Ad

Ad

Wednesday, 29 August 2012

Guinea-Bissau History


گنی بساﺅ
Guinea-Bissau
آزادی، 10ستمبر 1974ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ گنی بساﺅ۔ سرکاری زبان، پرتگالی۔ طرز حکومت، نیم صدارتی جمہوریہ۔ کرنسی، ویسٹ افریقن سی ایف اے فرانک۔ فی کس آمدن، 485ڈالر۔ کل رقبہ 36544مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت بساﺅ۔ اہم شہر، منسوآ، ساﺅڈومنگوز، بوبا۔ آبادی، 1586000 (تخمینہ 2005ئ) 
محل وقوع
یہ ملک براعظم جنوبی افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مغرب مےں بحراوقیانوس، شمال مےں سینی گال، اور مشرق مےں گنی واقع ہےں۔ ملک کی سطح میدانی ہے۔ آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔
لوگ
یہاں 34فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ 36فی صد چھوٹے چھوٹے گروہوں مےں بٹے ہوئے ہےں۔ مظاہر پرست مسلمانوں کے بعد دوسری بڑی آبادی ہےں جو 26فیصد ہےں۔ عیسائی لوگ 24فی صد ہےں۔ ایک مربع میل مےں 73افراد بستے ہےں۔ بلانتا، خولا، منڈبا قبائل کی اکثریت ہے۔ آبادی کا 80فی صد دیہاتوں مےں رہتا ہے۔ یہاں لوگ تعلیم کی طرف توجہ دے رہے ہےں۔ 4سال کے بچے کے لئے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 49سال ہے جبکہ عورتوں کی اوسط عمر 48سال ہے۔ سالانہ شرح اضافہ آبادی 2.4فی صد ہے۔ اطفال مےں شرح اموات 1000مےں 145ہے۔
وسائل
یہاں کا سب سے بڑا آمدنی کا ذریعہ زراعت ہے۔ ملک کی نوے فی صد آبادی اسی پیشے سے وابستہ ہے۔ چاول، باجرہ، پام، مونگ پھلی، زیتون، گنا اس ملک کی اہم زرعی پیداوار ہےں۔ حکومت زراعت کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے تاکہ زراعت سے حاصل فوائد سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوا جاسکے۔ باکسائیٹ یہاں کی اہم معدنی پیداوار ہے۔ اس سے گنی بساﺅ کو کثیر مقدار مےں زرمبادلہ ملتا ہے۔ جنگلات اور ماہی گیری اس کی اہم صنعتیں ہےں۔
اہم درآمدات مےں ٹرانسپورٹ کے آلات، اشیائے خوردنی، اشیائے صرف، مشروبات اور مشینری شامل ہےں۔ جبکہ برآمدات مےں ناریل، مونگ پھلی، مچھلی اور لکڑی کے نام آتے ہےں۔
تاریخ
مسلمان یہاں تیرہویں صدی مےں اسلام کی روشنی لے کر آئے۔ ان کے بعد پرتگالی، ولندیزی، انگریز اور بعد مےں فرانسیسی آئے جو یہاں غلاموں کی خرید و فروخت کرتے رہے۔ 1879ءمےں فرانسیسی نوآبادی قرار دیا گیا۔ اس مےں کیپ وردی اور گولڈ کوسٹ کا علاقہ بھی شامل تھا۔ 1945ء مےں تحریک آزادی عروج پر تھی۔ بڑی جماعت گولڈ کوسٹ کیپ وردی پارٹی تھی جس نے آزادی کی تحریک مےں اہم کردار ادا کیا۔ 10نومبر 1974ءکو یہ ملک آزاد ہوگیا۔ 1980ءمےں یہاں جونارڈوویر کی قیادت مےں فوجی انقلاب آیا۔ 
1994ءمےں پرتگال سے آزادی کے 20سال بعد پہلی مرتبہ کثیر جماعتی انتخابات قانون ساز مجلس اور عہدہ صدارت کے لئے ہوئے۔ 1998ءمےں فوج نے بغاوت کر دی جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت مےں نکلا اور لاکھوں افراد کو گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش مےں بھاگنا پڑا۔ فوج نے 7مئی 1999ءکے روز صدر کو اقتدار سے اتار پھینکا۔ فروری 2000ءمےں ایک عبوری حکومت نے اقتدار اپوزیشن کے رہنما کمبالالا کے حوالے کر دیا جو شفاف صدارتی انتخابات کے دو مراحل سے گزر کر صدر بن گئے۔ جمہوریت کی طرف گنی بساﺅ کے سفر کو بگڑی ہوئی معیشت اور فوج کی اقتدار مےں بار بار مداخلت نے بہت مشکل بنا دیا۔ 
ستمبر 2003ءمےں ایک پرامن انقلاب آیا جس مےں فوج کے جنرل ویری سیموکوریا سیبارا نے لالا کو گرفتار کر لیا، یہ کہہ کر وہ مسائل حل کرنے مےں ناکام رہے ہےں۔ اپریل 2004ءمےں ہزار تاخیر کے بعد ایک بار پھر قانون ساز مجلس کے انتخابات ہوئے۔
اکتوبر 2004ءمےں فوج کے چند حصوں نے بغاوت کردی جس کا نتیجہ جنرل سیابرا اور ان کے ساتھیوں کی موت کی صورت مےں نکلا۔ وزیراعظم کالوس گومزجونیئر کے بیان کے مطابق باغی فوجی اقوام متحدہ کی فوج مےں شامل رہ کر لائبیریا سے واپس آنے والے فوجی تھے جو تنخواہوں مےں تاخیر ہو جانے پرناراض تھے۔ ان فوجیوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
جون 2005ءمےں صدارتی انتخابات ہوئے جن مےں سابیہ صدر جوآﺅبرنارڈووایئرا کو فتح حاصل ہوئی۔ 2مارچ 2009ءکو فوجیوں نے وائیرا کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 5جون کے روز کئی دیگر بڑے سیاستدانوں کو اسی انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب قتل اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے کھیلی جا رہی گیم کا ایک حصہ ہےں۔ 

No comments:

Post a Comment