"میمو سکینڈل؟۔۔۔ نیٹو حملے؟۔۔۔ این آر او؟"
پاکستان کی سیاسی ،عسکری اور عدالتی تاریخ میں ان دنوں تین اہم واقعات بیک وقت پوری قوم اور ان اداروں کے سربراہوں کے لیے باعث فکرہیں۔ میمو سکینڈل کیس نے ملک کے سیاسی نظام میں ایک تلاطم پیدا کیا ہے تو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے حملے نے پاکستان کی افواج کو اپنی دفاعی حکمت عملی از سر نو ترتیب دینے کا موقعہ دیا ۔ این آر او کیس پر نظر ثانی اپیل کے مسترد ہونے کے بعد وزیر اعظم صاحب کے لیے "نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن "ہے۔
ان تینوں معاملات کا حل صرف اور صرف پاکستانیت اختیار کرنے میں ہے میمو سکینڈل ہو، نیٹو حملے کے بعد کی حکمت عملی یا این آر او نظر ثانی اپیل کے بعد سوئیز حکومت کو خط لکھنا اور کیسز کو کھولنا ان سب کو قومی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت صرف اور صرف پاکستان کو مقدم رکھے۔ جماعتی سیاست اور صدر پرستی یا امریکی خوف کو بالائے طاق رکھ کر صرف پاکستان کے مسقبل کو سامنے رکھے تو ہماری قیادت کو انشا ءاللہ کامیابی اور کامرانی ہو گی اورپاکستانی قوم ان کے پیچھے ایک دیوار کی طرح کھڑی ہو گی۔
یہ بات کس قدر حیرانی اور پریشانی کا باعث ہے کہ ان تینوں معاملات کے پس منظر میں امریکہ ہی نظر آتا ہے۔ میمو سکینڈل میں ایک امریکی شہری منصور اعجاز ملوث ہے۔ نیٹو حملے امریکہ کے ایماءکے بغیرنہیں ہو سکتے، این آر او صدر مشرف سے کروانے میں بھی سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس اور ہال بروک کی حمایت شامل تھی۔
امریکہ سے دوستی اور تعلق رکھنا کوئی بری بات نہیںلیکن دوست یا تعلق دار کو اپنا" آقا" بنا لینا کسی بھی طرح خود مختار اور آزاد ملک کو زیب نہیں دیتا۔ہماری حکومتوں خاص طور پر ماضی کے فوجی آمر حکمرانوں ایوب خان،یحییٰ خان، ضیا ءالحق اور مشرف نے عملاً امریکہ کو اپنا" آقا" بنا لیا تھا اس کا خمیازہ ہم نصف صدی سے زائد عرصہ سے بھگت رہے ہیں۔ فوجی آمروں کے اس رویے نے ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا لیکن یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت جسے ابتداءمیں پوری حزب اختلاف کی بھر پور حمایت حاصل تھی نے بھی اسی وطیرے کو اپنائے رکھا اور امریکہ کو اپنا "مائی باپ" قرار دیا۔ اگر عوام کی منتخب حکمران قیادت اپنے اقتدار کی بجائے پاکستان کو ترجیح دیتی تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، گستاخی معاف اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کی حالت اس پنجابی مقولے کے مصداق"پیاز دے نال سو چھتر" یعنی حکومت کو پیاز بھی کھانی پڑرہی ہے اور سو جوتے بھی۔
میمو سکینڈل ہویا نیٹو حملے یا این آر او کیس حکومت کو وہ سارے کام کرنے پڑ رہے ہیں جن کی شاید ضرورت پیش نہ آتی اگر ابتداءہی میں حب الوطنی کے تقاضوں کو سامنے رکھ لیا جاتا۔میمو سکینڈل کیس جس دن سے سپریم کورٹ میں گیا ہے حکومت اسے ایک سازش قرار دے رہی ہے۔ اگر یہ ایک سازش تھی تب بھی اسے بے نقاب کرنا حکومت کا فرض تھا۔ جس دن حسین حقانی نے استعفیٰ لیا گیا اسی روز ایک با اختیار کمیشن تشکیل دے دیا جاتا تو نوبت یہاں تک نہ آتی، کاش کہ حکومت بابر اعوان کی بجائے اعتزاز احسن سے ہی مشورہ کر لیتی۔اب سپریم کورٹ نے صدر ، آرمی چیف سے 15دنوں میں جواب طلب کیا ہے اور حسین حقانی کا نام ای سی ایل میںڈال دیا گیا ہے۔میمو سکینڈل کی انکوائری کے لیے سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ پر مشتمل ایک کمیشن بھی تشکیل دے دیا گیا ہے جسے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ شہادتیں اکٹھی کرنے کے بعد تین ہفتے میں رپورٹ پیش کرے۔
سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملے نے پاک فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے اور دو ٹوک فیصلے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ہے۔ پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف کے فیصلے کو پوری قوم نے سراہا ہے اور پاکستانی عوام میں اعتماد کی ایک نئی کرن پھوٹ آئی ہے۔ کسی بھی جارحیت کی صورت میں پاک افغان سرحد پر تعینات فوجی افسروں اور جوانوں کو منہ توڑ جوابی کارروائی کرنے کا اختیار دے کر بڑا واضح پیغام دیاگیا ہے۔ یہ فیصلہ یقینی اعتبار سے صرف اور صرف پاکستان کے مفاد میں ہے۔ جنرل کیانی کے اس فیصلے نے ان کے قومی وقار میں اضافہ کیا ہے۔ بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی ©" پاکستانی فیصلہ "ہے۔ شمسی ائر بیس گیارہ ستمبر تک خالی کروانا بھی ہمارے خود مختار اقتدار اعلیٰ کی نشانی ہے اس فیصلے پر امریکی دباﺅ ماننا حکومت کے لیے تباہ کن ہو گا۔
معاملہ میمو سکینڈل کا ہو، نیٹو حملے کا یا این آر او نظر ثانی کیس ، ان سب میں ہماری نا عاقبت اندیش قیادت نے معاملات کو اس نہج تک پہنچایا کہ "آبیل مجھے مار"کی کہاوت صادق آتی ہے۔ رہا معاملہ این آر او کیس کا تو اب وزیراعظم پاکستان بند گلی میں ہیں اگر خط لکھتے ہیں تو زرداری ناراض اور نہیں لکھتے تو توہین عدالت، اگر خط لکھیں گے تو زرداری صاحب کا بچنا مشکل اور نہ لکھیں تو وزیر اعظم صاحب توہین عدالت کے مرتکب ہونے کی بناءپر وزارت عظمیٰ اور ساری زندگی سیاست سے فارغ۔
٭٭٭
ان تینوں معاملات کا حل صرف اور صرف پاکستانیت اختیار کرنے میں ہے میمو سکینڈل ہو، نیٹو حملے کے بعد کی حکمت عملی یا این آر او نظر ثانی اپیل کے بعد سوئیز حکومت کو خط لکھنا اور کیسز کو کھولنا ان سب کو قومی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت صرف اور صرف پاکستان کو مقدم رکھے۔ جماعتی سیاست اور صدر پرستی یا امریکی خوف کو بالائے طاق رکھ کر صرف پاکستان کے مسقبل کو سامنے رکھے تو ہماری قیادت کو انشا ءاللہ کامیابی اور کامرانی ہو گی اورپاکستانی قوم ان کے پیچھے ایک دیوار کی طرح کھڑی ہو گی۔
یہ بات کس قدر حیرانی اور پریشانی کا باعث ہے کہ ان تینوں معاملات کے پس منظر میں امریکہ ہی نظر آتا ہے۔ میمو سکینڈل میں ایک امریکی شہری منصور اعجاز ملوث ہے۔ نیٹو حملے امریکہ کے ایماءکے بغیرنہیں ہو سکتے، این آر او صدر مشرف سے کروانے میں بھی سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس اور ہال بروک کی حمایت شامل تھی۔
امریکہ سے دوستی اور تعلق رکھنا کوئی بری بات نہیںلیکن دوست یا تعلق دار کو اپنا" آقا" بنا لینا کسی بھی طرح خود مختار اور آزاد ملک کو زیب نہیں دیتا۔ہماری حکومتوں خاص طور پر ماضی کے فوجی آمر حکمرانوں ایوب خان،یحییٰ خان، ضیا ءالحق اور مشرف نے عملاً امریکہ کو اپنا" آقا" بنا لیا تھا اس کا خمیازہ ہم نصف صدی سے زائد عرصہ سے بھگت رہے ہیں۔ فوجی آمروں کے اس رویے نے ملک کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا لیکن یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت جسے ابتداءمیں پوری حزب اختلاف کی بھر پور حمایت حاصل تھی نے بھی اسی وطیرے کو اپنائے رکھا اور امریکہ کو اپنا "مائی باپ" قرار دیا۔ اگر عوام کی منتخب حکمران قیادت اپنے اقتدار کی بجائے پاکستان کو ترجیح دیتی تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، گستاخی معاف اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کی حالت اس پنجابی مقولے کے مصداق"پیاز دے نال سو چھتر" یعنی حکومت کو پیاز بھی کھانی پڑرہی ہے اور سو جوتے بھی۔
میمو سکینڈل ہویا نیٹو حملے یا این آر او کیس حکومت کو وہ سارے کام کرنے پڑ رہے ہیں جن کی شاید ضرورت پیش نہ آتی اگر ابتداءہی میں حب الوطنی کے تقاضوں کو سامنے رکھ لیا جاتا۔میمو سکینڈل کیس جس دن سے سپریم کورٹ میں گیا ہے حکومت اسے ایک سازش قرار دے رہی ہے۔ اگر یہ ایک سازش تھی تب بھی اسے بے نقاب کرنا حکومت کا فرض تھا۔ جس دن حسین حقانی نے استعفیٰ لیا گیا اسی روز ایک با اختیار کمیشن تشکیل دے دیا جاتا تو نوبت یہاں تک نہ آتی، کاش کہ حکومت بابر اعوان کی بجائے اعتزاز احسن سے ہی مشورہ کر لیتی۔اب سپریم کورٹ نے صدر ، آرمی چیف سے 15دنوں میں جواب طلب کیا ہے اور حسین حقانی کا نام ای سی ایل میںڈال دیا گیا ہے۔میمو سکینڈل کی انکوائری کے لیے سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ پر مشتمل ایک کمیشن بھی تشکیل دے دیا گیا ہے جسے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ شہادتیں اکٹھی کرنے کے بعد تین ہفتے میں رپورٹ پیش کرے۔
سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملے نے پاک فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے اور دو ٹوک فیصلے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ہے۔ پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف کے فیصلے کو پوری قوم نے سراہا ہے اور پاکستانی عوام میں اعتماد کی ایک نئی کرن پھوٹ آئی ہے۔ کسی بھی جارحیت کی صورت میں پاک افغان سرحد پر تعینات فوجی افسروں اور جوانوں کو منہ توڑ جوابی کارروائی کرنے کا اختیار دے کر بڑا واضح پیغام دیاگیا ہے۔ یہ فیصلہ یقینی اعتبار سے صرف اور صرف پاکستان کے مفاد میں ہے۔ جنرل کیانی کے اس فیصلے نے ان کے قومی وقار میں اضافہ کیا ہے۔ بون کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی ©" پاکستانی فیصلہ "ہے۔ شمسی ائر بیس گیارہ ستمبر تک خالی کروانا بھی ہمارے خود مختار اقتدار اعلیٰ کی نشانی ہے اس فیصلے پر امریکی دباﺅ ماننا حکومت کے لیے تباہ کن ہو گا۔
معاملہ میمو سکینڈل کا ہو، نیٹو حملے کا یا این آر او نظر ثانی کیس ، ان سب میں ہماری نا عاقبت اندیش قیادت نے معاملات کو اس نہج تک پہنچایا کہ "آبیل مجھے مار"کی کہاوت صادق آتی ہے۔ رہا معاملہ این آر او کیس کا تو اب وزیراعظم پاکستان بند گلی میں ہیں اگر خط لکھتے ہیں تو زرداری ناراض اور نہیں لکھتے تو توہین عدالت، اگر خط لکھیں گے تو زرداری صاحب کا بچنا مشکل اور نہ لکھیں تو وزیر اعظم صاحب توہین عدالت کے مرتکب ہونے کی بناءپر وزارت عظمیٰ اور ساری زندگی سیاست سے فارغ۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment