Ad

Ad

Wednesday, 11 January 2012

Kash al Mahjub

شہرہ آفاق تصنیف ”کشف المحجوب“
حضرت علی ہجویریؒ کی زندہ جاوید کرامت

سید ہجویر مخدوم امم.... مرقدا و پیر سنجررا حرم
حضرت ہجویر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ”صحت حال اور صحت مجاہدہ کی صورت مےں ولی سے کرامت ظاہر ہو سکتی ہے۔ علمائے اہل سنت اس بات پر متفق ہےں عقل بھی اسے ممکن جانتی ہے کیونکہ درحقیقت ولی سے کرامت اس وقت صادر ہوتی ہے جبکہ وہ قوت الہیہ کا (وقتی طور پر) مظہر بن جاتا ہے۔ ممدوح حضرت ہجویر رحمة اللہ علیہ بقول حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ ”مظہر نور خدا ہےں“ اس لئے آپ سے کرامات کا ظہور ہوا ہے، بے شمار کرامات موجود ہےں لیکن آپ نے اپنی زندگی مےں خوارق عادات کرامات کا ظہور پسند نہیں فرمایا۔
کرامات بھی معجزات کی طرح دو اقسام پر ہےں کرامات حسی اور کرامات ظاہری۔
آپ فرماتے ہےں کرامت ایسے فعل کا نام ہے جو عادت و عقل کے خلاف اللہ تعالیٰ کے کسی بندے سے صادر ہو، کرامت مےں در ہونے کے باوجود صوفی ہر شریعت کے تمام احکام باقی رہتے ہےں۔
سید ہجویر مخدوم امم رحمة اللہ علیہ علوم ظاہری و باطنی مےں امام کا درجہ رکھتے ہےں، تصوف اور فقہ کے مسائل مےں ان کا گہرا مطالعہ تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے دیگر تصانیف کے علاوہ کشف المحجوب کا پہلا باب ہی اثبات علم لکھا ہے، جن مےں آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ سے علم کی اہمیت و فرضیت اہم اچھوتے انداز مےں واضح کی ہے، گویا کشف المحجوب آپ کی کرامات علمیہ و روحانیہ سے حسیہ اور عقلیہ مےں سے ایک زندہ جاوید کرامت ہے۔
اس کا آغاز مقدمہ سے ہوتا ہے جس مےں سب سے پہلے مصنف نے اپنی دیگر کتب کی چوری کی شکایت کی اور اول کتاب مےں اپنا نام درج کی مصلحت بیان کی ہے۔ کتاب مےں متعدد جگہ اپنا نام بار بار لکھنے کی وجہ یہ بیان کی کہ اس طرح کوئی شخص دوبارہ آپ کا نام مٹا کر اپنا لکھنے کی جرا ¿ت نہ کرے۔
سبب تالیف
جہاں تک کشف المحجوب کی تالیف کا تعلق ہے تو یہ درحقیقت آپ کے ایک رفیق سفر حضرت ابو سعید ہجویری کے چند سوالات کے جوابات مےں لکھی گئی ہے جو انہوں نے آپ سے متعدد مقامات پر کئے تھے۔
(ا) طریق تصوف کی حقیقت۔ (ب) مقامات صوفیہ کی کیفیت۔ (ج) صوفیاءکے عقائد و مقالات کی تشریح۔ (د) ان کے رموز و اشادات۔ (ہ) اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی محبت کی نوعیت اور دلوں مےں اس کے ظہور کی کیفیت و نوعیت۔ (و) محبت الٰہی کی ماہیت کی معرفت مےں حائل ہونے والے حجابات عقل و نفس۔ (ز) کشف حجابات کے طریقے، نفس کی حجابات سے بےزاری اور روح کی تسکین۔
ان مذکورہ بالا سوالوں کے جواب مےں حضرت سید ہجویر رحمة اللہ علیہ نے یہ کتاب مرتب فرمائی۔ یہ کتاب اپنے اندر جامعیت لئے ہوئے ہے۔ اس مےں تصوف کے مسائل بھی ہےں اور متعکمین کے دلائل بھی، مسائل شریعت و طریقت کا خزینہ بھی ہے اور حقیقت و معرفت کا ایک بیش بہا نسخہ بھی۔
یہ کتاب سیدھی بتانے والی، عارفانہ کلام کی تشریح و توصیح اور بشریت کے حجابات کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہے۔ لہٰذا کسی اور نام سے اس کو موسوم کرنا موافق نہیں۔ مصنف نے اس کے اندر 231 آیات قرآنیہ، 130 احادیث، 352 اقوال، 42 عربی اشعار، نقل فرمائے ہےں اس کے علاوہ 388 صوفیائے کرام کے اسماءگرامی اور اکیس شہروں کے نام درج کئے ہےں۔ چونکہ حضرت کی آخری تصنیف ہے اس لئے اس مےں نہ صرف متقدین کے اقوال نقل کئے گئے ہےں بلکہ آپ کے ذاتی تجربات و مشاہدات بھی درج کئے ہےں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور مےں اس کی مقبولیت مےں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
مشاہیر کی آرائ۔
حضرت خواجہ نظام الدین رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ
”اگر کسی کا پیر نہ ہو جب وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے گا اسے پیر مل جائے گا اگر کسی را پیر نہ باشد چوں ایں کتاب را مطالعہ کندا و را پیر اشود“
دارالشکہ سفینہ الاولیاءمےں لکھتے ہےں
یہ کتاب درحقیقت ایک کامل راہ نما ہے اور کتب تصوف مےں ایک مرشد کامل، فارسی زبان مےں ایسی کامل تصنیف نہیں ہوئی۔
نکلسن کہتا ہے It's object to set youth a complete system of sufision, not to put together a great numlur of saying by different suakhs,but to discuss and explained the doetrines and practices of the sufies.
ترجمہ: اس کا مقصود یہ ہے کہ تصوف کو بطور ایک نظام کے دوون کیا جائے اور مختلف شیوخ کے اقوال جمع کرنے کے بجائے صوفیہ کی تعلیمات اور اشغال کی تشریح کی جائے۔
مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہےں
تصوف ہر ایک اہم کتاب رسالہ القشیریہ اور کشف المحجوب اہم اور بنیادی کتب مےں سے ہےں لیکن دونوں کے طرز تصنیف مےں فرق ہے۔ امام ........ نے زیادہ متقدمین کے اقوال و حکایات نقل کرنے پر ہی اکتفاءکیا ہے جبکہ حضرت مخدوم ہجویریؒ ایک محققانہ، محتمعدانہ انداز سے اپنے ذاتی تجربات، مکاشفات، ارادات و مجاہدات وغیرہ بھی قلم بند کرتے ہےں اور مباحث سلوک پر بھی ادوقدح کرنے مےں تامل نہیں کرتے اس لئے ان کی کتاب کی حیثیت محض ایک مجموعہ روایات و حکایات کی نہیں بلکہ ایک مستند محققانہ تصنیف کی ہے۔
اردو دائرہ تعارف رسولیہ کا مقالہ نگار لکھتا ہے
اس کتاب مےں اسلامی تصوف کا بلند ترین معیار پیش کیا گیا ہے اس مےں اولیائے عظام کی کرامات و خوارق کا ذکر بھی ہے نیز ان کے بیسیوں اقوال و نصائح کے ساتھ اوصاف حسنہ، صبر و قناعت، ایثار و سخاوت، ہمت و استغتائ، صداقت و اخلاص کی دو سچی تابناک مثالیں پیش کی گئیں ہےں جو ان بزرگوں کے فضل و شرف کی اصلی یژہان اور اسلامی تہذیب و اخلاق کی عظمت کی دلیل ہےں۔ مزید برآں مصنف تحقیق پسند تھے اور ان کی تحقیق کا بہت بلند پایہ محتمعدانہ معیار ان کے پیش نظر تھا۔
M.A Majeed یزدانی لکھتے ہےں
کشف المحجوب مےں سادگی و بلاغت کا بڑا حسین امتزاج نظر آتا ہے اسے درمیانہ درجے کے تعلیم یافتہ لوگ بھی استفادہ کرسکتے ہےں اور علماءو صوفیاءبھی اسلامی تڑپ دل مےں رکھنے والے اس سے فیض یاب ہو سکتے ہےں تو ظاہر پرستوں کی قلعی بھی اس سے کھل جاتی ہے۔ ایک کتاب اپنے وقت کی پکار ہے۔
حکیم محمد موسیٰ امرتسری رقمطراز ہےں ”ان کے ارشادات گرامی اضافات عالی (کشف المحجوب) بجائے خود مرشد کامل کی حیثیت رکھتے ہےں“
ڈاکٹر ظہور الدین نے لکھا ہے، اہل علم و اہل باطن نے اس کتاب کی اہمیت و فضیلت کو تسلیم کیا ہے۔
پروفیسر خلیق نظامی لکھتے ہےں ”شیخ ہجویری کی اس ایک کتاب نے ایک طرف تصوف سے متعلق عوام کی غلط فہمیوں کو دور کیا ہے تو دوسری طرف اس کی ترقی کی راہیں کھول دی ہےں“
پروفیسر میاں طفیل محمد سابق امیر جماعت اسلامی اپنے مرشد و مربی سید مودودی کے حوالے سے بات کرتے ہےں ہم نے مولانا مودودی سے سن رکھا تھا کہ اہل طریقت مےں حضرت علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ ایک صحیح الخیال اور بلند مرتبہ بزرگ ہےں جنہیں اس کوچہ کے سبھی لوگ مقتداءمانتے ہےں اور ان کی تصنیف کشف المحجوب اس فن مےں سند کا درجہ رکھتی ہے۔
ابواب کا اجمال خاکہ
مقدمہ کے بعد مصنف علیہ الرحمة نے پہلا باب اثبات العلم سے شروع کیا ہے۔ یہ پانچ حصوں پر مشتمل ہے اس باب مےں آپ نے قرآن کی آیات اور احادیث سے علم کی اہمیت کو واضح کیا ہے نیز علم کی اقسام شریعت و طریقت کی وضاحت فرمائی ہے اور واضح کیا ہے، علم ظاہر کے ساتھ ساتھ علم باطن بھی ضروری ہے۔
دوسرا باب فقر کے بارے مےں 3 حصوں پر مشتمل ہے قرآن و حدیث کے حوالے سے فقر و مسکنت کے فضائل بیان کئے ہےں۔ فقر کے آداب اور اس کی حقیقت پہ نہایت عالمانہ انداز مےں بحث فرمائی ہے۔
تیسرا باب تصوف کے بارے مےں ہے۔ اس باب قرآن و حدیث کی روشنی مےں ماہیت تصوف سے متعلق مباحث پیش کئے ہےں اہل تصوف کے طبقات نیز صوفی، متصوف اور مستوصف کی تعریفات بیان کی ہےں۔ آپ نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی تصوف مےں نہ ایران کے ........کا رنگ ہے نہ ہدانت و بدھ مت کا بلکہ اگر رنگ ہے تو صرف ”صبغة اللہ“ کا۔
نیز آپ نے خلفائے رسول، آئمہ اہل بیت، صغار و کبار صحابہ تابعین سے لے کر اپنے دور تک کے اولیاءکے حالات و احوال درج کئے ہےں۔ اس کے علاوہ بیان حرفہ، فقر و صفوت مےں اختلاف کی کیفیت، بیان ملامت کرامات صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے اس لئے نماز، روزہ، طہارت اور حج کے فضائل فرضیت و اہمیت کا بھی ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد کشف المحجوب مےں جوابات کشف شروع زمانے ہےں۔
ا) کشف المحجاب فی معرفة اللہ تعالیٰ، فی التوحید، فی الایمان، فی الطہارت کشف فی الصلوة، فی الزکوة، فی الصوم، فی الحج، فی الصحبة و ادالبھا ........ توبہ اور اس کے حکاشفات، حجت اس کے متعلقات نیز باب الجود الخادة مشاہدات، صحیف فی العسفر و اداب، فی سوالات و ترک سوالات احکامات تزویج و تعزیر جسے مکاشفات کی حکمتیں و اسرار پر حاصل گفتگو کی ہے۔
تصوف مےں لکھی کئی کتب ............ (عنبة اللہ بن علی بن محمد بن یحییٰ) ابوالنوالسراج کی تصنیف ”اللمع“ شیخ محمد بن علی بن عطیہ الحارنی کی تصنیف ”قوت القلوب“ حضرت کلاءبازی کی کتاب التعرف عذہب اہل التصوف“ حضرت ابوالقاسم الفشیری عبدالکریم بن ہوازن النشیا بودی کی تصنیف ”رسالہ قشیریہ“ مےں ہمارے ممداح کی تصنیف کشف المحجوب ایک اچھوتا، اہم اور خاص و منفرد مقام رکھتی ہے۔ سلیس، شائستہ اور آسان زبان مےں لکھی عوام و خواص کےلئے اور مسلم و غیر مسلم کےلئے مفید و مجرب تصنیف ہے۔ مالعبہ کے صوفی لٹریچر پر کشف المحجوب نے نہ صرف اپنے تاثرات چھوڑے بلکہ ادب صوفیاءکی تعلیمات سے آگاہی بھی دی ہے۔
تعلیمات و ارشادات:
نمونہ اور تبر حصول تبرک کے طور پر چند ارشادات کشف المحجوب مےں سے درج کئے جاتے ہےں تاکہ عوام و خواص کےلئے مفید ہوں۔
(1) معرفت الٰہی کی راہ مےں سب سے بڑا حجاب انسان کا اپنا نفس ہے۔ جو انسان کو تمناﺅں مےں الجھا کر اور خواہشات کے اتھاہ سمندر مےں ڈبو کر اللہ تعالیٰ سے دور کر رہا ہے۔
(2) صحیح عالم وہ ہےں جو علم کو دنیوی وجاہیت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بتاتے یہی وہ لوگ ہےں جن کا علم مقامات کا مشاہدہ کراتا ہے اور معرفت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
(3) فقیر (درویش) وہ ہے جو اللہ کی ذات کے سوا کسی اجر کے ساتھ آرام نہ پکڑے۔
(4) بدترین انسان وہ ہے جسے لوگ اللہ والے سمجھیں اور وہ حقیقت مےں ایسا نہ ہو اور وہ اس بات سے خوش ہوتا ہے اور بہترین انسان وہ ہے جسے لوگ مرد خدا جانیں اور وہ حقیقت مےں اللہ والا ہو اور افضل ترین شخص وہ ہے جسے لوگ مرد کامل نہ سمجھیں مگر وہ درحقیقت کامل ولی ہو۔
(5) تصوف سراسر ادب ہے، ہر وقت، ہر مقام اور ہر حال کا ادب، جس نے ان اداب کی رعایت کی وہ مردان خدا کے مقام رفیع کو پہنچ گیا اور جس نے اس ادب کو ضائع کیا وہ محروم رہا چاہے وہ خود کو کامل ہی کیوں نہ سمجھتا رہا ہو۔
(6) ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی مےں عرض کیا ”میری اس عمل کی طرف راہنمائی فرما جس سے تو راضی ہوتا ہے، جواب ملا کہ ”میری قضاءپر راضی ہو جا“ اللہ تعالیٰ کی قضاءپر راضی ہونے کا مقصد ہے اللہ تعالیٰ بندے سے راضی ہے۔
(7) ایثار کی حقیقت یہ ہے کہ محبت کے دوران اپنے ساتھی کا خیال رکھے اور اپنے حصے مےں سے بھی اس کو حصہ دے دے خود تکلیف اٹھا لے مگر اپنے ساتھی کو تکلیف نہ پہنچنے دے۔
(8) جس نے اپنے نفس کی معرفت فناءکے حوالے سے حاصل کرلی اس نے اپنے رب کی معرفت بقاءکے حوالے سے کرلی۔ نیز جس نے اپنے نفس کی ذلت کو جان لیا اس نے اپنے رب کی عزت کو پہچان لیا اور جس نے اپنے نفس کو عبودیت کے حوالے سے پہچان لیا اس نے اپنے رب کو ربوبیت کے حوالے سے پہچان لیا۔
(9) شیخ (پیر کامل) دراصل دعوت الی الحق مےں نبی کا نائب ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے اس شیخ کا درجہ کامل ہو اپنے مرید کے احوال سے پورا پورا واقف ہو یعنی واقف شریعت و طریقت اور اس پر اعلیٰ درجے کا عامل بھی ہو۔
(10) ولی کی حقیقت کے بارے مےں مختلف اقوال درج ہےں۔
ولی وہ ہوتا ہے جو اپنے حال سے فانی ہو اور حق کے مشاہدے کے ساتھ باقی ہو۔ وہ اپنے حال سے غافل اور حق کے ساتھ قرار پکڑتا ہے۔ ولی وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اولامر و نواہی پر صبر کرے (........) نیز ولی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ اس کا کوئی عمل شریعت اور ادب شریعت کے خلاف نہ ہو۔
ممدوح و موصوف حضرت داتا گنج بخش ہجویری الحمد اللہ ثم الحمد اللہ ان جملہ تمام صفات سے متصف تھے اور آپ کی تعلیمات مےں مزین صوفیاءو مشائخ بھی ان صفات سے متصف ہےں آپ کا سالانہ عرس مبارک 20,19,18 محرم الحرام کو لاہور شہر مےں انعقاد پذیر ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment