حضرت داتا گنج بخش مخدوم علی بن عثمان ہجوےری قدس سرہ العزےز
پیر معین الحق گیلانی ۔گولڑہ شریف
اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نے اسلام کے ابدی پیغام حق کو پھیلانے اور عوام کو راہ حق دکھانے میںجو بے مثل کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ اسلام کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔خدائے بزرگ و برتر کے ان مقبول و محبوب بندوں نے دنیاوی اسباب اور سازوسامان کے بغیر جس طرح کروڑوں انسانوں کے قلوب کو مسخّر کیا اور انہیں گمراہیوں اور گناہوں کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و ایقان کی روشنی سے آشنا کیا۔ اپنے افعال و اعمال اور گفتار و کردار سے انہیں متاثر کیا۔ یہ سب حقائق ان کی روحانی عظمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ خاصانِ خدا پیغام ِ حق لے کر اجنبی سر زمینوں پر پہنچے۔ ان کے پاس تیر و تفنگ تھا‘ نہ شاہانہ افواج ‘ مال و دولت تھی نہ تخت و تاج لیکن’ ’ در دست نہ تیر است نہ بر دوش کمان است۔ ایں سادگی ¿ ہست کہ بسمل دو جہان است“ کے مصداق مخلوقِ خدا کے دلوں پر حکمرانی کرنے والے ان بندگانِ حق کے پاس ایمان کی دولت تھی۔ اسلام کے لازوال پیغام کی قوت تھی اور اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی طاقت تھی جس سے انہوں نے کفر و جہالت کی تاریکیوں میں چراغِ حق روشن کیا اور بھٹکتی انسانیت کو دینِ مبین کی راہ دکھائی۔
برِّصغیر میں یہ تاریخی کارنامہ جن اولوالعزم اور واجب الاحترام حضرات نے سرانجام دیا، ان میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری قدس سرہ العزیز کی ذاتِ گرامی کو نہایت ارفع واعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔انہوں نے صدیوں پہلے غزنی سے آ کریہاں جو شمع حق جلائی تھی اس کی روشنی اور تابندگی آج بھی دلوں کو نور بخشتی ہے اور اَن گنت لوگ ان کے در سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ ان کی حیاتِ پاک کا پوری طرح احاطہ کرنے کے لیے تو کئی کتابیں لکھی گئی ہیں اور بیشمار اہل علم اور اہل دل حضرات نے ان کی زندگی ‘ تعلیمات اور دینی و علمی خدمات کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے جسے پڑھ کر ان کی روحانی شان و شوکت ‘ عظمت و حشمت اور علم و معرفت میں درجہءکمال کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی برگزیدہ ہستیوں کے احوال کا مطالعہ قلب و نظر کی رہبری کا وسیلہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجانے والے اولیائے کرام کی زندگی کامطالعہ ان کی ظاہری صحبت کی طرح فیضیاب کرتا ہے جس کے بارے میں حضرت مولانا روم ارشاد فرماتے ہیں۔” یک زمانہ صحبتِ با اولیاء۔ بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا“ آئیے اس مینارئہ نور کی روشنی سے فیضیاب ہوں۔
آپ کا نام علی بن عثمان ہے۔ ابوالحسن کنےت اور گنج بخش لقب ہے۔ آپ حسنی سادات سے ہےں۔ آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کا سلسلہءنسب اس طرح بےان کےا ہے۔ حضرت علی ہجوےری ،بن عثمان، بن علی ،بن عبدالرحمن ،بن شجاع(عبداللہ) ، بن ابوالحسن علی ،بن حسن اصغر ، بن زےد، بن امام حسنؓ، بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکرےم۔
آپ کی والدہ ماجدہ حسےنی سادات سے تھےں۔ عابدہ، زاہدہ اور خدا رسےدہ خاتون تھےں۔ اعزہ و اقارب کے حقوق کی ادائےگی اور مسکےن نوازی مےں ممتاز تھےں۔ گوےا حضرت داتا گنج بخش نجےب الطرفےن سےّد تھے۔
متقی و متورع والدےن کی آغوش مےں پرورش پا کر آپ نے کےا کچھ حاصل کےا ہوگا اس کا اندازہ آپ کے مقاماتِ عالیہ سے لگاےا جا سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں تذکرہ نویس خاموش ہیں اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت غزنی علماءوفضلا ءکا مرکز تھا اور شہر مےں کئی مدارس قائم تھے جو علومِ قرآنی کے فروغ کے لئے خدمات انجام دے رہے تھے۔آپ نے تحصیلِ علومِ دینیہ کرنے کے بعد تزکیہ ¿ نفس کی خاطر بہت زیادہ مجاہدات کیے ۔
آپ نے اپنے مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلی کے علاوہ اور بہت سے مشائخ کے فےضِ صحبت کا شرف حاصل کیا۔جن مےں ابوسعےد ابوالخےر اور رسالہ قشےرےہ کے مصنف امام ابوالقاسم قشےری شامل ہےں۔
حضرت داتا گنج بخش سلطان مسعود بن محمود غزنوی کے آخری دورِ حکومت مےں اپنے دو ساتھےوں کے ساتھ مختلف ممالک کا سفر کرتے ہوئے لاہورتشرےف لائے اور اس جگہ قےام کےا جہاں آپ کا مزارِ مبارک زےارت گاہِ خاص و عام ہے۔
فوائد الفواد مےں ہمےں آپ کے لاہور تشرےف لانے کی تفصےلات ملتی ہےں۔ حضرت نظام الدےن محبوبِ الٰہی فرماتے ہےں۔
”شےخ حسےن زنجانی اور شےخ علی ہجوےری دونوں اےک ہی پےر کے مرےد تھے اور ان کے پےر اپنے عہد کے قطب تھے۔ حسےن زنجانی عرصہ سے لاہور مےں مقےم تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے پےر نے خواجہ علی ہجوےری سے کہا کہ لاہور مےں جاکر قےام کرو۔ شےخ علی ہجوےری نے کہا کہ وہاں شےخ حسےن زنجانی موجود ہےں لےکن ان کے پےر نے پھر فرماےا کہ تم لاہور جاو ¿۔ جب علی ہجوےری اپنے پےر کے ارشاد کی تعمےل مےں لاہور آئے تو رات تھی۔ صبح کو شےخ حسےن زنجانی کا جنازہ باہر لاےا گےا“۔
ےہاں آپ نے اےک مسجد بنوائی۔ جسے تبلےغِ دےن کا مرکز بناےا۔ دارا شکوہ اپنی کتاب سفےنة الاولےاءمےں لکھتا ہے”حضرت علی ہجوےری لاہور مےں دن کے وقت تعلےم دےتے اور رات کو طالبانِ حق کو ہداےت کےا کرتے۔ ان کی رہبری مےں ہزاروں جاہل عالم بن گئے، کافروں نے اسلام قبول کےا، گمراہوں نے ہداےت کی راہ پائی، دےوانے ہوش مند ہو گئے، جن کا علم ناقص تھا کامل ہوئے، فاسق و فاجر پارسا بن گئے“۔
آپ کی اپنی تحرےر سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ آپ کو آپ کی زندگی مےں ہی گنج بخش کے لقب سے پکارنا شروع ہو گئے تھے۔ کشف الاسرار مےں آپ تحرےر فرماتے ہےں ”اے علی! لوگ تجھے گنج بخش کہتے ہےں حالانکہ تو خود محتاج ہے اور تےرے پاس تو اےک دانہ تک نہےں۔ تو اس پر فخر نہ کر۔ گنج بخش رنج بخش خدا تعالیٰ کی ذات ہے“۔
لےکن ”گنج بخش“ لقب کی وجہِ شہرت جو ہر اےک کی زبان پر اور ہر تذکرہ مےںموجود ہے وہ ےہ ہے کہ حضرت سلطان الہند خوا جہ ءخواجگان حضرت معےن الدےن چشتی اجمےری آنجناب کے مزارِ پُر انوار پر حاضر ہوئے اور اےک حجرہ مےں چالےس دن تک مصروف ِعبادت و رےاضت رہے۔ اس عرصہ مےں حضرت داتا گنج بخش کی روحِ پرفتوح سے کےافےض حاصل ہوا، کتنے مقامات طے ہوئے ،ان کے بحرِ سخاوت سے کس قدر سےراب ہوئے اس کا اندازہ آپ کے اس خراجِ عقےدت سے لگاےا جا سکتا ہے جو بوقت ِرخصت اےک شعر کی شکل مےں آپ کی زبانِ حق ترجمان پر جاری ہوا :
گنج بخش ِ فےضِ عالم مظہرِ نور خدا
ناقصاں را پےر ِ کامل کاملاں را رہنما
اےک مردِ حق آگاہ کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ زبان زدِ خاص و عام ہوگےا اور آپ گنج بخش کے پےارے لقب سے مشہور ہوئے۔
حضرت داتا گنج بخش بلند پاےہ عالم اور جامعِ معقول و منقول تھے۔ آپ نے متعدد عنوانات پر تصانےف لکھےں لےکن افسوس کہ ان مےں سے کشف المحجوب کے سوا کوئی کتاب نہےں ملتی۔ خود آ پ کے بےان کے مطابق آپ کی بہت سے تصانےف نام نہاد مدعےانِ طرےقت نے مستعار لےں اور نام بدل کر اپنے نام سے شائع کرادےں۔ چند اوراق کا چھوٹا سا رسالہ ”کشف الاسرار“ بھی آپ کی قابل ِقدر تحرےر ہے اور شائع ہو چکا ہے ۔ کشف المحجوب مےں آپ نے اپنی جن دوسری تصانےف کا تذکرہ کےا ہے وہ ےہ ہےں:
۱۔ منہاج الدےن ۲۔ کتاب الفنا والبقا ۳۔ اسرارالخلق المﺅنات ۴۔ کتاب البےان لاہل العےان
۵۔ بحرالقلوب ۶۔ الرعا ےة لحقوق اللہ ۷۔ رسالہ در شرحِ کلامِ منصور الحلاج ۸۔ دےوان
حضرت نظام الدےن محبوبِ الٰہی فرماتے ہےں:
”کشف المحجوب حضرت شےخ علی ہجوےری کی تصنےف ہے۔ اگر کسی کا پےر نہ ہو تو جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو ےہ کتاب اس کے پےر کا کام دے گی۔ مےں نے اس کتاب کا مطالعہ کےا ہے“۔ دارا شکوہ نے لکھا:
”حضرت علی ہجوےری کی بہت سی تصانےف ہےں لےکن کشف المحجوب مشہور و معروف ہے کسی کو اس پر لب کشائی کا موقع نہےں ملا۔ ےہ کتاب راہروانِ طرےقت کے لئے مرشدِ کامل ہے۔ تصوف کی کتابوں مےں فارسی زبان مےں اس خوبی کی کوئی دوسری کتاب تصنےف نہےں ہوئی۔“
حضرت داتا گنج بخش خود اس کتاب کے بارے مےں تحرےر فرماتے ہےں کہ ےہ کتاب راہِ حقےقت کو نماےاں کرتی ہے۔ تحقےقِ امور کی شرح کرتی ہے اور شرےعت کے پردوں کو اٹھاتی ہے۔ اس کا نام کشف المحجوب ہی ہونا چاہئے تھا اور حقےقت مےں کشف، محجوب کی ہلاکت ہے۔“
ایک عرصہ تک برِّصغیر کو اسلامی تعلیمات کے نور سے منور کرنے والا آفتابِ ولایت ۵۶۴ھ میں جہانِ فانی سے عالم بقا کے لیے رخصت ہوا لیکن ان کا فیض کئی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے اور رہتی دنیا تک تشنگانِ حقیقت ان کے میخانہ ءعرفاں سے اپنی تشنگی بجھاتے رہیں گے۔ مزارِ اقدس کے کتبہ پر جامی لاہوری کے یہ اشعار کندہ ہیں۔
خانقاہِ علی ہجوےر است
خاکِ جاروب از درش بردار
طوطےا کن بدےدہ ¿ حق بےں
تا شوی واقفِ درِ اسرار
چوں کہ سردارِ ملکِ معنٰی بود
سالِ وصلش برآےد از سردار
منقبت
جائے عافیّت ہے تیرا آستانہ گنج بخش!
فیض پاتا ہے جہاں ‘ سارا زمانہ گنج بخش!
چارہ بے چاروں کا، بے ساماں کا تُو سامان ہے
تیرا در ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ، گنج بخش!
آپ کا دربارِ جلوہ بار ہے لاہور میں
اولیاءکا ہے جہاں پر آنا جانا، گنج بخش!
غوثِ اعظم، والی ¿ اجمیر اور گنجِ شکر
مانتے ہیں آپ کو دُرِّ یگانہ، گنج بخش!
تیرا روضہ ہے زیارت گاہ، خاص و عام کی
روز و شب جس کی فضا ہے دِلبرانہ ، گنج بخش!
التجا میرے دلِ پُرشوق کی مقبول ہو
طرز ہو میری فقیری کی شہانہ، گنج بخش!
آرزو ہے اب تو مسکن ہو مرا شہرِ نبی
اب تو میرا ہو وہیں کا آب و دانہ، گنج بخش!
اَز طُفیلِ حضرتِ خیر النسائ، بنتِ رسول
ہو معین الحق پہ لطفِ جاودانہ، گنج بخش!
٭٭٭
پیر معین الحق گیلانی ۔گولڑہ شریف
اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نے اسلام کے ابدی پیغام حق کو پھیلانے اور عوام کو راہ حق دکھانے میںجو بے مثل کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ اسلام کا ایک اہم اور روشن باب ہے۔خدائے بزرگ و برتر کے ان مقبول و محبوب بندوں نے دنیاوی اسباب اور سازوسامان کے بغیر جس طرح کروڑوں انسانوں کے قلوب کو مسخّر کیا اور انہیں گمراہیوں اور گناہوں کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و ایقان کی روشنی سے آشنا کیا۔ اپنے افعال و اعمال اور گفتار و کردار سے انہیں متاثر کیا۔ یہ سب حقائق ان کی روحانی عظمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ خاصانِ خدا پیغام ِ حق لے کر اجنبی سر زمینوں پر پہنچے۔ ان کے پاس تیر و تفنگ تھا‘ نہ شاہانہ افواج ‘ مال و دولت تھی نہ تخت و تاج لیکن’ ’ در دست نہ تیر است نہ بر دوش کمان است۔ ایں سادگی ¿ ہست کہ بسمل دو جہان است“ کے مصداق مخلوقِ خدا کے دلوں پر حکمرانی کرنے والے ان بندگانِ حق کے پاس ایمان کی دولت تھی۔ اسلام کے لازوال پیغام کی قوت تھی اور اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی طاقت تھی جس سے انہوں نے کفر و جہالت کی تاریکیوں میں چراغِ حق روشن کیا اور بھٹکتی انسانیت کو دینِ مبین کی راہ دکھائی۔
برِّصغیر میں یہ تاریخی کارنامہ جن اولوالعزم اور واجب الاحترام حضرات نے سرانجام دیا، ان میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری قدس سرہ العزیز کی ذاتِ گرامی کو نہایت ارفع واعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔انہوں نے صدیوں پہلے غزنی سے آ کریہاں جو شمع حق جلائی تھی اس کی روشنی اور تابندگی آج بھی دلوں کو نور بخشتی ہے اور اَن گنت لوگ ان کے در سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ ان کی حیاتِ پاک کا پوری طرح احاطہ کرنے کے لیے تو کئی کتابیں لکھی گئی ہیں اور بیشمار اہل علم اور اہل دل حضرات نے ان کی زندگی ‘ تعلیمات اور دینی و علمی خدمات کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے جسے پڑھ کر ان کی روحانی شان و شوکت ‘ عظمت و حشمت اور علم و معرفت میں درجہءکمال کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی برگزیدہ ہستیوں کے احوال کا مطالعہ قلب و نظر کی رہبری کا وسیلہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجانے والے اولیائے کرام کی زندگی کامطالعہ ان کی ظاہری صحبت کی طرح فیضیاب کرتا ہے جس کے بارے میں حضرت مولانا روم ارشاد فرماتے ہیں۔” یک زمانہ صحبتِ با اولیاء۔ بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا“ آئیے اس مینارئہ نور کی روشنی سے فیضیاب ہوں۔
آپ کا نام علی بن عثمان ہے۔ ابوالحسن کنےت اور گنج بخش لقب ہے۔ آپ حسنی سادات سے ہےں۔ آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کا سلسلہءنسب اس طرح بےان کےا ہے۔ حضرت علی ہجوےری ،بن عثمان، بن علی ،بن عبدالرحمن ،بن شجاع(عبداللہ) ، بن ابوالحسن علی ،بن حسن اصغر ، بن زےد، بن امام حسنؓ، بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکرےم۔
آپ کی والدہ ماجدہ حسےنی سادات سے تھےں۔ عابدہ، زاہدہ اور خدا رسےدہ خاتون تھےں۔ اعزہ و اقارب کے حقوق کی ادائےگی اور مسکےن نوازی مےں ممتاز تھےں۔ گوےا حضرت داتا گنج بخش نجےب الطرفےن سےّد تھے۔
متقی و متورع والدےن کی آغوش مےں پرورش پا کر آپ نے کےا کچھ حاصل کےا ہوگا اس کا اندازہ آپ کے مقاماتِ عالیہ سے لگاےا جا سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں تذکرہ نویس خاموش ہیں اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت غزنی علماءوفضلا ءکا مرکز تھا اور شہر مےں کئی مدارس قائم تھے جو علومِ قرآنی کے فروغ کے لئے خدمات انجام دے رہے تھے۔آپ نے تحصیلِ علومِ دینیہ کرنے کے بعد تزکیہ ¿ نفس کی خاطر بہت زیادہ مجاہدات کیے ۔
آپ نے اپنے مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلی کے علاوہ اور بہت سے مشائخ کے فےضِ صحبت کا شرف حاصل کیا۔جن مےں ابوسعےد ابوالخےر اور رسالہ قشےرےہ کے مصنف امام ابوالقاسم قشےری شامل ہےں۔
حضرت داتا گنج بخش سلطان مسعود بن محمود غزنوی کے آخری دورِ حکومت مےں اپنے دو ساتھےوں کے ساتھ مختلف ممالک کا سفر کرتے ہوئے لاہورتشرےف لائے اور اس جگہ قےام کےا جہاں آپ کا مزارِ مبارک زےارت گاہِ خاص و عام ہے۔
فوائد الفواد مےں ہمےں آپ کے لاہور تشرےف لانے کی تفصےلات ملتی ہےں۔ حضرت نظام الدےن محبوبِ الٰہی فرماتے ہےں۔
”شےخ حسےن زنجانی اور شےخ علی ہجوےری دونوں اےک ہی پےر کے مرےد تھے اور ان کے پےر اپنے عہد کے قطب تھے۔ حسےن زنجانی عرصہ سے لاہور مےں مقےم تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے پےر نے خواجہ علی ہجوےری سے کہا کہ لاہور مےں جاکر قےام کرو۔ شےخ علی ہجوےری نے کہا کہ وہاں شےخ حسےن زنجانی موجود ہےں لےکن ان کے پےر نے پھر فرماےا کہ تم لاہور جاو ¿۔ جب علی ہجوےری اپنے پےر کے ارشاد کی تعمےل مےں لاہور آئے تو رات تھی۔ صبح کو شےخ حسےن زنجانی کا جنازہ باہر لاےا گےا“۔
ےہاں آپ نے اےک مسجد بنوائی۔ جسے تبلےغِ دےن کا مرکز بناےا۔ دارا شکوہ اپنی کتاب سفےنة الاولےاءمےں لکھتا ہے”حضرت علی ہجوےری لاہور مےں دن کے وقت تعلےم دےتے اور رات کو طالبانِ حق کو ہداےت کےا کرتے۔ ان کی رہبری مےں ہزاروں جاہل عالم بن گئے، کافروں نے اسلام قبول کےا، گمراہوں نے ہداےت کی راہ پائی، دےوانے ہوش مند ہو گئے، جن کا علم ناقص تھا کامل ہوئے، فاسق و فاجر پارسا بن گئے“۔
آپ کی اپنی تحرےر سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ آپ کو آپ کی زندگی مےں ہی گنج بخش کے لقب سے پکارنا شروع ہو گئے تھے۔ کشف الاسرار مےں آپ تحرےر فرماتے ہےں ”اے علی! لوگ تجھے گنج بخش کہتے ہےں حالانکہ تو خود محتاج ہے اور تےرے پاس تو اےک دانہ تک نہےں۔ تو اس پر فخر نہ کر۔ گنج بخش رنج بخش خدا تعالیٰ کی ذات ہے“۔
لےکن ”گنج بخش“ لقب کی وجہِ شہرت جو ہر اےک کی زبان پر اور ہر تذکرہ مےںموجود ہے وہ ےہ ہے کہ حضرت سلطان الہند خوا جہ ءخواجگان حضرت معےن الدےن چشتی اجمےری آنجناب کے مزارِ پُر انوار پر حاضر ہوئے اور اےک حجرہ مےں چالےس دن تک مصروف ِعبادت و رےاضت رہے۔ اس عرصہ مےں حضرت داتا گنج بخش کی روحِ پرفتوح سے کےافےض حاصل ہوا، کتنے مقامات طے ہوئے ،ان کے بحرِ سخاوت سے کس قدر سےراب ہوئے اس کا اندازہ آپ کے اس خراجِ عقےدت سے لگاےا جا سکتا ہے جو بوقت ِرخصت اےک شعر کی شکل مےں آپ کی زبانِ حق ترجمان پر جاری ہوا :
گنج بخش ِ فےضِ عالم مظہرِ نور خدا
ناقصاں را پےر ِ کامل کاملاں را رہنما
اےک مردِ حق آگاہ کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ زبان زدِ خاص و عام ہوگےا اور آپ گنج بخش کے پےارے لقب سے مشہور ہوئے۔
حضرت داتا گنج بخش بلند پاےہ عالم اور جامعِ معقول و منقول تھے۔ آپ نے متعدد عنوانات پر تصانےف لکھےں لےکن افسوس کہ ان مےں سے کشف المحجوب کے سوا کوئی کتاب نہےں ملتی۔ خود آ پ کے بےان کے مطابق آپ کی بہت سے تصانےف نام نہاد مدعےانِ طرےقت نے مستعار لےں اور نام بدل کر اپنے نام سے شائع کرادےں۔ چند اوراق کا چھوٹا سا رسالہ ”کشف الاسرار“ بھی آپ کی قابل ِقدر تحرےر ہے اور شائع ہو چکا ہے ۔ کشف المحجوب مےں آپ نے اپنی جن دوسری تصانےف کا تذکرہ کےا ہے وہ ےہ ہےں:
۱۔ منہاج الدےن ۲۔ کتاب الفنا والبقا ۳۔ اسرارالخلق المﺅنات ۴۔ کتاب البےان لاہل العےان
۵۔ بحرالقلوب ۶۔ الرعا ےة لحقوق اللہ ۷۔ رسالہ در شرحِ کلامِ منصور الحلاج ۸۔ دےوان
حضرت نظام الدےن محبوبِ الٰہی فرماتے ہےں:
”کشف المحجوب حضرت شےخ علی ہجوےری کی تصنےف ہے۔ اگر کسی کا پےر نہ ہو تو جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو ےہ کتاب اس کے پےر کا کام دے گی۔ مےں نے اس کتاب کا مطالعہ کےا ہے“۔ دارا شکوہ نے لکھا:
”حضرت علی ہجوےری کی بہت سی تصانےف ہےں لےکن کشف المحجوب مشہور و معروف ہے کسی کو اس پر لب کشائی کا موقع نہےں ملا۔ ےہ کتاب راہروانِ طرےقت کے لئے مرشدِ کامل ہے۔ تصوف کی کتابوں مےں فارسی زبان مےں اس خوبی کی کوئی دوسری کتاب تصنےف نہےں ہوئی۔“
حضرت داتا گنج بخش خود اس کتاب کے بارے مےں تحرےر فرماتے ہےں کہ ےہ کتاب راہِ حقےقت کو نماےاں کرتی ہے۔ تحقےقِ امور کی شرح کرتی ہے اور شرےعت کے پردوں کو اٹھاتی ہے۔ اس کا نام کشف المحجوب ہی ہونا چاہئے تھا اور حقےقت مےں کشف، محجوب کی ہلاکت ہے۔“
ایک عرصہ تک برِّصغیر کو اسلامی تعلیمات کے نور سے منور کرنے والا آفتابِ ولایت ۵۶۴ھ میں جہانِ فانی سے عالم بقا کے لیے رخصت ہوا لیکن ان کا فیض کئی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے اور رہتی دنیا تک تشنگانِ حقیقت ان کے میخانہ ءعرفاں سے اپنی تشنگی بجھاتے رہیں گے۔ مزارِ اقدس کے کتبہ پر جامی لاہوری کے یہ اشعار کندہ ہیں۔
خانقاہِ علی ہجوےر است
خاکِ جاروب از درش بردار
طوطےا کن بدےدہ ¿ حق بےں
تا شوی واقفِ درِ اسرار
چوں کہ سردارِ ملکِ معنٰی بود
سالِ وصلش برآےد از سردار
منقبت
جائے عافیّت ہے تیرا آستانہ گنج بخش!
فیض پاتا ہے جہاں ‘ سارا زمانہ گنج بخش!
چارہ بے چاروں کا، بے ساماں کا تُو سامان ہے
تیرا در ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ، گنج بخش!
آپ کا دربارِ جلوہ بار ہے لاہور میں
اولیاءکا ہے جہاں پر آنا جانا، گنج بخش!
غوثِ اعظم، والی ¿ اجمیر اور گنجِ شکر
مانتے ہیں آپ کو دُرِّ یگانہ، گنج بخش!
تیرا روضہ ہے زیارت گاہ، خاص و عام کی
روز و شب جس کی فضا ہے دِلبرانہ ، گنج بخش!
التجا میرے دلِ پُرشوق کی مقبول ہو
طرز ہو میری فقیری کی شہانہ، گنج بخش!
آرزو ہے اب تو مسکن ہو مرا شہرِ نبی
اب تو میرا ہو وہیں کا آب و دانہ، گنج بخش!
اَز طُفیلِ حضرتِ خیر النسائ، بنتِ رسول
ہو معین الحق پہ لطفِ جاودانہ، گنج بخش!
٭٭٭
No comments:
Post a Comment