"شام کی صورت حال .... حضرت خالد ؓ بن ولیدکے مزار کی بے حرمتی"
مصر، لیبیا اور یمن کے بعد شام میں حکومت مخالف تحریک زور پکڑ چکی ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق تازہ ترین چھڑپوں میں 35سے زائد افراد جان بحق ہوئے ہیں۔شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف اٹھنے والی اس تحریک میں گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکومت مخالف مظاہرے یوں تو دارالحکومت دمشق سمیت پورے ملک میں ہور ہے ہیںلیکن ان کا اہم ترین مرکز شام کے شہر حمص کو قراردیا گیا ہے۔
حمص شام کا ایک قدیم تاریخی شہر ہے ۔حمص ہی وہ شہر ہے جہاں تاریخ اسلام کے جلیل القدر صحابی ، عظیم سپہ سالار اور تاریخ ساز فاتح جس کا لقب" سیف اللہ "یعنی "اللہ کی تلوار "تھا ،کا مزار ہے۔دمشق سے تین گھنٹے کی مسافت پران کا مزار شہر کی مرکزی شاہراہ پرایک عظیم الشان مسجد کے احاطے میںواقع ہے۔
بشار الاسد کی حامی فوجوں نے مظاہرین کے تعاقب میں حمص میں جو کارروائیاں کیں ان میں حضرت خالد ؓ بن ولید کا مزار بھی محفوظ نہیں رہا ہے۔ حکومتی فوجوں کا خیال ہے کہ حکومت مخالف افراد نے مزار کے اندر پناہ لی ہوئی ہے۔حالیہ فوجی کارروائی کے دوران حضرت خالد ؓ بن ولید کے مزار کے بڑے حصے پر گولہ باری بھی کی گئی جس سے مزار اور ملحقہ مسجد کو خاصہ نقصان پہنچا ہے۔
امریکہ عراق جنگ کی رپورٹنگ کے ایام میں مجھے حضرت خالد ؓ بن ولید کے مزارپر حاضری کا موقع بھی ملا۔مسجد کے صدر دروازے پر دو تختیاں آویزاں ہیں۔ ایک تختی پر بڑے نمایاں حروف میں "مسجد خالد ؓ بن ولید "کندہ ہے ، اسی تختی پر عربی اور انگریزی میں تحریر ہے کہ " یہاںرسول پاک ﷺ کے ساتھی، شمشیرزن،اور عظیم مسلم فاتح جس نے کسی جنگ میں کبھی شکست نہیں کھائی محو خواب ہیں"
مسجد کے دو اطرف خوبصورت باغیچے ہیں۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی بیرونی صحن کے سامنے مسجد کے احاطے میں ایک سکول ہے جہاں بچوں کو جدید علوم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ شہر کے لوگ اس سکول میں بچوں کے داخلے کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔
مسجد کے برآمدے سے اندر داخل ہوتے ہی مرکزی ہال کے دائیں جانب حضرت خالد ؓ بن ولید کا مزار ہے۔ مزار کے سامنے نقرئی دروازہ نصب ہے۔ دونوں اطراف کی دیواروں میں سنہری جالیاں لگی ہیں جن سے باآسانی اندر جھانکا جا سکتا ہے ۔
حضرت خالد ؓ بن ولید584ءمیں مکہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق قریش کے خوشحال اور جنگجو قبیلے بنی مخزوم سے تھا۔ خالد بن ولید ابتدائی عمر سے ہی ایک مضبوط اور مہم جو شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔جب اسلام کا ظہور ہوا تو خالد ؓ بن ولید ان لوگوں میں سے تھے ، جنہوں نے اہل اسلام کی شدید ترین مخالفت کی۔انہوںنے صلح حدیبیہ تک اہل اسلام کے خلاف جنگیں لڑیں۔جنگ احد میں ان کا سپاہیانہ کردار حربی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ اس جنگ میں انہوں نے لشکر اسلام پر عقب سے حملہ کر کے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ خالد ؓ بن ولید نے فتح مکہ سے چھ ماہ پہلے حضور ﷺ کے حضور پیش ہو کر اسلام قبول کیا۔
خالد ؓبن ولید نے اپنی باقی پوری زندگی اسلام کی سر بلندی اور فتح مندی کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے ایک سپاہی اور جرنیل دونوں حیثیتوں میں فیصلہ کن جنگیں لڑتے ہوئے اسلامی فوجوں کو فتح سے ہمکنار کیا۔
رسول پاک ﷺ کی زندگی میں بھی آپ نے کئی مہمات میں شرکت کی۔ خاص طور پر "جنگ موتہ"میں آپ نے جس بے مثال بہادری ، جرات اور جنگی حکمت عملی سے شام اور عرب کے سرحدی حکمرانوں اور قیصر روم کی امدادی فوجوں کا مقابلہ کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی،جنگ موتہ میں لڑتے ہوئے ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں۔ حضرت خالد ؓ بن ولیدنے رسول پاک ﷺ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مشرکین کے سب بڑے بت " عُزی ٰ "کو گرانے کا شرف بھی حاصل کیا۔ حضرت خالد ؓ بن ولید نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دور میں مرتدوں اور منکرین زکواة کے خلاف جو جنگیں لڑیں وہ بھی تاریخ اسلام کا اہم باب ہیں۔
حضور ﷺ کی رحلت کے ساتھ ہی عرب کے بعض نو مسلم قبائل سرکشی پر آمادہ ہوئے ۔ کچھ لوگوں نے زکوة دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کی سرکوبی کے لیے حضرت خالد ؓ بن ولید کو نامزد کیا۔ بنی تمیم کو جب یہ خبر پہنچی تو بہت گھبرائے اور اکثر نے توبہ کر لی ۔کچھ لوگ مقابلے پر آئے اور مارے گئے ۔
حضرت خالد ؓ بن ولید نے642ءمیں وفات پائی ۔وفات کے وقت حضرت خالد ؓ بن ولید نے فرمایا میں نے تقریباً تین سو جنگیں لڑیں ، میرے جسم کے ہر حصے پر تلوار، نیزے اور تیر کا زخم لگا ہے مگر شہادت سے محروم رہا ۔حضرت خالد ؓ بن ولید جیسا شخص جسے رسول پاک ﷺ نے اللہ کی تلوار کا خطاب دیا ہو اسے دنیا کی کوئی تلوار کیسے شہید کر سکتی تھی ۔
یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ بشار الاسد اور اس کے حامی اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر ملت اسلامیہ کی ان درخشاں نشانیوں کی پاسداری بھی نہیں کر رہے۔ حضرت خالد ؓبن ولید کے مزار پر حملہ کسی غیر اسلامی فوج نے نہیں بلکہ شامی افواج نے کیا ہے۔ حکومت مخالف افراد نے اگر وہاں پناہ لی تھی تو ان کو وہاں سے نکالنے اور پکڑنے کے ایسے طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے تھے کہ مزار کو نقصان نہ پہنچتا۔یہ بات کس قدر حیرت کی ہے کہ اسلامی امہ ، OIC یا حکومت پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے ایک مذمتی بیان تک نہ آیا۔ اس سارے عمل کو ملت اسلامیہ کی بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے۔مشرق وسطیٰ میں عراق کے بعد شام ہی وہ ملک ہے جہاں تاریخ اسلام کے آثار سب سے زیادہ ہیں۔جن میں کئی پیغمبران ، صحابہ کرام اور مشاہیر اسلام کے مزارات ہیں۔اس حوالے سے ملت اسلامیہ کو شام کی سیاسی صورت حال پر محض تماشائی بننے کی بجائے اپنا متفقہ نکتہ نظر واضح کرنا چاہئیے۔
حمص شام کا ایک قدیم تاریخی شہر ہے ۔حمص ہی وہ شہر ہے جہاں تاریخ اسلام کے جلیل القدر صحابی ، عظیم سپہ سالار اور تاریخ ساز فاتح جس کا لقب" سیف اللہ "یعنی "اللہ کی تلوار "تھا ،کا مزار ہے۔دمشق سے تین گھنٹے کی مسافت پران کا مزار شہر کی مرکزی شاہراہ پرایک عظیم الشان مسجد کے احاطے میںواقع ہے۔
بشار الاسد کی حامی فوجوں نے مظاہرین کے تعاقب میں حمص میں جو کارروائیاں کیں ان میں حضرت خالد ؓ بن ولید کا مزار بھی محفوظ نہیں رہا ہے۔ حکومتی فوجوں کا خیال ہے کہ حکومت مخالف افراد نے مزار کے اندر پناہ لی ہوئی ہے۔حالیہ فوجی کارروائی کے دوران حضرت خالد ؓ بن ولید کے مزار کے بڑے حصے پر گولہ باری بھی کی گئی جس سے مزار اور ملحقہ مسجد کو خاصہ نقصان پہنچا ہے۔
امریکہ عراق جنگ کی رپورٹنگ کے ایام میں مجھے حضرت خالد ؓ بن ولید کے مزارپر حاضری کا موقع بھی ملا۔مسجد کے صدر دروازے پر دو تختیاں آویزاں ہیں۔ ایک تختی پر بڑے نمایاں حروف میں "مسجد خالد ؓ بن ولید "کندہ ہے ، اسی تختی پر عربی اور انگریزی میں تحریر ہے کہ " یہاںرسول پاک ﷺ کے ساتھی، شمشیرزن،اور عظیم مسلم فاتح جس نے کسی جنگ میں کبھی شکست نہیں کھائی محو خواب ہیں"
مسجد کے دو اطرف خوبصورت باغیچے ہیں۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی بیرونی صحن کے سامنے مسجد کے احاطے میں ایک سکول ہے جہاں بچوں کو جدید علوم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ شہر کے لوگ اس سکول میں بچوں کے داخلے کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔
مسجد کے برآمدے سے اندر داخل ہوتے ہی مرکزی ہال کے دائیں جانب حضرت خالد ؓ بن ولید کا مزار ہے۔ مزار کے سامنے نقرئی دروازہ نصب ہے۔ دونوں اطراف کی دیواروں میں سنہری جالیاں لگی ہیں جن سے باآسانی اندر جھانکا جا سکتا ہے ۔
حضرت خالد ؓ بن ولید584ءمیں مکہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق قریش کے خوشحال اور جنگجو قبیلے بنی مخزوم سے تھا۔ خالد بن ولید ابتدائی عمر سے ہی ایک مضبوط اور مہم جو شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔جب اسلام کا ظہور ہوا تو خالد ؓ بن ولید ان لوگوں میں سے تھے ، جنہوں نے اہل اسلام کی شدید ترین مخالفت کی۔انہوںنے صلح حدیبیہ تک اہل اسلام کے خلاف جنگیں لڑیں۔جنگ احد میں ان کا سپاہیانہ کردار حربی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ اس جنگ میں انہوں نے لشکر اسلام پر عقب سے حملہ کر کے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ خالد ؓ بن ولید نے فتح مکہ سے چھ ماہ پہلے حضور ﷺ کے حضور پیش ہو کر اسلام قبول کیا۔
خالد ؓبن ولید نے اپنی باقی پوری زندگی اسلام کی سر بلندی اور فتح مندی کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے ایک سپاہی اور جرنیل دونوں حیثیتوں میں فیصلہ کن جنگیں لڑتے ہوئے اسلامی فوجوں کو فتح سے ہمکنار کیا۔
رسول پاک ﷺ کی زندگی میں بھی آپ نے کئی مہمات میں شرکت کی۔ خاص طور پر "جنگ موتہ"میں آپ نے جس بے مثال بہادری ، جرات اور جنگی حکمت عملی سے شام اور عرب کے سرحدی حکمرانوں اور قیصر روم کی امدادی فوجوں کا مقابلہ کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی،جنگ موتہ میں لڑتے ہوئے ان کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں۔ حضرت خالد ؓ بن ولیدنے رسول پاک ﷺ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مشرکین کے سب بڑے بت " عُزی ٰ "کو گرانے کا شرف بھی حاصل کیا۔ حضرت خالد ؓ بن ولید نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دور میں مرتدوں اور منکرین زکواة کے خلاف جو جنگیں لڑیں وہ بھی تاریخ اسلام کا اہم باب ہیں۔
حضور ﷺ کی رحلت کے ساتھ ہی عرب کے بعض نو مسلم قبائل سرکشی پر آمادہ ہوئے ۔ کچھ لوگوں نے زکوة دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کی سرکوبی کے لیے حضرت خالد ؓ بن ولید کو نامزد کیا۔ بنی تمیم کو جب یہ خبر پہنچی تو بہت گھبرائے اور اکثر نے توبہ کر لی ۔کچھ لوگ مقابلے پر آئے اور مارے گئے ۔
حضرت خالد ؓ بن ولید نے642ءمیں وفات پائی ۔وفات کے وقت حضرت خالد ؓ بن ولید نے فرمایا میں نے تقریباً تین سو جنگیں لڑیں ، میرے جسم کے ہر حصے پر تلوار، نیزے اور تیر کا زخم لگا ہے مگر شہادت سے محروم رہا ۔حضرت خالد ؓ بن ولید جیسا شخص جسے رسول پاک ﷺ نے اللہ کی تلوار کا خطاب دیا ہو اسے دنیا کی کوئی تلوار کیسے شہید کر سکتی تھی ۔
یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ بشار الاسد اور اس کے حامی اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر ملت اسلامیہ کی ان درخشاں نشانیوں کی پاسداری بھی نہیں کر رہے۔ حضرت خالد ؓبن ولید کے مزار پر حملہ کسی غیر اسلامی فوج نے نہیں بلکہ شامی افواج نے کیا ہے۔ حکومت مخالف افراد نے اگر وہاں پناہ لی تھی تو ان کو وہاں سے نکالنے اور پکڑنے کے ایسے طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے تھے کہ مزار کو نقصان نہ پہنچتا۔یہ بات کس قدر حیرت کی ہے کہ اسلامی امہ ، OIC یا حکومت پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے ایک مذمتی بیان تک نہ آیا۔ اس سارے عمل کو ملت اسلامیہ کی بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے۔مشرق وسطیٰ میں عراق کے بعد شام ہی وہ ملک ہے جہاں تاریخ اسلام کے آثار سب سے زیادہ ہیں۔جن میں کئی پیغمبران ، صحابہ کرام اور مشاہیر اسلام کے مزارات ہیں۔اس حوالے سے ملت اسلامیہ کو شام کی سیاسی صورت حال پر محض تماشائی بننے کی بجائے اپنا متفقہ نکتہ نظر واضح کرنا چاہئیے۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment