" صحافیوں کے لیے پاکستان ....دنیا کا مہلک ترین ملک "
صحافیوں کی مقامی اور بین الاقوامی نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2011ءمیں پاکستان مسلسل دوسرے برس بھی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لیے مہلک ترین ملک ثابت ہوا ہے۔صحافیوں کے امور پر نظر رکھنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2011 میں پاکستان میں صحافتی فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں سات صحافی موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔
جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ساو ¿تھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما )کے مطابق 2011 کے دوران پاکستان میں بارہ صحافی مارے گئے ہیں، ان میں سے آٹھ ایسے ہیں جنہیں ہدف بنا کر قتل گیا یعنی ان کو طے شدہ منصوبے کے تحت مارا گیا۔ان صحافیوں میں سلیم شہزاد بھی شامل تھے۔
سیفما کے جنرل سیکرٹری امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ 2011ءمیں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافیوں میں سے کسی کے بھی قتل میں ملوث ملزم گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔ نیویارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم "کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس" نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کا شمار ا ±ن ممالک میں ہوتا ہے جہاں بالعموم صحافیوں کے قاتل سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2011 میں دنیا بھر میں کل43 صحافی ہلاک کیے گیے۔ ان میں لیبیا اور عراق میں پانچ پانچ صحافی اور میکسیکو میں تین صحافی ہلاک کیے گئے۔روس، فلپائن اور دوسرے کئی ممالک میں بھی صحافی ہلاک ہوئے۔سن 2011 کے دوران ہلاک ہونے والے 43صحافیوں میں سے 16صحافی خطرناک علاقوں میں کام کرتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔ عرب دنیا میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں بھی صحافیوں کواپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔یاد رہے دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس دنیا کے مختلف ملکوں میں مارے جانے والے پینتیس اور صحافیوں کی ہلاکت کے محرکات کے بارے میں بھی ابھی تحقیقات کر رہی ہے۔اس کمیٹی کے مطابق پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں 29 صحافی مار ے گئے۔ کمیٹی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق مقتول صحافیوں کے قاتلوں کو سزا دینے کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا بھر میں سب سے برے ریکارڈ کا حامل ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مطابق پاکستان میں آج تک سو سے زائد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مارے جا چکے ہیں۔ ان مےن سے کچھ صحافی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں، پریشر گروپوں ، فرقہ وارانہ اور شدت پسند تنظیموں کے کارکنوں کے ردعمل کا شکار ہو کر جان کی بازی ہارگئے جبکہ بعض صحافی دہشت گردی کی وارداتوں اور جنگی علاقوں میں ناکافی حفاظتی اقدامات کے تحت فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جان کھو بیٹھے۔ ان کے بقول صحافیوں کو اغوا، تشدد اور دھمکیوں سمیت کئی قسم کے دباو ¿ کا سامنا رہتا ہے۔ ان کو کبھی خبر نہ دینے اور کبھی غلط خبر دینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔
عدم برداشت والے معاشرے اور جنگی حالات والے اس خطے میں فرائض سرانجام دینے والے صحافیوں کو بعض اوقات تنخواہیں بھی بروقت نہیں ملتیں اور نہ ہی انہیں انشورنس اور حفاظتی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔
صحافت ایک ایسا شعبہ ہے وہ بیک وقت اطلاعات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ قارئین ، ناظرین ا ور فیصلہ سازوں (حکمرانوں) کی راہنمائی کرتا ہے۔ صحافت سے منسلک افراد معاشرے کے اخلاقی ، سماجی ا ور قانونی پہلو ﺅ ں کی پاسداری کے ذمہ دارہونے کے ساتھ ساتھ رول ماڈل بھی بن جاتے ہیں۔
صحافت کے شعبے سے منسلک افراد خواہ ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو ےا الیکٹرانک میڈیا سے انہیں معاشرے کی جانب سے بڑی اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ان کی تحریر، ان کی تصویر ا ور ان کی قوت اظہار ایک بڑی امانت ہے۔ ان امانت دار لوگوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پرنٹ میڈیا کے رپورٹرز ، تجزیہ نگار ، کالم نویس ا ور الیکٹرانک میڈیا کے صحافی ، تجزیہ نگاروں ا ور اینکر مین کی شخصیت ، ان کی علمیت ا ور طرز اظہار پر سیر حاصل بحث کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں Investigative Journalism کو Institutional حیثیت حاصل نہ ہو سکی ۔ گاہے گاہے کچھ صحافیوں نے اپنے طور پر کاوشیں کیں ۔ ملک میں جمہوریت نہ ہونے کی بنا پر Investigative Journalism بھی پھل پھول نہ سکا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک جرنلزم سے منسلک محب وطن صحافیوں نے اپنے انفرادی مفادات حتیٰ کہ اپنی جان کی پرواہ بھی نہ کرتے ہوئے Investigative Journalism کا بیڑہ اٹھا ےا ہے
تحقیقاتی صحافت کے عمل میں کامیابی کے لیے ایک رپورٹر کی اپنا قیمتی وقت حقائق جاننے کے لیے باقاعدگی سے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کی رپورٹنگ کے لیے ایک صحافی اپنے ذاتی Initiative" "سے یا کسی سے حاصل ہونے والے" "Clueکی بنیاد پر اپنے کام کا آغاز کرتا ہے۔ اسے اس عمل میں بیک وقت ایک وکیل کی طرح دلیل اور حقائق ڈھونڈنے ہوتے ہیں۔ ایک آڈیٹر کی طرح اعداد و شمار کو چانچنا اور ایک پولیس مین کی طرح تحقیقاتی حربے بھی استعمال کرنے پڑتے ہیں۔اسے اہم دستاویزات کا تجزیہ اور نتائج بھی اخذ کرنے ہوتے ہیں۔اسے انتہائی پیشہ وارانہ مہارت سے انٹریوز کرتے ہوئے احتسابی نکات تک پہنچنا ہوتا ہے ۔تحقیقاتی رپورٹنگ کی فیلڈ میں آگے بڑھنے کے عزم (Determination)، صبر (Patience) ، احتیاطCarefulness) (اور دیانتHonesty) (کا ہونا ضروری ہے۔ تحقیقاتی رپورٹنگ محض کیچڑ اچھالنے اور کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہونی چاہئیے بلکہ عظیم تر قومی مفاد میں سچائی اور حقائق کو سامنے لانے کا نام ہے۔
تحقیقاتی رپورٹر کو عام صحافی یا رپورٹر کی طرح سامنے نظر آنے والے حقائق ہی بیان نہیں کرنے ہوتے بلکہ اسے سامنے کی سطح کے نیچے چھپی ہوئی حقیقتوں کو ڈھونڈنا ہوتا ہے۔"To see beneath the surface"یعنی کہانی پیچھے چھپی ہوئی کہانیوں اور سکرین پر نظر آنے والی چیزوں کے پیچھے پوشیدہ حقائق کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹر کی آنکھیں اور کان ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں اور اس کی قوت مشاہدہ تیز تر ہونی چاہئیے۔ تحقیقاتی رپورٹر کو ملکی قوانین اور ادارہ جاتی قوائد و ضوابط کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے کیونکہ اگر اس کی رپورٹ جھوٹی ثابت ہو جائے تو اسے سزا وار قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے رپورٹر کو اپنا تحقیقاتی کام کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ اسے پل صراط سے گزر کر منزل حاصل کرنا ہوتی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹر کو حقائق اور فسانے میں تمیز روا رکھنی ہوتی ہے۔ یعنی"He has to separate facts from fiction" اسے حاصل شدہ حقائق کو مصدقہ قرار دینے کے لیے کئی ذرائع سے ان کی جا نچ پڑتال کرنیچاہئیے تا کہ ان کی تردید نہ ہو سکے بعض اوقات اسے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندوں کی طرح Under Cover Investigationبھی کرنا پڑتی ہے لیکن ایسا کردار ادا کرتے ہوئے اسے صحافت کی اخلاقی پہلوﺅں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔
حقائق پر مبنی تحقیقاتی رپورٹنگ کی بنیاد پر حیران کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس رپورٹنگ کے نتیجے میں اربوں روپے کی لوٹ مار سے قوم محفوظ ہو جاتی ہے اور اس رپورٹنگ کے نتیجے میں اداروں کی پالیسیوں میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔بد عنوان اور کرپٹ افسران اور سیاستدانوں کے ہاتھ پاﺅں بندھ جاتے ہیں۔ملازمت سے برطرفی، تنزلی اور استعفیٰ تک دینے پڑ جاتے ہیں۔ قوانین کو تبدیل کرنا پڑتا ہے تا کہ بد عنوان اور ظالم افسران قوائد و قانون کا سہارا لے کر اپنی جان نہ بچا سکیں۔ اس طرح کی کامیاب رپورٹنگ سے معاشرے میں صحافت اور میڈیا کا مقام اور مرتبہ بڑھتا ہے اور ایسے رپورٹر صحافت کے میدان میں آنے والے نوجوانوں کے لیے آئیڈیل بن جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ساو ¿تھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما )کے مطابق 2011 کے دوران پاکستان میں بارہ صحافی مارے گئے ہیں، ان میں سے آٹھ ایسے ہیں جنہیں ہدف بنا کر قتل گیا یعنی ان کو طے شدہ منصوبے کے تحت مارا گیا۔ان صحافیوں میں سلیم شہزاد بھی شامل تھے۔
سیفما کے جنرل سیکرٹری امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ 2011ءمیں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافیوں میں سے کسی کے بھی قتل میں ملوث ملزم گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔ نیویارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم "کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس" نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کا شمار ا ±ن ممالک میں ہوتا ہے جہاں بالعموم صحافیوں کے قاتل سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2011 میں دنیا بھر میں کل43 صحافی ہلاک کیے گیے۔ ان میں لیبیا اور عراق میں پانچ پانچ صحافی اور میکسیکو میں تین صحافی ہلاک کیے گئے۔روس، فلپائن اور دوسرے کئی ممالک میں بھی صحافی ہلاک ہوئے۔سن 2011 کے دوران ہلاک ہونے والے 43صحافیوں میں سے 16صحافی خطرناک علاقوں میں کام کرتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔ عرب دنیا میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں بھی صحافیوں کواپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔یاد رہے دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس دنیا کے مختلف ملکوں میں مارے جانے والے پینتیس اور صحافیوں کی ہلاکت کے محرکات کے بارے میں بھی ابھی تحقیقات کر رہی ہے۔اس کمیٹی کے مطابق پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں 29 صحافی مار ے گئے۔ کمیٹی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق مقتول صحافیوں کے قاتلوں کو سزا دینے کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا بھر میں سب سے برے ریکارڈ کا حامل ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مطابق پاکستان میں آج تک سو سے زائد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مارے جا چکے ہیں۔ ان مےن سے کچھ صحافی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں، پریشر گروپوں ، فرقہ وارانہ اور شدت پسند تنظیموں کے کارکنوں کے ردعمل کا شکار ہو کر جان کی بازی ہارگئے جبکہ بعض صحافی دہشت گردی کی وارداتوں اور جنگی علاقوں میں ناکافی حفاظتی اقدامات کے تحت فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جان کھو بیٹھے۔ ان کے بقول صحافیوں کو اغوا، تشدد اور دھمکیوں سمیت کئی قسم کے دباو ¿ کا سامنا رہتا ہے۔ ان کو کبھی خبر نہ دینے اور کبھی غلط خبر دینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔
عدم برداشت والے معاشرے اور جنگی حالات والے اس خطے میں فرائض سرانجام دینے والے صحافیوں کو بعض اوقات تنخواہیں بھی بروقت نہیں ملتیں اور نہ ہی انہیں انشورنس اور حفاظتی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔
صحافت ایک ایسا شعبہ ہے وہ بیک وقت اطلاعات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ قارئین ، ناظرین ا ور فیصلہ سازوں (حکمرانوں) کی راہنمائی کرتا ہے۔ صحافت سے منسلک افراد معاشرے کے اخلاقی ، سماجی ا ور قانونی پہلو ﺅ ں کی پاسداری کے ذمہ دارہونے کے ساتھ ساتھ رول ماڈل بھی بن جاتے ہیں۔
صحافت کے شعبے سے منسلک افراد خواہ ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو ےا الیکٹرانک میڈیا سے انہیں معاشرے کی جانب سے بڑی اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ان کی تحریر، ان کی تصویر ا ور ان کی قوت اظہار ایک بڑی امانت ہے۔ ان امانت دار لوگوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پرنٹ میڈیا کے رپورٹرز ، تجزیہ نگار ، کالم نویس ا ور الیکٹرانک میڈیا کے صحافی ، تجزیہ نگاروں ا ور اینکر مین کی شخصیت ، ان کی علمیت ا ور طرز اظہار پر سیر حاصل بحث کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں Investigative Journalism کو Institutional حیثیت حاصل نہ ہو سکی ۔ گاہے گاہے کچھ صحافیوں نے اپنے طور پر کاوشیں کیں ۔ ملک میں جمہوریت نہ ہونے کی بنا پر Investigative Journalism بھی پھل پھول نہ سکا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک جرنلزم سے منسلک محب وطن صحافیوں نے اپنے انفرادی مفادات حتیٰ کہ اپنی جان کی پرواہ بھی نہ کرتے ہوئے Investigative Journalism کا بیڑہ اٹھا ےا ہے
تحقیقاتی صحافت کے عمل میں کامیابی کے لیے ایک رپورٹر کی اپنا قیمتی وقت حقائق جاننے کے لیے باقاعدگی سے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کی رپورٹنگ کے لیے ایک صحافی اپنے ذاتی Initiative" "سے یا کسی سے حاصل ہونے والے" "Clueکی بنیاد پر اپنے کام کا آغاز کرتا ہے۔ اسے اس عمل میں بیک وقت ایک وکیل کی طرح دلیل اور حقائق ڈھونڈنے ہوتے ہیں۔ ایک آڈیٹر کی طرح اعداد و شمار کو چانچنا اور ایک پولیس مین کی طرح تحقیقاتی حربے بھی استعمال کرنے پڑتے ہیں۔اسے اہم دستاویزات کا تجزیہ اور نتائج بھی اخذ کرنے ہوتے ہیں۔اسے انتہائی پیشہ وارانہ مہارت سے انٹریوز کرتے ہوئے احتسابی نکات تک پہنچنا ہوتا ہے ۔تحقیقاتی رپورٹنگ کی فیلڈ میں آگے بڑھنے کے عزم (Determination)، صبر (Patience) ، احتیاطCarefulness) (اور دیانتHonesty) (کا ہونا ضروری ہے۔ تحقیقاتی رپورٹنگ محض کیچڑ اچھالنے اور کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہونی چاہئیے بلکہ عظیم تر قومی مفاد میں سچائی اور حقائق کو سامنے لانے کا نام ہے۔
تحقیقاتی رپورٹر کو عام صحافی یا رپورٹر کی طرح سامنے نظر آنے والے حقائق ہی بیان نہیں کرنے ہوتے بلکہ اسے سامنے کی سطح کے نیچے چھپی ہوئی حقیقتوں کو ڈھونڈنا ہوتا ہے۔"To see beneath the surface"یعنی کہانی پیچھے چھپی ہوئی کہانیوں اور سکرین پر نظر آنے والی چیزوں کے پیچھے پوشیدہ حقائق کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹر کی آنکھیں اور کان ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں اور اس کی قوت مشاہدہ تیز تر ہونی چاہئیے۔ تحقیقاتی رپورٹر کو ملکی قوانین اور ادارہ جاتی قوائد و ضوابط کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے کیونکہ اگر اس کی رپورٹ جھوٹی ثابت ہو جائے تو اسے سزا وار قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے رپورٹر کو اپنا تحقیقاتی کام کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ اسے پل صراط سے گزر کر منزل حاصل کرنا ہوتی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹر کو حقائق اور فسانے میں تمیز روا رکھنی ہوتی ہے۔ یعنی"He has to separate facts from fiction" اسے حاصل شدہ حقائق کو مصدقہ قرار دینے کے لیے کئی ذرائع سے ان کی جا نچ پڑتال کرنیچاہئیے تا کہ ان کی تردید نہ ہو سکے بعض اوقات اسے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندوں کی طرح Under Cover Investigationبھی کرنا پڑتی ہے لیکن ایسا کردار ادا کرتے ہوئے اسے صحافت کی اخلاقی پہلوﺅں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔
حقائق پر مبنی تحقیقاتی رپورٹنگ کی بنیاد پر حیران کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس رپورٹنگ کے نتیجے میں اربوں روپے کی لوٹ مار سے قوم محفوظ ہو جاتی ہے اور اس رپورٹنگ کے نتیجے میں اداروں کی پالیسیوں میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔بد عنوان اور کرپٹ افسران اور سیاستدانوں کے ہاتھ پاﺅں بندھ جاتے ہیں۔ملازمت سے برطرفی، تنزلی اور استعفیٰ تک دینے پڑ جاتے ہیں۔ قوانین کو تبدیل کرنا پڑتا ہے تا کہ بد عنوان اور ظالم افسران قوائد و قانون کا سہارا لے کر اپنی جان نہ بچا سکیں۔ اس طرح کی کامیاب رپورٹنگ سے معاشرے میں صحافت اور میڈیا کا مقام اور مرتبہ بڑھتا ہے اور ایسے رپورٹر صحافت کے میدان میں آنے والے نوجوانوں کے لیے آئیڈیل بن جاتے ہیں۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment