولوں اور کالجوں وغیرہ مےں تعلیم حاصل کرنے کےلئے جاتے ہےں۔ 60سے 65فیصد تک لوگ پڑھے لکھے ہوئے ہےں۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی 100فیصد ہے۔
یہاں کے مردوں کی اوسط عمر 56برس اور عورتوں کی 58برس ہے۔ آبادی مےں 3.3فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 1053افراد کے لئے ہسپتال کا ایک بستر ہے اور 19071افراد کے حصہ مےں ایک ڈاکٹر آتا ہے۔ اطفال مےں شرح اموات 118 فی ہزار ہے۔
وسائل
لوبان، چاول، گنا، کیلا، سورگم، مکئی، مونگ پھلی، کپاس، گوند اور بانس اہم زرعی پیداواریں ہےں۔ ملک کی 82فی صد افرادی قوت زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔ کل آمدنی مےں زراعت کا حصہ تقریباً نصف ہے۔ جانوروں مےں بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالے جاتے ہےں۔
لوہا، قلعی، جپسم، باکسائیٹ اور یورنیم اہم معدنیات ہےں۔ غذاﺅں کو ڈبہ بند کرنا، پارچہ بافی، چمڑا سازی اور فرنیچر کا سامان اہم صنعتیں ہےں۔
اہم درآمدات مےں ٹیکسٹائلز، کھاد، پیٹرولیم، کیمیکلز، زرعی مشینری، کیمیکل پروڈکٹس، عمارتی سامان، ٹرانسپورٹ کا سامان، مشروبات، گھریلو اشیائے صرف، اشیائے خوردنی، مشینری اور پرزہ جات شامل ہےں۔ برآمدات مےں مچھلی، لائیو سٹاک، پٹرولیم پروڈکٹس، کیلا اور کھالوں کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
یہاں کے قبائل دو ہزار سال قدیم ہےں۔ یہاں نویں اور چودھویں صدی کے درمیان ونج سلطنت قائم تھی۔ پرتگالیوں نے پندرھویں صدی مےں ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس علاقے پر قبضہ کرلیا۔ سولہویں صدی مےں مسقط اور اومان کے سلطان نے اس کے ساحلی قصبوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ 18ویں صدی مےں یہ علاقہ اہل زنجبار کو منتقل ہوگیا۔ 1885ءسے 1927ءتک یہ اٹلی کا نو آبادی حصہ رہا۔ 1949ءمےں یہ آزاد ہوگیا مگر 1960ءتک اٹلی کے زیر اثر رہا۔ 26جون 1960ءکو برطانوی علاقے صومالی لینڈ اور ایتھوپیا کو ایک علاقہ قرار دے کر آزاد اور خودمختار علاقہ قرار دیا گیا۔
1960ءسے 1967ءتک عدن عبداللہ عثمان صومالیہ کے صدر رہے۔ ان کے بعد عبدالرشید علی صدر بنے جنہیں 1969ءمےں قتل کر دیا گیا۔ مختار محمد موسینی نے اقتدار سنبھال لیا۔ ان کے بعد سپریم کونسل نے اقتدار حاصل کر لیا اور جنرل سید بارے نئے صدر بن گئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کو توڑ دیا اور بہت سی بیرونی کمپنیوں کو قومیا لیا۔ 1976ءمےں سوشلسٹ انقلابی پارٹی کا قیام عمل مےں آیا۔ وسط 1977ءمےں صومالیہ کی حریت پسندوں نے ایتھوپیا کے علاقے اوگاڈن پر حملہ کر دیا۔ جب روس اور کیوبا نے ایتھوپیا کی مدد کی تو 13نومبر 1977ءکو صومالیہ نے روس اور کیوبا کے ساتھ معاہدہ دوستی ختم کر دیا۔ تاہم 1978ءمےں صومالیہ نے اوگاڈن کے علاقہ سے اپنی فوجیں نکال لیں۔ اس کے باوجود 1980ءکے عشرے مےں لڑائی جاری رہی۔ 30دسمبر 1979ءکو یہاں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ 22اگست 1980ءکو امریکہ اور روس کے مابین معاہدہ طے پایا جس مےں طے ہوا کہ امریکہ موغادیشو اور بربرا کی بندرگاہیں بحری سہولت کے لئے استعمال کر سکے گا۔ اس کے عوض امریکہ اسے 45ملین ڈالر کی خطیر رقم مہیا کرے گا تاکہ ایتھوپیا کے مقابلے مےں صومالیہ فوجی لحاظ سے مستحکم ہو سکے۔
1982ءمےں صومالیہ اور ایتھوپیا کے درمیان اوگاڈن کے مسئلے پر پھر لڑائی چھڑ گئی۔ جون 1986ءمےں قحط سے متاثر افراد کی ایک کثیر تعداد یہاں آگئی۔ 1988ءمےں شمال مشرقی حصوں مےں گوریلوں نے اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔ جنوری 1991ءمےں سیدبارے ملکی خزانہ لے کر فرار ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ دارالحکومت پر قبضہ کی کوشش مےں 47ہزار افراد مارے گئے۔ جنرل فرح عدید اور علی مہدی کے درمیان اقتدار کی جنگ لڑی گئی۔ مجبوراً اقوام متحدہ کو دخل دینا پڑا۔ 1992ءمےں صومالیہ کی تاریخ کا بدترین قحط پڑا۔ امریکہ کی طرف سے غذائی امداد فراہم کی گئی لیکن جنرل فرح عدید نے امریکیوں فوجیوں پر حملے کئے اور انہیں ہلاک کر کے گلیوں مےں لاشوں کی نمائش کی۔ صومالیہ مےں شدید ترین طوائف الملوکی اور انتشار پھیل گیا۔ متعدد فوجی سرداروں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں۔ اسی دوران اقوام متحدہ کی فوج مےں شامل پاکستانی فوج کے دستے کے 25سے زائد جوان شہید ہوگئے۔ ان کے خلاف جنرل فرح عدید نے کارروائی کی تھی۔ اس کے باوجود پاکستانی فوج وہاں فرائض انجام دیتی رہی اور اسی کی حفاظت مےں امریکی فوجی وہاں سے نکلنے مےں کامیاب ہوئے۔
24مارچ 1994ءمےں ایک معاہدہ امن نیروبی مےں طے پایا جن کے تحت رضاکارانہ طور پر امن کے لئے کوششیں کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس سلسلہ مےں جنرل فرح عدید اور عبوری حکومت کے صدر علی مہدی نے بارہ دھڑوں کی جانب سے جنگ بندی کے مسئلہ پر سمجھوتے پر دستخط کئے۔ مگر امن بحال نہ ہو سکا۔ یکم اگست 1996ءکے روز فرح عدید مخالف فریقوں کے ساتھ لڑائی مےں گولیاں لگنے سے مارا گیا۔ 
2000ءمےں ملک کے محب وطن سیاسی رہنماﺅں نے جبوتی مےں پارلیمان کا اجلاس منعقد کیا جس مےں قومی حکومت قائم کر دی گئی لیکن اس حکومت کا اقتدار ملک کے صرف 10فیصد حصے تک محدود تھا۔ یہ قومی حکومت اگست 2003ءتک قائم رہی۔ اگست 2004ءمےں ایک نئی پارلیمان تشکیل دی گئی اور ستمبر مےں پنٹ لینڈ کے سابق صدر عبداللہ یوسف علی کو نیا صدر مقرر کیا گیا۔ صومالی لینڈ اس نئی حکومت سے الگ رہا۔
صومالیہ مےں اس وقت اسلام پسند تحریک زوروں پر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے طول طویل ساحل کے گرد دندناتے سمندری قزاقوں نے بھی عالمی برادری کے لئے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر رکھا ہے۔ صومالیہ پہنچنے والی امداد کا نوے فیصد حصہ بحری جہازوں سے آتا ہے اور ان جہازوں کو فوجی حفاظت مےں یہاں تک آنا پڑتا ہے جس سے شپنگ کے اخراجات مےں معتدبہ اضافہ ہوگیا ہے۔ صدر عبداللہ یوسف علی دسمبر 2008ءمےں مستعفی ہوگئے اور نئے صدر عدنان محمد نورمدوب بنے۔

No comments:

Post a Comment