برین ڈرین کا المیہ
حسین محی الدین القادری
ترقی پذیر ممالک کے با صلاحیت اور تربیت یافتہ ہنر مند افراد کا بہتر مواقع کی تلاش میں ترقی یافتہ ملکوںکا رخ کرنے سے وہاں پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل افراد کا ارتکاز ہو جاتا ہے اور تیسری دنیا کے ممالک مزید بحران میں چلے جاتے ہیں، اس المیہ کو برین ڈرین کہا جاتا ہے ۔ہجرت کرنے والوں میں عام طور پر انجیئنرنگ،فنانس اور میڈیکل کے شعبوں کے ماہرین ہوتے ہیں ۔ابتداًزیادہ تر افراد اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلئے ہجرت کرتے ہیں اور بعد ازاں مختلف وجوہات کی بنا پر دیار غیر ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ جاننے کے باوجود کہ ترقی یافتہ ممالک میں ان کی ڈگریوں کے معیار پر سوال اٹھائے جائیں گے، محض خوشحال مستقبل کےلئے ہجرت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔اس تناظر میں انہیں ان ممالک میںیونیورسٹی تعلیم شروع کرنا پڑتی ہے۔ اس راستے کا انتخاب کر نے والوں کو تعلیم جاری رکھنے اور زندگی کی گاڑی چلانے کےلئے دیگر ذرائع پر بھی انحصا ر کرنا پڑتا ہے اس لئے ان کی زندگی مشینی نوعیت کی ہو جاتی ہے۔یہ زائد محنت صرف اور صرف خاندان کی خوشحال زندگی کےلئے ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ میڈیسن،انجیئنرنگ حتی کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والوں کو بھی ٹیکسی ڈرائیور،گیس سٹیشن کے معاون اور خاکروب تک کی جاب کرنا پڑ جاتی ہے۔چونکہ پروفیشنل جاب حاصل کرنے کےلئے متعلقہ ملک کی تسلیم شدہ ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے بادل نخواستہ انہیں جو کام بھی میسر آئے، کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
برین ڈرین کی یہ صورت ترقی پذیر ممالک کو اچھے پیشہ ورانہ افراد سے محروم کرتی ہے جس کے باعث وہ مزید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایسے ممالک جہاں یہ بحران گھمبیر ہوتا جا رہا ہے وہاں وسائل اور مواقع پہلے ہی کم ہیں۔اس صورتحال کاصرف ا یک خوشگوار پہلو ہے کہ جب کبھی یہ افراد اپنے وطن خدمت کے جذبہ سے لوٹتے ہیں تو بہترین تعلیم،اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت اور وسائل بھی ساتھ لاتے ہیں۔وہ مختلف شعبوں کی جدید تعلیم و تحقیق سے آراستہ ہوتے ہیں جن سے ان کے ہم وطنوں کی اکثریت نابلد۔اس طرح وہ اپنے ملک کی ترقی اور پسماندہ عوام کی خوشحالی کےلئے بہتر انداز میں کام کر سکتے ہیں۔
برین ڈرین کے مسئلہ سے نبٹنے کےلئے پہلا کام تو ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو یہ کرناہو گاکہ وہ سائنس،تحقیق،تعلیم اور صنعت کےلئے زیادہ فنڈز مختص کریں۔اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی حوصلہ افزائی،اچھی تنخواہ اور ان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت سے کی جانی چاہےے تاکہ وہ اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیں۔یہ بھی سچ ہے کہ کسی کو زبردستی تو روکا نہیں جا سکتا البتہ دلوں میں قوم پرستی کے جذبہ کو اجاگر رکھنے کے ساتھ خوشحال زندگی کی ضمانت دی جائے تو بہتر نتائج آ سکتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی سائنسی تحقیق یا اس کےلئے فنڈز کی فراہمی میں مدد کریں اس طرح بین الاقوامی سطح پرپہلے مرحلے میں اس بحران کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے اور باہمی نفرتوں کو ختم کرنے میں بھی بہت زیادہ مدد مل سکتی ہے۔
برین ڈرین سے ترقی یافتہ ممالک ذہین ترین افراد کی صلاحیتوںسے بھر پور استفادہ کر کے ترقی کو مہمیز لگائے جا رہے ہیں مگر تیسری دنیا میں دانش مند پروفیشنل افراد کی کمی ہوتی جا رہی ہے جو یقینا صحت مند عمل نہیں ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص اپنے ملک میں کام کرنے کی بجائے ترقی یافتہ ملکوں میں جا کر نئے سرے سے تعلیمی عمل مکمل کرنے کو کیوں ترجیح دیتا ہے؟ان وجوہات کو تلاش کرنا ہو گا جو تعلیم یافتہ افراد کو اپنے ملک کی خدمت سے روک رہی ہےں۔
پسماندہ ملکوں سے بہتر مستقبل کی تلاش میں ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق محض ایک سال میں افریقہ سے میڈیکل کے شعبہ میں 23ہزار افراد نے نقل مکانی کی جبکہ وہاں سے ہجرت کرنے والی نرسوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔میڈیکل کے شعبہ سے اتنی بڑی تعداد میں ہجرت کے نتیجہ میںترقی پذیرممالک میں جو بحران آیا اسکا اندازہ مذکورہ تعداد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
اگر ہنر مند افراد کی ہجرت کے عمل کو روکا جائے تو دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں طبی نگہداشت سمیت دیگر شعبوں میں مثبت اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کےلئے بھی برین ڈرین انتہائی خطرناک ہے جبکہ اسکا ہمسایہ بھارت تعلیم اور ہنر مند افراد کے حوالے سے بہت آگے ہے۔اعلیٰ سطح پر فوراً اس جانب توجہ مبذول کی جائے اور تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ٹاسک فورس قائم کی جائے جو برین ڈرین کے اسباب کا تجزیہ کرے اور اسے روکنے کےلئے تجاویز مرتب کرے۔اگر حکومتی سطح پر راست اقدام نہ کئے گئے تو برین ڈرین کا عمل جاری رہے گا اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے حوالے سے شدید قحط الرجالی کا سامنا رہے گا۔بدقسمتی سے یہ اہم پہلو حکومتوں کی توجہ حاصل نہ کر سکا۔توقع کی جا سکتی ہے کہ اس معاملہ کا فوری نوٹس لے کر قوم کے وسیع تر مفاد میں اصلاحی اقدام کئے جائیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ مقتدر طبقات اپنے عمل سے ثابت کریں کہ نوجوان نسل ہی ہمارا مستقبل ہے۔
ترقی پذیر ممالک کے با صلاحیت اور تربیت یافتہ ہنر مند افراد کا بہتر مواقع کی تلاش میں ترقی یافتہ ملکوںکا رخ کرنے سے وہاں پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل افراد کا ارتکاز ہو جاتا ہے اور تیسری دنیا کے ممالک مزید بحران میں چلے جاتے ہیں، اس المیہ کو برین ڈرین کہا جاتا ہے ۔ہجرت کرنے والوں میں عام طور پر انجیئنرنگ،فنانس اور میڈیکل کے شعبوں کے ماہرین ہوتے ہیں ۔ابتداًزیادہ تر افراد اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلئے ہجرت کرتے ہیں اور بعد ازاں مختلف وجوہات کی بنا پر دیار غیر ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ جاننے کے باوجود کہ ترقی یافتہ ممالک میں ان کی ڈگریوں کے معیار پر سوال اٹھائے جائیں گے، محض خوشحال مستقبل کےلئے ہجرت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔اس تناظر میں انہیں ان ممالک میںیونیورسٹی تعلیم شروع کرنا پڑتی ہے۔ اس راستے کا انتخاب کر نے والوں کو تعلیم جاری رکھنے اور زندگی کی گاڑی چلانے کےلئے دیگر ذرائع پر بھی انحصا ر کرنا پڑتا ہے اس لئے ان کی زندگی مشینی نوعیت کی ہو جاتی ہے۔یہ زائد محنت صرف اور صرف خاندان کی خوشحال زندگی کےلئے ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ میڈیسن،انجیئنرنگ حتی کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والوں کو بھی ٹیکسی ڈرائیور،گیس سٹیشن کے معاون اور خاکروب تک کی جاب کرنا پڑ جاتی ہے۔چونکہ پروفیشنل جاب حاصل کرنے کےلئے متعلقہ ملک کی تسلیم شدہ ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے بادل نخواستہ انہیں جو کام بھی میسر آئے، کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
برین ڈرین کی یہ صورت ترقی پذیر ممالک کو اچھے پیشہ ورانہ افراد سے محروم کرتی ہے جس کے باعث وہ مزید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایسے ممالک جہاں یہ بحران گھمبیر ہوتا جا رہا ہے وہاں وسائل اور مواقع پہلے ہی کم ہیں۔اس صورتحال کاصرف ا یک خوشگوار پہلو ہے کہ جب کبھی یہ افراد اپنے وطن خدمت کے جذبہ سے لوٹتے ہیں تو بہترین تعلیم،اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت اور وسائل بھی ساتھ لاتے ہیں۔وہ مختلف شعبوں کی جدید تعلیم و تحقیق سے آراستہ ہوتے ہیں جن سے ان کے ہم وطنوں کی اکثریت نابلد۔اس طرح وہ اپنے ملک کی ترقی اور پسماندہ عوام کی خوشحالی کےلئے بہتر انداز میں کام کر سکتے ہیں۔
برین ڈرین کے مسئلہ سے نبٹنے کےلئے پہلا کام تو ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو یہ کرناہو گاکہ وہ سائنس،تحقیق،تعلیم اور صنعت کےلئے زیادہ فنڈز مختص کریں۔اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی حوصلہ افزائی،اچھی تنخواہ اور ان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت سے کی جانی چاہےے تاکہ وہ اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیں۔یہ بھی سچ ہے کہ کسی کو زبردستی تو روکا نہیں جا سکتا البتہ دلوں میں قوم پرستی کے جذبہ کو اجاگر رکھنے کے ساتھ خوشحال زندگی کی ضمانت دی جائے تو بہتر نتائج آ سکتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی سائنسی تحقیق یا اس کےلئے فنڈز کی فراہمی میں مدد کریں اس طرح بین الاقوامی سطح پرپہلے مرحلے میں اس بحران کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے اور باہمی نفرتوں کو ختم کرنے میں بھی بہت زیادہ مدد مل سکتی ہے۔
برین ڈرین سے ترقی یافتہ ممالک ذہین ترین افراد کی صلاحیتوںسے بھر پور استفادہ کر کے ترقی کو مہمیز لگائے جا رہے ہیں مگر تیسری دنیا میں دانش مند پروفیشنل افراد کی کمی ہوتی جا رہی ہے جو یقینا صحت مند عمل نہیں ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص اپنے ملک میں کام کرنے کی بجائے ترقی یافتہ ملکوں میں جا کر نئے سرے سے تعلیمی عمل مکمل کرنے کو کیوں ترجیح دیتا ہے؟ان وجوہات کو تلاش کرنا ہو گا جو تعلیم یافتہ افراد کو اپنے ملک کی خدمت سے روک رہی ہےں۔
پسماندہ ملکوں سے بہتر مستقبل کی تلاش میں ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق محض ایک سال میں افریقہ سے میڈیکل کے شعبہ میں 23ہزار افراد نے نقل مکانی کی جبکہ وہاں سے ہجرت کرنے والی نرسوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔میڈیکل کے شعبہ سے اتنی بڑی تعداد میں ہجرت کے نتیجہ میںترقی پذیرممالک میں جو بحران آیا اسکا اندازہ مذکورہ تعداد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
اگر ہنر مند افراد کی ہجرت کے عمل کو روکا جائے تو دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں طبی نگہداشت سمیت دیگر شعبوں میں مثبت اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کےلئے بھی برین ڈرین انتہائی خطرناک ہے جبکہ اسکا ہمسایہ بھارت تعلیم اور ہنر مند افراد کے حوالے سے بہت آگے ہے۔اعلیٰ سطح پر فوراً اس جانب توجہ مبذول کی جائے اور تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ٹاسک فورس قائم کی جائے جو برین ڈرین کے اسباب کا تجزیہ کرے اور اسے روکنے کےلئے تجاویز مرتب کرے۔اگر حکومتی سطح پر راست اقدام نہ کئے گئے تو برین ڈرین کا عمل جاری رہے گا اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے حوالے سے شدید قحط الرجالی کا سامنا رہے گا۔بدقسمتی سے یہ اہم پہلو حکومتوں کی توجہ حاصل نہ کر سکا۔توقع کی جا سکتی ہے کہ اس معاملہ کا فوری نوٹس لے کر قوم کے وسیع تر مفاد میں اصلاحی اقدام کئے جائیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ مقتدر طبقات اپنے عمل سے ثابت کریں کہ نوجوان نسل ہی ہمارا مستقبل ہے۔
No comments:
Post a Comment