حضرت سیّدنا اِمام حسین صحق پر تھے
ازقلم :منیر احمد یوسفی
سیدالشہداءحضرت سیّدنااِمام حسین ص کی ولادتِ مبارک ۵ شعبان المعظم ۴ ھ کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔سرکارِ اَقدس ﷺنے آپ کے کان میں اذان دی‘ منہ میں لعاب ِدہن شریف ڈالا اور آپ کے لئے دُعا فرمائی پھر ساتویں دن آپ کا نام ” حسین“(ص) رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت سیّدنا اِمام حسین ص کی کنیت‘ ابو عبداللہ اور لقب”سبطِ رسول“ و”ریحانِ رسول“ ہے۔ حدیث شریف میں ہے‘رسولِ کائنات ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ہارون ں نے اپنے بیٹوں کا نام شبرو شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام اُنہیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا۔
نام:
امیر المو ¿منین حضرت سیّدنا علی بن ابی طالب ص سے روایت ہے، فرماتے ہیں، جب (حضرت سیّدنا اِمام) حسن (ص) پیدا ہوئے تو آپ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا، میرا بیٹا مجھے دکھاو ¿، آپ نے اُس کا کیا نام رکھا ہے؟امیر المو ¿منین حضرت سیّدنا علی ص فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”حسن“ ہے۔ پھر جب حضرت سیّدنا امام حسین ص پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا، مجھے میرا بیٹا دکھاو ¿ آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اِس کا نام ”حسین“ رکھو۔ جب تیسرے شہزادے پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاو ¿، آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے۔ حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”محسن“ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:اِنِّی ± سَمَّی ±تُھُم ± بِاَس ±مَائِ وَل ±دِ ھَارُو ±نَ شَبَّر µ و شَبِّی ±ر µ و مُبَشِّر µ ۱ ”میں نے اِن کے نام حضرت ہارون ں کے بیٹوں کے نام پر رکھے ہیں۔ اُن کے نام شبر، شبیر اور مبشر تھے“۔
اِسی لئے حسنین کریمین رضی اﷲ تعالیٰ عنہماکو شبرو شبیر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔سُریانی زبان میں شبروشبیر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اَل ±حَسَنُ وَال ±حُسَی ±نُ اِس ±مَانِ مِن ± اَھ ±لِال ±جَنَّةِ ۲ ”حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں۔“ عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ دونوں نام نہیں تھے۔
حضرت سیّدنا امام حسین ص خواب کی تعبیر ہیں:
حضرت سیّدنا امام حسین ص حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کے چچا حضرت سیّدنا عباس ص کی زوجہ حضرت لبابہ عامریہ رضی اللہ عنہا،جن کی کنیت اُمّ الفضل ہے‘ کے خواب کی تعبیر ہیں ۔ یہ خواب صاحب ِمشکوٰة نے مناقب ِاہل بیت کے باب کی تیسری فصل کی تیسری حدیث ِمبارکہ میں حضرت اِمام بیہقی علیہ الرحمہ کی کتاب دلائل النبوة کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
حضرت اُمّ الفضل بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ،فرماتی ہیںکہ وہ رسولِ کریم ﷺ کی خدمت ِاَقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ اِنِّی ± رَاَی ±تُ حُل ±مًا مُّن ±کَرًا اللَّی ±لَةَ ”میں نے رات ایک بہت مکروہ خواب دیکھا ہے“۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کیا‘ وہ بہت سخت خواب ہے فرمایا: بتاﺅ تو سہی۔ عرض کیا‘ کَاَنَّ قِط ±عَةً مِّن ± جَسَدِکَ قُطِعَت ± وَوُضِعَت ± فِی ± حِج ±رِی ± فَقَالَ رَسُو ±لُ اللّٰہِ ﷺ رَاَی ±تِ خَی ±رًا تَلِدُ فَاطِمَةُ اِن ± شَآئَ اللّٰہُ غُلَامًا یَکُو ±نُ فِی ± حِج ±رِکَ فَوَلَدَت ± فَاطِمَةُ ال ±حُسَی ±نَ فَکَانَ فِی ± حِج ±رِی ± کَمَا قَالَ رَسُو ±لُ اللّٰہِ ﷺ ۳
”آپ ﷺ کے جسم اطہر سے گوشت کا ایک ٹکڑا کٹا ہے اور میری گود میں رکھا گیا ہے۔ رسولِ کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا تونے بہت اچھا خواب دیکھا ہے انشاءاللہ تعالیٰ (حضرت) فاطمة (الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ایک لڑکے کو جنم دے گی اور وہ تیری گود میں آئے گا۔ چنانچہ (حضرت) فاطمة(الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے (حضرت امام) حسین (ص) کو جنم دیا (اُم فضل فرماتی ہیں) پھر وہ میری گود میں آیاجیسا رسولِ کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا تھا۔
آپ کی شہادت کی شہرت :
سیّد الشہداءحضرت سیّدنااِمام حسین ص کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی بھی شہرت عام ہو گئی۔ امیر المو ¿منین حضرت سیّدناعلی‘ حضرت فاطمة الزہراءاور دیگر صحابہ کبار ث واہل بیت کے جاں نثار سبھی لوگ آپ کے زمانہ شیر خوار گی ہی میں جان گئے تھے کہ یہ فرزند ِارجمند ظلم وستم کرنے والوں کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا جیسا کہ اُن اَحادیث کریمہ سے ثابت ہے جو آپ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں۔
ارضِ طَف:
اُمُّ المو ¿منین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں‘ نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا:اَخ ±بَرَنِی ± جِب ±رَئِی ±لُ اَنَّ اب ±نِی ال ±حُسَی ±نَ یُق ±تَلُ بَع ±دِی ± بِاَر ±ضِ الطَّفِّ وَجَآئَ نِی ± بِھَذِہِ التُّر ±بَةِ فَاَخ ±بَرَنیِ ± اِنَّھَا مَض ±جَعُہ ¾۴ ”مجھے (حضرت) جبرائیل (ں) نے خبر دی کہ میرا بیٹا (حضرت)حسین (ص) میرے بعد ”ارضِ طف“ میں شہید کیا جائے گا۔ (حضرت) جبرائیل (ں) نے مجھے اُس مقام کی یہ مٹی لا کر دی ہے اور بتایا ہے کہ یہ زمین (امام حسین ص کی) شہادت گاہ بنے گی“۔
ابن السکن اور محی السنة بغوی نے کتاب ”الصحابہ“ اور ابو نعیم نے طریق سخیم کے مطابق نقل کیا ہے کہ
حضرت انس بن حارث ص فرماتے ہیں:
سَمِع ±تُ رَسُو ±لَ اللّٰہِ ﷺ یَقُو ±لُ اِنَّ اب ±نِی ± ھَذَا یُق ±تَلُ بِاَر ±ضٍ یُقَالُ لَھَا کَر ±بَلَآئُ فَمَن ± شَھِدَ ذَلِکَ مِن ±کُم ± فَل ±یَن ±صُر ±ہُ ۵ ”میں نے رسول کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرا یہ بیٹا (حسین ص) جس جگہ شہید کیا جائے گا اُس کا نام کربلا ہے۔ لہٰذا جو شخص تم میں سے اُس وقت وہاں حاضر ہو وہ اُن کی ضرور مدد کرے“۔
حضرت انس ص سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتہ نے حضور ﷺکی خدمت میں حاضری دینے کےلئے خداوندِ قدوس جل جلالہ سے اجازت طلب کی‘ جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر بارگاہِ نبوت ﷺمیں حاضر ہوا تو اُس وقت حضرت (سیّدنا اِمام ) حسین ص آئے اور حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ ﷺ اُن کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتہ نے عرض کیا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیک وسلم) کیا آپ ﷺ حضرت حسینص سے پیار کرتے ہیں؟ حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺنے فرمایا: ہاں!۔اُس نے کہا :اِنَّ اُمَّتَکَ سَتَق ±تُلُہ ¾ ”آپ کی اُمّت (حضرت) حسین ص کوقتل کر دے گی“۔ اگر آپ چاہیں تو میں اُن کی قتل گاہ (کی مٹی)آپ ﷺکو دکھادوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایاجسے اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺنے فرمایا: اے ام ّسلمیٰ! جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا ہے۔ حضرت اُمّ سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اُس مٹی کو شیشی میں بند کرلیا جو (حضرت سیّدنا امام حسین ص)کی شہادت کے دن خون بن گئی۔ ۶
ابن سعد روایت کرتے ہیں کہ امیر المو ¿منین حضرت سیّدنا علی ص جنگ ِصفین کے موقع پر کربلا سے گزر رہے تھے کہ ٹھہر گئے اور اُس زمین کا نام دریافت فرمایا۔لوگوں نے عرض کیا اِس زمین کا نام کربلا ہے۔ کربلا کا نام سنتے ہی بہت روئے۔پھر فرمایا کہ ایک روز میں حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺکی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ رو رہے ہیں‘ میں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم) آپ ﷺ کیوں رو رہے ہیں؟ تونبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا: ابھی میرے پاس حضرت جبریل ںآئے تھے‘ انہوں نے مجھے خبر دی: اِنَّ وَلَدِی ± ال ±حُسَی ±نَ یُق ±تَلُ بِشَاطِی ال ±فُرَاتِ بِمَو ±ضَعٍ یُقَالُ لَہ ¾ کَر ±بَلَائُ ۷ ” میرا بیٹا (حضرت)حسین (ص) دریائے فرات کے کنارے اُس جگہ پر شہید کیا جائے گا جس کو کربلا کہتے ہیں“۔
اِن اَحادیث کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ حضور پرُ نور سیّد کائنات ﷺکو حضرت سیّدنا اِمام حسین ص کے شہیدہونے کی بار بار اِطلاع دی گئی اور حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺنے بھی اِس کا بارہا ذکر فرمایا اور یہ شہادت حضرت سیّدنا اِمام حسین ص کے عہدِ طفلی ہی میں خوب مشہور ہو چکی تھی اور سب کو معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کے شہید ہونے کی جگہ کربلا ہے بلکہ وہ اِس کے چپہ چپہ کو پہچانتے تھے اور اُنہیں خوب معلوم تھا کہ شہداءکربلا کے اُونٹ کہاں باندھے جائیں گے، اُن کا سامان کہاں رکھا جائے گا اور اُن کے خون کہاں بہائے جائیں گے؟
مختلف اَحادیث میں وحی جلی کے ذریعے اِس بات کے بارے میں پیشگی طور پر مطلع کر دیا گیا کہ حضرت سیّدنا اِمام حسین ص کو شہید کر دیا جائے گا۔
”وی از محققانِ اولیاءبودوقبلہ اہل صفاتا حق ظاہر بود مرحق را متابع بود چوں حق مفقود شد شمشیر برکشیدو تاجان عزیز را فداءخدای عزوجل نکرد نیار آمد “۔
”حضرت سیّدنا اِمام حسین ص جو محققان اولیاءکرام سے ہیں اور قبلہ اہل صفا ہیں جب تک حق ظاہررہا حق کی متابعت کرتے رہے اور جب حق مفقودہوا تو تلوار اُٹھائی یہاں تک کہ اپنی جان عزیز کو بارگاہِ الٰہی میں فداکردیا اور جب تک جان فدا نہ فرما دی آپ نے آرام نہ فرمایا“۔
اِس واقعہ فاجعہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے محبوب ﷺ کو انتہائی تکلیف ہوئی اور مشیّتِ ایزدی بھی یہ اندوہناک منظر ملاحظہ کرتی رہی کہ کس طرح نبی آخر الزماں ﷺ کے پیارے نواسے (ص) کو کس بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔
صحابہ کرام ث نے نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کو اِس عظیم سانحہ کے بعد خواب میں پریشان حالت میں دیکھا جس کا ذکر احادیث مبارکہ میں ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن میں نے دو پہر کے وقت خواب میں رسولِ کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کو دیکھا کہ نورانی بال مبارک بکھرے ہوئے ہیں اور گرد وغبار بھی پڑا ہوا ہے۔ اور آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک میں ایک شیشی ہے ‘میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہو جائیں ‘یہ کیا ہے؟
قَالَ ھٰذَادَمُ ال ±حُسَی ±نِ وَاَص ±حَابِہ وَلَم ± اَزَل ± اُل ±قِطُہ ¾ مُن ±ذُال ±یَو ±مِ فَاُح ±صِی ± ذٰلِکَ ال ±وَق ±تَ فَاَجِدُ قُتِلَ ذٰلِکَ ال ±وَق ±تَ۔۹ ”فرمایا: یہ (حضرت اِمام)حسین (ص) اور اُن کے ساتھیوں کا خون ہے آج میں اِس خون کو اُٹھاتارہا (حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تعالیٰ فرماتے ہیں) میں وہ وقت خیال میں رکھنے لگا میں نے یہ وقت قتل کا پایا“۔
حضرت سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ‘فرماتی ہیں کہ میں اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئی وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کونسی چیز آپ کو رولا رہی ہے‘ فرمانے لگیں رَاَی ±تُ رَسُو ±لَ اللّٰہِ ﷺ یَع ±نِی ± فِی ± ال ±مَنَامِ وَعَلٰی رَاسِہ وَلِح ±یَتِہِ التُّرَابُ فَقُل ±تُ مَالَکَ یَا رَسُو ±لَ اللّٰہِ قَالَ شَہِد ±تُّ قَت ±لَ ال ±حُسَی ±نِ آنِفًا۔ ۰۱
”میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا یعنی خواب میں کہ آپ ﷺ کے سر انور اور ریش مبارک پر مٹی ہے تو میں نے عرض کیایا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم) آپ ﷺ کا یہ کیا حال ہے ۔فرمایا قتل گاہِ حسین (ص)میں حاضر تھا “۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ایک شخص (جس کا تعلق کوفہ، عراق سے تھا) نے پوچھا حضرت شعبہ فرماتے ہیں میں سمجھتا ہوں یہ پوچھا کہ اگر اِحرام والا مکھی کو مار ڈالے (تو اِس پر کچھ فدیہ ہے) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا عراق والے مکھی کے مار ڈالنے کا پوچھتے ہیں:
وَقَد ± قَتَلُوا اب ±نَ بِن ±تِ رَسُو ±لِ اللّٰہِ ﷺ وَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ ھُمَا رَی ±حَانَتَایَ مِنَ الدُّن ±یَا ۱۱
”اور رسولِ کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کے نواسے (حضرت سیّدنا اِمام) حسین ص کو اُنہوں نے (بے دریغ) شہید کر ڈالا (اللہ جل جلالہ کا کچھ ڈر نہ کیا) حالانکہ نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے اِن دونوں نواسوں کی نسبت فرمایا یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں“۔
شہادت حضرت سیّدنا اِمام حسین ص :
اِمام عالی مقام حضرت اِمام حسین ص کی شہادت کا ذکر وحی بذریعہ حضرت جبرائیل ں اور دیگر فرشتوں کے ذریعے نازل ہوا۔ پھر مقام شہادت کا تعین اور نشاندہی فرمائی گئی ، اِس جگہ کا نام بتا دیا گیا، پھر شہادت کا وقت زمانہ اور تاریخ بھی بتا دی گئی کہ وہ ۰۶ھ کے آخر اور ۱۶ھ کے شروع میں واقع ہوگی۔
شہادت اِمام حسین ص کے بعد:
حضرت سیّدنا اِمام حسین ص کو کربلا کے مقام پر شہید کیا گیا، آپ کی شہادت کا واقعہ بہت طویل اور دل سوز ہے جس کو لکھنے اور سننے کی دل میں طاقت نہیں ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَی ±ہِ رَاجِعُو ±نَo حضرت سیدنا اِمام حسین ص کے ساتھ ۶۱ اہل بیت (گھر کے لوگ) شہید ہوئے جبکہ کل ۲۷ افراد شہید ہوئے۔ وَلَمَّا قَتَلَ ال ±حُسَی ±نَ مَکَثَتِ الدُّن ±یَا سَب ±عَةَ اَیَّامٍ وَالشَّم ±سُ عَلَی ال ±حِی ±طَانِ کَال ±مَلَا حِفِ ال ±مُعَص ±فَرَةِ وَال ±کَوَاکِبُ یَض ±رِبُ بَع ±ضُھَا بَع ±ضًا وَکَانَ قَت ±لُہ ¾ یَو ±مَ عَاشُو ±رَا وَکَسَفَتِ الشَّم ±سُ ذٰلِکَ ال ±یَو ±مَ وَاح ±مَرَّت ± آفَاقُ السَّمَائِ سِتَّةَ اَش ±ھُرٍ بَع ±دَ قَت ±لِہ‘ ثُمَّ لَا زَالَتِ ال ±حُم ±رَةُ تُرٰی فِی ±ھَا بَع ±دَ ذَالِکَ وَلَم ± تَکُن ± تُرٰی فِی ±ھَا قَب ±لُہ ¾ آپ کی شہادت کے واقعہ کے بعد سات دن تک اندھیرا چھایا رہا۔ دیواروں پر دھوپ کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور بہت سے ستارے بھی ٹوٹے، آپ کی شہادت۰۱ محرم ۱۶ ہجری کو واقع ہوئی۔ آپ کی شہادت کے دن سورج گہن میں آگیا تھا، مسلسل چھ ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے، بعد میں رفتہ رفتہ وہ سرخی جاتی رہی۔ البتہ اُفق کی سرخی جس کو شفق کہا جاتا ہے آج تک موجود ہے یہ سرخی شہادت حسین ص سے پہلے موجود نہیں تھی۔وَقِی ±لَ اِنَّہ ¾ لَم ± یُقَلِّب ± حَجَرُ بَی ±تِ ال ±مَق ±دَسِ یَو ±مَئِذٍ اِلَّا وُجِدَ تَح ±تَہ ¾ دَم µ عَبِی ±ط µ وَصَارَ ال ±وَرَسُ الَّذِی ± فِی ± عَس ±کَرِھِم ± فَکَانُو ±ا یَرَو ±نَ فِی ± لَح ±مِھَا مِث ±لُ النَّیِرَّانِ وَطَب ±خُو ±ھَا فَصَارَت ± مِث ±لَ ال ±علقم‘ وَ تَکَلَّمَ رَجُل µ فِی ال ±حُسَی ±نِ بِکَلِمَةٍ فَرَمَاہُ اللّٰہُ بِکَو ±کَبَی ±نِ مِنَ السَّمَآئِ فَطَمَسَ بَصَرُہ ۴۱ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہادتِ حسین صکے دن بیت المقدس میں جو پتھر بھی اُٹھایا جاتا تھا‘ اُس کے نیچے تازہ خون نکلتا تھا۔ عراقی فوج نے جب اپنے لئے اُونٹ ذبح کیا تو اُس کا گوشت آگ کی طرح سُرخ بن گیا اور جب اُس کو پکایا تو وہ کڑوا ہوگیا۔ ایک شخص نے حضرت اِمام حسین ص کو سب و شتم کیا تو بحکم الٰہی آسمان سے ستارے ٹوٹے اور وہ اندھا ہوگیا۔
حضرت اِمام حسین ص کی شہادت پر جنات بھی روئے:
ابو نعیم نے دلائل میں حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زبانی لکھا ہے کہ میں نے شہادت ِحضرت اِمام حسین ص پر جنات کو اشکباری اورروتے دیکھا۔ ثعلب نے اما لی میں ابی جناب کلبی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ میں نے کربلا میں جا کر ایک معزز عرب سے دریافت کیا کہ کیا تم نے جنات کو گریہ و زاری کرتے سنا ہے؟ اُس نے کہا کہ تم جس سے چاہو پوچھ لو اُن کی گریہ و زاری ہر ایک نے سنی ہے۔ میں نے کہا جو کچھ تم نے سنا ہے وہ مجھے بھی بتاو ¿۔ اُ س شخص نے جواب دیا کہ میں نے جنات کی زبانی یہ اشعار سنے ہیں۔
نام:
امیر المو ¿منین حضرت سیّدنا علی بن ابی طالب ص سے روایت ہے، فرماتے ہیں، جب (حضرت سیّدنا اِمام) حسن (ص) پیدا ہوئے تو آپ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا، میرا بیٹا مجھے دکھاو ¿، آپ نے اُس کا کیا نام رکھا ہے؟امیر المو ¿منین حضرت سیّدنا علی ص فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”حسن“ ہے۔ پھر جب حضرت سیّدنا امام حسین ص پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا، مجھے میرا بیٹا دکھاو ¿ آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اِس کا نام ”حسین“ رکھو۔ جب تیسرے شہزادے پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھاو ¿، آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے۔ حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”محسن“ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:اِنِّی ± سَمَّی ±تُھُم ± بِاَس ±مَائِ وَل ±دِ ھَارُو ±نَ شَبَّر µ و شَبِّی ±ر µ و مُبَشِّر µ ۱ ”میں نے اِن کے نام حضرت ہارون ں کے بیٹوں کے نام پر رکھے ہیں۔ اُن کے نام شبر، شبیر اور مبشر تھے“۔
اِسی لئے حسنین کریمین رضی اﷲ تعالیٰ عنہماکو شبرو شبیر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔سُریانی زبان میں شبروشبیر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اَل ±حَسَنُ وَال ±حُسَی ±نُ اِس ±مَانِ مِن ± اَھ ±لِال ±جَنَّةِ ۲ ”حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں۔“ عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ دونوں نام نہیں تھے۔
حضرت سیّدنا امام حسین ص خواب کی تعبیر ہیں:
حضرت سیّدنا امام حسین ص حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کے چچا حضرت سیّدنا عباس ص کی زوجہ حضرت لبابہ عامریہ رضی اللہ عنہا،جن کی کنیت اُمّ الفضل ہے‘ کے خواب کی تعبیر ہیں ۔ یہ خواب صاحب ِمشکوٰة نے مناقب ِاہل بیت کے باب کی تیسری فصل کی تیسری حدیث ِمبارکہ میں حضرت اِمام بیہقی علیہ الرحمہ کی کتاب دلائل النبوة کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
حضرت اُمّ الفضل بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ،فرماتی ہیںکہ وہ رسولِ کریم ﷺ کی خدمت ِاَقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ اِنِّی ± رَاَی ±تُ حُل ±مًا مُّن ±کَرًا اللَّی ±لَةَ ”میں نے رات ایک بہت مکروہ خواب دیکھا ہے“۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کیا‘ وہ بہت سخت خواب ہے فرمایا: بتاﺅ تو سہی۔ عرض کیا‘ کَاَنَّ قِط ±عَةً مِّن ± جَسَدِکَ قُطِعَت ± وَوُضِعَت ± فِی ± حِج ±رِی ± فَقَالَ رَسُو ±لُ اللّٰہِ ﷺ رَاَی ±تِ خَی ±رًا تَلِدُ فَاطِمَةُ اِن ± شَآئَ اللّٰہُ غُلَامًا یَکُو ±نُ فِی ± حِج ±رِکَ فَوَلَدَت ± فَاطِمَةُ ال ±حُسَی ±نَ فَکَانَ فِی ± حِج ±رِی ± کَمَا قَالَ رَسُو ±لُ اللّٰہِ ﷺ ۳
”آپ ﷺ کے جسم اطہر سے گوشت کا ایک ٹکڑا کٹا ہے اور میری گود میں رکھا گیا ہے۔ رسولِ کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا تونے بہت اچھا خواب دیکھا ہے انشاءاللہ تعالیٰ (حضرت) فاطمة (الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ایک لڑکے کو جنم دے گی اور وہ تیری گود میں آئے گا۔ چنانچہ (حضرت) فاطمة(الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے (حضرت امام) حسین (ص) کو جنم دیا (اُم فضل فرماتی ہیں) پھر وہ میری گود میں آیاجیسا رسولِ کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا تھا۔
آپ کی شہادت کی شہرت :
سیّد الشہداءحضرت سیّدنااِمام حسین ص کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی بھی شہرت عام ہو گئی۔ امیر المو ¿منین حضرت سیّدناعلی‘ حضرت فاطمة الزہراءاور دیگر صحابہ کبار ث واہل بیت کے جاں نثار سبھی لوگ آپ کے زمانہ شیر خوار گی ہی میں جان گئے تھے کہ یہ فرزند ِارجمند ظلم وستم کرنے والوں کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا جیسا کہ اُن اَحادیث کریمہ سے ثابت ہے جو آپ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں۔
ارضِ طَف:
اُمُّ المو ¿منین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں‘ نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا:اَخ ±بَرَنِی ± جِب ±رَئِی ±لُ اَنَّ اب ±نِی ال ±حُسَی ±نَ یُق ±تَلُ بَع ±دِی ± بِاَر ±ضِ الطَّفِّ وَجَآئَ نِی ± بِھَذِہِ التُّر ±بَةِ فَاَخ ±بَرَنیِ ± اِنَّھَا مَض ±جَعُہ ¾۴ ”مجھے (حضرت) جبرائیل (ں) نے خبر دی کہ میرا بیٹا (حضرت)حسین (ص) میرے بعد ”ارضِ طف“ میں شہید کیا جائے گا۔ (حضرت) جبرائیل (ں) نے مجھے اُس مقام کی یہ مٹی لا کر دی ہے اور بتایا ہے کہ یہ زمین (امام حسین ص کی) شہادت گاہ بنے گی“۔
ابن السکن اور محی السنة بغوی نے کتاب ”الصحابہ“ اور ابو نعیم نے طریق سخیم کے مطابق نقل کیا ہے کہ
حضرت انس بن حارث ص فرماتے ہیں:
سَمِع ±تُ رَسُو ±لَ اللّٰہِ ﷺ یَقُو ±لُ اِنَّ اب ±نِی ± ھَذَا یُق ±تَلُ بِاَر ±ضٍ یُقَالُ لَھَا کَر ±بَلَآئُ فَمَن ± شَھِدَ ذَلِکَ مِن ±کُم ± فَل ±یَن ±صُر ±ہُ ۵ ”میں نے رسول کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرا یہ بیٹا (حسین ص) جس جگہ شہید کیا جائے گا اُس کا نام کربلا ہے۔ لہٰذا جو شخص تم میں سے اُس وقت وہاں حاضر ہو وہ اُن کی ضرور مدد کرے“۔
حضرت انس ص سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتہ نے حضور ﷺکی خدمت میں حاضری دینے کےلئے خداوندِ قدوس جل جلالہ سے اجازت طلب کی‘ جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر بارگاہِ نبوت ﷺمیں حاضر ہوا تو اُس وقت حضرت (سیّدنا اِمام ) حسین ص آئے اور حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ ﷺ اُن کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتہ نے عرض کیا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیک وسلم) کیا آپ ﷺ حضرت حسینص سے پیار کرتے ہیں؟ حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺنے فرمایا: ہاں!۔اُس نے کہا :اِنَّ اُمَّتَکَ سَتَق ±تُلُہ ¾ ”آپ کی اُمّت (حضرت) حسین ص کوقتل کر دے گی“۔ اگر آپ چاہیں تو میں اُن کی قتل گاہ (کی مٹی)آپ ﷺکو دکھادوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایاجسے اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺنے فرمایا: اے ام ّسلمیٰ! جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا ہے۔ حضرت اُمّ سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اُس مٹی کو شیشی میں بند کرلیا جو (حضرت سیّدنا امام حسین ص)کی شہادت کے دن خون بن گئی۔ ۶
ابن سعد روایت کرتے ہیں کہ امیر المو ¿منین حضرت سیّدنا علی ص جنگ ِصفین کے موقع پر کربلا سے گزر رہے تھے کہ ٹھہر گئے اور اُس زمین کا نام دریافت فرمایا۔لوگوں نے عرض کیا اِس زمین کا نام کربلا ہے۔ کربلا کا نام سنتے ہی بہت روئے۔پھر فرمایا کہ ایک روز میں حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺکی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ رو رہے ہیں‘ میں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم) آپ ﷺ کیوں رو رہے ہیں؟ تونبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے فرمایا: ابھی میرے پاس حضرت جبریل ںآئے تھے‘ انہوں نے مجھے خبر دی: اِنَّ وَلَدِی ± ال ±حُسَی ±نَ یُق ±تَلُ بِشَاطِی ال ±فُرَاتِ بِمَو ±ضَعٍ یُقَالُ لَہ ¾ کَر ±بَلَائُ ۷ ” میرا بیٹا (حضرت)حسین (ص) دریائے فرات کے کنارے اُس جگہ پر شہید کیا جائے گا جس کو کربلا کہتے ہیں“۔
اِن اَحادیث کریمہ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ حضور پرُ نور سیّد کائنات ﷺکو حضرت سیّدنا اِمام حسین ص کے شہیدہونے کی بار بار اِطلاع دی گئی اور حضور نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺنے بھی اِس کا بارہا ذکر فرمایا اور یہ شہادت حضرت سیّدنا اِمام حسین ص کے عہدِ طفلی ہی میں خوب مشہور ہو چکی تھی اور سب کو معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کے شہید ہونے کی جگہ کربلا ہے بلکہ وہ اِس کے چپہ چپہ کو پہچانتے تھے اور اُنہیں خوب معلوم تھا کہ شہداءکربلا کے اُونٹ کہاں باندھے جائیں گے، اُن کا سامان کہاں رکھا جائے گا اور اُن کے خون کہاں بہائے جائیں گے؟
مختلف اَحادیث میں وحی جلی کے ذریعے اِس بات کے بارے میں پیشگی طور پر مطلع کر دیا گیا کہ حضرت سیّدنا اِمام حسین ص کو شہید کر دیا جائے گا۔
”وی از محققانِ اولیاءبودوقبلہ اہل صفاتا حق ظاہر بود مرحق را متابع بود چوں حق مفقود شد شمشیر برکشیدو تاجان عزیز را فداءخدای عزوجل نکرد نیار آمد “۔
”حضرت سیّدنا اِمام حسین ص جو محققان اولیاءکرام سے ہیں اور قبلہ اہل صفا ہیں جب تک حق ظاہررہا حق کی متابعت کرتے رہے اور جب حق مفقودہوا تو تلوار اُٹھائی یہاں تک کہ اپنی جان عزیز کو بارگاہِ الٰہی میں فداکردیا اور جب تک جان فدا نہ فرما دی آپ نے آرام نہ فرمایا“۔
اِس واقعہ فاجعہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے محبوب ﷺ کو انتہائی تکلیف ہوئی اور مشیّتِ ایزدی بھی یہ اندوہناک منظر ملاحظہ کرتی رہی کہ کس طرح نبی آخر الزماں ﷺ کے پیارے نواسے (ص) کو کس بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔
صحابہ کرام ث نے نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کو اِس عظیم سانحہ کے بعد خواب میں پریشان حالت میں دیکھا جس کا ذکر احادیث مبارکہ میں ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن میں نے دو پہر کے وقت خواب میں رسولِ کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کو دیکھا کہ نورانی بال مبارک بکھرے ہوئے ہیں اور گرد وغبار بھی پڑا ہوا ہے۔ اور آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک میں ایک شیشی ہے ‘میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہو جائیں ‘یہ کیا ہے؟
قَالَ ھٰذَادَمُ ال ±حُسَی ±نِ وَاَص ±حَابِہ وَلَم ± اَزَل ± اُل ±قِطُہ ¾ مُن ±ذُال ±یَو ±مِ فَاُح ±صِی ± ذٰلِکَ ال ±وَق ±تَ فَاَجِدُ قُتِلَ ذٰلِکَ ال ±وَق ±تَ۔۹ ”فرمایا: یہ (حضرت اِمام)حسین (ص) اور اُن کے ساتھیوں کا خون ہے آج میں اِس خون کو اُٹھاتارہا (حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تعالیٰ فرماتے ہیں) میں وہ وقت خیال میں رکھنے لگا میں نے یہ وقت قتل کا پایا“۔
حضرت سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ‘فرماتی ہیں کہ میں اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئی وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کونسی چیز آپ کو رولا رہی ہے‘ فرمانے لگیں رَاَی ±تُ رَسُو ±لَ اللّٰہِ ﷺ یَع ±نِی ± فِی ± ال ±مَنَامِ وَعَلٰی رَاسِہ وَلِح ±یَتِہِ التُّرَابُ فَقُل ±تُ مَالَکَ یَا رَسُو ±لَ اللّٰہِ قَالَ شَہِد ±تُّ قَت ±لَ ال ±حُسَی ±نِ آنِفًا۔ ۰۱
”میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا یعنی خواب میں کہ آپ ﷺ کے سر انور اور ریش مبارک پر مٹی ہے تو میں نے عرض کیایا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم) آپ ﷺ کا یہ کیا حال ہے ۔فرمایا قتل گاہِ حسین (ص)میں حاضر تھا “۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ایک شخص (جس کا تعلق کوفہ، عراق سے تھا) نے پوچھا حضرت شعبہ فرماتے ہیں میں سمجھتا ہوں یہ پوچھا کہ اگر اِحرام والا مکھی کو مار ڈالے (تو اِس پر کچھ فدیہ ہے) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا عراق والے مکھی کے مار ڈالنے کا پوچھتے ہیں:
وَقَد ± قَتَلُوا اب ±نَ بِن ±تِ رَسُو ±لِ اللّٰہِ ﷺ وَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ ھُمَا رَی ±حَانَتَایَ مِنَ الدُّن ±یَا ۱۱
”اور رسولِ کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ کے نواسے (حضرت سیّدنا اِمام) حسین ص کو اُنہوں نے (بے دریغ) شہید کر ڈالا (اللہ جل جلالہ کا کچھ ڈر نہ کیا) حالانکہ نبی کریم رو ¿ف ورحیم ﷺ نے اِن دونوں نواسوں کی نسبت فرمایا یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں“۔
شہادت حضرت سیّدنا اِمام حسین ص :
اِمام عالی مقام حضرت اِمام حسین ص کی شہادت کا ذکر وحی بذریعہ حضرت جبرائیل ں اور دیگر فرشتوں کے ذریعے نازل ہوا۔ پھر مقام شہادت کا تعین اور نشاندہی فرمائی گئی ، اِس جگہ کا نام بتا دیا گیا، پھر شہادت کا وقت زمانہ اور تاریخ بھی بتا دی گئی کہ وہ ۰۶ھ کے آخر اور ۱۶ھ کے شروع میں واقع ہوگی۔
شہادت اِمام حسین ص کے بعد:
حضرت سیّدنا اِمام حسین ص کو کربلا کے مقام پر شہید کیا گیا، آپ کی شہادت کا واقعہ بہت طویل اور دل سوز ہے جس کو لکھنے اور سننے کی دل میں طاقت نہیں ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَی ±ہِ رَاجِعُو ±نَo حضرت سیدنا اِمام حسین ص کے ساتھ ۶۱ اہل بیت (گھر کے لوگ) شہید ہوئے جبکہ کل ۲۷ افراد شہید ہوئے۔ وَلَمَّا قَتَلَ ال ±حُسَی ±نَ مَکَثَتِ الدُّن ±یَا سَب ±عَةَ اَیَّامٍ وَالشَّم ±سُ عَلَی ال ±حِی ±طَانِ کَال ±مَلَا حِفِ ال ±مُعَص ±فَرَةِ وَال ±کَوَاکِبُ یَض ±رِبُ بَع ±ضُھَا بَع ±ضًا وَکَانَ قَت ±لُہ ¾ یَو ±مَ عَاشُو ±رَا وَکَسَفَتِ الشَّم ±سُ ذٰلِکَ ال ±یَو ±مَ وَاح ±مَرَّت ± آفَاقُ السَّمَائِ سِتَّةَ اَش ±ھُرٍ بَع ±دَ قَت ±لِہ‘ ثُمَّ لَا زَالَتِ ال ±حُم ±رَةُ تُرٰی فِی ±ھَا بَع ±دَ ذَالِکَ وَلَم ± تَکُن ± تُرٰی فِی ±ھَا قَب ±لُہ ¾ آپ کی شہادت کے واقعہ کے بعد سات دن تک اندھیرا چھایا رہا۔ دیواروں پر دھوپ کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور بہت سے ستارے بھی ٹوٹے، آپ کی شہادت۰۱ محرم ۱۶ ہجری کو واقع ہوئی۔ آپ کی شہادت کے دن سورج گہن میں آگیا تھا، مسلسل چھ ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے، بعد میں رفتہ رفتہ وہ سرخی جاتی رہی۔ البتہ اُفق کی سرخی جس کو شفق کہا جاتا ہے آج تک موجود ہے یہ سرخی شہادت حسین ص سے پہلے موجود نہیں تھی۔وَقِی ±لَ اِنَّہ ¾ لَم ± یُقَلِّب ± حَجَرُ بَی ±تِ ال ±مَق ±دَسِ یَو ±مَئِذٍ اِلَّا وُجِدَ تَح ±تَہ ¾ دَم µ عَبِی ±ط µ وَصَارَ ال ±وَرَسُ الَّذِی ± فِی ± عَس ±کَرِھِم ± فَکَانُو ±ا یَرَو ±نَ فِی ± لَح ±مِھَا مِث ±لُ النَّیِرَّانِ وَطَب ±خُو ±ھَا فَصَارَت ± مِث ±لَ ال ±علقم‘ وَ تَکَلَّمَ رَجُل µ فِی ال ±حُسَی ±نِ بِکَلِمَةٍ فَرَمَاہُ اللّٰہُ بِکَو ±کَبَی ±نِ مِنَ السَّمَآئِ فَطَمَسَ بَصَرُہ ۴۱ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہادتِ حسین صکے دن بیت المقدس میں جو پتھر بھی اُٹھایا جاتا تھا‘ اُس کے نیچے تازہ خون نکلتا تھا۔ عراقی فوج نے جب اپنے لئے اُونٹ ذبح کیا تو اُس کا گوشت آگ کی طرح سُرخ بن گیا اور جب اُس کو پکایا تو وہ کڑوا ہوگیا۔ ایک شخص نے حضرت اِمام حسین ص کو سب و شتم کیا تو بحکم الٰہی آسمان سے ستارے ٹوٹے اور وہ اندھا ہوگیا۔
حضرت اِمام حسین ص کی شہادت پر جنات بھی روئے:
ابو نعیم نے دلائل میں حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زبانی لکھا ہے کہ میں نے شہادت ِحضرت اِمام حسین ص پر جنات کو اشکباری اورروتے دیکھا۔ ثعلب نے اما لی میں ابی جناب کلبی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ میں نے کربلا میں جا کر ایک معزز عرب سے دریافت کیا کہ کیا تم نے جنات کو گریہ و زاری کرتے سنا ہے؟ اُس نے کہا کہ تم جس سے چاہو پوچھ لو اُن کی گریہ و زاری ہر ایک نے سنی ہے۔ میں نے کہا جو کچھ تم نے سنا ہے وہ مجھے بھی بتاو ¿۔ اُ س شخص نے جواب دیا کہ میں نے جنات کی زبانی یہ اشعار سنے ہیں۔
مَسِحَ الرَّسُو ±لُ جَبِی ±نَہ ¾
فَلَہ ¾ بَرِی ±ق µ فِی ال ±خُدُو ±دِ
اَب ±وَاہُ مِن ± عُل ±یَا قُرَی ±شٍ
وَجَدُّہ ¾ خَی ±رُ ال ±جُدُو ±دِ۶۱
فَلَہ ¾ بَرِی ±ق µ فِی ال ±خُدُو ±دِ
اَب ±وَاہُ مِن ± عُل ±یَا قُرَی ±شٍ
وَجَدُّہ ¾ خَی ±رُ ال ±جُدُو ±دِ۶۱
جس کی پیشانی پر رسول اﷲ ﷺ نے دستِ مبارک پھیرا ہے
اُن کے رخساروں پر بہت چمک تھی
اُن کے والدین قریش کے اعلیٰ خاندان سے تھے
اور اُن کے جد تمام اجداد سے بہتر تھے۔
جب حضرت اِمام حسین ص اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو چکے تو ابن زیاد نے اُن تمام شہدا کے سروں کو یزید کے پاس دارالسلطنت میں بھیج دیا۔ یزید ان سرہائے بریدہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
اُن کے رخساروں پر بہت چمک تھی
اُن کے والدین قریش کے اعلیٰ خاندان سے تھے
اور اُن کے جد تمام اجداد سے بہتر تھے۔
جب حضرت اِمام حسین ص اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو چکے تو ابن زیاد نے اُن تمام شہدا کے سروں کو یزید کے پاس دارالسلطنت میں بھیج دیا۔ یزید ان سرہائے بریدہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
No comments:
Post a Comment