Ad

Ad

Monday, 16 January 2012

Lemp Wali Larki

 لیمپ والی لڑکی
تحقیق و تصنیف:
 ناصرملک
فینی کی بیٹی جمالیاتی حسن کا شاہکار تھی، تبھی وہ ہر محفل میں موضوعِ سخن بننے لگی تھی اورجا بہ جا اُس کے حسن کی تعریفیں ہونے لگیں۔ ملیح جلد، سیاہی مائل بھورے بال اور مہین سا بدن ہر دیکھنے والے کی توجہ اپنی جانب مبذول کردیتا تھا۔ایک معصوم سی بے پرواہی ہر وقت اس کے چہرے سے جھلکتی رہتی تھی جو اس کی شخصیت کو مزید پرکشش بنا دیتی تھی۔فینی کو ہر وقت اس کی کسی ہم پلہ اور مناسب خاندان میں شادی کی فکر ستائے رکھتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ جو غلطی اس نے اپنی شادی سے قبل کیپٹن جیمس کی محبت آمیز رفاقت میں کی تھی، اس کی بیٹیوں سے سرزد نہ ہو۔
ولیم ایڈورڈشورے (William Edward Shore)سے خوب صورت اور آزاد خیال فرانسس اسمتھ(Frances Smith)، جسے گھر میں فینی کہا جاتا تھا، کی شادی 1818ءمیں انجام پذیر ہوئی تھی۔وہ انتہائی درجہ خوب صورت، شاہانہ مزاج رکھنے والی شاہ خرچ اور گوںناگوں پارٹیوں کی دلدادہ تھی۔ بات بات میں نیا پن کھوجتی رہتی تھی۔ آزاد رَوی اور منتشر خیالات کے باعث اپنی شادی سے دوتین سال قبل وہ برٹش آرمی کے ایک خوبرو کیپٹن جیمس کی محبت میں گرفتار ہوئی تھی۔ اس کی باتیں اتنی دلفریب تھیں کہ وہ تمام رات اس کے خیالوں میں جاگتی رہتی اور محبت کے جال میں بتدریج الجھتی رہتی۔ اس نے جب اپنے والدین کو جیمس سے متعارف کرایا اور اپنی پسندیدگی کے بارے میں آگاہ کیا تو گھر میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ فینی کے والدین نہایت مضبوط سیاسی ساکھ رکھتے تھے ۔ طرزِ زندگی میں غیر معمولی فرق کی وجہ سے ایک کنگلے تنخواہ دارکے ساتھ اپنی بیٹی کوبیاہ دینے کے یکسر خلاف تھے جبکہ فینی کو بھری دنیا میں جیمس کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔
فینی کی ماں نے اسے سمجھایا ”دیکھو! جیمس کے پاس سوائے ماہانہ تنخواہ کے کچھ بھی نہیں ہے۔ تنخواہ کی رقم اتنی ہے، جتنی تم ایک دن کی شاپنگ کے دوران خرچ کردیتی ہو۔ایسے میں طے ہوا کہ اُس کی رفاقت میں گزرنے والی تمہاری زندگی خوشگوارہرگز نہیں ہوگی۔ تُم جس شاہانہ طرز کی زندگی کی عادی ہو، وہ تمہارے لیے محض خواب بن جائے گی۔ اتنا بھیانک خواب کہ تمہیں ہمیشہ خوفزدہ کیے رکھے گا۔“
فینی نے سرجھٹک کر کہا”ماما! دولت کی فراوانی میں میرا بچپن گزرا ہے۔ پاﺅنڈز کبھی بھی میری کمزوری نہیں رہے۔میں نے عیش کے حصے کی زندگی کو بھرپور انداز میں گزار لیا ہے، اب میں محبت میں اپنی بقیہ زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ آپ کے خدشات کے برعکس مجھے قوی امید ہے کہ میں جیمس کے ساتھ مطمئن رہوں گی۔“
فینی کی ماں، مسزاسمتھ، نے پینترا بدلا”کیا اتنے بڑے خاندان سے نکل کر تم تیسرے درجے کے خاندان میں رہوگی اور ہماری خاندانی ساکھ کے اُجلے تن پر اپنی بے وقوفی کا اتنا بڑا دھبہ لگا دو گی؟“
”اس میں حرج ہی کیا ہے ماما؟“ فینی کسی بھی صورت میں اپنے مو ¿قف سے ہٹنے کو تیارنہیں تھی”دنیا میں کتنے ہزار لوگ ایسے ہوں گے جوخاندانی پسِ منظر کی تفاوت کے باوجود آسودہ زندگی بسر کرتے ہیں۔“
فینی کے باپ نے گفتگو میں حصہ لیا ”بیٹی! اپنی ماں کی باتوں پر دھیان دو۔ اپنی فطری ہٹ دھرمی کی بجائے عقل سے کام لو گی تو تمہیں فیصلہ کرنے میں بہت آسانی رہے گی۔“
وہ پاﺅں پٹختی ہوئی مرکزی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کا خون کھول رہا تھا۔ گھر کا کوئی فرد بھی اس کی حمایت کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ہر کسی کو جیمس میں برائیاں ہی برائیاں دکھائی دیتی تھی۔ کوئی بھی اس کی محبت کوسمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور نہ ہی اُسے محبت کے مارے مصر دیکھ کر بجا سمجھ رہا تھا۔
باہر نکلتے ہی سرد ہوا کے برفانی تھپیڑوں نے اس کا استقبال کیا۔ اشتعال میں دہکتے ہوئے بدن میں سردی سرایت کرگئی۔ جوش میں اسے یہ دھیان بھی نہ رہا کہ کمرے کے اندر انگیٹھی نے خاصی حدّت پیدا کر رکھی تھی جبکہ باہر برف باری کے بعد چلنے والی یخ بستہ ہواﺅں کا راج تھا۔ بدن سرد گرم ہوا تو گھنٹے بھر کے اندر ہی بخار نے آن لیا۔
ڈاکٹر کو بلا کر اسے دوا دی گئی اور کمرے میں لحاف میں گھسیڑ کر حرارت دی گئی۔ ماں نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا ”فینی! میں اور تمہارے پاپا تم سے محبت کرتے ہیں اورتمہیں ہمیشہ مسکراتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔“
وہ نیم غنودگی کے عالم میں بولی ”تو پھر آپ یقینا سمجھتے ہوں گے کہ میں جیمس کے ساتھ ہی خوش رہ سکتی ہوں۔“
ماں نے لحاف اس کے چہرے پر ڈالتے ہوئے ایک خشمگیں نگاہ ڈالی اور فینی کے کمرے سے نکل آئی۔
فینی کی ضد کو ختم کرنے میں اُس کی ایک دوست نے نہایت اہم کردار ادا کیاتھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی دوست کی خدمات اس کی ماں نے حاصل کی ہوں۔ وہ ایک فوجی سے بیاہی گئی تھی۔
ایک دِن اس نے باتوں ہی باتوں میں فینی سے کہا ”فینی ڈیئر! فوجیوں سے شادی کرنے سے بہتر ہے بندہ ساری عمر بن بیاہا ہی رہ جائے۔“
فینی نے تعجب سے پوچھا”کیوں؟ فوجیوں میں ایسی کیا بات ہے؟....وہ تو بہت صحت مند اور پرکشش جسم کے مالک ہوتے ہیں۔ جانتی ہو، تاجِ برطانیہ اپنے فوجیوں کے سروں پر چھاﺅں کیے رکھتا ہے۔ “
وہ بولی ”کسی وقت بھی ان کی بہت دُورکے کسی بارڈر پر یا آگ میں جلتے ہوئے میدانِ جنگ میں تعیناتی ہوسکتی ہے اور پھر ممکن ہے کہ وہ چند سالوں بعد شکل دکھائیں یا کبھی لوٹ کر ہی نہ آئیں۔ میرا شوہر شادی کے ایک ماہ بعد 1815ءمیں آسٹریلیا گیا تھا۔ اب تک لوٹ کے نہیں آیا۔ لارا کے بھائی نے آکراُس کے والدین کو بتایا ہے کہ اس نے وہاں کسی اینگلو انڈین لڑکی سے شادی کرلی ہے۔ نوکری چھوڑ کر وہاں چھوٹے پیمانے پرکوئی کاروبارجما لیا ہے۔آہ! کتنا اچھا ہوتا کہ میں نے اُس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو بَر موقع جھٹک دیا ہوتا!“
”پھر تُم نے کچھ بھی نہیں کیا؟“ وہ تعجب سے مستفسر ہوئی۔
” فینی! تم ہی بتاﺅ....“ وہ یاس آمیز مضمحل لہجے میں گویا ہوئی ” میں کیا کرسکتی ہوں؟ اس بے وفاکے پیچھے آسٹریلیا کا اتنا طویل سفر طے نہیں کر سکتی۔ چلی بھی جاﺅں تو اس کا کیا بگاڑ لوں گی؟.... میری راتیں تو کنوار پنے کی راتوں سے بھی زیادہ لمبی ہوگئی ہیں۔ میں’ الیگ‘ کو اب کیسے پاﺅں؟“
فینی کی دوست اسے اپنے شوہر کا احوال بتاتے ہوئے سسک سسک کر رونے لگی۔ فینی اسے ایک ٹک دیکھے گئی۔ اسے معلوم ہوگیا کہ اس کے ماں باپ جیمس کے ساتھ اس کی شادی کرنے کے حق میں کیوں نہیں تھے۔ وہ سوچ وبچار میں پڑ گئی۔
اُس نے اپنی سوچوں کے بند دریچوں کووَا کیا تو کئی حقیقتیں اُس پر عیاں ہونے لگیں۔ جو بات والدین سمجھا نہ پائے تھے، وہ خود بخود اُس کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔ چندہی دنوں کے بعد اس نے جیمس کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ”میرا خیال ہے کہ مجھے اپنی ماما کی بات مان لینا چاہیے۔“
جیمس نے چونک کر پوچھا”یعنی تُم میرے ساتھ شادی کرنے کے ارادے سے دست بردار ہورہی ہو؟“
”بالکل ایسا ہی ہے جیمس!“ وہ اَٹل لہجے میں بولی ”میرا اور تمہارا ساتھ بالکل بھی فطری اور دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا۔ بہت غور کرنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ تم جیسا جینئس اِس منطق سے اختلاف نہیں رکھتا ہوگا۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہی ہوں؟“
وہ قدرے مایوسی آلود لہجے میں بولا ”کیوں؟.... کیا محبت میں واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہی ہو؟ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ عورتیں دعوے کرتی ہیں مگر پھرخود ہی مجبوریوں کا راگ الاپتے ہوئے ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔تم خود ہی تو کہا کرتی تھیں کہ تم کمزور نہیں، مضبوط ہو۔ کیا پھر کسی لینڈ لارڈ کا پروپوزل آگیا ہے؟“
اس نے منہ پھیر لیا ۔ چلتے ہوئے بولی ”نہیں.... مگر آجائے گا۔“
اس نے جیمس کے چہرے پر برستی ہوئی دکھ کی پرچھائیوں کوبہ توجہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی بلکہ حقیقت کی دنیا میں لوٹ آئی۔ حقیقت یہی تھی کہ جیمس اس کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ جو لمحات اس کی قربت میں میسر آئے تھے، غنیمت تھے۔
اس کی آمادگی پر تمام گھر میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔
کچھ عرصہ بعد برٹش لبرل پارٹی (Whig) کے ایک فعال ممبر ولیم ایڈورڈ شورے کا پرپوزل آیا جسے قبول کرتے ہوئے فینی سے اس کی منگنی کردی گئی۔ ایک سال بعد شادی ہوگئی۔ ولیم ایڈورڈ بہت سنجیدہ مزاج اور محبت کرنے والا انسان ثابت ہوا۔ فینی کی حد سے بڑھی ہوئی حاکمانہ فطرت اور بدمزاجی کو بھی ہنس کر برداشت کرلیتا تھا۔ دونوں نے اپنی شادی کے بعد یورپ کی سیاحت کا پروگرام ترتیب دیا اور نکل کھڑے ہوئے۔ فینی کو تب معلوم ہوا کہ شوہر کی ہر وقت کی معیت عورت کیلئے کیوں ضروری ہوتی ہے۔ تب وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتی رہتی تھی کہ اس کی شادی جیمس کی بجائے ولیم ایڈورڈ سے ہوئی۔ ولیم چوبیس گھنٹے کا ساتھ تھا، جیمس کے ساتھ ملاقاتوں کا شیڈول مرتب کرنا پڑتا جو نہاےت تکلیف دِہ ثابت ہوتا۔
فینی کے پیٹ میں تخلیقِ انساں کا عمل شروع ہوا تو ایڈورڈ کی مسرتوں کا ٹھکانہ نہ رہا۔ روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔دولت کو دونوں ہاتھوں سے لٹاتے ہوئے اس نے جی بھر کر جشن منایا۔ یورپ کے خوبصورت مناظر ہمہ وقت ان کی نگاہوں میں تھے۔ ایسے میں جب فینی نے پارتھی نوپ (Naples) میں 19اپریل 1819ءکو ایک مومی گڑیا جیسی بچی کو جنم دیا تو وہ کافی دیر تک مارے خوشی کے رقص کرتا رہا۔ایسے میں فینی بہ نظرِ اشتیاق اُسے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ولیم کسی بھی طرح سے مصروف سیاست دان دکھائی نہیں دیتا، کم از کم اِس خوشی کا اظہار کرتے ہوئے۔
 اس نے فینی سے کہا ”میں چاہتا ہوں کہ اس خوبصور ت شہر کے نام پر اپنی اس گڑیا کا نام پارتھی نوپ (Frances Parthenope) رکھوں۔“
فینی نے نحیف آواز میں دریافت کیا ”وہ کیوں؟“
”تاکہ ہم جب بھی اپنی بیٹی کو پکاریں تو ہمیں اپنے ہنی مون کے سفر کا یہ دورانیہ، یہ مقام اور محبت کا باہمی اشتراک یاد آجائے گا۔تب، جب ہمارے پاس باتیں کرنے کیلئے موضوعات کم پڑ جائیں گے۔ اس طرح کچھ وقت ان خوبصورت یادوں کی نذر ہوجایا کرے گا۔“
فینی نے اپنے پہلو میں لیٹی گداز سی نومولود بچی کی طرف دیکھا اور نقاہت سے مسکرا کر آنکھیں موند لیں۔ انیسوی صدی کا یورپ ، باوصف کہ یورپین زندگی کے ہر پہلو کو نئے رُخ سے دیکھنے لگے تھے اور معمولات کے اَمور میں بھی نیا پن تلاش کرنے کے دَرپے تھے، اتنے بڑے تغیر اور روایت شکنی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا مگر روایت شکن، سیاحت کے شائق اور بے تکان جوڑے نے شہر کے نام پر اپنی بچی کا نام رکھ دیا۔ تب شاید اُنہیں بھی اِس احساس کا پوری شدت سے ادراک نہیں ہوا تھا کہ اُن کے ہاتھوں جنم پذیر ہونے والی نوزائیدہ رَسم آنے والے عہد میں کتنی توانا ہوجائے گی۔
اس بچی کا نام فرانسس پارتھی نوپ رکھ دیا گیا۔ اب اس شاداں و فرحاں جوڑے کو نئی مصروفیت مل گئی۔ سیاحت میں دلچسپی کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔ وہ چاہتے تھے کہ بیٹی کے بعد خداوند انہیں بیٹا عطا کردے مگران کی آرزو بر نہ لائی۔
جب وہ اٹلی کی سیرو سیاحت کے دوران فلورنس (Florence)شہرمیں واقع وِلا کولمبیا (Villa Colombia) میں مقیم تھے تب دوسری بیٹی پیدا ہوئی۔ 12 مئی 1820ءکو پیدا ہونے والی یہ بیٹی پارتھی نوپ سے کہیں زیادہ خوب صورت اور پُرگداز تھی۔یہی وجہ تھی کہ ولیم کے دِل میں اُس کیلئے روزِ اول سے ہی نرم گوشہ پیدا ہوگیا اور وہ خوش بخت مرتے دَم تک اپنے باپ کی چہیتی بنی رہی۔
دوسری بیٹی کے پیدا ہونے پر دونوں میاں بیوی کے ہاتھوں میں ایک ایک کھلونا میسر آگیا تھا۔ فینی نے پوچھا”کیا اَب بھی تم ہی اس کا نام تجویز کرو گے؟“
ولیم ایڈورڈنے کہا ”تو اور کیا؟“
فینی نے شکوہ کناں نگاہوں سے اُسے گھورا۔
”تم نے دیکھا فینی! یہ کتنا خوب صورت شہر ہے۔ اِس کا نام بھی کتنا پیارا اور ادائیگی کیلئے آسان تر ہے ....فلورنس....تو یہ طے ہوا کہ میری بیٹی کانام فلورنس مناسب رہے گا۔“
فینی کو توقع تھی کہ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس نے مزاحمت نہیں کی بلکہ خاموش رہ کر تصدیق کی مہر ثبت کردی۔انیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میںہی روایات شکنی کا اعادہ مشکل تھا مگر ولیم اور فینی کو اِس کی مطلق پرواہ نہیں تھی۔
اس وقت شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ گھر سے دور ....دیارِ غیر میں ....پیدا ہونے والی نازک اور مہین سی فلورنس نائٹنگیل آنے والے دور میں تاریخ کا سنہری باب بن کر خاندان کا نام دنیا بھر میں روشن کرے گی۔
اپنے ہنی مون ٹور سے واپسی پر ولیم ایڈورڈنے محسوس کیا کہ اُن کے خاندان میں اضافے کے سبب اُن کی سابقہ رہائش گاہ کم پڑ گئی ہے۔فینی گاہے بگاہے کسی نہ کسی تقریب کا اہتمام کرتی رہتی تھی اور اپنے دوستوں کو مدعو کرتی رہتی تھی۔ ولیم مطالعہ کا شوقین تھا۔ اُس کے دوستوں کی بھی کمی نہیں تھی جو وقتاً فوقتاً اُس کی صحبت حاصل کرتے رہتے تھے۔
جب فلورنس کی عمر بہ مشکل پانچ سال تھی تب رہائش گاہ کی تنگ دامنی سے پیدا ہونے والے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس نے لیا،ڈروانٹ ویلی، ہمپشائر، میں لیاہرسٹ (Lea Hurst)کے نام سے اپنا نیا خوب صورت اور وسیع و عریض گھر تعمیر کرایا۔ یہ گھر اس کے خوب صورت اور نفیس ذوق کے عین مطابق تھا۔بڑی لائبریری، کورٹس اور گیسٹ روم پر اُس نے خاصی بڑی رقم صرف کی۔لیا ہرسٹ کا محلِ وقوع بڑا خوب صورت اور طمانیت انگیز تھا۔
 اس گھر میں شور ے خاندان 1823ءتک مقیم رہا۔ روم سے (Romsey) کے قریب واقع ایمبلے پارک(Embley Park) میں نقل مکانی کرجانے کے بعد یہ رہائش گاہ گرمیوں میں استعمال کی جاتی تھی یا رشتہ داروں کے استعمال میں رہتی۔بقیہ دورانئے میں یہاں خاندانی نوکر اور محافظ ہی قیام پذیررہتے تھے جو حفاظت کے ساتھ ساتھ اِس کی ترتیب و مرمت کا کام بھی سرانجام دیتے تھے۔
 (2006ءمیں یہ گھر ایک فرم نے لاکھوں ڈالر کے عوض خریدا۔)
ولیم ایڈورڈ شورے خاندان کا سرکردہ اورڈربی شائر اسٹیٹ کا وارث تھا۔پھر جب اُس نے اپنے ایک بہت اَمیر رشتہ دار پیٹر نائٹنگیل (Peter Nightingale)کی ڈربی شائر میں میٹلاک کے قریب واقع لیا(Lea) جیسی خطیر اور قیمتی وراثت کو حاصل کرلیا تو اس نے شورے کی بجائے نائٹنگیل (Nightingale)خاندانی نام اختیار کرلیا۔یہی خاندانی نام فلورنس کے نام کا حصہ بن کر دُنیا میں معروف ہوا۔
چونکہ دولت کی ریل پیل تھی اور ولیم برٹش لبرل پارٹی کا پرجوش ممبر تھا اِس لئے معاشرے میں انہیں نہاےت عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔۔ فرانسس اسمتھ بھی معروف لبرل سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ خاندانی امُور کے سرانجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی سرگرمیوں پر بھی توجہ دیتی رہتی تھی۔ نائٹنگیل خاندان نے غلام مخالف تحریک میں شمولیت اختیار کرکے اپنی مصروفیات میں بے تحاشا اضافہ کرلیا تھا مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں سے لاپرواہ ہوگئے تھے۔فینی اپنی فطری سخت گیر طبیعت کی وجہ سے بیٹیوں پر سختی کرتی تھی جبکہ ولیم کے پاس ان کیلئے پیاراور نرمی تھی۔
دونوں بہنوں کا بچپن اُسی تاب و تمکنت سے بیت رہا تھا جتنا اُس عہد کی کسی بھی انگریز امیر زادی کا ہونا چاہیے تھا۔ بہت بڑی اور آرام دہ رہائش گاہ، کھیلنے اور گھومنے کیلئے خوب صورت وسیع وعریض باغات، سواری کا شوق پورا کرنے کیلئے اعلیٰ نسل کے گھوڑے ، جدید طرز کا اصطبل اور رائڈ وے، اعلیٰ نسل کے کتے اور بلیاں اور پھر قطار در قطار کھڑے خدام جو آنکھ کے اشارے تک کوسمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
پارتھی نوپ اور فلورنس کا دل لگانے کا ہر قسمی سامان موجود تھا مگر شاید فلورنس کو ایسی رنگینیوں اور پُر تعیش ساز وسامان سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت سرے سے ودیعت نہیں کی گئی تھی۔ پارتھی نوپ عمومی نوعیت کی حامل لڑکی تھی جبکہ فلورنس شروع سے ہی اپنی ہم عمر لڑکیوں سے مختلف مزاج رکھتی تھی۔نہایت کم عمری میں ہی اُسے احساس ہوگیا تھا کہ اُس کی تعیشات سے بھرپور زندگی بے لطف ہے اور کوئی مضبوط ارتقائی مفہوم نہیں رکھتی۔ اُسے اپنی زندگی کو کوئی ایسا رُخ دینے کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی جو یکتائی اور ضرورت کے فلسفے پر پورا اُترتا ہو۔ وہ اکثر و بیشتر اپنی عمر سے کہیں بڑے سوالوں پر سوچا کرتی تھی۔ اپنی ماں کی بے تحاشا مصروفیات پر کڑھا کرتی اور سوچتی کہ شاید اُس کی ماں کو اُس کے باپ کی مزید توجہ درکار ہے۔ چونکہ پارتھی نوپ اپنی عمر کے عین مطابق زندگی کو ردِّ عمل پیش کرتی تھی، اِس لئے فلورنس کو اُس کی مصروفیات ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں اور وہ اُسے انتہائی غیر ذمہ دار اور کند ذہن سمجھتی تھی۔ یہی وجہ شاید رہی ہو کہ دونوں بہنوں کے مابین سوچ کی پختگی کی عمر سے بہت پہلے ہی اِک موہوم سی نظریاتی خلیج حائل ہو گئی تھی۔
برطانوی فضا پہلو بدل کر اِک نئی کروٹ لے چکی تھی۔ عسکری فنون کے ساتھ ساتھ اِس عہد میں ایک رومانی و ادبی میلان فضاے تعیش و سرود کشی میں اپنی خوشبو بکھیرنے لگا تھا۔ ہرسُو آرٹ، شاعری اور موسیقی کا چرچا تھا۔ تغیر پذیر معاشرتی حلقوں کی خواتین ہر وقت خود کوبائرن کی رومانی نظموں کی ٹرانس میں محسوس کرنے لگی تھیں اور بائرن کی لاملکوتی و نادیدہ ہیروئن کا سا حلیہ اپنے خال و خد میں تلاش کرنے کی جہت میں سرگرداں رہتی تھیں۔ جواں سال عورتوں کو بننے سنورنے، نت نئے ملبوسات تیار کرانے، پہننے اور معاشقوں سے فرصت نہیں ملتی تھی۔ ایسی فضاے فراغت میں بھی وہ آرٹ سے دلچسپی رکھنے کے باوصف غیر فطری الائشوں سے گھبراتی تھی۔
 فلورنس وہ ذہین، آزاد طبع اور فطرتاً بے سکون لڑکی تھی۔اُس کی ابتدائی تربیت روائتی انداز میں آیا (گورنس)کے سپرد کی گئی مگر بعد میں ولیم ایڈورڈ نے دونوں بہنوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری خود پر تفویض کرلی۔ اس نے نازونعم سے پروان چڑھتے ہوئے ادب، موسیقی، ڈرائنگ اور گھریلو فنون کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ا سٹیٹکس سے خصوصی شغف رکھتی تھی۔ بائبل پڑھتے ہوئے اُس پر عجیب وجد آمیز کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ یونانی، لاطینی، جرمن، فرنچ، اٹالین اور انگلش زبانوں پر بھی اسے عبور حاصل ہوگیا تو اپنے باپ کی وجہ سے اسے تاریخ، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم بھی حاصل کرنا پڑی۔ اس کا باپ نہ صرف اس پر بے حد مہربان تھا بلکہ اس کا قریبی دوست بھی تھا۔ وہ کیمبرج کا فارغ التحصیل تھا۔ اس نے فلورنس اور پارتھی کو اساتذہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ ہر شام میں وہ دونوں کو پڑھانے کیلئے وقت نکال لیا کرتا تھا۔ اس کے نزدیک علم کے علاوہ انسان اور جانور میں کوئی تمیز نہ تھی۔اس نے گھر میں کافی حد تک دوستانہ ماحول بنا رکھا تھا۔ فلورنس اپنے باپ کی لاڈلی بیٹی ہونے کی وجہ سے اپنا ہر مسئلہ بہ آسانی شیئر کرلیتی تھی اور ہر موضوع پر کھل کر بحث کرلیتی جس کی وجہ سے لڑکپن میں ہی اس کی ادبی صلاحیتیں کافی پختگی اختیار کرگئیں۔
معاشرے کی عمومی خواتین کے برعکس اُسے نوعمری میں ہی مطالعہ اور اپنی یادداشتوں کو محفوظ کرنے کا شوق چرایا تھا۔ وہ جوکچھ دیکھتی، محسوس کرتی اور جو چاہتی، اُسے حیطہ ¿ تحریر میں پابند کردیتی۔ اِن تحریروں کو وہ اپنی ”ذاتی یادداشتیںPersonal Notes“ کا نام دیتی تھی۔ وہ اپنے اِن ننھے ننھے مسودوں کو کہیں بھی لکھ دیتی تھی۔ کیلنڈروں کی پشت پر، کتابوں کی جلد کی اندرونی طرف، ڈائری یا کسی بھی ورق پر لکھ کر محفوظ کرلیتی۔ اِس کے باوجود اُس کی ذاتی یاد داشتوں کا بڑا حصہ آج بھی میسر ہے جو اُس کے افکار و خیالات کی پختگی کا سراغ دیتا ہے۔
بعض معمولی واقعات انسانی ذہن پر غیر معمولی تاثر چھوڑتے ہیں اور تمام عمر ان کی چھاپ لگی رہتی ہے۔غیر متوقع طور پر رُونما ہونے والے ایک ایسے ہی واقعے نے اسے کافی دن تک مضطرب رکھا۔ صنفِ نازک عام طور پر نرم دل اور ہمدرد طبیعت رکھتی ہے مگر اس کے پہلو میں نسبتاً زیادہ گداز دل دھڑکتا تھا۔
خاندانی ملازمہ مسز گیل نے تیز آواز میں اسے پکارا ”اب پھر کہیں اپنی فراک میلی نہ کرلینا ورنہ تمہاری ماں فرانسس مجھ پر بگڑے گی۔“
اس نے جواباً چیختے ہوئے کہا ”اچھا....ایسا نہیں کروں گی۔“
وہ اس وقت اپنے گھر سے ملحقہ وسیع گراسی پلاٹ میں کھڑی تھی۔ اسی اثناءمیں اس کا باپ ولیم ایڈورڈ گھوڑا دوڑاتے ہوئے وہاں پہنچ گیا۔وہ اس وقت اپنے فارم کے معائنہ سے لوٹا تھا۔ اپنے پسندیدہ اعلیٰ نسل کے گھوڑے سے اتر کر اس نے ننھی فلورنس کو اٹھایا اور اس کے گال پربوسہ دیتے ہوئے کہا”کیسی ہو؟“
”بہت اچھی پاپا!“ وہ چہکی۔
مسز گیل نے آگے بڑھ کر فلورنس کے گال کو ہتھیلی کی پشت سے صاف کیا۔
ولیم ایڈورڈ نے مسکرا کر کہا ”اورشاید میری ننھی سی ہیروئن کچھ کرنے کیلئے بے تاب دکھائی دے رہی ہے۔“
”اوہ یس پاپا!“ فلورنس بولی ”میں تھامس سے ملنے جارہی ہوں۔ وہ میرے ساتھ گھومنے پھرنے کیلئے باہر چلنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔“
تھامس حلقے کا پادری تھا۔ بہت ملنسار اور خوش گو ہونے کی وجہ سے حلقے کا ہرشخص اس کی دل سے عزت کرتا تھا۔ وہ فلورنس پر بہت مہربان تھا اورعمومی طور پر اس کی جائز ناجائز ہر ضد پر ہتھیار ڈال دیا کرتا تھا۔
”بہت اچھی بات ہے۔“ ولیم ایڈورڈ نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔فلورنس جانتی تھی کہ اس کاباپ تھامس کے ساتھ باہر جانے پر خوش ہوتا ہے۔
گھر سے ملحقہ گھاس کے میدان میں اس کی پیگی (بوڑھی خچر) موجود رہتی تھی۔ اس کے باپ نے پیگی کو کل وقتی طور پر اس کے حوالے کردیا تھا کیونکہ وہ مزاحمت نہیں کرتی تھی بلکہ نہاےت شرافت سے فلورنس کی اٹھکیلیوں کو برداشت کرلیتی تھی۔ انہیں پیگی پر بیٹھی فلورنس کے گرنے یا زخمی ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا تھا۔
 پیگی بھی فلورنس سے بہت مانوس تھی۔ وہ جونہی اس کے قریب پہنچی تو اس نے اپنی تھوتھنی اس کے لباس کی بڑی جیب میں ڈال دی اوراپنے لیے رکھا ہوا سیب نکال کر خوشی سے کھانے لگی۔ فلورنس مسز گیل کی مدد سے پیگی پر سوار ہوگئی۔
اچانک گھر سے اس کی بہن پارتھی بھاگتی ہوئی وہاں پہنچ گئی۔ اس نے بھی فلورنس کی طرح وکٹورین لباس پہن رکھا تھا۔ وہ اسے پیگی پر سوار دیکھ کر چیخی ”فلو! ارے فلو! آج کہیں مت جاﺅ۔ جان،ہیلری، میرین اور ہنری یہاں پہنچنے والے ہیں اور ہم سب تھیٹردیکھنے کیلئے گھر سے نکلنے کا پروگرام ترتیب دے چکے ہیں۔“
”ڈئر پوپ....“ فلورنس اسے پیار سے پوپ کہا کرتی تھی ”میں زیادہ دُور نہیں جاﺅں گی۔ تم جانتی تو ہو کہ مجھے پیگی کی سواری کتنی اچھی لگتی ہے۔ ویسے بھی تھامس میرا انتظار کررہاہوگا۔ پلیز! کزنز کو میرا پیار دینا اور بتانا کہ میں جلد ہی لوٹ آﺅں گی۔ میں پارٹی میں شامل ہونے کی پوری کوشش کروں گی۔یقینا ہم کھانا اکٹھے کھائیں گے۔“
اس نے آنکھوں کے اشارے سے مسز گیل سے اجازت چاہی اور پیگی کو ایڑ لگا دی۔ کچھ فاصلے پر وِکر تھامس گھوڑے پر سوار مل گیا۔”ہیلو مس فلورنس! آج تو بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ کتنے خوب صورت خدوخال ہیں تمہارے، چاند کی طرح! اور ہاں.... تمہاری بوڑھی پیگی کس حال میں ہے؟.... کیا کہتی ہے؟“
اس نے اپنی ننھی سی ناک نکوس کر کہا ”اچھی ہے۔ بوڑھی ہے، آہستہ بھی ہے مگر مجھ سے محبت کرتی ہے۔“
”اوکے.... چلیں؟“
”چلیں۔“
ابھی اُنہوں نے چلنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ بوڑھے چرواہے راجر کی چیختی آواز سنائی دی”کیا کروں؟ اب میں کیا کروں؟“
انہوں نے یک بارگی سے راجر کی طرف دیکھا۔ فلورنس مسکرا دی۔ بوڑھا راجر اپنی بھیڑوں کے ریوڑ کو سنبھالتے سنبھالتے بدحال ہوچکا تھا۔ اس کی بھیڑیں کبھی اِدھر بھاگ جاتیں اور کبھی اُدھر بھاگ جاتیں۔اچانک اس کی نگاہ دونوں پر پڑ گئی۔ اس نے ہانپتے ہوئے کہا ”ہیلو وِکر....ہیلو فلورنس.... کیسے ہیں آپ دونوں؟“
”ہم دونوں بالکل ٹھیک ہیں۔“ پادری تھامس نے اس سے دریافت کیا ”تم کہو،تمہیں کیا مسئلہ درپیش ہے؟“
راجر نے طویل سانس لی اور بھیڑوں کی طرف اشارہ کیا”یہ قابو میں نہیں آتیں، بری طرح تھکا دیتی ہیں۔“
فلورنس نے اِدھر اُدھر دیکھ کر پوچھا ”اور تمہارا خوبصورت کتا ’کیپ‘ کدھر ہے؟ وہی ہمیشہ ان بھیڑوں کی رکھوالی کرتا تھا اور تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔“
”آہ میرا کیپ! تم دیکھتی تھیں کہ وہ کیسے میرے کام کو آسان کردیتا تھا۔ گاﺅں کے چند شرارتی لڑکوں نے اسے تنگ کیا اور پتھر مار کر اس کی پچھلی ٹانگ توڑ دی۔ میں اسے اٹھا کر گھر لے آیا۔ اس کے سوا میں اس کی کوئی مدد نہ کرسکا۔“
فلورنس کے چہرے پر دُکھ کا ایک سایہ لہرا گیا۔ سوالیہ نگاہوں سے راجر کو گھورنے لگی۔
” مجھے علم ہے کہ اب کیپ جیسا وفادار کتا مجھے کہیں سے نہیں ملے گا۔ وہ زخمی اور بیمار حالت میں میرے گھر میں پڑا زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔“
”اوہ ویری سیڈ مسٹر راجر!“ فلورنس نے غم بار لہجے میں کہا۔
”اب میں نے سوچ رکھا ہے کہ اسے زندگی سے آزاد کردینا ہی اس پراحسان ہوگا۔ واپسی پر میں اُسے زہر دے کر دکھ اور اذیت سے چھٹکارا دِلا دوں گا۔“ یہ کہتے ہوئے بوڑھے راجر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
فلورنس نے تعجب سے پوچھا”کیا تم واقعی کیپ کو ماردوگے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟.... کیپ کو ایسے تو مرنا نہیں چاہیے۔“
”ہاں مس فلورنس!.... اس کے علاوہ میرے پاس چارہ نہیں رہا۔“راجر نے ہاتھ کی پشت سے اپنی گیلی آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا اور بھیڑوں کے پیچھے چل دیا۔
فلورنس نے عجیب سی نظروں سے پادری تھامس کو دیکھا۔ وہ بھی متا ¿سف دکھائی دیتا تھا۔ فلورنس نے کہا ”محترم وکر! کیا راجر کا ارادہ تکلیف دہ اور نامناسب نہیں؟“
وِکرتھامس نے کہا ”آﺅ چلیں اور چل کر کیپ کو دیکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری کوشش سے وہ مرنے سے بچ جائے۔“
دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے چرواہے کے کاٹیج میں پہنچے۔ دروازے پر اپنی سواریوں سے اُترے اور اندر داخل ہوگئے۔ کاٹیج کے اندر اندھیرامسلط تھا۔عین وسط میں ایک بڑی سی چوبی میز دھری تھی۔ ان کے قدموں کی آواز سن کر میز کے نیچے پڑا ہوا زخمی کتا کراہا۔ دونوں گھٹنوں کے بل گرد آلود زمین پر بیٹھ گئے۔ اب زخمی اور بیمار کیپ ان کی نظروں کے سامنے تھا۔ فلورنس کو پہچان کر اس نے اپنی دم ہلائی اور اُٹھنے کی ناکام کوشش کی۔ فلورنس سمجھ رہی تھی کہ کیپ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اُس نے کیپ کو اٹھا کر اپنی گود میں بیٹھا لیا۔فلورنس نے دیکھا کہ کیپ کی آنکھوں سے شدّتِ تکلیف سے آنسو رِس رہے تھے۔
 وِکر تھامس نے اس کی پچھلی ٹانگ کا معائنہ کرتے ہوئے خوشی سے بتایا ”اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے سے بچ گئی ہے۔ صرف زخم ہے جو علاج سے درست ہوسکتا ہے۔“
فلورنس کے چہرے پر روشنی کی ایک کرن جھلملا اٹھی۔
کتا بڑی اداس نظروں سے فلورنس کو دیکھ رہا تھا۔ فلورنس کو اُس کی مایوس نظریں بدن کے آرپار ہوتی محسوس ہو رہی تھیں۔ اس نے تھامس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ”وِکر! آپ اس کیلئے کچھ کرسکتے ہیں؟ مجھ سے اس کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی۔“
تھامس نے اس کی گود سے کیپ کواٹھا لیا اور باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”تم چند لکڑیاں، سوتی کپڑے کے ٹکڑے ، پانی اور پانی گرم کرنے والی کیتلی اٹھالاﺅ۔ میں اس کا زخم صاف کرکے پٹی باندھنا چاہتا ہوں۔“
فلورنس بھاگ کر گئی اورکچھ ہی دیر میں مطلوبہ سامان لے آئی۔ وکر نے آگ جلا کر پانی گرم کیا اور کیپ کے زخم کی صفائی کی۔ پھر زخم پر اپنی جیب سے نکال کر کوئی دوا لگائی اور پٹی باندھ دی۔ پٹی کیلئے فلورنس نے اپنی کمر میں بندھا سوتی ربن اتار کر وِکر کو تھما دیا۔ پٹی باندھنے کے بعد وِکر تھامس کتے کی پچھلی ٹانگ پر گرم کپڑے سے ٹکور کرنے لگا اور فلورنس بھاگ کر اپنے کچن سے گوشت کے ٹکڑے نکال لائی جو کیپ نے بڑی رغبت سے کھائے۔
کیپ نے مشکور نگاہوں سے فلورنس کو دیکھا تو وہ نہال ہوگئی۔ اسے سچی خوشی نصیب ہوگئی تھی۔ پھر تمام عمر وہ اسی خوشی کی کھوج میں بھاگتی رہی۔
جب راجر کمرے میں داخل ہوا تو کتا اپنے پاﺅں پر کھڑا تھا اور احساسِ احسان مندی سے مغلوب ہوکر فلورنس کے پاﺅں سے لپٹ رہا تھا۔ وہ اپنے کتے کو نسبتاً اچھی حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
جب وہ خوشی خوشی لیا ہرسٹ میں داخل ہوئی تو اس کے خاندان کے تمام افراد ملازمین سمیت ڈائننگ روم میں موجودتھے اور بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کررہے تھے۔ فینی، ولیم ایڈورڈ، پارتھی نوپ، اس کے کزنز جان،ہیلری، میرین اور ہنری، پھوپھی آنٹی مائے اور اس کا شوہر انکل سیموئیل سمتھ جو فینی کا بھائی بھی تھا، سخت ناراض دکھائی دیتے تھے۔
فلورنس بھاگ کر اندر داخل ہوئی ۔ سب نے دیکھا کہ اس کی فراک گرد اور خون سے لتھڑی ہوئی تھی جبکہ آنکھیں فرطِ مسرت سے چمک رہی تھیں۔
 ”میں نے اور وِکر تھامس نے مل کر راجر کے کتے’کیپ‘ کی نرسنگ کی اوروہ راجر کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے بچ گیا۔ کیا یہ حیران کن نہیں ہے؟“
سب اسے بے یقینی کے عالم میں دیکھنے لگے۔ فینی نے غصے سے اس کے گندے لباس کی طرف دیکھا۔ اسے فلو کے معصوم جگمگاتے چہرے پر ثبت خوشی کے جلو میں سر پر جما نرسوں کا تاج دکھائی نہیں دیا بلکہ گرد اور خون نظرآگیا۔ وہ غصے سے چلائی ”او مائی گاڈ! تم کتنی مشکل لڑکی ہو۔ایک کتے کے لیے تم نے اپنا قیمتی لباس گندا کر لیاہے نادان لڑکی! گرد اُتر جائے گی مگر خون اور دوائی کے داغ نہیں اُتریں گے۔ افوہ!“
آنٹی مائے نے اسے سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا۔ فلورنس اپنی ماں کے غصے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے کزنز کو خوشی خوشی تمام واقعے سے آگاہ کرنے لگی۔
رات کو فینی نے اپنے شوہر سے کہا”بتاﺅ! ہم فلو کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔ میں اس کے ارادوں کو اب تک کچھ بھی سمجھ نہیں پائی۔ تم تو اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہو۔ اپنی لاڈلی بیٹی کی برین واشنگ کرو ورنہ وہ بہت بگڑ جائے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے تمہاری بے جا رعائتوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔“
ولیم ایڈورڈ نے مسکراتے ہوئے کہا ”میں اپنی بیٹی کا تابناک مستقبل دیکھ سکتا ہوں، تم نہیں دیکھ سکتیں۔ وہ جس حال میں ہے، اسی میں رہنے دیا جائے تو نہ صرف اُس کے لیے بلکہ پورے خاندان کیلئے بہترثا بت ہوگا۔“
ہر روز سکول سے واپسی پر ’کیپ‘ کی بینڈیج بدلنا،گرم کپڑے کے گولے کے ساتھ زخم کی ٹکور کرنا اور اسے کھلانا پلانا اس کا معمول بن گیا۔ چند ہی دنوں میں کتا بالکل تندرست ہوگیا۔ وہ جب مشکور نگاہوں سے اسے دیکھتا اور اس کے پیروں سے لپٹتا تو وہ خوشی سے نہال ہوجاتی۔ یہی احساس اسے ساری عمر توانائی بخشتا رہا۔ جان بچانا اس کا نصب العین بن گیا۔
٭٭٭
نائٹنگیل خاندان کی بیٹے کی خواہش کبھی بھی پوری نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ فرانسس پارتھی نوپ اور فلورنس نائٹنگیل کو ماں باپ کی بھرپور محبت میسر آئی اور ان کی تربیت بیٹوں کے سے انداز میں کی گئی۔ اب بیٹیاں جوان تھیں اور فینی کو اپنا شباب یاد آرہا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کل کی طرح کوئی جیمس اس کی بیٹیوں کے سینوں سے دل چرا کر ان کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوجائے۔ اسے شاید اپنی بیٹیوں کی ذہانت اور انتخاب پر اعتماد نہیں تھا۔ پارتھی نوپ ماں کی باتیں سن کر خاموش رہ جاتی اور حتی الوسع ماں کی حکم عدولی سے گریز کرتی جبکہ فلورنس چپ رہنے کی بجائے فوری طور پر بھرپور ردِّعمل دکھانا اورانکار کرنا مناسب خیال کرتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ اُ سے اکثر و بیشتر اپنی ماں کی سخت گیر طبیعت کا شکار ہونا پڑتا۔ معاملے کی نوعیت کو بگڑتا دیکھ کر وہ بھاگ کرباپ کے پاس پناہ گزیں ہوجاتی۔
فروری 1837ءکی ایک خنک سہ پہر میں جب وہ گھر سے نکل کر گھاس کے میدان میں چہل قدمی کررہی تھی تو اُس کی زندگی کے بہاو کی نوعیت کو بدلنے والا ایک واقعہ پیش آیا جسے اُس نے اپنے مخصوص انداز میں اپنی ذاتی یادداشتوں میں قلمبند کیا تھا۔ اُس دِن وہ خاصی مضطرب تھی۔ یہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اُس پر بے چینی کی یہ کیفیت کیوں طاری ہوگئی ہے۔ کچھ ایسا ضرور تھا جو اُسے بے چین کیے دے رہا تھا۔
پُرنم، خنک اور کپکپادینے والے موسم کی سختی کو اُس نے گرم اور بھاری بھرکم اونی کوٹ سے روکنے کی بھرپور کوشش کر رکھی تھی مگر تھوڑی ہی دیر میں اُس کا بدن سردی پکڑنے لگا تھا۔ ایک تن آور درخت کے نیچے کھڑی ہوکر زور زور سے سانس خارج کرنے لگی۔ بخارات کی تحلیل ہوتی سفیدی پر آنکھیں جمائے کسی عمیق سوچ میں غرقاں تھی جب کوئی اجنبی آواز اُس کی سماعت میں رَس گھولنے لگی۔
وہ اپنی یادداشت میں اُس آوازِ غائب کو لفظی پیرہن دیتی ہے۔
”مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں نے اپنے پیارے خدا کی آواز سنی ہے اور وہ مجھ سے کوئی کام لینا چاہتا ہے۔“
وہ الجھ گئی۔اُس ندائے غائب کا احساس کوئی نہ جھٹلائی جانے والی گواہی طلب کرتا تھا جس کی دستیابی ناممکن تھی۔ اُسے یقین کرنا پڑا کہ اُس نے جو سُنا ہے وہ کامل حقیقت ہے۔ یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات تھی کہ قدرت اُس سے کیا کام لینا چاہتی ہے۔ وہ جتنا سوچتی، اتنا ہی الجھتی جاتی۔ بوجوہِ نامعلوم اُس نے اِس غیر روائتی واقعے کا تذکرہ اپنے خاندان میں کسی کے روبہ رُو نہیں کیا بلکہ اپنی تحریر تک ہی محدود رکھا۔ آنے والے طویل دورانیے میں اُس نے یہ مخصوص آواز دوبارہ نہیں سُنی جس کا سبب اُس نے اپنی ذات کی خامیوں کو قرار دیا۔ اُس نے سوچا کہ وہ شاید اِس قابل ہی نہیں کیونکہ وہ دُنیاوی زندگی کی تعیشات اور رنگینیوں میں غرقاں ہے جبکہ خدا کی راہ میں چلنے والے تو رہبانیت اختیار کر لیتے ہیں اور آسائشوں اور بنیادی ضرورتوں کی احتیاج سے دُور ہوجاتے ہیں۔ اِسی سوچ کو لفظوں کا پیرہن دیتے ہوئے اُس نے لکھا ”میں اپنی ذات کو اِس درجہ کامل بنا لوں گی کہ خدا مجھے اپنی راہ پر چلا دے گا۔ اپنی سوسائٹی میں اعلا سے اعلا مقام حاصل کرنے پر میں حقیقی مرام کو ترجیح دوں گی۔“
 فلورنس نائٹنگیل کی بائیو گرافی لکھنے والے محققین میں سے بعض لکھنے والوں کے نزدیک یہ واقعہ 7 فروری1838ءمیں جب وہ عفوانِ شباب میں تھی، پیش آیا۔ اسے پہلی مرتبہ ندائے غیب سے انسانی خدمت کا حکم دیا گیا جس نے اس کی زندگی کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ان دنوں وہ ایمبلے پارک میں رہائش پذیر تھی۔ وہ خدمت خلق کے شعبوں پر مسلسل غور و فکر کرتی رہی مگر اسے کچھ حتمی سجھائی نہ دیا۔ تاہم گہرے مطالعے اور تحقیق سے عیاں ہوتا ہے کہ ندائے غیب کی آمد کا دورانیہ وہی تھا جس کا تذکرہ پہلے کیا جاچکا ہے۔ یعنی فروری 1837ءمیں فلورنس کو پہلی مرتبہ اجنبی آواز سنائی دی تھی۔
مئی 1837ءمیں نائٹنگیل فیملی نے یورپ کی سیاحت کا پروگرام ترتیب دیا۔ فلورنس کے ساتھ اُ س کی بہن پارتھی نوپ، مسز گیل، ایک فرانسیسی خادمہ اور چند ملازمین عازمِ سفر ہوئے۔ ان کے اس سفر کیلئے ولیم ایڈورڈ نے خود ایک بگھی ڈیزائن کرکے بنوائی جو نہاےت آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت محفوظ تھی۔سفری ضروریات کے پیشِ نظر اُس میں ہر سہولت موجود تھی۔ اس کے آگے چھ اعلیٰ نسل کے صحت مند اور چوکس گھوڑے جوتے گئے جو برق رفتاری سے ان کو منزل کی طرف لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ چونکہ یہ خالصتاً تفریحی دورہ تھا، اس لئے فلورنس آغازِ سفر سے ہی بہت جوش اور دل چسپی کا مظاہرہ کررہی تھی۔
اُس نے فرانس کی طرف سفر کرنے کے دوران بہت سے تماشا گھر اور کنسرٹس جائن کئے اور بچوں کی طرح خوب لطف اندوز ہوئی۔ اس کے ملازمین ولیم ایڈورڈ کے ہدایات آمیز احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کا خصوصی طور پر خیال رکھتے تھے۔ عمر نے نیا پیرہن اوڑھ لیا تھا۔ ماحول، آزاد رَوی اور اچھی خوراک نے اپنا رنگ دکھایا اور وہ ایک خوب صورت دوشیزہ کا روپ دھار گئی۔ بدنی ساخت نے نقوش کے الوہی پَن کی پیروی کی تو وہ ہر دیکھنے والی آنکھ میں سرایت کرنے لگی۔ وہ بھی دوسری ہم عمر دوشیزاﺅں کی طرح فطری رنگینی، نت نئی دل چسپیوں اور بدلتی دوستیوں کا لطف کشید کرنے لگی مگر اُس کے ہاں خوب صورت، امیر اور جاہ و حشم والے شوہر کی تلاش کا جذبہ مفقود تھا۔ ظاہری زندگی کے برعکس اُسے قلبی و ذہنی اطمینان نصیب نہیں تھا۔ ایک اضطراب، ایک کش مکش اور اَن جانی بے چینی اُس کے رَگ و پے میں مسلسل سراےت کیے رکھتی تھی جسے پارتھی نوپ بڑی شدت سے محسوس کرتی تھی۔ گاہے بہ گاہے ٹوکتی بھی مگر اُس پر خاطر خواہ اثر نہیں پڑتا تھا۔ اپنی دُنیا میں مگن رہتی اور اطراف کے شوروغوغا پر توجہ مرکوز نہ کرتی۔پارتھی نوپ سمجھتی تھی کہ اُس کی جواں سال عمر کے لیے بے خودی اور بے دِھیانی کے یہ مرحلے تکلیف دِہ ہونے کے ساتھ ساتھ شخصت کو مسخ کرنے والے بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
وہ سال بھر کی آوارگی کے بعد جب پیرس پہنچی تو سب سے پہلے اس کی ملاقات میری کلارک سے ہوئی۔
وہ پیرس میںاپنی ماں کے ساتھ ریودو بیک کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ اس کا بوائے فرینڈ اور منگیتر جولیس موہل بھی ان کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔میری کلارک اس سے قبل نائٹنگیل فیملی سے لیاہرسٹ میں متعدد بار مل چکی تھی۔ وہ ذاتی طور پر جوان لڑکیوں کو سخت ناپسند کرتی تھی اور حتی الوسع ان کی محفل سے اجتناب برتا کرتی تھی مگر فلورنس اور پارتھی سے محبت کرتی تھی۔ ایک مرتبہ جب پارتھی نے اس سے جوان العمر لڑکیوں سے نفرت کرنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا ”مائی ڈیئر! میں جوان عورتوں کو پسند نہیں کرتی۔ میں بھرپور عورتوں کی محفل میں بیٹھنا پسند کرتی ہوں۔ کیونکہ لڑکیوں کے پاس اعلیٰ اخلاق اور بہترین رویوں کی کمی ہوتی ہے۔ ویسے بھی دوستی کیلئے عورتوں سے مرد کہیں بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ تم کسی بھی بوائے فرینڈ کو ایک یا دومرتبہ سوچ کر اپنے ساتھ لے جاسکتی ہو جبکہ کسی گرل فرینڈ کو لے جانے سے پیشتر تمہیں بارہا بڑی گہرائی تک سوچنا ہوگا۔“
فلورنس ہنس پڑی ”مس میری! اچھے اور برے تو ہر جنس میں ہوتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مردوں میں کوئی برا نہ ہو اورتمام عورتیں کمپنی کے لائق نہ ہوں؟“
میری نے ہونٹ سکیڑ کر کہا ”فلو! ڈیئر فلو! تم دولت کی ریل پیل میں پلتی بڑھتی آئی ہو۔ تمہیں دنیا اور دنیا کے قواعد و ضوابط کا ابھی علم نہیں ہے۔ ویسے بھی تم جس سوسائٹی سے تعلق رکھتی ہو وہاں کے لوگ مہذب ہیں۔ یہاں صورتِ حال مختلف ہے۔“
پارتھی اور فلو نے میری کلارک کی ہمراہی میں پیرس اور اس کے مضافات کا اچھی طرح مشاہدہ کیا۔ خوب گھومے اور تماشہ گھر دیکھے۔میری کے دوست جولیس نے ان کی ہر قدم پر راہنمائی کی۔ پارتھی نوپ اپنی بہن کے چہرے پر خوشی کے تاثرات دیکھ کر خوش ہوجاتی”مائی ڈیئر فلو! تم کیسے ننھے بچوں کی طرح کنسرٹ میں چٹکلے دیکھ کر ہنس لیتی ہو.... تالیاں بجابجا کراور اچھل اچھل کر جادوگر کو داد دے لیتی ہو.... مجھ سے تو ایسا نہیں ہوتا۔ جھجک جاتی ہوں۔ میں نفسیاتی مریض تو نہیں ہوں؟“
فلو نے مسکرا کر کہا ”نہیں ڈارلنگ! تم تو بہت اچھی ہو۔“
”پھر تم نارمل نہیں ہو....“ پارتھی نے اس کی خوبصورت آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
فلورنس اس کے تجزےے پر دل کھول کر ہنسی اور دیر تک قہقہے لگاتی رہی۔
 میری کلارک اس کی شخصیت کو عجیب و غریب قرار دیتے ہوئے اکثر یہ دریافت کرتی ”فلوڈیئر! تم اپنے گھر میں زیادہ دیر کیوں رہنا نہیں چاہتی ہو؟“
کبھی یہ پوچھتی”فلو! تمہیں پارتھی اور اپنے کزنز کی کمپنی کیوں زیادہ پسند نہیں ہے؟“
اسے شادی کے تذکرے پرفلورنس کا جارحانہ رویہ بھی متعجب کرتا تھا۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات فلورنس سے پوچھتی تو وہ مسکرا کر ٹال دیتی۔ وہ یا تو ان سوالوں کے جواب دینا ہی نہیں چاہتی تھی یا اس کے پاس جواب تھے ہی نہیں.... وہ خود ہی نہیں جانتی تھی کہ اس کا رویہ دوسری ہم عمر لڑکیوں سے اس قدر مختلف کیوں ہے۔
٭٭٭
جون 1839ءمیں دونوں بہنوں نے اپنے جملہ کزنز کے ساتھ مل کر شہزادی /ملکہ وکٹوریہ (Queen Victoria) کی شاندار سالگرہ منائی۔اس دن اس کی خوب صورت جوانی نے نیا پیرہن اوڑھ رکھا تھا۔ وہ دل کے زینے سے اتر کر سیدھی دل کی دنیا کو زیر و زبر کرتی دکھائی دے رہی تھی تبھی تو اس کے کزن جان اسمتھ ہرسٹ نے اس کے خوشی سے دمکتے گالوں پر اپنی انگلیوں کی پوریں مس کرتے ہوئے کہا ”فلو! تم تو دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو۔“
”ایسا کیسے ممکن ہے؟“ وہ طمانیت سے چہکی۔
”یہ ممکن ہے فلو!“ جان نے کہا ”تمہیں دیکھ کر آج یہ احساس ہورہا ہے کہ تم صرف دوستی نہیں بلکہ محبت کے لائق ہو۔ آئی لو یو مائی سویٹ فلو!“
فلورنس نے احساسِ تفاخر سے پارتھی کی طرف دیکھا۔ دونوں مسکرا کر ایک دوسرے کے گلے میں جھول گئیں۔
پارتھی نے کہا ”ڈیئر جان! کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔ فلونے مجھے کہہ رکھا ہے کہ وہ کبھی بھی شادی نہیں کرے گی۔“
”یہ سب قبل از وقت کی باتیں ہیں۔“ جان اسمتھ ہرسٹ نے قہقہہ لگا کر کہا ”قدرت کی طرف سے مرد اور عورت میں فطری بندھن رکھا جا چکا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے سے دور رہیں۔میں یقینا فلو سے شادی کروں گا۔“
”اگر ایسا نہ ہوسکا تو....“ فلو نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
”تب پھر کچھ اور بھی نہیں ہوسکے گا۔“ جان نے عجیب مصمم ارادے کا اظہار کیا۔
 جان اسمتھ زندگی بھر فلو کی محبت میں سرشار رہا۔
1840ءکی بہار میں اُس نے ریاضی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی رَٹ پکڑ لی۔ چونکہ خواتین میں ریاضی (Mathematics)کی تعلیم کا رواج عام نہیں جاتا تھا، اِس لیے فلورنس کی ماں نے پُرزور انداز میں اُس کی خواہش کورَد کردیا اور بہت سخت مزاحمتی رویہ اپنایا۔ حسبِ سابق فلورنس نے اپنے باپ سے مدد طلب کرلی۔ وہ نہ صرف خود اِس مضمون سے دلی لگاو رکھتا تھا بلکہ اُسے شدید خواہش بھی رہی تھی کہ فلورنس اِس میدان میں طبع آزمائی کرے۔ چند ہی دِنوں میں فلورنس کی ضد کے باعث گھریلو فضا میں اچھی خاصی جذباتی کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اُس کی ماں کسی بھی صورت میں ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں تھی۔ آخرکار، حسبِ سابق،بہت سی جھڑپوں کے بعد ولیم ایڈورڈنے میدان مار لیا اور فلورنس کو اجازت دلوا دی۔ اُسے ٹیوٹر لینے کی اجازت بھی مرحمت کردی گئی۔
آنے والے کچھ ہی عرصہ میں اَرتھ میٹکس (Arithmetic)، جیومیٹری اور الجبرا میں اُس کی مہارت کمال درجے تک پہنچ گئی۔یہ مہارتیں اُسے آنے والی زندگی میں بہت تقویت دیتی رہیں اور اُس نے کئی میدانوں میں اپنی قابلیت اور لیاقت کا سکہ جمایا۔
رچرڈ مانکٹن ملنز (Richard Monkton Milnes)کے ساتھ 1842ءمیںفلورنس کے قریبی نوعیت کے تعلقات قائم ہوئے۔ وہ ایک نامور شاعر اور سیاست دان تھا۔معاصر شاعر اس کے لیے محافل سجائے رکھتے۔رچرڈ مانکٹن ملنز فلورنس سے تقریباً گیارہ سال بڑا تھا مگر اپنی آﺅٹ لک سے اس کا ہم عمر ہی دکھائی دیتا تھا۔وہ لندن کے ایک متمول اور سیاسی ساکھ رکھنے والا خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ دونوں کے مابین پروان چڑھنے والی دوستی کی بنیاد شاید اِسی مطابقت پر استوار ہوئی کہ رچرڈ انسان دوستی کا علمبردار تھا اور فلاحی اور بہبودی کاموں میں غیر معمولی دل چسپی رکھتا تھا۔
 ایڈورڈ ولیم اس کی دل سے قدر کرتا تھا۔ بالخصوص مانکٹن کی ڈائننگ ٹیبل پر آراستہ کئے جانے والے ناشتے پر داد وتحسین کے ڈونگرے برساتا رہتا تھا۔اپنی رائے کو مستحکم کرنے کیلئے وہ عمومی طور پر گھر میں اپنے اہل وعیال سے کہا کرتا تھا”اگر عیسیٰ دنیا میں دوبارہ آجائے تو وہ مانکٹن کا مشہور ناشتہ کئے بنا نہیں رہ سکے گا۔“
فینی مانکٹن کے ناشتے کے لوازمات سن سن کر متجسس ہوگئی اور بالآخر ولیم ایڈورڈ کو اپنی فیملی کے ہمراہ مانکٹن کے ناشتے کی میز پر مدعو ہونا پڑا۔ یہاں پہلی مرتبہ فلورنس اس سے متعارف ہوئی تھی۔ چونکہ وہ اعلیٰ پائے کا شاعر تھا اور صنفِ مخالف سے ملتا جلتا رہتا تھا اس لئے اس کی شخصیت میں عورتوں کیلئے ایک خاص قسم کی کشش پائی جاتی تھی۔وہ نرم لہجے میں روانی اور شستگی سے بات کرتا تھا۔ ایسے لوگ فلورنس کی کمزوری ثابت ہوتے تھے۔ وہ اس کے لہجے اور چہرے کے تاثرات میں اکثر گم ہوجایا کرتی۔ ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ مانکٹن بھی گاہے بگاہے اس سے ملاقات کے بہانے بناتا رہتا تھا۔ ولیم ایڈورڈ بھی اس سے ملنے پر فلو کو ڈانٹتا نہیں تھا بلکہ اس کی پذیرائی کرتا تھا۔
فلورنس کی سوچ خاصی پختہ ہوچکی تھی۔ باشعور ہوتے ہی بھوک، افلاس، تنگ دَستی اور بیماریوں بھری دُنیا سے پوری طرح آگاہ ہوچکی تھی۔ اپنے پُر تعیش محل کے باہر ہر سُو رقصاں مایوسی، بیماری اور غربت کے چھائے ہوئے دبیز بادل اُس کے اضطراب کو فزوں تَر کرنے لگے تھے۔ صنعتی انقلاب نے جہاں ایک مخصوص طبقے کو مالا مال کردیا تھا وہاں ہنر مند اور دست کار بھوک کی بھٹی کی نذر ہونے لگے تھے۔ اُس نے دیکھا کہ معاشی تغیر اور صنعتی ارتقاءنے سب سے زیادہ ہاتھ سے کپڑا بننے والے جولاہوں کو متاثر کیا تھا۔ منڈیوں میں مشینی کپڑے کے ڈھیر لگ گئے۔ لوگوں میں بھی اِس کپڑے کو پسند کرنے کا رحجان خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا۔ ہاتھ کے بنے ہوئے کپڑے کی عملی طور پر کوئی مانگ نہیں رہی تھی جس کی وجہ سے غریب جولاہے دو وقت کی روٹی کو بھی ترسنے لگے تھے۔ بے روزگاری اور مایوسی نے اُن کے حالت دگرگوں کردی۔ ان کی اکثریت شہروں کے نواحی علاقوں میں جھونپڑیاں بنا کر رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی۔
یہ صورتِ حال فلورنس کیلئے نہایت تکلیف رَساں تھی۔ وہ اکثر و بیشتر اپنے محل سے نکل کر اُن جھونپڑیوں میں پہنچ جاتی اور اُن کا دُکھ بانٹتی۔ غریب جولاہوں کیلئے یہی بات باعثِ اطمینان ثابت ہوتی تھی کہ اتنے بڑے خاندان کی دوشیزہ اُنہیں پرسہ دینے کیلئے جھونپڑی میں قدم رکھتی ہے۔ وہ حتی الامکان کوشش کرتی کہ اِن غریبوں سے بغیر کوئی وقت ضائع کیے گھل مل جائے اور اُن کی حالتِ زار کو بہتر کرنے کیلئے کوئی مضبوط پالیسی دے سکے۔ اپنی ماں اور باپ سے وقتاًفوقتاً رقم لے کر دوائیں، کمبل ، غذا اور بچوں کی ضروریات کی اشیاءخریدتی اور جھونپڑیوں میں جاکر جولاہوں میں بانٹ دیتی۔
مانکٹن کے ساتھ اس کی آئے روز بڑھتی ہوئی ملاقاتیں فلورنس کے کزن ہنری اور جان اسمتھ کو گراں گزرتی تھیں۔ جان اسمتھ اپنی محبت پر اعتبار کرتا تھا جبکہ ہنری کسی بھی رقیب کو برداشت کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ اس نے ایک روز لان میں اکیلی بیٹھی فلورنس کو گھیر لیا۔
 ”ڈیئر فلورنس! کیا تم واقعی رچرڈمانکٹن کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئی ہو اور اس سے محبت کرنے لگی ہو؟“
وہ چونک کر بولی ”وہ بہت اچھا انسان ہے ہنری! میں اس کی عزت کرتی ہوں اور بس....“
”مگر وہ تم سے شادی کرنے کا دل میں ارادہ رکھتا ہے!“ ہنری نے سخت لہجے میں کہا ۔
”یہ اس کا دردِ سر ہے میرا نہیں....“ فلورنس نے بھی اپنا لہجہ سخت کرلیا ”ویسے بھی تم کہو....تمہیں میرے اس سے تعلقات پر کیوں اعتراض ہے؟ کیا میں نے اپنی زندگی تمہارے پاس رہن رکھی ہوئی ہے؟“
”میں تمہارا کزن ہوں اور تمہاری اور میری شادی ہوگی۔ میں تمہارے ذاتی معاملات میں دخل دے کر اپنی محبت ثابت کرنا چاہتا ہوں۔“ ہنری نے جلدی سے اپنا لہجہ بدل لیا۔ وہ فلورنس کے لاڈلے پن سے بخوبی آگاہ تھا اور جانتا تھا کہ اب اگر اپنا جارحانہ انداز نہ بدلا گیا تو پھر فلو کی طویل ناراضگی کو برداشت کرنا پڑے گا۔
”وہ میرا اچھا دوست ہے، تم میرے اچھے اور پیارے کزن ہو اور بس.... میں نہ تو تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی کبھی رچرڈ مانکٹن سے.... تم اگر مجھے شادی کے لالچ کے بغیر دوست بنائے رکھنا چاہتے ہو تو بہتر ورنہ اپنا راستہ لو.... میں کسی اور مقصد کیلئے دنیا میں بھیجی گئی ہوں۔ لاکھوں ہزار لڑکیوں کی طرح میں بے مقصد زندگی نہیں گزارنا چاہتی ہوں۔“ وہ اٹھتے ہوئے بولی اور اپنے اسٹڈی روم کی طرف بڑھ گئی۔
اسٹڈی روم کی کھڑکی میں پارتھی کھڑی تھی۔”ڈیئر فلو! تم نے اپنے متوقع منگیتر کو خواہ مخواہ ناراض کردیا ہے۔“
وہ استعجاب آمیز لہجے میں گویا ہوئی”پارتھی! کیا کہنے جارہی ہو؟ کیا میں ہنری سے شادی کروں گی؟ ....نو نو! ہرگز نہیں۔ میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی ہوں۔“
پارتھی نے کہا ”پاپا تمہاری شادی کئے بغیر کیسے رہیں گے؟“
”یہ میں نہیں جانتی۔“ وہ بولی۔
”ماما تو ابھی سے تمہاری شادی کے خیال سے پریشان ہیں۔“
”پارتھی! سٹاپ اِٹ پلیز!“ وہ سر تھام کر بولی۔ ”یہ فوری طور پر پریشان کرنے والا مسئلہ نہیں ہے۔ تم مجھے کیوں الجھا رہی ہو؟“
”اوکے! مائی ڈیئر فلو اوکے!“ پارتھی نے کھڑکی بند کرتے ہوئے کہا۔ ”اپنا موڈ درست کرو۔ آج ہم شام میں ڈنر پر مدعو ہیں۔ وقت کم ہے اور تیاری بھی کرنی ہے۔“
”مجھے کہیں نہیں جانا۔“ وہ خفگی سے بولی۔
”رچرڈ مانکٹن بھی وہاں مدعو ہے۔“ پارتھی مصنوعی تجاہل عارفانہ اپناتے ہوئے بولی۔”اس نے کہا تھا کہ فلو کو خصوصاً ڈنر پر لایا جائے۔“
”پارتھی.... میں خوب سمجھ رہی ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ وہ وہاں مدعو ہے۔ پلیز مجھ سے ایسا رویہ نہ رکھا کرو۔“
پارتھی بڑے غور سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاﺅ دیکھتی رہی اور دھیرے دھیرے مسکراتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ ہزار خفگی کے باوجود اب فلو اس کے ساتھ ضرور جائے گی۔
ڈنر کے میزبان نے ان کا استقبال کیا اور وہ دونوں ڈرائننگ روم میں آگئیں۔ رچرڈ ان کی توقع کے مطابق پہلے سے ہی موجود تھا۔
”ہیلو مانکٹن.... کیسے ہو؟“ فلورنس چہکی۔
”بالکل ٹھیک ہوں۔“
”میکاولی کوپڑھ لیا ہے؟“
”ہوں.... کیا تم بھی پڑھنا چاہتی ہو؟“
”ابھی نہیں....“
رچرڈ مانکٹن ان دنوں اپنے کام کو نئے سرے سے ترتیب دینا چاہتا تھا اس لئے وہ میکاولی کو پڑھنے میں مصروف تھا۔ وہ چونکہ اپنے دل میں غریبوں کا درد رکھتا تھا، اس لئے وہ کوئی ایسا ادارہ یا تنظیم بنانا چاہتا تھا جو بچوں اور بڑوں کو مجرمانہ روش سے دور رکھنے میں مضبوط معاونت کرسکے۔
”لیڈیز اینڈ جینٹل مین!“ میزبان نے انہیں متوجہ کیا ”کھانا لگ چکا ہے اور ڈائننگ روم میں آپ لوگوں کا منتظر ہے۔“
وہ اٹھ کر ڈائننگ روم میں آگئے۔
فلورنس نے میزبان کے پالتو ٹیڈی بیئر کو پچکارا تو فوراً لپک کر اس کی گود میں آبیٹھا۔ یہ خوبصورت ننھا سا ریچھ فلو کا دوست تھا۔ فلو کے ہاتھ سے تھوڑا سا مکھن کھانے کے بعد اچھل کر ڈائننگ ٹیبل پر چڑھ گیا اور اودھم مچانے لگا۔ یہ اس کی خاص عادت تھی جس سے میزبان بھی تنگ تھا۔ وہ ایک چھڑی سے اسے مارنے کا ارادہ رکھتا تھا کہ مانکٹن نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے ٹیڈی بیئر پر آنکھیں مرکوز کر دیں۔وہ مسمریزم کا ماہر تھا۔ چند ہی لمحوں میں اس نے ٹیڈی بیئر کو رام کرلیا۔ اچھل کود ختم کرکے وہ بڑی تابعداری سے فلورنس کے ہاتھ کی پشت کو چاٹنے لگا۔
”ویل مسٹر رچرڈ مانکٹن!تم ہمیشہ حیران کرنے والے کام کرتے ہو۔“ فلورنس نے تحسین انگیز لہجے میں کہا۔
”فلو ڈیئر! دیکھو رچرڈ نے کیسے ٹیڈی بیئر کو تمہارا مطیع کردیا ہے۔“ پارتھی نے کہا ۔
رچرڈ مانکٹن اپنے مخصوص انداز میں مسکرایا”میں ایسے ہی پوری دنیا کو فلورنس کا مطیع بنادوں گا۔“
فلورنس آسودگی سے ، شرم سے اور فخر سے مسکرانے لگی۔ وہ جانتی تھی کہ رچرڈ دل کی گہرائیوں سے اسے پسند کرنے لگا تھا۔
٭٭٭
دسمبر 1844ءمیں لندن میں ایک انفارمری ورک ہاﺅس میں جب ایک کنگال آدمی اندوہناک موت کا شکار ہوا تو جہاں عوامی حلقوںمیں زبردست احتجاجی اضطراب دوڑ گیا وہاں فلورنس کی بے چین روح کو بھی ایک سمت میسر آگئی۔ غریبوں اور مفلسوں میں طبی سہولیات کی بہتری کیلئے وہ Poor Law Board کے صدر چارلس ولیئرز کے ہمراہ قانون میں تعمیری تبدیلی کی غرض سے مصروفِ عمل ہوگئی۔ اس کی کوششیں رنگ لائیں اور نئی قانون سازی عمل میں لائی گئی۔ اس معاملے میں الجھ کر اسے ہسپتالوں کی دنیا دیکھنے کا اتفاق ہوا اور اس شعبے کی زبوں حالی کا پتہ چلا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ صحت کے شعبے میں سب سے بری حالت نرسوں کی تھی۔ اکثر غریب، ناتجربہ کار اور غیر تہذیب یافتہ خواتین اس شعبے سے منسلک تھیں جنہیں فوج کے میس، تقریبات اور غیر پیشہ ورانہ امور پر مامور رکھا جاتا تھا۔ندائے غیب سے ملنے والے حکم کی تفسیر ہونے لگی تھی۔ وہ یہ سوچنے لگی تھی کہ وہ نرسنگ کے شعبہ کو جائن کرکے انسانیت کی خدمت کرسکتی ہے اور اس شعبے کو غلاظت سے پاک کرنے کی کامیاب جدوجہدکرسکتی ہے۔
بشپ آف لندن نے جان سمتھ ہرٹس کو مشنری کے کام کے سلسلے میں کینیڈا روانہ کردیا۔ جانے سے قبل وہ بہت دل آزردہ تھا۔ وہ فلورنس کو چھوڑ کر کہیں جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے جب فلورنس کو اس تقرری کے بارے میں آگاہ کیا تو وہ خوشی سے اچھل پڑی ”ونڈرفل جان! میں ناں کہتی تھی کہ تمہیں خدا نے کسی اہم کام کیلئے چن رکھا ہے۔ دیکھ لو.... دنیا کے آخری سرے پر انگلینڈ مشنری کے کینڈین چرچ میں جب تم انسانوں کی خدمت کرنے جاﺅ گے تو کتنے خوش ہوگے۔“
وہ اچنبھے سے اسے دیکھنے لگا۔ اسے توقع تھی کہ جب وہ فلورنس کو اپنی تقرری کے بارے میں بتلائے گا تو وہ غمزدہ ہوجائے گی اور اس نے جو بہروپ خود پر چڑھا رکھا ہے، وہ فوری طور پر اتر جائے گا۔ وہ اپنے اندر چھپی ہوئی محبت کو آشکار کرتے ہوئے اسے جانے سے روک لے گی۔ مگر فلورنس نے اس کی توقع کے برعکس خوشی کا اظہار کرکے اسے حیران کردیا تھا۔
”تو تم میرے جانے پر خوش ہو؟“
”کیوں نہیں.... جس سے میں اتنا پیار کرتی ہوں، اسے اتنی بڑی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ کیا یہ خوشی کی بات نہیں ہے میرے لئے؟“ اس کی بچوں کی طرح گول گول متجسس آنکھیں فرطِ مسرت سے پھٹنے کو تھیں۔
”کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو؟“
”یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں ہے جان!“
”پھر مجھ سے شادی کیوں نہیں کرتی ہو؟“
”اگر میں اپنی فطرت میں شامل محبت کو فضول خرچی سے تم پر نچھاور کردوں تو میرے پاس بھری پری دنیا کیلئے کیا بچے گا۔ جان! میں اس طاقت کو بہبودی کاموں میں صرف کرنا چاہتی ہوں۔ میں انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ شادی کرنا میرے اختیار میں نہیں، محبت کرنا میرے اختیار میں ہے اور وہ میں تم سے کرتی ہوں۔ میرا یہ وعدہ ہے کہ اگر کبھی میں نے شادی کی تو تم سے ہی کروں گی۔اوکے؟“
”میں یقینا اس وقت کا انتظار کروں گا۔“ جان نے کہا۔
”کیا شادی نہیں کروگے؟“
”نہیں....“
”میں اب کیا کہوں؟“ وہ سٹپٹا سی گئی ”جب میں خود شادی کرنے کے حق میں نہیں ہوں تو کیسے تمہیں شادی پر آمادہ کرسکتی ہوں۔“
”جیسے تم اپنی زندگی میں آزاد ہو ایسے ہی میں بھی اپنے ذاتی معاملات میں خود مختار ہوں، اس لئے تم یہ فضول ضد نہیں کرو گی۔“
”پھرتم مجھ سے ایک وعدہ کرو....“ فلورنس نے کہا ۔
”کہو.... کیا بات ہے؟“
”تم فلاحِ انسانیت کے کاموں کیلئے اپنی زندگی وقف کردو جیسے میں نے اپنی زندگی دان کردی ہے۔“ فلورنس نے کہا ”میرا انتظار کرنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے تم یہ عظیم کام کرو۔“
وہ پھیکے رُو مسکرادیا ”میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا۔ اس سے مجھے تمہارا انتظار کرنے میں بھی کافی آسانی رہے گی۔“
دونوں نے ہاتھ ملایا، ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا اور جدا ہوگئے۔
(جان اسمتھ دل کی گہرائیوں سے فلورنس سے محبت کرتا تھا۔ کینڈا میں مشنری کے تفویض کردہ فرائض کی انجام دہی کے بعد وہ 1852ءمیں انگلینڈ واپس آیا۔ کئی سالوں کی دوری سے اسے توقع تھی کہ فلورنس اس سے شادی پر آمادہ ہوجائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ فلورنس اپنے جنوں میں بہت دور تک آگے نکل چکی تھی۔ اس نے پھر شادی سے انکار کردیا۔ وہ ریورنڈ (حلقے کا بڑا پادری) بن کر الورا چلا گیا۔ کریمین وار کے دوران جب اس کی محبوبہ کا نام ہر زبان پر تھا تو بھی اسے محبت آمیز تفاخر کا احساس ہوتا تھا۔ یہ درست کہ اس کی محبت کو فلورنس نے قبول کرلیا تھا مگر اس سے شادی نہیں کی تھی۔ جان اسمتھ ہرسٹ نے بھی تمام عمر شادی نہیں کی بلکہ فلورنس سے انسانی خدمت کا کیا ہوا وعدہ نبھاتا رہا۔ )
جان کے جانے کے صرف چند دن بعد ہی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے کزن ہنری نکلسن نے جب شادی کیلئے اسے پروپوز کیا تو اس کے گھروالے شادی پر بضد ہوگئے۔ اس نے پہلی مرتبہ شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا۔ پارتھی نے اسے کہا ”فلو! ڈیئر.... ہنری بہت اچھا لڑکا ہے۔ تمہارا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ آخر تمہیں کسی نہ کسی سے شادی کرنا ہے۔ پھر ہنری ہی کیوں نہیں؟“
وہ گہری سوچ میں مستغرق تھی ، بولی”پارتھی.... یہ کوئی زندگی تو نہ ہوئی کہ روائتی انداز میں شادی ہو، بچے ہوں اور بندہ بوڑھا ہوتے ہوتے مر جائے۔“
”تم کہنا کیا چاہتی ہو؟“
”میں یہ کہنا چاہتی ہوں....“ وہ لحاف میں اٹھ کر بیٹھ گئی ”کہ انسان کو کچھ ایسا غیر معمولی کام کرنا چاہیے کہ رہتی دنیا میں اس کا نام رہ جائے۔ دیکھو ناں.... کتنی ہزار لاکھ عورتوں نے شادی کی، بچے جنے اور مرگئیں۔ ان کا نام تک تاریخ میں نہیں ملتا۔ پاک مریم نے ایک بچے کو جنم دیا اور پوری دنیا میں اس کی تعظیم کی جاتی ہے۔ کیا اس دور میں ایسی ان گنت عورتیں نہیں تھیں جنہوں نے دس یا دس سے زیادہ مردوں کو جنم دیا۔ ان کا نام تک کسی کو نہیں آتا۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کی اولاد کو بھی اپنی جد امجد کا نام معلوم نہیں۔“
”تو....“
”میں بھی کوئی ایسا ہی انوکھا کام کرنا چاہتی ہوں۔“ فلورنس نے کہا ”میں انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ جہاں بھی انسان کا ذکر آئے، وہیں میرا نام آجائے۔ تم میری کچھ راہنمائی کرو ناں!“
”پچھلے چنددنوں سے تم نرسنگ جیسے گندے شعبے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہو، کیا خدمتِ خلق کیلئے یہی راستہ رہ گیا ہے؟“ پارتھی نے تلخی سے کہا۔
”کیا عورت صرف مرد کا پہلو گرم کرنے کیلئے ہے؟“ فلورنس نے کہا ”امیر لوگ نرسوں کو اپنی عیاشی اور خدمت گزاری کیلئے ہائر کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سے شراب پیتے ہیں۔ کیا عورت کو ایسے کاموں پر ہی موقوف رہنا چاہیے؟.... نہیں پارتھی ڈیئر! میں عورت کو مسیحا کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ آج جہاں نرسوں کو نہاےت تذلیل آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اوران سے نفرت کی جاتی ہے، انہیں عزت ملے.... وہ مسیحائی کرتے ہوئے اپنے اصل مقام پر جاگزیں ہوں۔“
”تم جیسی لڑکی سے کیسے اتنا بڑا کام ممکن ہے؟“
”میں عام اور بازاری لڑکی نہیں ہوں۔ میں برطانیہ کے ایک نہاےت اعلیٰ خاندان کی لڑکی ہوں۔ مجھ پر زبان درازی کرتے ہوئے ہر آدمی کئی بار سوچے گا۔ میں اپنے فیملی بیگ گراﺅنڈ کی وجہ سے وہ کچھ کرلوں گی جو عام عورت نہیں کرسکتی۔“
پارتھی نے غصے سے کہا ”خاندانی وقار بھی تو خاک میں مل جائے گا۔ کیا تمہاری توجہ اس طرف نہیں ہے؟“
”میں اپنے کردار کو مضبوط رکھوں گی اور کبھی بھی اپنے اونچے خاندان پر حرف نہیں آنے دوں گی۔“ فلورنس کے لہجے میں استحکام تھا۔
وہ شادی پر رضا مند نہ ہوئی بلکہ اس نے نرسنگ شعبہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
1846ءمیں اس کے اندر اس شعبے کی تحریک پیدا کرنے اور حتمی فیصلہ کرنے میں لارڈ ایشلے نے اہم کردار ادا کیا۔
الزبیتھ بلیک ویل (Elizabeth Blackwell) نے بھی اسے نرسنگ کے شعبے میں دلچسپی لینے اور اِس میدان میں کچھ کر گزرنے کی ترغیب دی تھی۔الزبیتھ نہاےت خوبصور ت لڑکی تھی۔ اس نے اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر برطانیہ کی پہلی ڈاکٹر بننے کا اعزاز حاصل کیاتھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مزید برطانوی عورتیں اس شعبے میں آئیں اور اس شعبے کا وقاربڑھانے کی عملی کوششیں کریں۔ سینٹ بارتھولومیو ہسپتال لندن میں اس سے فلورنس کی کئی ملاقاتیں رہیں اور وہ متواتر اس کے اندر انسانی خدمت اور طب کی جوت جگاتی رہی۔
اس نے ایک مرتبہ کہا ”ڈیئر فلو! محبت کا ایک اہم پہلو مسیحائی ہے۔ شادی کرکے صرف ایک مرد کی مسیحائی ممکن ہے جبکہ شادی نہ کرکے پوری خلقِ خدا کی مسیحائی کی جاسکتی ہے۔ “
وہ سمجھنے کے مراحل میں تھی، سمجھ گئی۔
٭٭٭
رچرڈ سے اس کے تعلقات بتدریج بہتر ہوتے گئے۔ وہ رچرڈ کی طرف سے شادی کی ضد پر کشمکش اور ذہنی بریک ڈاﺅن کا شکار ہوگئی۔
رچرڈ نے اسے کہا ”فلو! تم جانتی تو ہو کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔ پھرآج تک تم نے بھی میری ہر مقام پرحوصلہ افزائی کی ہے پھر یہ انکار کیا ہوا؟ کیا میں تمہارے لائق نہیں ہوں ؟“
وہ پریشانی کے عالم میں بولی ”رچرڈ! میں دنیا میں سب سے زیادہ تمہیں محبت کرتی ہوں۔ میری محبت تو پرستش کی حد تک بڑھی ہوئی ہے۔ مگر میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اگر شادی کرنا ضروری بھی ہوتی تو میں اپنے کزنز کو کبھی نہ ٹھکراتی۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔“
”میری بہت ہی پیاری فلو!“ رچرڈ نے اسے تھوڑی سے پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا ”کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ فلاحی و بہبودی کاموں میں صرف تمہیں ہی دلچسپی ہے؟“
”نہیں.... میں سمجھتی ہوں کہ ہر آدمی کو انسانی فلاح کیلئے اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔“
”کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ میں اپنے اندر کوئی سوز نہیں رکھتا؟“
”نہیں.... ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ تم مجھ سے بدرجہا بہتر کام کرسکتے ہو۔“ وہ بولی ”میں ان سوالوں کا مقصد نہیں سمجھی!“
”آرام سے....“ رچرڈ ہنسا ”کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ میں شادی کے بعد تمہاری منزل کے حصول میں رکاوٹ بن جاﺅں گا۔“
”نہیں ....بلکہ مجھے امید ہے کہ تم میری مدد کرو گے۔“
”ایک سوال اور.... کیا تمہیں یہ فکر لاحق ہے کہ شادی تمہاری توجہ بٹا دے گی؟“
”اوکے! اوکے!“ وہ ہنس پڑی ”میں سمجھ گئی۔ تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں شادی کے بعد اپنے ارادوں کو نسبتاً بہتر انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہوں.... ہے نا!“
”ہاں.... ایسا ہی ہے۔“
”تو مائی ڈیئر....“ وہ ایک طویل سانس حلق سے خارج کرتے ہوئے بولی ”جیسے دنیا کی ہر عورت شادی کے بعد نئے جھمیلوں میں پڑ جاتی ہے۔ اسے لاکھوں انسانوں میں صرف چند انسانوں کی خدمت پر مامور ہونا پڑتا ہے ایسے ہی میں بھی صرف تم اور تمہاری اولاد کیلئے وقف ہوجاﺅں گی۔ اگر تم لوگوں کو نظر انداز کروں گی تو جرمِ خیانت کی مرتکب ہوں گی۔ کیا تم نہیں جانتے کہ بطن سے جنم لینے والے بچے تمام تر توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں؟.... کیا تم اس حقیقت سے بھی انکار کرو گے کہ اپنا گھر پوری دنیا سے کہیں زیادہ قابلِ توجہ بن جاتا ہے؟.... یہ ایسی باتیں ہیں جن سے کوئی بھی منحرف نہیں ہوسکتا۔ میں کبھی بھی اپنی ذات کو دو پاٹوں میںتقسیم کرنے کی متحمل نہ ہوسکوں گی۔ اس لئے میں صرف اپنے کاز پر توجہ دینے کیلئے دوسری کمزوریوں سے دور رہوں گی۔ دیٹس آل!“
رچرڈ ملنز نے محبت پاش مگر مایوس نظروں سے اسے دیکھا اور شادی کے ارادے سے ہمیشہ کیلئے دستبردار ہوگیا۔ وہ فلورنس کی دوستی کو گنوانا نہیں چاہتا تھا۔
 رچرڈ مانکٹن طویل رفاقت کو بے ثمرپاکرلندن کی ایک امیر، خوبصورت اور گھریلو عورت انابیلا کریو کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مقولے پر عمل پیرا ہوکر جلد ہی دونوں شادی کے بندھن میں گرفتار ہوگئے۔ انابیلا چونکہ فراخ ذہن و قلب کی مالک تھی اس لئے کبھی بھی اپنے شوہر اور فلورنس کے باہمی تعلقات میں رخنہ انداز ثابت نہ ہوئی۔ شادی کے بعد وہ فلورنس کی بہترین دوست بن گئی۔رچرڈ اور فلورنس کی دوستی بدستور قائم رہی۔ دونوں اکٹھے ڈانس کرتے، فنکشن سجاتے اور خوب گھوما پھرا کرتے۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ پہلے کی طرح رچرڈ لیاہرسٹ میں نائٹینگیل فیملی سے ملنے کیلئے آتا رہتا۔
رچرڈ کا پروپوزل اس کیلئے ذ ہنی دھچکا ثابت ہوا اور مینٹلی بریک ڈاﺅن کا شکار ہوگئی۔سارا دن اندھیرے کمرے میں لیٹی رہتی۔ اہلِ خانہ کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی اور کسی بات کا جواب نہ دیتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی حالت خراب ہوتی چلی گئی۔کچھ وقت گزرنے پر جب وہ کچھ بہتر ہوئی تو اس نے نرسنگ جائن کرنے کی رٹ پکڑ لی۔
 نرسنگ جائن کرنے کے اعلان نے اس کے خاندان کو برانگیختہ کردیا بالخصوص اس کی ماںاور بہن نے غیر معمولی مزاحمت کی۔ نرسنگ کے مروجہ ماحول کی وجہ سے انہیں خاندانی وقار اور جاہ و حشمت خاک میں ملتی نظر آنے لگی۔ یہ حقیقت بھی تھی کیونکہ ان دنوں ہسپتال غلاظت سے لتھڑے اور اندھیروں میں لپٹے رہتے تھے۔ نرسوں کا کردار نہاےت مشکوک سمجھا جاتا تھا۔
اس کے ذہنی فرسٹریشن کو دیکھتے ہوئے ولیم ایڈورڈ نے اسے ماحول کی تبدیلی کی غرض سے سیاحت پر بھیجنے کا ارادہ کرلیا۔
فینی نے اس پروگرام کی شدید مخالفت کی۔”مسٹر ولیم! یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ کوئی اچھا سا رشتہ دیکھ کر فلو کی شادی کردیں۔فلو نادان ہے اور اونچ نیچ کو نہیں سمجھتی۔ ہمارا فرض ہے کہ اس کی نقصان دہ ضد کو پورا نہ کریں اور جو اس کیلئے بہتر ہے وہ کریں۔“
ولیم نے کہا ”کیا اس کی سیر وتفریح اس کی شادی میں رکا وٹ ثابت ہوگی؟“
”اس کی عمر شادی کیلئے نہاےت موزوں ہے۔“ فینی نے کہا”بعد میں اس کیلئے کوئی اچھامرد نہیں مل سکے گا۔“
”دو سالوں کی تو بات ہے....“ ولیم نے دلاسہ دیا ”گھریلو زندگی میں پڑنے کے بعد اسے سیر و تفریح کے کہاں مواقع ملیں گے۔ ہمیں اس کے جذبات کا خیال کرنا چاہیے۔“
آنٹی مائے نے بھی فلورنس کی بھرپور تائید کی۔ اس نے کہا ”فلورنس کو چند ہسپتال اور ورک ہاﺅس دیکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ وہ وہاں کے ناگفتہ بہ ماحول کو دیکھ کر خود ہی اپنا ارادہ بدل لے گی۔“
بدقت تمام فینی نے اثبات آمیز خاموشی اختیار کی۔ اس کے باوجود وہ فلو کو اکیلے بھیجنے کے حق میں نہیں تھی۔اس کی ضد کو اس کے نہاےت قریبی خاندانی دوستوں کزنز چارلس(Charles) اور سیلینا بریس برج(Selina Bracebridge) کی حمایت حاصل ہوئی تو اُس نے خود کو بہت مضبوط پایا۔اُن دونوں نے ایک نیا خیال پیش کیا۔ وہ مصر میں جانا چاہتے تھے جہاں اُن کی دلچسپی کی بہت سی جگہیں موجود تھیں۔ وہ نوادرات اور تاریخی اثاثوں میں دلچسپی رکھتے تھے اور مصر چونکہ اِن دنوں اِس لحاظ سے بہت موزوں خطہ خیال کیا جاتا تھا اِس لیے اُن کا ترجیحی انتخاب وہی جگہ تھی۔ چارلس ”ہم زمانہ جزوِ کلام“ میں اپنا تشخص ڈھونڈنا چاہتا تھا جبکہ سیلینا کو نوادرات سے دل چسپی تھی۔ ایڈورڈ ولیم کی غیر معمولی پشت پناہی کے باعث چارلس کے ہمراہ سیلینا اور فلورنس نائٹنگیل کو بحرہ نیل کے پُر تجسس اور طویل بحری سفر طے کرنے کی اجازت مل گئی مگر ایڈورڈ کی محتاط رَوی کے باعث آنٹی مائے اور ملازمین کے ساتھ روانہ کرنے کا پروگرام تشکیل دیا گیا۔
 1847ءمیں روم کے سفرپر نکل گئی۔اُن کے سفر کا آغازڈایابیا (Dahabiyah) نامی پُر تحفظ اور آرام دہ جہاز پر ہوا۔ یہ جہاز نُما بوٹ بالخصوص طویل سفر اور خطرناک سمندری راستوں کیلئے تیار کیا تھا اور اُس عہد میں ایسے جدید طرز کے جہاز کے اخراجات برداشت کرنا معمولی بات نہیں تھی مگر نائٹنگیل فیملی کی مالی حیثیت اور معاشی اسٹیٹس کے سامنے ان اخراجات کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ڈایابیا کے ذریعے مصر کے بالائی حصے اور نوبیا (Nubia)تک پہنچا جاسکتا تھا۔ اسکندریہ سے کیرو تک کا سفر کسی بڑے اسٹیمر کے ذریعے ہی کیا جا سکتا تھا، کیا گیا۔
فلورنس نے انسانی دُکھ اور یاس کو بہت قریب سے دیکھ کر پوری شدت کے ساتھ محسوس کررکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ جو کچھ دیکھتی، پوری معنویت کے ساتھ لکھ لیتی۔ اُس کے تحریری ٹکڑے اُسے اچھا قلمکار ثابت کرتے ہیں۔ اُس کے خطوط اور یادداشتیں زندگی کے رنگوں سے بھرپور ہیں۔ اُس کی تحریر میں جہاں حقائق بیانی میسر آتی ہے وہیں شگفتگی اور سلاست بھی بدرجہ اَتم پائی جاتی ہے۔ اُس نے سفر کے دوران اپنی خوراک، قیام اور سمندری مناظر کو مسلسل قلم بند کیا۔ انیسویں صدی کے وسط کی شام کے صحرائی علاقے میں گزرنے والی زندگی کی معانی سے بھرپور تصویریں کھینچیں جو آج بھی محفوظ ہےں اور اُسے اچھا قلم کار ثابت کرتی ہیں۔چونکہ اُس کا پسِ منظر برطانوی ثقافت سے بڑی مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا تھا، اِس لیے اُس کی تحریر میں روانی، درستگی اور تخلیقی بلاغت موجود تھی۔
وہاں اس کی ملاقات اپنے ایک ہم عمر شخص سڈنی ہربرٹ (Sidney Herbert) سے ہوئی۔ وہ ایک معروف سیاست دان تھا۔ اس کے خدوخال میں رشین نژاد ماں کی شکل کا عکس موجود تھا۔ ہربرٹ ایک خوش رو اور خوش گفتار انسان تھا۔ جلد ہی دونوں میں دوستی کا رشتہ استوار ہوگیا۔سال بھر قبل اس کی معزز اور نواب خاندان میں الزبیتھ ایش سے شادی ہوچکی تھی۔
وہ عمومی طور پر روم میں سڈنی اور الزبیتھ کی رہائش گاہ ”ولٹن ہاﺅس“ میں پائی جاتی جہاں لیڈی چاننگ، لیڈی انگلس اور الزبیتھ کی بہترین کمپنی اس کی منتظر ہوتی۔ سڈنی سے یہاں اس کی طویل ملاقاتیں ہوتیں اور دنیا کے ہر موضوع پر بے لاگ بحث چھڑتی جس سے اس کے علم میں اضافہ ہوتا۔ سڈنی اس کے افکار کو پسند کرتا تھا۔
جب الزبیتھ کے ہاں بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو فلورنس نے اس کے ڈلیوری کیس کو بڑی سنجیدگی اور دلچسپی سے لیتے ہوئے بھرپور عیادت داری کی۔ تخلیقِ انسانیت کا یہ مظاہرہ اس کیلئے توانائی بخش ثابت ہوا تھا۔ زچگی کے مراحل میں فلورنس کی مدد کی بدولت الزبیتھ اس کے بہت قریب ہوگئی اور وہ دونوں قریبی سہلیاں بن گئیں۔
(شادی شدہ ہونے کے باوجود سڈنی اور فلورنس دونوں کی دوستی برابر شدت اختیار کرتی گئی اور طویل عرصہ تک دونوں کے مابین گہرے تعلقات استوار رہے۔ ہربرٹ نے عملی طور پر اس کے نرسنگ کے شوق کی آبیاری کی۔ فلورنس اس کی سیاسی سرگرمیوں میں مشاورت دیا کرتی تھی)۔
 ٭٭٭
 اس کے خاندان کو آخر کار اس کی ضد کے آگے ہتھیار پھینکنا پڑے۔اس نے جرمنی میں پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے ابتدائی ٹریننگ سنٹر میں داخلہ لے لیا۔ 1851ءمیں اس نے نرسنگ کی تربیت سکندریہ میں رومن کیتھولک فرقہ کے تربیتی ادارے ونسٹ ڈی پال سے مکمل کرلی۔ چونکہ اس دور میں عیسائی مذہبی افراد ہی عمومی طور پر خدمتِ خلق کے کاموں میں حصہ لیتے تھے اس لئے صحت عامہ سے متعلق افراد کی اکثریت کا تعلق چرچ سے ہوتا تھا۔
کیسرورتھ (Kaiserswerth) کے دورے (31 جولائی 1850ءسے 13 اگست 1850ئ)کے دوران اُس نے پاسچر تھیوڈور فلنڈر (Theodor Fliedner)کے کہنے پر ایک کتابچہ لکھا۔ اُس کی تحریر روز بہ روز پختہ ہوتی جارہی تھی۔ طویل عرصہ تک معاشرہ اور قدرت اُس کا پسندیدہ موضوع رہا۔ مصر کے عربی معاشرے اور زُبان سے قدرے آگہی کا بیان بھی اُس کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اُس نے پوری لطافت کے ساتھ عربی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہوئے وضاحتیں کیں۔ یکم جنوری 1850ءکو جب وہ تھیبز (Thebes) میں پہنچی تو اُس نے لکھا جو اُس کی فصیح بیانی اور رومانیت پَروری کا بے پایاں اظہار ہے:
"And how she opened before us! The wind deadened to a perfect calm, the river spread out to a perfect lake; not, as before, with a current, but a glassy breathless lake; the Arabian hills retreated and hid themselves, as if in terror to approach the bed of death. Karnak and Luxor came in sight on the eastern bank; the head of the Colossi and the Ramesseum appeared out of the Libyan suburbs; there lay the imperial corpse of the spirit, which had gone out and animated the world. Hail to thee, poor glorious Egypt! Let our tears and our silence, and our reverence, be thine: for are no words to celebrate such a death as this. There she lay, in the stillness of death, -- even the sun had veiled his light, -- and she looked the metropolis of the world, as if herself ready to be ferried over that glassy lake to the Hades beyond. Nothing can equal the first impression of seeing Thebes."
کیسرورتھ کے ماحول اور پاسچر اور اس کی بیوی سے وہ بہت متاثر ہوئی تھی اس لئے 6 جولائی سے 7 اکتوبر1851ءکے دورانئے میں وہ یہاں زیر تربیت رہی۔ اس عرصے میں اس نے عملی طور پر بہت کچھ سیکھا۔ پاسچر اور اس کی بیوی نے اسے ذہنی طور پر بہت مضبوط اور راسخ العقیدہ کردیا تھا۔ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ اتنے بڑے خاندان کی لڑکی اس شعبے میں غیر معمولی کام کرتے ہوئے بہت آگے نکلے گی۔ انہوں نے اس کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہنے دی۔
پھر1853ءتک مرسی سسٹرز کے ادارے Germain سے منسلک رہی۔ دوسالہ تربیت کے حصول کے بعداس نے ہارلے سٹریٹ(Harley Street) لندن میں واقع معزز بیمار خواتین کے چیریٹی ہسپتال میں ملازمت اختیار کرلی۔ اپنی ان تھک محنت کی بدولت اسے 12 اگست 1853ءمیں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور وہ گھریلو بندشوں سے ازحد آزاد ہوگئی۔یہاں پہلی مرتبہ اس کا انتظامی امور میں کوتاہیوںاور خامیوں سے واسطہ پڑا۔ وہ اس عہدے پر اکتوبر 1854ءتک فائز رہی۔
ان دنوں اس کا باپ اسے سالانہ پانچ سو پاﺅنڈ کی خطیر رقم دیتا تھا تاکہ وہ اپنے مشن کو بہ آسانی جاری رکھ سکے۔ وہ اس رقم سے خدمتِ خلق کے کاموں کو بہ آسانی جاری رکھ سکتی تھی۔
 اپنے شعبے میں غیرمعمولی عشق کی بدولت بہت آگے نکل چکی تھی۔
٭٭٭
23 ستمبر 1953ءمیں ترکوں نے کریمیا کے محاذ پر اعلانِ جنگ کردیا۔ جولائی 1853ءمیں روس نے کریمیا کے اُن تمام علاقوں پر قبضہ کرلیا جو اِس سے پہلے ترکوں کی سلطنت میں شامل تھے۔ 1854ءکے اوائل میں اِس میدانِ جنگ میں روس (Russia) کے بعد برطانیہ اور فرانس بھی کود پڑے۔ روس کو ترکی سلطنت سے یہ شکایت رہی تھی کہ وہ اپنی ریاستی حدود میں عیسائیوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتی۔ ترکی نے روس کا شکوہ اور مطالبہ ماننے سے انکار کردیا تھا اور کریمیا جنگ جیسی ہولناک قتل وغارت کی وجہ یہی رویہ بنا۔برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے روس کے مقابلے میں ترکی کی حمایت میں اپنی فوجیں ترکی میں اتار دیں۔ اس جنگ کو تاریخ میں کریمیا وار (Crimean War)کا نام دیا جاتا ہے۔ 7 اپریل 1954ءکو فرانس نے اپنا اوسیرس (Osiris)نامی اسٹیمر مالٹا کی بندرگاہ پر رشیا کے خلاف عسکری خبروں کے حصول کی غرض سے پہنچا دیا جس نے آنے والے محدود وقت میں ہی مقامی اخباروں کے ذریعے مطلوبہ معلومات یورپ میں پھیلانے کا کام شروع کردیا۔
جنگ کی ہولناکیاں عروج پر تھیں۔ماحول کی تبدیلی اور موسم کی سختی نے برطانوی فوجیوں کو بیماریوں کا شکار کردیا۔آناً فاناً ہزاروں فوجی ان امراض کا شکار ہوکر ناکارہ ہوگئے۔اسہال، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور زخموں کے بگڑنے کی بدولت بے تحاشا ہونے والے ہلاکتوں نے عوام کو خوفزدہ کر دیا۔ کریمین جنگ کے دوران لاوارث زخمی فوجیوں کی اندوہ ناک ہلاکتوں کی خبریں برطانیہ میں پھیلیں تو وہ بے چین ہو گئی۔ حکومت ان خبروں کی مسلسل تردید کررہی تھی۔
کریمین جنگ کی ہیروئن سیاح میری سیکل (Mary Seacole)جسے تاریخ ”مدرمیری“ (Mother Mary)کے نام سے یاد کرتی ہے، نے جب ہیضہ اور دوسری امراض سے ان فوجیوں کی ہلاکت کی خبر سنی تو وہ لندن پہنچ گئی۔وہ ہیضہ کی وبا پر قابو پانے میں مہارت رکھتی تھی۔ یہ ہنر اس نے اپنی سیاہ فام ماں سے کنگسٹن کے بورڈنگ ہاﺅس میں سیکھا تھا۔ اس کی ماں بورڈنگ ہاﺅس چلانے کے ساتھ ساتھ مریضوں کا ہربل ادویات سے علاج معالجہ کرتی تھی۔ اس نے اس شعبہ میں افریقہ سے لائے جانے والے غلاموں سے حاصل کردہ معلومات اور مہارت کے بل بوتے پر معاشرے میں بہت نام کمایا تھا۔ چونکہ بورڈنگ ہاﺅس اور مطب میں میری اپنی ماں کی معاونت کرتی تھی اس لئے اسے نہاےت کم عمری میں ہی طب پر دسترس حاصل ہوگئی تھی۔ 1850ءمیں جب کنگسٹن میں وسیع پیمانے پر ہیضے کی وباءپھوٹ پڑی تو میری نے بڑی ہمت اور استقامت سے اس وباءکو ختم کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی تھی۔ جمیکا میں پیلے بخار کی وباءکے موقع پر وہ وہیں تھی اور اسے اس افتاد سے نبٹنے کا اچھا خاصا تجربہ ہوچکا تھا۔اسی طرح پناما میں پھر اس کا واسطہ ہیضے کی خطرناک وباءسے پڑا۔ اس نے چاقو تلوار اور گولیوں کے زخموں کے آپریشن کرنے میں بھی بلا کی مہارت حاصل کرلی تھی۔ دورانِ سیاحت وہ جن علاقوں میں بھی جاتی، مقامی جڑی بوٹیوں اور ان کے استعمال کا علم حاصل کرتی۔ اڑتالیس سالہ میری سیکل اب کریمین وار کے ہیضہ کے مریضوں کا علاج کرنا چاہتی تھی۔
اس نے اپنی خدمات برطانوی فوج کو پیش کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن حکام بالا نے اس کی پیشکش کو رد کردیا۔ معاشرے میں عورتوں کی جنگی امور میں مداخلت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس نے دی ٹائمز کے ایڈیٹر سے ملاقات کی اور محاذ جنگ کا حقیقی منظر اس کے سامنے رکھا۔اسی دوران محاذِ جنگ سے دی ٹائمز کے نمائندے تھامس چنیری نے رپورٹ بھیجی جو 12اکتوبر1854ءکو شائع کی گئی۔ اس رپورٹ میں الما جنگ کے نتیجے میں سکوتاری کیمپ ہسپتال (Scutari Camp Hospital)کی تکلیف دہ صورت حال کا نقشہ کھینچا گیا تھا اور بتلایا گیا تھا کہ وہاں سرجنوں، نرسوں، ادویات اور خوراک کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سے روزانہ درجنوں فوجی ہلاک ہورہے ہیں۔ اسی دن دی ٹائمز(The Times) نے اپنے لیڈنگ آرٹیکل میں حکومتِ برطانیہ کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے ہم وطن فوجیوں کی مالی معاونت کریں اور ان کی ہر محاذ پر مدد کریں۔
 دی ٹائمز نے ان حقیقتوں کو بڑی مہارت سے اچھالا۔ رپورٹس پڑھنے کے بعد عوامی حلقوں میں بھی شدید بے چینی پھیل گئی اور حکومتی عہدیداروں پر دباﺅ بڑھ گیا۔ دی ٹائمز کے ایڈیٹر جان ڈیلانس نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کریمین وار فنڈ قائم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ وزیر اعظم کے بیٹے سررابرٹ پیل نے دو سو پاﺅنڈ کی خطیر رقم جمع کراتے ہوئے عوام کو اس فنڈ میں شامل ہونے کا عملی عندیہ فراہم کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوام نے اس فنڈ میں عطیات جمع کرانا شروع کردیے۔
میری سیکل اور دی ٹائمز کے سامنے حکومت کو گھٹنے جھکانا پڑے اور اپنے ذہن کوبدلنا پڑا۔ اس وقت تک آٹھ ہزار کے قریب فوجی ان موذی امراض کا بری طرح شکار ہوچکے تھے اور شرح اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا تھا۔
فلورنس نے 15 اکتوبر 1854ءکو مسز الزبیتھ ہربرٹ سے خط کے ذریعے رابطہ کیا۔ خط میں اس نے الزبیتھ کے شوہر سڈنی ہربرٹ جو ان دنوں کریمین وار کے سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھا، کو نرسوں کی خصوصی تربیت کے ساتھ سکوتاری جانے کا عملی منصوبہ پیش کیا۔ چونکہ ہربرٹ فلورنس کو ذاتی طورپر جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ وہ انسانی خدمت کا کتنا عظیم جذبہ اپنے اندر رکھتی ہے، اس لئے اس نے ذاتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے فلورنس کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کا فوری طور پر ارادہ کرلیا۔
اس کی لگن اور خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہربرٹ نے نہ صرف اجازت دلا دی بلکہ اسے نرسوں کا وفد ساتھ لے جانے کا حکم بھی دیا جس کی سربراہی اسے سونپ دی ۔ اس نے اپنی آنٹی مائے اسمتھ کے تعاون سے 38 نرسوں کو فوری طور پر تربیت دی۔
 21 اکتوبر1854ءکوہفتہ کے دن لندن برج سے باﺅلوگن (Boulogne)کی طرف کوچ کیا گیا۔باﺅلوگن میں ان کا استقبال وہاں کے مچھیروں نے کیا۔ ان کا سامان اٹھانے اور دوپہر کا کھانا کھلانے حتیٰ کہ رہائش وغیرہ دینے کا معاوضہ نہیں لیا گیا۔
یہاں سے بذریعہ ٹرین یہ قافلہ پیرس پہنچا جہاں ایک رات کا قیام کیا گیا۔ یہاں سے روانہ ہونے کے بعدمارسیلز میں چار دن آرام کیا گیا۔ مارسیلز سے سفری ضروریات کی اشیاءخریدنے کے بعد تیز رفتار بوٹ وِکٹس (Vectis) کے ذریعے قسطنطنیہ(استنبول) کی طرف روانگی عمل میں لائی گئی۔
دورانِ سفر اُن کے تیز رفتار بوٹ نُما جہاز وکٹس نے انہیں بے حد تنگ کیا۔ جب وہ اپنے قافلے سمیت 30 اکتوبر 1954 کو مالٹا پہنچی تو طویل سمندری سفرکی بدولت بے حد تھک چکی تھی۔ غیر آرام دِہ سفر اور سمندری ہوا نے اسے بیمار کردیا تھا۔ اِس خطرناک جہاز کا نقشہ کھینچتے ہوئے آئی بی اومیلری (I.B.O'Malley) لکھتا ہے:
"Vectis, a horrible ship, built for carrying fast mails from Marseilles to Malta, infested with huge cockroaches and so notorious for her discomfort that the Government had difficulty in manning her."
چونکہ راستے میں ملنے والے فوجیوں کے قافلوں کی طرف سے اس کے قافلے میں موجود نرسوں سے غیر مساویانہ رویے پر بھی وہ پریشانی کا شکار ہوتی رہی تھی اور کئی مرتبہ وکٹس کے ڈوبنے کا خطرہ بھی لاحق ہوا تھا ، اِس لیے اُس کی حالت خاصی دگرگوں تھی۔مالٹا میں پارٹی کا ایک وفد، مس نائٹنگیل کے بغیر، ملٹری کے ایک میجر کی زیرنگرانی کیمپ کو دیکھنے کیلئے گیا۔ انگلستانی سسٹرز نے سیاہ جبکہ رومن کیتھولک راہباﺅں نے سفید لبادے اوڑھ رکھے تھے۔ ہسپتال کی نرسوں کو وفد کے درمیان میں رکھا گیا تاکہ متوقع درشت رویوں سے محفوظ رہیں۔ فوجی دستوں کی نگرانی میں چلتے ہوئے کہیں میجر اپنی تند وتیز آواز میں چلّا اُٹھتا ”بلیک سسٹرز! آگے بڑھو!“
انگلستانی نرسوں کا ٹولہ آگے بڑھ جاتا اور رومن کیتھولک راہبائیں اور ہسپتال کی نرسیں وہی تھمی رہتیں۔
میجر پھر چلاتا ”ہالٹ! سفید نرسوں نے آگے بڑھنا ہے۔“
مس فلورنس کی ساتھیوں نے مالٹا میں سست اور بے کار لوگوں کا رعب ودبدبہ دیکھا تو خاصی دل گرفتہ ہوئیں۔ہر طرف درشت رویوں والے فوجی اور اُن کے احمق ساتھی چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ مسٹر بریس برج (Bracebridge)قدرے تندرست اور بہتر دکھائی دینے والی لڑکیوں کو گھمانے پھرانے کے لیے لے کر گیا۔گلیوں اور بازاروں میں جہاں لوگوں کے جارحانہ رویوں کا خوف لاحق ہوتا، وہ بھی ہسپتال کی نرسوں کو محفوظ رکھنے کیلئے انگلستانی پروٹسٹنٹ نرسوں اور رومن کیتھولک راہباﺅں کو ڈھال بنا دیتا جس سے دونوں پارٹیوں کو سخت کوفت اور خوف کا سامنا کرنا پڑتا۔
عوام الناس تک مقامی اخبارات نے فلورنس نائٹنگیل کی آمد کو فی الفور پہنچا دیا۔ 14 نومبر 1854ءمیں مقامی اخبار ”مالٹا ٹائمز“ نے لکھا:
"The party landed and visited the objects in Valletta most worthy of notice, and in passing through the streets attracted the sympathy and admiration of the inhabitants, many of whom expressed themselves highly gratified with the interesting and cheerful appearance of these persons"
سخت گرمی، سختی اور لوگوں کے ردعمل کے سبب جونہی مس فلورنس اور اُس کی ساتھیوں نے وکٹس جیسے جان کش جہاز میں قدم رکھا تو اُنہیں سکون اور عافیت کا احساس ملا۔مالٹا کا ماحولیاتی دورہ جان لیوا بحری سفر سے کہیں زیادہ تکلیف دِہ تھا۔
(ازاں بعد1857ءمیں جنگ کریمیا کے گورنر سر ولیم ریڈ (Sir William Reid) نے حکامِ مالٹا کا دیرینہ مطالبہ مانتے ہوئے مالٹا حکومت کو نیا ملٹری ہسپتال Valletta Military Station Hospital بنانے کا حکم دیا۔ فلورنس نائٹنگیل نے 1859ءاپنی کتاب ”نوٹس آن ہاسپٹلز“ میں مالٹا میں جدید طرز کے ہسپتال کا مشورہ دیا تھا جس پر عمل کیا گیا۔ اِسی کتاب کے تیسرے ایڈیشن مطبوعہ 1863ءمیں والیترا ملٹری ہسپتال سے الگ جنرل ملٹری ہسپتال تعمیر کرنے کا مشورہ دیا۔ زخمیوں، مریضوں اور فلاح طلب لوگوں سے محبت کا عالم یہ تھا کہ اُس نے جزئیات تک پر توجہ دی تھی۔ لکھا تھا:
"on the pavilion principle for 300 beds, with the extensions differently arranged from any existing example. The site chosen as the most healthy in the garrison, is limited, and the arrangement of the parts has to be conformed to the shape of the ground. But so flexible is the pavilion construction that it suits itself readily to this requirement. There will be six pavilions arranged side by side, each containing two floors of wards, and the whole connected by open arcades sufficient to afford shelter from sun and rain, but to leave ventilation perfectly free. The entire administration is detached and placed in front of the hospital. The walls on the sides towards the sun, and the roof, will be double to ensure coolness".
فلورنس نے جگہ کے انتخاب، بلاک پلان اور ڈیزائن کو بھی نظر انداز نہیں کیا تھا۔ اِنہی خطوط پر اِس پراجیک کو آگے بڑھاتے ہوئے آرکیٹکٹ مسٹر وائٹ T.H. Wyatt نے کام کیا لیکن یہ منصوبہ تشنہ کام رہا۔)
 خدا خدا کرکے لرزتا کانپتا وکٹس 3 نومبر کو آبنائے باسفورس میں داخل ہوا۔ بے حد خراب موسم بھی مشکلات پیدا کررہا تھا۔ پھر ناگاہ وکٹس تیز ہوا کے تھپیڑوں کی زد میں آگیا۔ نرسوں کے قافلے کو اپنا اضافی سامان اور حفاظت کی غرض سے جہاز میں رکھا گیا اسلحہ کو نہ چاہتے ہوئے سمندر برد کرنا پڑا جس سے ان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ پانچ گھنٹے امید و بیم کی کیفیت سے شام کو نجات ملی جب طوفان تھم گیا۔
4 نومبر کو قسطنطنیہ پہنچی جہاں اس کی ملاقات دی ٹائمز کے رپورٹر کیمرون میکڈونلڈ سے ہوئی۔ میکڈونلڈ نہ صرف پر تجسس رپورٹر تھا بلکہ وہ جان ڈیلاس کے قائم کردہ کریمین وار فنڈ کا سرگرم رکن بھی تھا۔ اس نے قسطنطنیہ میں مخیر حضرات سے رابطہ کرکے ہزاروں پاﺅنڈ اور ان گنت سامانِ ضرورت اکٹھا کررکھاتھا۔ وہ فلورنس سے صرف چند دن قبل یہاں پہنچا تھا۔ اس کا استقبال تھامس چنیری نے کیا تھا اور اسے بغیر کسی دیر کے یہاں کے باوسائل حضرات سے ملوا دیا تھا۔اس نے فلورنس کے جذبے کی تعریف کی اور کہا ”مس نائٹنگیل! میں تھامس کے تعاون سے یہاں ہر اس شخص سے مل چکا ہوں جو کسی نہ کسی طرح سے ہماری مدد کرسکتا ہے۔“
”میرا چونکہ ان سے ملنا ضروری نہیں ہے اس لئے میں چاہوں گی کہ جلد از جلد اپنے زخمی فوجیوں تک رسائی حاصل کروں۔ آپ کی دی ہوئی معلومات کے مطابق سکوتاری ہسپتال میں ہر چیز کی قلت ہے اور وہ قلت آپ جیسے سرگرم اور مخلص افراد کی مدد سے ہی دور ہوسکتی ہے۔“ فلورنس نے کہا۔
”آپ کو وہاں دو سمتوں پر اپنی توانائیاں صرف کرنا ہوں گی۔ ایک تو مریضوں کی دیکھ بھال اوردوسرا ان کی ضروریات کی فہرست بنا کر ہمیں دینا ہوگی۔ ہم فنڈ سے بذریعہ بحری جہاز مطلوبہ اشیاء برطانیہ سے منگوا کر آپ کے حوالے کریں گے۔“ میکڈونلڈ نے کہا۔
”مجھے یقین ہے کہ میں اپنا کام بخوبی کرلوں گی۔“ فلورنس کے لہجے میں غیر معمولی تیقن تھا۔ اس کے بعد میکڈونلڈ نے ایک فوجی راہبر کی معیت میں فلورنس اور اس کی ساتھی نرسوں کو منزل کی جانب روانہ کردیا۔ اس کی منزل بحراسود کے ساحل پر بالاکلاوا (Balaklava) سے کریمیا کی طرف 545 کلومیٹر کے فاصلے پر سکوتاری میں برطانوی فوجیوں کا کیمپ تھا۔ وہ اپنے وفد کے ہمراہ وسطِ نومبر میںیہاں پہنچی۔
اس کے ہمراہ آنے والی نرسیں شدید تھکاوٹ کا شکار تھیں۔ سرمئی رنگ کے لمبے اور کھلے لباس میں ملبوس، ادھ لمبائی کا اونی چغہ اور سرپر براﺅن اسکارف پہنے جس پر سرخ کڑھائی میں سکوتاری ہسپتال لکھا ہوا تھا، ہاتھوں میں سفری بیگ اور چھتریاں اٹھائے نرسوں کا قافلہ سکوتاری ہسپتال کے دروازے پر پہنچا تو گائیڈ نے اعلان کرنے کے سے انداز میں کہا ”آپ کو ہرمیجسٹی فورسز کے بیرک ہسپتال میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ کریمین وار کا زمانہ ہے اور یہ سکوتاری کے دوہسپتالوں میں سے ایک ہے۔ باسفورس (سمندری نہر) کے اس پار استنبول کا خوبصورت شہر آباد ہے اور ضرورت کی ہر چیز وہیں سے ملے گی۔“
ہسپتال کے مرکزی دروازے میں داخل ہوکر اس نے پھر وہی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا ”ہم آپ کے کوارٹرز کی طرف جانا چاہیں گے۔ ان کی تنگی اور خستہ حالت پر شرمندہ ہیں مگر اتنے کم عرصہ کے نوٹس پر یہی ممکن تھا۔ ہمیں آپ کی اس طرح اچانک آمد کی توقع ہرگز نہ تھی۔“
نرسوں کے قافلے نے اپنی قیام گاہ کی طرف پیش قدمی کی۔ سب سے آگے گائیڈ اوراس کے انگریز ساتھیوں کے ہمراہ ایک دھان پان سی لمبے قد والی عورت مضبوط قدم اٹھائے آگے آگے چل رہی تھی۔ اس نے مکمل سیاہ لباس اور چغہ پہن رکھا تھا۔ سر پر سفید سکارف تھا جس کے کناروں سے ریڈش براﺅن بال جھانک رہے تھے۔ سیاہی مائل آنکھیں اور تیکھے جاذب نظر خدوخال اس کی شخصیت کو بہت باوقار بنا رہے تھے۔ اس کے چہرے پراپنی دوسری ساتھی نرسوں کے مقابلے میں نسبتاً کم پریشانی ہویدا تھا۔ وہ بہ نظرِ غور ماحول کا جائزہ لے رہی تھی۔
اس کے پیچھے مذہبی لباس اوڑھے چند نرسیں تھکے تھکے قدم اٹھائے چلے آرہی تھیں جبکہ باقی بیس بائیس لڑکیاں نرسوں کے روائتی لباس میں ملبوس ان کی تقلید کررہی تھیں۔
اپنے کوارٹروں کے سامنے پہنچ کر ایک نن (مذہبی نرس) نے کہا ”مس نائٹنگیل! یہ تو بہت تکلیف دہ صورتِ حال ہے۔ہمیں آرام کی بجائے آتے ہی ان کمزور جانوں کی خبرگیری کرنا ہوگی۔“
فلورنس مسکرائی اور بولی ”میرا خیال ہے کہ خود کو مضبوط رکھنے کیلئے ہمیں پہلے غسل وغیرہ کرنا ہوگا۔ اس کیلئے ہمیں نہانے والے ٹب صابن اور برش سے اچھی طرح دھونا پڑیں گے۔“
ان کے گائیڈ نے چار کمروں کی طرف اشارہ کرکے بتلایا کہ یہ ان کے کوارٹر ہیں۔ کوارٹر خالی اور غلاظت سے لتھڑے ہوئے تھے۔ ان میں لکڑیوں کے ایک چھجے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
٭٭٭
اکتوبر میں رچرڈ مانکٹن اپنی بیوی کے ہمراہ لیاہرسٹ میں نائٹنگیل فیملی کا مہمان بنا۔وہ فلورنس کی عدم موجودگی پر غمزدہ ہوگیا اور اس نے وہیں سے ایک خط اس کے نام لکھا۔ یہ خط فلورنس کونومبر میںموصول ہوا۔ لکھا تھا۔
”میری پیاری دوست!
مجھے پتہ چلا ہے تم مشرق کی طرف نکلی ہو۔ مجھے خوشی ہوئی کہ تم اپنی خواہش پوری کرنے جارہی ہو اور مجھے امید ہے کہ تم اپنے آپ کومطمئن کرسکو گی۔ میں یہاں تمہارے بارے میں لکھ رہا ہوں کہ تم کیا کرنے نکلی ہو۔یہ تمہیں تب ملے گا جب تم مجھے نہ پاﺅ گی۔ میری اچھی دوست! تم جہاں بھی جاﺅ، خدا تمہارے ساتھ ساتھ ہو۔“
خط پڑھتے ہی اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسے خط کی تحریر نے نیا حوصلہ بخشا تھا اور اسے رچرڈ مانکٹن کی محبت بھری شخصیت کی دعاﺅں میں موجود اثر پر یقین تھا۔ دل میں اپنے عزم کو دہراتے ہوئے اس نے خط کو تہہ کرکے اپنے پاس محفوظ کرلیا۔
وہ بڑے شوق اور انہماک سے خط لکھنے کی عادی تھی۔ اس کی تحریر بڑی جاندار ہوتی تھی۔ اس نے اس خط کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ کیسرورتھ ہسپتال کی کیرولین فلینڈر کو بھی خط لکھا۔
”میری بہت ہی پیاری کیرولین!
ہم یہاں پہنچ کر اپنے کوارٹرز میں مقیم ہوگئی ہیں۔ میں تمہیں یہاں کی تکلیف دہ صورت حال کے بارے میں بتا نہیں سکتی۔ خدا نے مجھے حوصلہ دیا تو میں اس چیلنج کو پورا کروں گی اور میں نہیں جانتی کہ میں اس صورت حال میں کس طرح اس چیلنج کو نبھا پاﺅں گی۔ اگر ہم کبھی نہ مل پائے تو میری دعا ہے کہ تم اور پاسچر فلینڈر کو خدا اپنی امان میں رکھے۔“
٭٭٭
 اس کی آمد پر سکوتاری برٹش کیمپ کے سرجن معترض تھے۔وہ اس کے مشوروں کو قبول کرنے کے حق میں نہیں تھے۔فلورنس نے ان کے آپریشن کے طریقہ کار کو نہاےت ظالمانہ قرار دیا تھا۔ تبھی تو ایک زخمی کا بازو کاٹتے ہوئے سرجن نے سالخورہ آپریشن ٹیبل پر اپنے ساتھیوں سے کہا ”لندن کے احمق کیا کہتے ہیں، میں اس کی ذرہ پرواہ نہیں کرتا۔“
”یس سرجن....“ اسسٹنٹ نے کہا۔
”میں نے آدھی زندگی ملکہ برطانیہ کی فوج میں اس لئے نہیں گزاری کہ ایک جوان عورت آئے اور مجھے میرے کام کے بارے میں بتائے کہ کیسے کرنا ہے اورکیسے نہیں کرنا ہے۔جلد ہی وہ یہ امید رکھے گی کہ آپریشن کیلئے نئے کلوروفارم کو استعمال کیا جائے گا۔ میں کہہ رہا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ جیسے ہم پہلے کام کررہے ہیں ایسے ہی کرتے رہیں گے۔ سب ٹھیک ہے۔ نشتر تلے زخمی کا چیخنا چلانا معمول کی بات ہے۔“
وہ ہسپتال میں کسی عورت کے وجود کو نہاےت نقصان دہ او ر غیر ضروری خیال کرتے تھے۔ چونکہ اس کے عقب میں ہربرٹ کی بااختیار شخصیت موجود تھی اس لئے وہ کھل کر اس کی مخالفت کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔
 موسم سرما میں جب 4077 فوجی ہلاک ہوئے تو وہ بھی بکھر سی گئی۔ اس کے وفد میں شامل مختلف العقیدہ نرسیں بھی اس کیلئے دردِ سر بنی ہوئی تھیں۔ مسلسل بے آرامی اور بے خوابی اس کی صحت پر برے اثرات مرتب کررہی تھی جس کی اسے مطلق پرواہ نہیں تھی۔
ابتدائی دنوں میں ہی اس نے ملٹری ہسپتال کے صفائی کے شعبے کو جدید خطوط پر چلاتے ہوئے خود کو منوا لیا۔محاذ سے لائے گئے فوجیوں کو بغیر کمبلوں کے رکھا جاتا تھا۔ ان کی یونیفارم تک تبدیل نہیں کی جاتی تھی اور وہ جس طرح لائے جاتے، اسی حالت میں مہینوں رہتے۔ گندے کپڑے دھونے کی سہولت نہیں تھی جس کی وجہ سے ان میں بحالی کی رفتار مایوس کن تھی۔فلورنس نے یہ بھانپ لیا کہ ہسپتال میں لائے جانے والے زیادہ تر فوجی زخموں اور بیماری کی شدت سے نہیں مرتے تھے بلکہ صفائی کی کمی، نامناسب دیکھ بھال اورنامعقول علاج کی بدولت مرتے تھے۔اسہال اور ہیضے کی بیماریاں ناقص غذا کی بدولت پھیل رہی تھیں۔اس نے ہسپتال کی انتظامیہ کی توجہ ان امور کی جانب دلائی مگر خاص شنوائی نہ ہوئی جس پر اس نے اپنی انتھک کوشش کی بدولت عملی طورپر ہسپتال کے جملہ انتظامی امور سنبھال لئے۔ اس نے اپنے طور پر آرمی میڈیکل کیئر کے تمام اصول یکسر بدلتے ہوئے زخمیوں کے علاج اور ان کی غذا کا معیار بدل کر نرسنگ کے شعبے کو اک نئے دور سے روشناس کرایا۔ اس کی بے خوفی اور رات دن کی لگاتار محنت نے جہاں سرجن اور ڈاکٹروں کو اس سے بددل کیا وہاں فوجیوں اور محاذ پر موجود افسروں نے اسے آنکھوں پر بیٹھا لیا۔
ہسپتال کے مرکزی باورچی خانے کی صورتِ حال نہایت مایوس کن تھی۔ انتظام و انصرام نام کی کوئی شئے نہیں تھی بلکہ باورچی خانہ کاٹھ کباڑ کا کمرہ دکھائی دیتا تھا۔ ویسے بھی یہاں قحط کی سی حالت نظر آتی تھی۔ سبزی کے نام پر خشک مٹر دستیاب تھے جنہیں مریضوں کے معدوں میں بے رحمی سے اُتار ا جاتا تھا۔ خوراک کو پکانے کی بہ جائے اُسے کم و بیش آنچ پر اُبال لیا جاتا۔ گوشت کو اُبالنے کیلئے بڑی بڑی کیتلیاں استعمال کی جاتی تھیں جن میں گوشت کے بڑے بڑے اَن دُھلے پارچے ڈال کر اّبالے جاتے۔ آگ جلانے کیلئے خشک لکڑیوں کو اکٹھا کرنے کی صعوبت سے بچنے کے لیے ملحقہ جنگل سے گیلی لکڑیاں کاٹ لی جاتیں جو آگ کم اور دھواں زیادہ اُگلتی تھیں۔ یہ دُھواں مریضوں کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوتا اور دن کے بیشتر حصے میں ہسپتال کی پوری فضا دھوئیں کی زَد میں آلودہ رہتی۔ گیلی لکڑیوں پر گوشت کو اُبالنے کی وجہ سے گوشت پوری طرح گل نہ پاتا اور پھر بے دردی کے ساتھ کچا پکا گوشت مریضوں کو دے دیا جاتا۔ پانی کے فقدان کے سبب برتنوں اور کیتلیوں کو کبھی کبھار ہی دھویا جاتا تھا۔ جن کتیلیوں میں گوشت اور سبزی اُبالی جاتی، اُنہیں میں مریضوں کیلئے چائے تیار کی جاتی تھی جو نہایت ضرررَساں عمل تھا۔ تمام دِن برتنوں میں بڑے بڑے چوہے اُچھلتے کودتے رہتے۔ جنگلی پرندوں کو بھگانے کا بھی کوئی اہتمام نہیں تھا۔ جراثیموں سے آلودہ، یہی خوراک، جب مریضوں کے معدوں میں پہنچتی تو پیچش اور کالرا کے مریض فی الفور دَم توڑ جاتے یا اُن کی حالت خطرناک حد تک بگڑ جاتی۔ دوسرے مریض، جو اِن امراض سے محفوظ تھے، وہ بھی اِنہی امراض کا شکار ہو کر نڈھال ہوجاتے۔
فلورنس نے فی الفور یہ طے کیا کہ یہ خوراک مریضوں کیلئے ناقابلِ برداشت ہے۔ اُس نے بڑی جانکاہ محنت کے ساتھ کچن کی صفائی کی۔ برتنوں کو دُھلوایا۔ مارسیلز سے کافی تعداد میں اراروٹ، پورٹ وائن، چولھے، کیتلیاں اور عام استعمال کے چھوٹے برتن منگوائے۔ نازک حالت کے مریضوں کے برتن علیحدہ کیے اور اُن کی خوراک میں زود ہضم اراروٹ اور پورٹ وائن کی مناسب مقدار بھی شامل کردی۔ اُس کے اصرار پر خشک مٹروں کے علاوہ بھی سبزی منگوانے کا بندوبست کیا گیا۔ ہلکی غذا کھانے والے مریضوں کیلئے وہ کھانا خود تیار کرتی تھی جبکہ عمومی خوراک کی تیاری کے عمل کو بھی بہ نظرِ غور دیکھتی تھی۔ مریضوں کو پلیٹیں، چمچ، کانٹے، چاقو اور چائے کے کب فراہم کیے گئے اور گرم کمبل کافی مقدار میں خرید کر اُن کے حوالے کیے گئے۔
چونکہ صفائی والے عملے کی کوتاہی اور سہل پسندی کے باعث لیٹرینوں کے نکاسی والے پائپ بند ہوچکے تھے اور مریضوں کیلئے وارڈوں میں لکڑی کے بنے ہوئے بڑے بڑے ٹب رکھے گئے تھے جن کی دن میں صرف ایک مرتبہ صفائی کی جاتی تھی کیونکہ ان کو خالی کرنا انتہائی غلیظ اور ناقابلِ برداشت کام تھا۔ عدم صفائی کے سبب وارڈوں میں سخت بدبو پھیلی رہتی تھی اور نرسوں کو ناک پر رومال رکھ کر وارڈوں میں گشت کرنا پڑتا تھا۔ مریضوں کی دَم بہ دَم بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب پورا ہسپتال نہایت کریہہ اور غلیظ ماحول پیش کرنے لگا تھا۔ عملے سے لے کر دَم توڑتے مریضوں کے چہروں پر موت کا رقص جاری تھا۔ ایسے میں فلورنس نے کمال انقلابی کام کیے۔ صفائی والے عملے کو بہ صد سعی پائپ کھولنے پر رضامند کیا۔ اپنی نگرانی میں اُس نے لیٹرینوں کی صفائی کروائی اور وارڈوں سے لکڑی والے ٹب نکالے۔ تمام ہسپتال کا فرش پاﺅڈر کے ساتھ دھویا گیا اور تعفن زدہ ماحول سے چھٹکارا مل گیا۔ فرش کی دھلائی کیلئے فلورنس نے 200 عدد برش منگوائے تھے۔ اِس کام سے فارغ ہوتے ہی اُس نے ہسپتال کے تمام سپاہیوں، ملازموں، ڈاکٹروں اور مریضوں کے کپڑے، کمبل اور چادریں دھونے کا بھی اہتمام کیا۔ اِس کام میں سبھی نے اُس کا ساتھ دیا۔ اُس نے ہسپتال کے قریب ایک بڑا سا مکان حاصل کیاتھا جس میں اُس نے سپاہیوں کی بیویوں کو ہسپتال کے کپڑے دھونے کی ذمہ داری عائد کی تھی۔ اِس کام کا مناسب معاوضہ دینے کا بھی اُس نے اہتمام کیا۔
ایک رات ایک زخمی کے انتظار میں اسے کئی گھنٹے ہسپتال کے مرکزی دروازے پر سخت سردی اور برف باری کے دوران کھڑے ہونا پڑا جس کی وجہ سے اسے ٹائیفائیڈ ہوگیا۔ چند فوجیوں اور فلورنس کے قریبی ساتھیوں نے اسے سنبھالا۔ بخارکی زیادتی پر اسے ہسپتال کے ماحول سے نکالتے ہوئے اٹھا کر قریبی پہاڑ پر واقع ہٹ میں لے جایا گیا جہاں اس کی ساتھی نرس مسز رابرٹس نے اس کی دیکھ بھال کی۔ مسز رابرٹس اس سے محبت کی حد تک انس رکھتی تھی۔ یہاں برٹش فورسز کے چیف کمانڈر لارڈ ریگلن نے ایک رات ایک فوجی کا سوانگ بھر کر اس کی عیادت کی۔وہ خود کو پوشیدہ رکھ کر اس کی شخصیت کو پرکھنا چاہتا تھا۔ اسے یہ یقین نہیں تھا کہ ایک شاہانہ خاندان کی عورت انسانیت کی خدمت میں اس حد تک بھی جاسکتی ہے۔ فلورنس سے مل کر اسے اپنے ساتھیوں اور ان گنت فوجیوں کا ہم خیال ہونا پڑا۔ اس کی اپیل پر تمام فوجیوں نے اس کی صحت یابی کیلئے خصوصی دعائیں مانگیں۔ چارلس اور مسز رابرٹس نے اس کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ جب وہ پوری طرح صحت مند ہوئی تومزید وقت ضائع کئے بغیر چارلس کی معیت میں بیرک ہسپتال پہنچ گئی۔
اِس بیرک ہسپتال میں مریضوں کی گنجائش بالکل بھی نہیں رہی تھی بلکہ گنجائش سے تین گنا مریض یہاں داخل تھے۔ فلورنس نے اطراف کا جائزہ لیا۔ لانڈری (وہ مکان جو فلورنس نے کپڑوں کی دھلائی کے لیے کرایہ پر حاصل کیا تھا) کے قریب ایک بہت بڑی عمارت واقع تھی جو جنگ کے دوران ہونے والی اندھی بم باری میں نصف سے زیادہ تباہ ہوچکی تھی۔ اُس نے بہ احتیاط جائزہ لیا اوراپنے تئیں یہ طے کر لیا کہ اِس عمارت کی مرمت کر ا لی جائے تو اِس میں مریضوں کو رکھا جاسکے گا۔ محتاط انداز ے کے مطابق یہاں ایک ہزار کے لگ بھگ مریض رکھے جاسکتے تھے۔ چونکہ ہسپتال کی انتظامیہ کے پاس نہ تو اتنے وسائل تھے اور نہ ہی اُن کے اختیارات کا دائرہ اتنا وسیع تھا، اِس لیے یہ کام بھی فلورنس کو ہی کرنا پڑا۔ اُس نے فی الفور شکستہ حال عمارت کی مرمت پر دو اَڈھائی سو مزدور لگا دیے۔ اس کام پر خطیر رقم خرچ ہوئی۔ کچھ رقم فلورنس نے اپنے پاس سے جبکہ کچھ رقم ”دی ٹائمز“ کے جنگی فنڈ سے خرچ کی۔ بہت ہی تھوڑے عرصے میں یہ عمارتی کام مکمل ہوگیا اور عمارت نے جدید طرز کے ہسپتال کی شکل اختیار کرلی۔
(بعد میں ملکہ عالیہ کے قائم کردہ ”محکمہ جنگ“ نے فلورنس کی خرچ شدہ رقم اُسے واپس کردی تھی اور ملکہ برطانیہ نے ذاتی طور پر اُس کی کاوشوں پر شکریہ ادا کیا تھا۔ فلورنس کے لیے پُرخلوص جذبات کے ساتھ ساتھ ملکہ برطانیہ نے یہ پیش کش بھی کی تھی کہ اگر اُس کے ذہن میں سپاہیوں کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی تجویز، کوئی مضبوط لائحہ ¿ِ عمل یا رائے ہو تو وہ براہِ راست ملکہ کو ارسال کرسکتی ہے۔ اِس پیش کش کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فلورنس نے خط میں لکھ بھیجا کہ بیمار اور زخمی سپاہیوں کی تنخواہ میں سے کٹوتی نہ کی جائے بلکہ اُن کی اُجرت کی رقم بحال کی جائے۔ وہ یہ سوچتی تھی کہ زخمی ہونے والے سپاہی کی تنخواہوں میں کٹوتی نہایت ظالمانہ اور غیر منصفانہ عمل تھا۔ ملکہ برطانیہ نے اُس کے خط پر فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے بیمار اور زخمی سپاہیوں کی سابقہ تنخواہیں بحال کردیں اور کٹوتی والا حکم واپس لے لیا)۔
فلورنس رسد کے ناقص انتظامات کی وجہ سے بھی کافی پریشان رہتی تھی۔ سپاہیوں کے لیے بھیجی جانے والی خوراک کی کمک پوری مقدار میں محاذ تک نہیں پہنچ پاتی تھی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث آدھی سے زیادہ ضائع ہوجاتی تھی۔ خوراک کی سپلائی کا بڑا حصہ ترکی کے کسٹم ہاﺅس سے ہی غائب کر دیا جاتاتھا۔ بند گوبھی سے بھرا ہوا ایک جہاز بالا کلاویا کی بندرگاہ پر محض اِس لیے خالی کر دیا گیا کہ اُس پر کسی وصول کنندہ کا نام درج نہیں تھا۔ اِسی طرح بیس ہزار پونڈ لیموں کا عرق بندرگاہ پر روک دیا گیا اور دو ماہ تک اُسے صرف اِس وجہ سے روکے رکھا گیا کہ راشن کی سپلائی میں اُس کا اندراج موجود نہیں تھا۔ وہ عرق خراب ہوگیا اور اُس میں سڑاند پڑ گئی۔ جب فلورنس کو اطلاع ملی کہ محاذ پر لڑتے ہوئے سپاہی سکراوی کے موذی مرض کا شکار ہوگئے ہیں تو وہ مضطرب ہوگئی۔ اُس نے فوری طور پر وٹامن ’سی‘ کی گولیوں کا مطالبہ کیا کیونکہ سکراوی کی شدت سے مریضوں کے مسوڑھے گلنے لگے تھے۔
سردیوں کا موسم شروع ہوچکا تھا۔ بیرک ہسپتال میں فلورنس کی جانکاہ محنت سے کیے گئے انقلابی اقدامات کے باوجود اچانک صورتِ حال دائرہ اختیار سے باہر ہونے لگی۔ تمام وارڈز صاف ستھرے کر دیے گئے تھے، لیٹرینوں کی نکاسی کا انتظام بھی تسلی بخش تھا اور مناسب اور جراثیموں سے پاک خوراک کی فراہمی پر بھی پوری توجہ مرکوز تھی مگر اچانک مریضوں میں شرح اموات بڑھنے لگی۔ بڑھتے بڑھتے خطرناک حد تک متجاوز ہوگئی۔ یہ اموات سپاہیوں کے خراب زخموں کی وجہ سے یا کسی بیماری کی بدولت واقع نہیں ہورہی تھیں بلکہ خاموش وبا تھی جو آئے روز درجنوں مریضوں کو نگلنے لگی تھی۔ مریضوں کے ساتھ ساتھ چار قابل اور محنتی ڈاکٹرز اورتین سرگرم نرسز کو بھی لقمہ اجل بننا پڑا۔ مرنے والو ں کی تعداد اِس حد تک بڑھ گئی کہ اَن کی تجہیز و تکفین کیلئے مزدوروں کو بھرتی کرنا پڑا۔
دی ٹائمز کے نمائندے رسل کی رپورٹوں نے برطانوی عوام میں شدید اضطراب اور بے چینی بھر دی۔ اُنہیں پتہ چلا کہ اُن کی فوج کس شان و شوکت سے لڑ رہی ہے۔ وہ ہیرو جو محاذِ جنگ پر اپنی بہادری کے جوہر دکھا کر زخمی حالت میں ہسپتال پہنچتے تھے، وہ سرکاری بدانتظامیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے اور بیماری اور عدم علاج کی بدولت مرتے تھے۔ حکومت برطانیہ آنے والے وقت کا اندازہ کرکے لرزہ براندام ہوگئی اور فوری طور پر ایک معائنہ کمیشن اسکوتاری روانہ کیا گیا۔ معائنہ کمیشن کی تحقیقی رپورٹ نے دہلا کر رکھ دیا۔ بیرک ہسپتال کی پوری عمارت کا نکاسی کا انتظام نہایت ناقص تھا ۔ اِس وسیع و عریض عمارت کے نیچے ہی ایک زیر زمین گڑھا نما گٹر تھا جس میں پوری عمارت کی غلاظت اور گندا پانی جمع ہوتا تھا۔ یہ غلاظت سڑ رہی تھی اور اِس کی پیدا کردہ سڑاند زہریلی گیس پیدا کررہی تھی۔ یہ گیس شکستہ پائپوں کے ذریعے وارڈز میں منتقل ہوتی رہتی تھی۔ یہی گیس موت بانٹ رہی تھی۔
یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ ہسپتال میں کچھ خاص جگہوں پر لیٹنے والے مریض ہی جلد موت کا شکار ہوتے ہیں۔ جائزہ لینے پر واضح ہوا کہ یہ سارے بیڈ اُنہی پائپوں کے قریب بچھے ہوئے تھے جن سے زہریلی گیس خارج ہوتی تھی۔ کمیشن نے فوری طور پر صفائی کے احکامات جاری کیے اور غلاظت کے جوہڑ کو صاف کروایا۔ صفائی کے بعد شرح اموات میں اچانک واضح طور پر کمی واقع ہوگئی۔ اِنہی دِنوں فلورنس کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں۔ انگلیاں اُٹھنے لگیں۔ ایک طرف اُس نے مسلسل کام کرکے اپنی صحت بگاڑ لی تھی تو دوسری طرف اُس پر شدید تنقید کرنے والوں نے اُسے ذہنی اضطراب اور بے چینی کا شکار کر رکھا تھا۔ افسران کی سازشوں کا مقابلہ کرنا اُس کے بس سے باہر ہونے لگا تھا؛ تبھی اُس نے ایک جگہ لکھا۔
”اسکوتاری بیرک ہسپتال کی ذلت آمیز مجبوری یہ بھی ہے کہ یہاں اُن لوگوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے جو اپنے آپ کو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے بچانے اور اپنے آپ کو الزامات سے بری رکھنے پر اپنی توانائیاں خرچ کرتے ہیں....“
ملٹری کے افسروں اور ڈاکٹروں نے اس کے تعین کردہ اصولوں کو بری طرح رد کردیا۔ وہ اس کی دی ہوئی پالیسیوں کو اپنے پیشہ وارانہ معاملات میں دخل قرار دیتے۔ اس نے کوئی چارہ کار نہ پاتے ہوئے جان ڈیلانس جو دی ٹائمز کا ایڈیٹر تھا، سے رابطہ کیا اور اسے کیمپ کی تمام صورت حال اور پریشانیوں سے آگاہ کیا۔جان ڈیلانس نے اس کے کاز کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کیلئے آسانی کی راہیں تلاش کیں۔ انہی دنوں میری سیکل نے فلورنس نائٹنگیل کے سکوارڈ میں شامل ہونے کی باقاعدہ درخواست کی جسے قبول نہ کیا گیا۔ چونکہ وہ خود جمیکا کی کامیاب بزنس وومن بن چکی تھی اس لئے اس نے ذاتی خرچ پر کریمیا کا قصد کیا۔ اس نے ترکی میں فلورنس سے ملاقات کی اور اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ اسے ہیضہ کے خلاف کام کرنے اور اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے۔ فلورنس نے بڑی رسانی سے اس کی پیشکش کو رد کردیا۔
میری سیکل اپنی ہٹ کی پکی عورت تھی۔ اس نے فلورنس سے ناکام ملاقات کے بعد میدان جنگ سے چند میل دور برٹش ہوٹل قائم کرلیا۔ یہاں وہ فوجیوں کو کھانا اور ڈرنکس بیچتی۔ یہاں سے اسے جتنی بھی آمدنی ہوتی، فوجیوں کیلئے ادویات اور مرہم پٹی کا سامان خریدنے پر صرف کردیتی۔چونکہ وہ فلورنس اوربیرک ہسپتال کی نسبتاً میدان جنگ کے زیادہ قریب تھی، اس لئے بہ آسانی زخمیوں اور بیماروں کو علاج کی سہولت فراہم کردیتی تھی۔جنگ کی برستی آگ میں بھی وہ فوجیوں کی مرہم پٹی کرنے سے چوکتی نہ تھی۔ اپنے کام کے دوران وہ نائٹنگیل سے بھی رابطے میں رہتی تھی۔
مارچ 1855ءکو لندن کے چیف الیکسز سوٹر نے سکوتاری کے بیرک ہسپتال کا دورہ کیا۔ اپنے اس ٹور کے دوران وہ حقیقی معنوں میں فلورنس کی نہاےت فعال اور نہ تھکنے والی شخصیت سے متاثر ہوا۔ اس نے جاتے ہوئے فلورنس سے خصوصی طور پر مخاطب ہوکر کہا ”حکومت برطانیہ تمہارے جذبے اور ان تھک کام پر یقیناً مشکور ہو گی اور میں اس ہسپتال میں تمہاری نمایاں کارکردگی کا اظہار متعلقہ دفاتر میں ضرور کروں گا۔“
”اوکے....مسٹر سوٹر! تمہاری تحسین کا شکریہ۔ مگر میں کسی معاوضے یا انعام کے لالچ میں ایسا نہیں کررہی ہوں بلکہ میں اپنے خدا سے کیا ہوا وعدہ پورا کررہی ہوں۔ اپنے ہم وطن فوجیوں کی خدمت میرا شعار ہے۔“
اگلے ماہ بہار میں بارشیں شروع ہوگئیں جنہوں نے فلورنس کے کام کو بڑھادیا۔ لگاتار برسنے والی بارشوں نے فلورنس اور اس کی ساتھی نرسوں کو بری طرح تھکا دیا۔ اس پر مستزاد وقفے وقفے سے لگنے والے زلزلے کے جھٹکوں نے زخمیوں اور ساتھی نرسوں کو بری طرح خوفزدہ کردیا۔ عمارت کے گرنے کے خوف سے تمام ڈاکٹرز اور نرسیں کمروں میں جانے سے اجتناب کرتی تھیں۔ ایسے میں فلورنس کسی خوف کا شکار ہوئے بغیر اپنے زخمیوں کی دیکھ بھال کررہی تھی۔ وہ نہاےت دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمیوں کو دلاسہ دیتی ”دیکھو! مجھے تو زلزلوں کا کوئی خوف محسوس نہیں ہورہا۔ موت کا وقت متعین ہے۔ اگر میں نے اب مرنا ہے تو زلزلے کے علاوہ کچھ بھی میری موت کی کوئی وجہ بن سکتا ہے.... پھر صرف عمارت کے گرنے کا ہی خوف کیوں؟“
اس کی مسکراہٹ اور جاندار آواز زخمیوں کے حوصلے بلند کردیتی اور انہیں وقتی طور پر خوف سے چھٹکارا مل جاتا تاآنکہ زلزلے کا دوسرا جھٹکا محسوس نہ ہوجاتا۔
نائٹنگیل اپنے ساتھی افسروں کی تمام تر عداوت کے باوصف رات کے لمحات میں سونے کی بجائے لالٹین اٹھائے زخمی فوجیوں کی پٹیاں بدلتی اور بھرپور محبت سے ان کی عیادت کرتی۔ اس کی شہرت کیمپ سے نکل کر آدھی دنیا میں ”لیمپ والی عورت“ کے نام سے پھیل گئی۔ اسے ”نائٹنگیل مشرق میں“ کا خطاب بھی دیا گیا۔ وہ مروجہ تربیت اور طریقہ نگہداشت پر مطمئن نہ تھی۔ وہ نرسنگ کی تربیت کو سائنسی علم قرار دیتے ہوئے اسے نئے خطوط پر استوار کرنے کی خواہاں تھی۔ اپنی ماتحت نرسوں کو بھی خدمت کے جدید طریقے سے روشناس کرانے کیلئے وہ اپنا عملی کردار پیش کررہی تھی۔ اس کی دی ہوئی پالیسیوں کی بدولت مرنے والوں کی شرح میں نمایاں کمی ہوتی گئی۔
ملٹری ہسپتال کی عمارت بہت خستہ تھی۔ نرسوں کی رہائشگاہ کے قریب ایک گندے پانی کا بڑاجوہڑ تھا جس نے تمام تر فضا کو زہریلا کردیا تھا۔ یہاں پیدا ہونے والے جراثیموں کی بدولت فوجیوں کے زخم ناسور بن جاتے تھے۔ اس نے فوری طور پر اس جوہڑ کو ختم کرایا۔اس نے نرسنگ ہوم کا نقشہ بھی ترتیب دیا۔ ہسپتال اور ہوسٹل میں ان گنت چوہے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے تھے اور زخمیوںکی خوراک کو بھی جراثیم آلودہ کرتے رہتے تھے۔ فلورنس نے اپنی چند ساتھی نرسوںکی مدد سے چند دنوں میں ان کا خاتمہ کیا۔ وہ بہت اچھی Rat Killer ثابت ہوئی تھی۔
برطانیہ کے عوام تک نائٹنگیل کی محنتوں کی کہانیاں فوجیوں کے اپنے اہلِ خانہ کے نام لکھے جانے والے خطوں کے ذریعہ پہنچ رہی تھیں۔ محاذ سے آنے والے ہر خط میں ”لیمپ والی معزز دوشیزہ“ کا قصہ ضرور ہوتا اور یہ بھی لکھا ہوتا کہ اس معزز نرس کی وجہ سے ہمیں گھر سے دور کبھی اپنے گھر کی یاد نہیں آتی۔ وہ ہمارا ہر طرح خیال رکھتی ہے۔ مصوروں نے نائٹنگیل کی خیالی تصویریں بنا کر بیچنا شروع کردیں۔ 24 فروری 1855ءکو لندن نیوز نے لکھا کہ اپنے ملک سے ترکی جا کر اپنے فوجیوں کی غیر معمولی دیکھ بھال کرنے والی نرس کی غیر معیاری تصاویر بھی عوام میں مقبول ہیں۔ یہ اس کی بے تحاشا مقبولیت کا اعتراف تھا۔ اسی طرح دی ٹائمز میں نائٹنگیل کی مصروفیات پر ایک خط لکھا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ وہ جانوں کے ضیاع کو روکنے کی بہترین کوششوں کررہی ہے اور اسے فرشتہ سمجھا جارہا ہے۔ یہ بھی لکھا گیا کہ اس کی آمد پر ہر چہرے سے اطمینان جھلکنے لگتا ہے۔
٭٭٭
ایمبلے پارک میں نائٹنگیل فیملی ناشتے کی میز سے اٹھ کر اسٹڈی روم میں آگئی۔ پارتھی نے قدرے تاسف سے کہا ”میری پیاری بہن فلو جانے کس حال میں ہوگی؟.... بے وقوف نے اتنا آرام دہ گھر چھوڑ کر جنگ کا میدان اپنے لئے چن لیا۔“
ولیم ایڈورڈ نے اسے گھورا”تم اپنی ماں کے جذبات کا خیال بھی نہیں کرتی ہو۔“
فینی نے جھٹ سے کہا ”پارتھی! تمہارے پاپا کو سوائے اس احمق کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے کوئی کام نہیں ہوتا۔ اسے تو میری پریشانی کا بھی احساس نہیں۔میں فلو کے بغیر کتنی اداس اور پریشان رہتی ہوں، اسے کوئی فکر نہیں ۔“
ولیم ایڈورڈ نے چیختے ہوئے کہا ”فینی ڈارلنگ! یہ دیکھو۔ لندن کے تمام اخبارات تمہاری فلو کی تعریفوں سے بھرے پڑے ہیں.... دیکھو تو سہی!“
پارتھی نوپ اچھل کر اپنے باپ کے پاس پہنچ گئی”میں بھی تو دیکھوں کہ کیا چھپا ہوا ہے میری پیاری بہن کے بارے میں!“
ایک اخبار پر نظر دوڑاتے ہوئے اس نے خوشی سے چیختے ہوئے کہا ”ماما.... لکھا ہے کہ فلورنس نائٹنگیل جنرل آرٹس، سائنس اور ادب پر مہارت رکھنے والی خوبصورت عورت ہے....اور یہ دیکھیں لکھا ہے ....وہ فرنچ، جرمن ، اٹالین اور انگلش اپنی مادری زبان کی طرح روانی سے بول سکتی ہے....“
فینی بھی اخباروں پر جھک گئی۔
”فینی! دی ایگزامینر کو پڑھو.... کتنی پذیرائی دی ہے اس نے میری فلو کو....“ ولیم ایڈورڈ نے دی ایگزامینر کی کاپی اس کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا۔
فینی کی آنکھیں فرطِ حیرت و مسرت سے پھٹنے کو آگئیں۔ اک گوناں گوں فخر کا احساس ہوا اور گردن تن گئی۔
مسز گیل اسٹڈی روم میں کافی تھامے داخل ہوئی اور ان کو اخباروں پر جھکا دیکھ کر حیران ہوئی۔ اس کی حیرت فلورنس کا نام دیکھ کر دوچند ہوگئی۔ کسی جگہ پر اسے وکٹوریہ کوئین کے برابر شہرت کا مالک قرار دیا گیا تھا تو کسی جگہ پر اس کی خوبصورتی کے افسانے تراشے گئے تھے۔ پارتھی چیخی ”ماما! پاپا! دی ٹائمز پر توجہ دیں.... پلیز دی ٹائمز پر توجہ دیں....“
دی ٹائمز نے لکھا تھا ”مس نائٹنگیل ان چند لوگوں میں سے ایک ہے جسے خدا نے نہاےت معتبر کاموں کیلئے چنا۔ تم اس کے منہ سے ’نہیں‘ کا جملہ نہ سن سکو گے۔ وہ بہت سادہ، ذہین، شیریں زباں اور محبت سے بھری لڑکی ہے۔ وہ مکمل اور ماہر عورت ہے۔ لمبی اور خوبصورت ہے۔ اس کے چہرے سے انسیت اور لگاوٹ جھلکتی ہے۔ دنیا کی کوئی چیز اس کی مسکراہٹ سے زیادہ میٹھی نہیں۔ وہ موسم گرما کی خوبصورت دھوپ ہے۔“
ولیم ایڈورڈ کسی اخبار میں چھپا گیت گنگنانے لگا جو فلورنس کے بارے میں لکھا گیا تھا۔
”فوجی دیکھو تو لمبی اور تھکی تھکی سی نائٹنگیل کی طرف
یہ اس کا اعجاز ہے کہ تمہارے زخموں کو جلد آرام آجائے گا
تمہاری تکلیف کیلئے عجیب طریقے سے دوائیں بھی دعا مانگیں گی
لیموں سے تیار کئے ہوئے شربت کے بھرے جگ کے ساتھ!“
فینی اور پارتھی ولیم کے ہونٹوں سے نکلنے والے بولوں پر سر دھن رہی تھیں۔ ایک مسرت لفظوں کا پیرہن پہنے ان کی رگ رگ میں سرایت کرتی جارہی تھی۔
٭٭٭
بیرک ہسپتال میں موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سوائے کراہوں اور سانسوں کے آوازوں کے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ فلورنس اپنی ایک ساتھی نرس کے ہمراہ لالٹین ، چند ادویات اور معائنہ جاتی آلات اٹھائے رات کے اندھیرے کو چیرتی ہسپتال کا دورہ کررہی تھی۔ اس کے چند مریض اس کی مسیحائی کے منتظر تھے۔ آج اس کے ساتھ غیر متوقع طور پر تھامس چنیری بھی موجود تھا جو اس کا اعجازِ مسیحائی دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ اس نے ایک نوٹ بک اٹھا رکھی تھی جس پر گاہے بگاہے وہ ان اشیاءکے نام لکھتا جاتا تھا جو بیرک ہسپتال کو درکار تھیں۔یہ فہرست اس نے لندن ٹائمز کو دینا تھی۔ اس کام میں فلورنس اس کی مدد کررہی تھی۔
”مسٹر چنیری! یہاں تو سوتی کپڑوں کے ٹکڑوں کی بھی شدید قلت ہے۔“ فلورنس نے پٹیوں میں جکڑے ایک زخمی کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ”یہاں تو ہر چیز کی کمی ہے۔ ڈاکٹر تو قطعی طور پر تعاون کرنے کو تیار نہیں ہیں۔“
”میں تمہاری مشکلات کو سمجھتا ہوں ۔ ایسے ماحول میں رہ کر کام کرنا نہاےت تکلیف دہ اور مضر صحت ہے۔“ چنیری نے کہا۔
فلورنس کوئی جواب دیے بغیر مریض کی طرف متوجہ ہوگئی جسے بخار ہوچکا تھا۔ اس نے دوا دی۔ پیشانی سہلائی اور بغیر کوئی آواز پیدا کئے دوسرے بیڈ کی طرف بڑھ گئی۔ وہ صرف ناگفتہ بہ حالت میں پڑے مریضوں کے بیڈ پر جارہی تھی۔ دوسرے مریض جو قدرے بہتر حالت میں تھے وہ جانتے تھے کہ فلورنس ان کے پاس نہیں آئے گی۔ ان کے منہ پر سے جب فلورنس کا سایہ گزرتا، وہ فرطِ عقیدت سے سائے کو چوم لیتے۔ ان کی والہانہ عقیدت کو تھامس چنیری بہ نظر غور دیکھ رہا تھا۔ اگلے چند دنوں میں ہی دی ٹائمز نے اس واقعے کو پوری ایمانداری سے عوام کے سامنے رکھ دیا۔
سڈنی ہربرٹ نے جب دی ٹائمز اور دوسرے اخبارات میں فلورنس نائٹنگیل کے سائے کو فرطِ عقیدت سے چومے جانے کے بارے میں سنا تو اس نے فوری طور پر فلورنس کے نام پر ایک فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے فنڈ کی رقم کے تصرف کے بارے میں بھی سوچ لیا۔ اس نے آنے والے چند دنوں میں ہی مخیر حضرات سے مل کر فنڈ کے قیام کا اعلان کردیا۔ وہ بذات خود اس فنڈ کا اعزازی سیکرٹری بنا اور ڈیوک آف کیمبرج کو چیئر مین بنایا گیا۔ 29 نومبر1855ءکو فلورنس کی کوششوں کے اعتراف میں پبلک میٹنگ بلائی گئی اور اسے سراہا گیا۔
اس فنڈ کے قیام کا مقصد نرسنگ سکول کا قیام تھا مگر فلورنس اپنی موجودہ ذمہ داری سے بخوبی عہدہ برآ ہونے میں مصروف تھی۔ ہسپتال کے ایک کونے میں واقع نرسنگ ہوم کو ترکوں کی طرف سے ملنے والے تحفوں کے باوجود بہت سی ضروری اشیاءکی ضرورت تھی۔ فلورنس کے قریبی ساتھیوں اور نرسوں کیلئے بہت سی اشیاءکی کمی تھی۔ ٹائمز فنڈسے مخصوص رقم حاص کرکے اس نے نرسنگ ہوسٹل پر صرف کی۔
 اس کی کوششوں سے سرکاری سطح پر سینٹری کمیشن تشکیل دیا گیا۔ کیمپ میں اس کے خلاف آفیشیلز کی جارحیت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔
 چونکہ نرسیں پروٹیسٹنٹ اور رومن کیتھولک دونوں فرقوں سے تعلق رکھتی تھیں اس لئے ہسپتال میں فرقہ واریت پھیل گئی اور فلورنس بلاوجہ اس کی لپیٹ میں آگئی۔ کاہل اورنکمے افسروں نے بے بنیاد اسٹنٹ کھڑا کرتے ہوئے اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنا شروع کردیں۔ اسے نرسوں کے معاندانہ رویے کا سامنا بھی کرنا پڑا اور ”رومن کیتھولک طوفان“ اور ”پروٹیسٹنٹ چیخ و پکار“ جیسے القابات بھی سننا پڑے۔ مگر یہ سب عارضی رکاوٹیں اس کے سامنے ریت کی دیوار ثا بت ہوئیں اور وہ اپنی لگن میں مگن رہی۔
ان گوناں گوں مصروفیات کے باوجود اس کی توجہ اپنی ساتھی نرسوں کے معاملات پر بھی مرکوز تھی۔ اسے علم تھا کہ چھ نرسیں معاشقوں میں گرفتار ہوچکی ہیں اور اپنے اپنے محبوب زخمی کو وافر خوراک اور زیادہ دوا بہم پہنچاتی رہتی ہیں۔ اس کے استفسار پر انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے زخمیوں سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا۔ وہ اس معاملے کو طول نہیں دینا چاہتی تھی کیونکہ اس صورت میں وہ اپنے ہدف سے دور ہوجاتی۔ جب اسے بیرک ہسپتال کی بیسمنٹ کے بنیادی کام میں مشغول لیڈی بلیک ویل نے گزشتہ رات پانچ پیدائشیں اور تین اموات کی خبر دی تو اسے شاک پہنچا۔
وہ اس معاملے کو طول نہ دے سکی کیونکہ اسی وقت اس کی میٹرن نے اسے اطلاع دی کہ آدھے گھنٹے میں پانچ سو نئے زخمیوں کو میدانِ جنگ سے بیرک ہسپتال میں لایا جارہا ہے۔ وہ اور مسز رابرٹس دونوں ایمرجنسی میں آنے والے زخمیوں کو سنبھالنے کے انتظامات میں مصروف ہوگئیں۔
چند دن بعد ایک سرد اور سیاہ شام میں فلورنس نے مسز رابرٹس سے کہا ”مجھے اپنی نرسوں کے معاشقے پریشان کررہے ہیں۔“
”کیوں؟“
”میں مانتی ہوں کہ محبت ایک طاقت ہے۔ انسان کی توانائیوں کو کئی گنا زیادہ بڑھا دیتی ہے مگر مجھے یہ اندیشہ ستاتا رہتا ہے کہ کہیں میرا گروپ اپنے مشن سے ہٹ نہ جائے۔“
مسز رابرٹس نے کہا ”نہیں مس فلو! مرد اور عورت دونوں ہی قدرتی طور پر ایک دوسرے کی کشش کو محسوس کرتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اپنے گھر، خاندان اور دوستوں سے ہزاروں میل دور بے یارو مددگار لیٹا زخمی فوجی نرس کے نرم رویے کا غلط مطلب نہ لے؟.... پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ محبت سے یکسر محروم عورت تمام دن ایک زخمی کی نگہداشت کرے اور اپنے ذہن میں سرایت کرنے والے محبت کے جذبات سے خود کو علیحدہ رکھے؟....“
”یہ سب تو ٹھیک ہے مگر .... جانے کیوں میں اس مسئلے کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔ میں نہیں چاہتی کہ نرس کا کردار صرف مرد کو جنسی آسودگی دینے تک ہی محدود ہو جائے۔ میں اسی نظام کو ہی ختم کرنے کا ارادہ لے کر اس شعبے میں داخل ہوئی ہوں۔“ فلورنس نے کہا۔
”ہر عورت تمہارے جیسے جذبات لے کر پیدا نہیں ہوئی مسز نائٹنگیل!“ مسز البرٹس نے کہا ”جذبات ہی تو زندگی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ یہ ختم تو زندگی ختم!“
وہ ایک طویل سانس حلق سے خارج کرتے ہوئے خاموشی سے گھور اندھیرے میں نادیدہ شئے کو دیکھنے لگی۔
اچانک بیرک ہسپتال کے کسی وارڈ سے ایک بے ساز نغمے کی آواز سناٹے کوچیرکر ان تک پہنچی۔ یہ ایک فوجی کی آواز تھی جو بڑے درد ناک انداز میں گیت گا رہا تھا۔وہ دونوں ایک سرد پتھر پر بیٹھ کر ہمہ تن گوش ہوگئیں۔
میں برا نہیں مانتا، تو برا نہ سمجھے
جنگی حالات کی سنگینی کو جانتا ہوں
فوجی کی زندگی دینے کا ہی نام ہے
اور پھر اور کی طلب
جہاں میرے ساتھی گرے
گولیوں اور بموں کی ضربوںسے
اپنے بدن پر گہری سرخ لکیریں لئے
لیمپ والی معزز دوشیزہ
تم جانتے ہو کہ وہ سمجھتی ہے
لیمپ والی معزز دوشیزہ
جو فوجیوں کی دوست ہے
یہ جنگ کی دوزخی بھٹی ہے
اور میں بڑے بڑے زخموں کی پرواہ نہیں کرتا
 میں اپنے ساتھیوں کو گرتے دیکھتا ہوں
اب میں سرد اور تنہا کمرے میں پڑا ہوں
حیران ہوں کہ اب تک زندہ ہوں
لیمپ والی معزز دوشیزہ
تم جانتے ہو کہ وہ سمجھتی ہے
لیمپ والی معزز دوشیزہ
جو فوجیوں کی دوست ہے
پہلے ہمیں استعمال کیا جاتا ہے
اور ہمیں دور ویرانے میں بھیجا جاتا ہے
صرف مس نائٹنگیل ہی
جانتی ہے کہ ہم نے کیا قیمت چکائی ہے
اے لیمپ والی معزز دوشیزہ!
ایکسکیوز می! صرف چائے کا ایک کپ پلیز
میں سخت پیاس میں ہوں
اور میں جانتا ہوں کہ یہ اچھی بات نہیں ہے
مگر میری ماں کو لکھ دو کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں
میں لکھ نہیں سکتا، تم میرے دکھ کو دائرہ تحریر میں لے آﺅ
ان کیلئے جن سے میں کبھی مل نہ پاﺅں گا
وہ میرا ہاتھ تھامے گی
میرے پاس دمِ آخر تک بیٹھی رہے گی
تم جانتے ہو کہ وہ سمجھتی ہے
وہ فوجیوں کی دوست ہے
وہ جانتی تھی کہ بلند آواز میں گیت گانے والا ایک ایسا فوجی ہے جو لحظہ بہ لحظہ موت کی طرف گامزن تھا۔ اس کی پلکوں پر آنسو تھرتھرانے لگے اور وہ مسز البرٹس کا ہاتھ تھامے وارڈ کی طرف چل دی۔
اس کی ذات کو لگنے والے دھچکے اس کے قلم اور کاغذ کے رستے تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہوتے گئے۔
 اس نے ترکی کی حکومت کو ایک خط ارسال کیا جس میں صحت کی صورت حال کے بارے میں مکمل تفصیلات دی گئی تھیں۔زخمیوں کو سستی اور معیاری ٹریٹمنٹ دینے کے طریق کار پر بھی بحث کی ۔
٭٭٭
جنگ بندی کے بعد7 اگست1857ءکوفلورنس کا بیرک ہسپتال میں کام ختم ہوگیا تو اس نے واپسی کا قصد کیا۔ برطانوی عوام نے اس کا شاندار استقبال کیا۔ وہ اب عام شہری نہیں رہی تھی بلکہ ملک گیر شہرت حاصل کرچکی تھی۔
کام کی شدت اور بیماری کے ماحول نے اس کی صحت پر گہرے اثرات مرتب کر دیے تھے۔وہ بیمار رہنے لگی۔ برطانوی ولی عہد البرٹ اور اس کی اہلیہ نے اس کے کام کو سراہا۔ اس نے بکنگ ہم شائر (Buckinghamshire)میں وسطی کلائیڈن(Middle Claydon) میں واقع اپنے گھر سے پکاڈلی (Piccadilly)کے برلنگٹن ہوٹل (Burlington Hotel)میں رہائش اختیار کرلی۔
انہی دنوں اسے سر ہیری ورنے نے پروپوز کیا جسے اس نے رد کردیا۔وہ خود کو ابھی بھی شادی کیلئے تیار نہیں پاتی تھی۔
پارتھی نے اسے کہا ”فلو! تم کہاں جاکے رُکو گی؟“
”دریا کے پانی کو علم نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ وہ بس چلتا رہتا ہے اور اپنا راستہ بناتا رہتا ہے۔“
”سر ہیری ورنے کا ساتھ کتنا آئیڈیالوجی سے پُر ہے! سوچا تم نے؟.... اگر مجھے وہ پروپوز کرتا تو میں ایک پل کیلئے بھی نہ سوچتی اور ہاں کردیتی۔“ پارتھی نوپ نے اسے پیار سے چھاتی سے لگاکر کہا۔ ”ڈیئر فلو! زندگی ایسی تنہائی میں تو شاید نہیں گزر سکتی جیسی تنہائی تم نے اپنی ذات پر مسلط کررکھی ہے۔“
”آئی ڈونٹ کیئر اباﺅٹ اِٹ!“ فلورنس نے کہا ”اگر تم چاہو تو سر ہیری تمہیں بھی پروپوز کرسکتا ہے۔ اسے میرے جیسی افکار زدہ لڑکی کی نہیں بلکہ زندگی سے بھرپور ایک جواں عورت کی ضرورت ہے۔اس کی یہ ضرورت تم بہ آسانی پورا کرسکتی ہو۔“
پارتھی منہ بنا کر خاموش ہوگئی مگر پھر سر ہیری میں دلچسپی لینے لگی۔ نتیجتاً سال بھر کے بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔شادی کی تقریب میں فلورنس نے بڑی پرجوشی سے حصہ لیا۔ وہ پارتھی کی تہہ دل سے مشکور تھی کہ اس نے ایک محبت کرنے والے ساتھی کی حوصلہ افزائی کی ۔
تاجِ برطانیہ کی طرف سے فلورنس کو ملٹری ہسپتالوں میں حفظانِ صحت کے نظام کو مو ¿ثر کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس نے کسی ماہر مصافیات کی طرح ٹھوس منصوبہ بندی کی۔ 1858ءمیں اسے صفائی کے فوجی اورسویلین نظام کوبہتر کرنے کیلئے بطور ایکسپرٹ انڈیا پراجیکٹ پر مامور کیا گیا جو اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تعاون سے شروع کیا۔
انہی دنوں اس نے ”برطانوی فوج میں ہسپتالوں کا انتظام، کارکردگی اور صحت پر اثر انداز عوامل “ کے عنوان سے 500 صفحات پرمشتمل طویل نوٹ لکھا اور اسے شائع کرایا۔ ملکہ وکٹوریہ کی ایماءپر اس نے رائل کمیشن برائے فوج کی صحت قائم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہاں اس کی ملاقات ڈاکٹر جان سودر لینڈ سے ہوئی۔ سودر لینڈ اپنے متعلقہ شعبے میں مستند ماناجاتا تھا۔ فلو اس کی تہہ دل سے عزت کرتی تھی اور یہ سمجھتی تھی کہ ڈاکٹر سودر لینڈ کی صفائی کے شعبے کو فعال بنانے کی کوششیں اس کی کوششوں سے کہیں بہتر اور کارآمد ہیں۔ اس نے رائل کمیشن کے ٹاسک کے دوران ڈاکٹر سودر لینڈ سے بہت کچھ سیکھا اور تمام عمر ا س کی مشکور رہی۔قائم ہونے والے رائل کمیشن کا چیئر مین سڈنی ہر برٹ بنا۔
فلورنس نے 1859ءمیں "Notes on hospitals" تحریر کئے۔ یہ 130 صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت میں "Notes on nursing" کے عنوان سے 1960ءمیں شائع ہوئے جنہیں شعبہ سے متعلق افراد کے علاوہ عوام نے بھی بے حد پسند کیا۔اس کتاب کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ شائع کیا گیا۔ مجموعی طورپر اس کتاب کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوئیں۔ چونکہ اس کتاب میں پہلی مرتبہ خاندانی صحت کو برقرار رکھنے کے عوامل پر بحث کی گئی تھی اور طبی نقطہ نظر سے صفائی کے ناقص پہلوو ¿ں کو زیرِ بحث لایا گیا تھا اس لئے اس کتاب کو عوامی سطح پر بے حد پذیرائی ملی۔فلو کی آمدنی کا بڑا حصہ اس کتاب کی رائلٹی کی شکل میںاسے ملتا تھا۔ عوامی شعور کو بیدار کرنے کیلئے اس نے صحت عامہ پر درجنوں کتابیں اور پمفلٹ شائع کئے۔
اس کا قائم کیا ہوا نائٹنگیل فنڈ کافی مضبوط ہوچکا تھا۔فنڈ میں موجود 45000 پاﺅنڈ کی خطیر رقم کو صرف کرتے ہوئے 9 جولائی 1860ءکو اس نے لندن شہرمیں واقع سینٹ تھامس ہسپتال (St. Thomas' Hospital) میں ”نائٹنگیل نرسنگ سکول“ کی بنیاد رکھی۔ مسز وارڈروپرکو اس نے یہاں سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داریاں سونپیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ سکول کے امور سے عہدہ برآ ہوگئی تھی بلکہ اس نے انتظامی معاملات سمیت جملہ امور پر گہری نظر رکھی۔ یہ سکول اس کے خوابوں کی تعبیر تھی۔یہ اپنی نوعیت کا دنیا کا سب سے پہلا نرسنگ سکول تھا جہاں سے فارغ التحصیل ہونے والی نرسوں نے دنیا بھر میں یہاں کے انتظامی اصولوں اور تدریسی طریقہ کار کورائج کرتے ہوئے اس کی تقلید کی۔اقتصادی طور پر یہ سکول پوری طرح خودمختار تھا۔ اس سکول کی تربیت یافتہ نرسوں نے لِور پول ورک ہاﺅس انفارمری (Liverpool workhouse infirmary) میں 16 مئی سے اپنے کیرئیر کا آغازکیا۔
( یہ سکول اب فلورنس نائٹنگیل سکول آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری "Florence Nightingale School of Nursing and Midwifery"کہلاتا ہے اور لندن کے کنگز کالج King's College Londonکا حصہ ہے۔)
کتابوں سے ملنے والی رائلٹی اس کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھی۔ اس نے الس بری (Aylesbury) میں رائل بکنگ ہم شائر ہسپتال (Royal Buckinghamshire Hospital)کے قیام کیلئے بھی فنڈ ریزنگ مہم چلائی۔ اسی سال اس نے دنیا کی سب سے پہلی قائم ہونے والی ”وزٹنگ نرس ایسوسی ایشن“ کے قیام میں بھرپور معاونت کی۔ ذاتی زندگی میں اس کی مضبوط اورانسان دوست شخصیت پر تمام عمر خاندانی رسم و رواج اور مزاحمت سے بغاوت کا عنصر حاوی رہا۔ اس نے مردوں کے توانا معاشرے میں اپنی طاقت اور سچائی کو مردانہ وار بروئے کار لاتے ہوئے غیر معمولی مقام حاصل کیا۔ اس نے پوری سچائی سے عورتوں کو خودغرض ہونے کا گلہ دیا۔ درست کہ اس نے تمام عمر شادی نہیں کی مگر مامتا کے جذبے کو اس نے پوری سچائی کے ساتھ خود میں محسوس کیا اور زخمیوں پر مامتا نچھاور کی۔ وہ زخمی فوجیوں کو تمام عمر ”میرے بچے“ کہہ کر پکارتی تھی۔
جب 2 اگست 1861ءکو اس کے دیرینہ رفیق سڈنی ہربرٹ کا انتقال ہوا تو وہ گہرے صدمے میں چلی گئی۔ تب چوتھی اور آخری بار اسے ندائے غیب کے ذریعے اپنے کاز پر توجہ رکھنے کی تاکید کی گئی۔1862ءمیں اس نے انڈیا سے متعلقہ نوٹس شائع کرائے۔ کام کی زیادتی نے اس کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔
ریڈ کراس کے بانی ہنری ڈونانٹ نے اگست 1864ءکے جنیوا کنونشن میں اپنی تقریر کے دوران اعتراف کرتے ہوئے کہا ۔
”مس نائٹنگیل کو خراج تحسین پیش کرنے والے بہت لوگ ہیں۔ میںریڈ کراس کا بانی ہونے کے ناتے اس کی کوششوں اور جذبات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اس کی شخصیت اور کریمیا وار میں اس کے کردار سے متاثر ہوکرمیں 1859ءمیں اٹلی کی جنگ کے محاذ پر پہنچا۔“
1865ءمیںبیماری کی حالت میں اس نے 35 ساﺅتھ اسٹریٹ مے فیئر، لندن میں آرام کی غرض سے رہائش اختیار کرلی۔اس نے تمام عمر نرسنگ کے شعبے کو باوقار کرنے میں صرف کی۔ نظم و ضبط، صفائی اور سچی لگن کو نرسنگ شعبے کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا اور اپنے آپ کو ان اصول وضوابط پر سنجیدگی سے کاربند رکھا۔ مرتے دم تک وہ کریمیا میں ہسپتال انتظامیہ سے متعلقہ پبلک ہیلتھ پالیسیوں پر بااثر رہنما کے طور پر تسلیم کی جاتی رہی۔
امریکن سول وار کے دوران زخمی ہونے والے فوجیوں کی سائنسی خطوط پر نگہداشت کی مشاورت کیلئے امریکی حکومت نے اس کی خدمات حاصل کیں۔
 1867ءمیں رورل ہائیجین ، دوران زچگی بچوں کی اموات اور انڈیا میں صفائی کے موضوع پر عمیق ریسرچ کی۔ جن دنوں وہ برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں چیئر ان سٹیٹکس کے امور میں الجھی ہوئی تھی ، اس کی ملاقات بنجمن جیولٹ (Benjamin Jowett)سے ہوئی جس نے اس کی ازحد معاونت کی اور پھر یہ معاونت دوستی کے رشتے میں تبدیل ہوگئی۔
1869ءمیں فلورنس اور الزبتھ بلیک ویل نے مل کر ویمن میڈیکل کالج کا اجراءکیا۔ 1871ءمیں اس نے کتاب Notes on Lying in Hospital شائع کی۔اگلے سال ریڈ کراس کے بانی ہنری ڈوننٹ نے پھر اسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ فلورنس اس کی آئیڈیالوجی کے عین مطابق کرتی ہے۔
جنوری 1974ءمیں اس کا باپ ولیم ایڈورڈ مرگیا اور وہ ایک سچے ہمدرد اور رازدار دوست سے محروم ہوگئی۔ باپ کی وفات نے اس کے جسم کی توانائیوں کو ماند کردیا۔پھر ماں فرانسس نائٹنگیل بھی بیمار پڑگئی۔ اس کی مصروفیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔وہ ایک لمحے کیلئے بھی اپنی بیمار ماں سے دور نہیں رہتی تھی بلکہ شب و روز اس کی تیمارداری اور علاج معالجے میں مصروف رہتی تھی۔
دنیا بھر میں اس کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ 1874ءمیں وہ امریکن اسٹیٹکس ایسوسی ایشن کی اعزازی ممبر بنی۔1880ءمیں اس کی ماں مرگئی اور بہن پارتھی بیمار پڑگئی جس کی عیادت کی ذمہ داری اس پر عائد ہوگئی۔
وہ تواتر سے تربیت حاصل کرنے والی نرسوں سے ملتی اور انہیں اپنے تجربات سے آگاہ کرتی۔نرسوں سے محبت کے اظہار کے طور پر انہیں گفٹ ارسال کرتی، ان کو کھانے پر مدعو کرتی اور انہیں کارڈز، کیک اور مٹھائیاں بھیجتی رہتی۔ انسانی خدمت کا جذبہ ان میں پیدا کرتی۔ اسے اپنی بلیوں سے ازحد محبت تھی۔ وہ اس کی تنہائی کی ساتھی تھیں اور آزادانہ طور پر گھر میں گھوما کرتی تھیں۔ فلورنس کے لکھے ہوئے نوٹس پر ان بلیوں کے پنجوں کے نشان پائے جاتے ہیں جس سے فلورنس سے ان کے غیر معمولی انس کا پتہ چلتا ہے۔اس کے اپارٹمنٹ میں معاشرے کے وی آئی پی افراد اس سے بکثرت اپائنٹ منٹ لے کر ملنے آتے رہتے تھے جو اس کی کامیاب زندگی اور حصولیات پر اسے مبارکباد اور خراجِ تحسین پیش کرتے۔ اس کے رشتہ داروں کا بھی تانتا بندھا ہوا تھا۔ ملاقاتی کمرے میں ہر وقت رشتہ دار خواتین و حضرات اس سے ملنے کیلئے موجود رہتے۔ وہ جب چاہتی ، جس سے ملنا چاہتی، مل لیتی۔ وہ ترجیحاً نوجوان نسل سے ملتی اور انہیں نصیحتوں سے نوازتی رہتی۔ اس کی محبت سے لبریز شخصیت کااندازہ بہ آسانی کیا جاسکتا ہے کہ وہ نوجوان نسل کو رنگین اور پھولدار لباس پہننے کی تاکید کرتی۔
1883ءمیں اسے ملکہ وکٹوریہ کی طرف سے رائل ریڈکراس ایوارڈ عطاءکیا گیا۔ 1887ءمیں اس کی کوششوں سے برٹش نرس ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔
1890ءمیں اس کی پیاری بہن پارتھی نوپ نائٹنگیل کی موت نے اسے توڑ کررکھ دیا۔ وہ بیمار ہوکر بستر پر ڈھے گئی۔اس کی آخری غمگسار بھی اسے دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر رخصت ہوگئی تھی۔ وہ اس کی یاد میں تمام دن روتی رہتی اور اس کی یادوں سے دل بہلاتی رہتی۔ یادیں کبھی انسانی وجود کی کمی کو پورا نہیں کرپاتیں۔
انہی دنوں تھامس ایڈیسن فونوگراف کمپنی نے اس کے اپارٹمنٹ میں اس کی آواز ریکارڈ کرتے ہوئے تاریخ کے صفحات میں اس کے الفاظ محفوظ کرلئے۔ساﺅتھ اسٹریٹ پر واقع اس کے اپارٹمنٹ کی شاہانہ مزاج میں تزئین و آرائش کی گئی تھی جو اس کے ذوق کی آئینہ تھی۔ مشہور مائیکروفون انجینئرز کی مدد سے سلنڈر ریکارڈ اور مائیکروفون نصب کئے گئے تھے۔ اس کے کمرے کی ایک بڑی کھڑکی غروب آفتاب کا منظر اسے دکھاتی تھی جس کے سامنے وہ ہر روز ایک ایزی کاﺅچ پر بیٹھی اپنے بیتے ماہ و سال کا احاطہ کرتی تھی۔وہ اپنی آواز کی بجائے کام کودنیا میں اپنی یاد کے طور پر چھوڑنا چاہتی تھی، بہ مشکل تمام وہ آواز ریکارڈ کرانے پر آمادہ ہوئی تھی۔
اس کا قوی دماغ اب بھی مستقبل بینی کی طرف مائل تھا۔ کریمین وار میں حاصل کئے گئے تجربات اس کے ہمراہ تھے۔ اپنے اوائل عصر کے تمام رفیق وقتاً فوقتاً اس کی چشمِ تصور میں درآتے اور اسے گزرا ہوا زمانہ یاد دلادیتے۔ وہ بستر پر پڑی اپنے گزرے عہد کے بارے میں سوچتی رہتی۔
 اس نے کسمپرسی کی حالت میں کہا ”مجھے امید ہے کہ جب یادوں میں صرف میرا نام رہ جائے گا تب میرے عظیم کام کو سراہا جائے گا۔ میرے بالاکلاواکے ساتھیوں کو خدا ہمیشہ نوازے۔“
1896 سے 1902ءتک وہ سی ایف ایس (Chronic Fatigue Syndome)کا شکارہوکر اس قابل بھی نہ رہی کہ لکھنے پڑھنے کا کام جاری رکھ سکے۔یہ مرض ان دنوں غیر معروف مگر جان لیوا گنی جاتی تھی۔
 1896ءمیں وہ بستر پر ڈھے گئی۔پچاسی سال کی عمرمیں وہ بستر پر پڑی اپنے دماغ کو استعمال کرتی رہی۔ پھر رفتہ رفتہ اس کی دماغی صلاحیتیں جواب دینے لگیں۔
تمام عمر نرسوں کے وقار اور مستقبل کیلئے متحرک رہنے والی فلورنس کو اپنی تربیت یافتہ نرس کا سہارا لینا پڑا۔ اسے باہر لے جانے، اندر لانے اور کھلانے پلانے پر مامور نرس نے تادمِ زیست اس کی خدمت کی۔
نومبر1907ءمیں عزت مآب کنگ ایڈورڈ ہفتم کی طرف سے برٹش آرڈر آف میرٹ (British Order of Merit)حاصل کرنے والی وہ پہلی خاتون تھی۔ اسی سال ریڈ کراس سوسائٹیز کی منعقدہ عالمی کانفرنس میں اسے ریڈکراس موومنٹ کی بانی کے طور پر یاد کیا گیا۔1908ءمیں اسے ”آنریری فریڈم آف لنڈن سٹی“ دیا گیا۔ ان اعزازات سے کہیں زیادہ اسے عوام الناس نے محبت دی۔ملکہ وکٹوریہ نہ صرف اس کی دیرینہ رفیق تھی بلکہ ہر موڑ پر اس کی خلوص بھری شخصیت کا کھلے عام اعتراف کرتے ہوئے اسے سراہتی تھی۔
مرنے سے قبل اس نے وصیت کی کہ اس کی میت کوطبی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم کیلئے استعمال کیا جائے۔پہلے نظر اور دست و پا نے ساتھ چھوڑ دیاتھا، اب اس کے تخلیقی ذہن نے بھی کام کرنا بند کردیا۔ بتدریج موت کی طرف بڑھتے بڑھتے وہ نوے سال تین ماہ کی متحرک عمرپاکر 13 اگست 1910 ءکو موت کا شکار ہوگئی۔ اس کی وصیت پر عمل نہیں کیا گیا اور اس کا پوسٹ مارٹم نہ کرتے ہوئے ویسٹ منسٹر ابے (Westminster Abbey) میں دفن کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ اس کے رشتہ داروں نے وصیت پر عمل نہیں کرنے دیا تھا۔یوں وہ اپنی آخری رسومات کی بہ اہتمام ادائیگی کے بعد مارگریٹ چرچ ، ایسٹ ویلو (برطانیہ) میں دفن ہوئی۔
اس کی یادگاروں کو محفوظ کرنے کیلئے لندن میں فلورنس نائٹنگیل میوزیم تعمیر کیا گیا جس میں اُس کے استعمال کی اشیا، کتب اور دیگر متعلقہ نوادرات کو اہتمام کے ساتھ زمانہ بُردگی سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کیا گیا ہے۔
اس کا خاندانی میوزیم اس کی رہائش گاہ ”کلائیڈن ہاﺅس“ میں واقع ہے اوراُس کی تاریخ ساز شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے والے یہاں جوق در جوق آتے رہتے ہیں۔
اس کی پیدائش کی تاریخ پرہر سال” نرسوں کا عالمی دن“ ذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔
 ترکی میں اس کے کارہائے نمایاں کو ستائش دینے کےلئے اس کے نام پر تین بڑے ہسپتال انسانی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
روم میں اس کی یادگاریں موجود ہیں۔وینس میں” نائٹنگیل کورونا“ اس کی یاد دلاتا ہے۔
اس کے نام پر دنیا میں ان گنت فاﺅنڈیشنز قائم کی گئی ہیں۔
1951ءمیں اس پر ایک فلم لیمپ والی دوشیزہ (The lady with the lamp) بنائی گئی جس میں اس کا کردار نہاےت خوب صورت اداکارہ اینا اینگل نے ادا کیا۔
 سی ایف ایس پر کینیڈا میں نائیٹنگیل ریسرچ فاﺅنڈیشن (Nightingale Research Foundation)قائم کی گئی۔ اس کی شخصیت اور کام پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ اس کے تاریخی کام کو ہر آنے والے دور میں سراہا گیا۔
یہ سچ ہے کہ اس نے اپنی محبت کو جان اسمتھ ہرسٹ، ہنری، سڈنی ہربرٹ یا رچرڈ مانکٹن ملنزمیں سے کسی ایک فرد پر فضول خرچی سے ضائع کرنے کی بجائے پوری دنیا میں بانٹ دیا۔ محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ فلو کے مرنے کے بعد بھی اس کی محبت نے ان گنت پھول کھلائے اور آج تک مسیحائی کا یہ باب بند نہیں ہوا۔
٭٭٭
    ناصر ملک  
ڈائریکٹر ”آرٹ لینڈ“
گرلز کالج روڈ چوک اعظم۔ ضلع لیہ