Ad

Ad

Friday, 13 January 2012

Graff about Devos in Pakistan

پاکستان مےں ”طلاق“ کی بڑھتی ہوئی ”شرح“
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حلال چےزوں مےں سے سب سے زےادہ ناپسندےدہ فعل طلاق کو قرار دےا ہے چونکہ اسلام اس فعل کی اجازت دےتا ہے اس لئے ہم اس کی گنجائش سے انکار نہےں کرسکتے لےکن ہمارے معاشرے مےں طلاق کی شرح جس رفتار سے بڑھ رہی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور اس اضافے نے اسلامی معاشرے مےں موجود آئےڈےل خاندانی نظام کو کھوکھلا کرنے مےں اہم کردار ادا کےا ہے۔
اگر ہم پاکستان مےں طلاق کے اس بڑھتے ہوئے رحجان کی وجوہات کا ذکر کرےں تو ہر ہونے والی طلاق کے پےچھے اس کی الگ وجوہات اور الگ کہانی ملے گی لےکن چند وجوہات اےسی بھی ہےں جنہےں ہم مشترک کہہ سکتے ہےں اور ےہی وجوہات معاشرے مےں طلاق جےسے ناسُور کو بڑھاوا دے رہی ہےں۔ ےہاں ہم چند وجوہات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرےں گے۔
مےاں بےوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کی بنےادوں پر قائم رہتا ہے جب کبھی دونوں مےں اعتماد اور بھروسے کی بنےادیں ہلتی ہےں تو اس پر قائم رشتے کی منزل لڑکھڑا جاتی ہے اور پھر جس طرح ےہ بنےادےں کمزور ہوتی جاتی ہےں اسی طرح ےہ رشتہ ٹوٹتے ٹوٹتے بکھر ہی جاتا ہے اگر دونوں مےں اعتماد اور بھروسے کی بنےادےں مضبوط رہےں گی تو ےہ رشتہ بھی مضبوط تر ہوتا جائے گا اور کبھی زوال پذےر نہےں ہوگا۔
اگر طلاق کے مختلف کےسوں کا جائزہ لےا جائے تو اےسے کےسوں کی تعداد زےادہ نکلے گی جن مےں طلاق ہونے کا سبب شوہر ےا بےوی نہےں ہے بلکہ دونوں اطراف کے خاندانوں کے آپس مےں لڑائی جھگڑے ےا کوئی اور تنازعہ ہوتا ہے جس کا خمےازہ عورت کو طلاق کی صورت مےں بھگتنا پڑتا ہے۔
اےسی صورت مےں طلاق ہوجانے کے بعد مےاں بےوی دونوں کو پچھتاوا رہتا ہے لےکن اگر وہ دوبارہ رجوع کرنا بھی چاہےں تو ہمارے معاشرے مےں نام نہاد مذہبی ”ڈاکٹروں“ نے اس معاملے کو اتنا پےچےدہ بنا دےا ہے کہ تقرےباً اےسا کرنا ناممکن ہی لگتا ہے۔
فی زمانہ جس رفتار سے نئی نوجوان نسل مےں جدت آرہی ہے اور جس تےزی سے وہ مغرب سے مرعوب ہورہے ہےں ےہاں پر طلاق کی اےک اور وجہ بھی سامنے آتی ہے اور وہ وجہ ےہ ہے کہ جس طرح مغرب مےں نو عمری اور جذبات کی رو میں بہہ کر جلد بازی میں پسند کی شادیاں اکثر ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی نوجوان نسل اور امیر طبقہ اسی روش پر چل نکلا ہے ےہی وجہ ہے کہ اس کلاس مےں شادےوں کا دورانےہ بہت مختصرہوتا جارہا ہے ۔ہمارے ےہاں ابھی بھی زبردستی کی شادےوں کا رواج باقی ہے نسبتاً پسماندہ علاقوں مےں لڑکی ےا لڑکے کی پسند ناپسند کا خےال نہےں کےا جاتا اور زبردستی نکاح کے بندھن مےں باندھ دےا جاتا ہے جس کا نتےجہ کچھ عرصے کے بعد طلاق کی صورت مےں سامنے آتا ہے۔
عدم برداشت بھی طلاق کا اےک اہم باعث بنتا ہے اگر دونوں فرےق آپس مےں برداشت اور تحمل سے کام لےں اور اےک دوسرے کی غلطےوں سے درگزرکرےں تو اس مقدس رشتے کو قائم رکھنا آسان رہتا ہے۔
بعض دفعہ مرد حضرات اپنے بےوی بچوں کی ذمہ داری کو احسن طرےقے سے نہےں نبھاتے اور ان کی کفالت سے روگردانی کرتے ہےں جس کے بعد گھر مےں لڑائی جھگڑوں اور مارپےٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اےسی صورتوں مےں زےادہ تر عورتےں عدالت کا رخ اختےار کر کے خلع کا دعویٰ کرتی ہےں۔
ہمارے ملک مےں بڑھتی ہوئی مہنگائی غربت اور بے روزگاری نے لوگوں سے ان کا ذہنی سکون اور اطمےنان چھےن لےا ہے فکرمعاش سے پرےشان عوام ناچاقی اور چڑچڑاہٹ کا شکار ہوچکے ہےں اےسی صورت مےں ان کا اور کہےں تو بس نہےں چلتا اور وہ اپنی ساری محرومےوں کا غصہ اپنے گھروں مےں موجود افراد (بےوی، بچے) پر نکال دےتے ہےں اس طرح گھرےلو لڑائی جھگڑوں مےں ہونے والا اضافہ بھی طلاق کی شرح مےں اضافے کا مو ¿جب بنا ہے۔
ہماری معاشرتی اقدار کے مطابق شادی کا رشتہ اےک سمجھوتہ ہے جو لوگ اپنے شرےک حےات سے سمجھوتہ کرلےتے ہےں اور گھریلو وزندگی کے دیگر امور میں باہمی مشاورت اور رضامندی سے کام لیتے ہیں اور ایک دوسرے کی معمولی غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں ، ان کی شادی قائم رہتی ہے اور جو لوگ سمجھوتہ نہےں کرپاتے ان کا ےہ مقدس رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment