صحراوی عرب ری پبلک
Sahrawi Arab Republic
محل وقوع
براعظم افریقہ کے شمال مغربی حصہ مےں واقع ہے۔ اس ملک کے مشرق اور جنوب مےں موریطانیہ اور شمال مےں مراکش واقع ہےں۔ مغرب مےں بحراوقیانوس واقع ہے۔ سطح ہموار اور صحرائی ہے۔ مشرق اور شمال مےں معمولی سی بلندیاں ہےں۔
وسائل
فاسفیٹ کے ذخائر موجود ہےں۔ 1968ءمےں دریافت ہوئی، اس معدنی دولت سے اچھی خاصی آمدن ہے۔ خام لوہا اور تیل کے وافر ذخائر موجود ہےں جن پر کام ہو رہا ہے۔ اس ملک کی اہم صنعت ماہی گیری ہے۔
تاریخ
یہاں اسلام دسویں صدی مےں آیا۔ 1436ءمےں پرتگالی یہاں آئے۔ انیسویں صدی مےں ہسپانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1958ءمےں مراکش نے سپین سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ علاقہ چھوڑ دے ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جائے۔ اس موقع پر سلامتی کونسل کی وجہ سے جنگ ٹل گئی 14نومبر 1975ءکو سپین نے علاقہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ مراکش اور موریطانیہ کے فوجی دستے اس ملک مےں داخل ہوگئے۔ 16فروری 1976ءکو ہسپانیہ نے یہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ 27فروری کو صحراوی قوم پرستوں نے صحراوی عرب ڈیموکریٹ ری پبلک کے قیام کا اعلان کیا۔ 7مارچ 1976ءکو مراکش اور برطانیہ نے الجزائر سے سفارتی تعلقات ختم کر دیئے کیونکہ وہ بھی اس علاقے کا دعویدار تھا۔
18اپریل 1976ءکو مراکش اور برطانیہ کے مابین جنگ چھڑی جو 15اگست 1979ءکو ختم ہوئی۔ شاہ حسین دوم نے اسے اپنا 37واں صوبہ قرار دے دیا اور انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ صحراوی قوم پرستوں اور مراکشی فوج کے درمیان جنگ ہوئی جو اٹھارہ ماہ جاری رہی۔ فروری 1981ءتک 45ممالک نے اس ملک کو تسلیم کر لیا۔ 1980ءجولائی مےں افریقی اتحاد کی تنظیم کے اجلاس مےں 50ممبروں نے شرکت کی جن مےں سے 30نے اسے تسلیم کر لیا۔ 1982ءمےں یہ افریقی اتحاد کی تنظیم کا رکن ممبر ملک بن گیا۔ 1989ءتک اسے 70سے زائد ممالک تسلیم کر چکے تھے۔ 1990ءمےں مراکش سے جنگ بندی ہوئی اور مذاکرات کے نتیجے مےں یہ طے پایا کہ ریفرنڈم ہو مگر فی الحال اس فارمولے پر عمل نہ ہو سکا۔
حال ہی مےں اقوام متحدہ نے بیکر پلان کی منظوری دی ہے جس کے مطابق صحراوی عرب ری پبلک کی جگہ ایک عبوری حکومت مغربی صحارا اتھارٹی کے نام سے قائم کی جائے جسے داخلی خودمختاری حاصل ہو اور مراکش اس کی نگرانی کرے۔ اس کے بعد آزادی کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے تاہم مراکش نے اس منصوبے مےں بھی شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
اپریل 2007ءمےں مراکش کی حکومت نے داخلی طور پر خودمختار ایک علاقے کی تشکیل کی تجویز دی جس پر اقوام متحدہ مےں غور کیا جا رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment