Ad

Ad

Saturday, 7 January 2012

Gas ka Bohran---- Superem Court Notes

" گیس کا بحران ....سپریم کورٹ نوٹس لے "
    پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے گرمیوں میں طویل دورانیہ کی بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول بن چکی ہے توسردیوں میں قدرتی گیس کی کھپت میں اضافے کے باعث اس کی قلت بحران کی شکل اختیار کر لیتی ہے اس تمام تر صورتحا ل سے گھریلو صارفین کے لئے چولھا جلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ آج کل بھی گیس کے گھریلو صارفین شدید پریشان ہیں باورچی خانوں میں چولہے عین اس وقت بجھ جاتے ہیں جب لوگ دفاتر اور سکول جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں یا پھر رات کا کھانا پکنا شروع ہوتا ہے۔
    اس صورتحال سے پریشان لوگ تنگ آ کر احتجاج پر اتر آئے ہیں ملک کے طول وعرض اور خاص طور پر پنجاب ،سندھ اور خیبر پختون خوا کے بڑے شہروں میں پر تشد د احتجاج اور مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے یہ صورت حال کسی بھی طرح حکومت کے لیے خوش آئیند نہیں۔
    پاکستان دنیا بھر میں سی این جی کا سب سے بڑا صارف ہے۔ سی این جی اسٹیشن مالکان کی نمائندہ تنظیموں اور ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ابتداءمیں ہی گیس سے متعلق پالیسی کا اعلان کرتی تو اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں سی این جی پر تبدیل ہوتیں اور نہ یہ صورتحال ہوتی ۔سی این جی کی قلت اور قیمتوں کے اضافے تک ہی بات ختم نہ ہوئی بلکہ حکومت نے یکم جنوری سے پیڑول کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا۔
     سی این جی اسٹیشن مالکان کی نمائندہ تنظیم نے حکومت پر گیس کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب متبادل ایندھن مائع پیٹرولیم گیس یا ایل پی جی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔سردیوں میں تو ایل پی جی زیادہ استعمال ہوتی ہے لیکن گرمیوں میں یہ اتنی نہیں بکتی اس لیے حکومت سی این جی اسٹیشنز کے اتنے بڑے نیٹ ورک کو ایل پی جی فروخت کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے ۔
    پیٹرلیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کرنے والے سرکاری ادارے اوگرا کا موقف ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں دروبدل عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تبدیلی اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔
    دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت گیس بحران پر قابو پانے کے لیے اندرون ملک گیس کی تلاش کے کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک سے گیس کی درآمد کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔
     ایندھن کی قیمتیں بڑھنے سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک اندازہ کے مطابق پاکستان کی چالیس فیصد آبادی اپنی آمدن کا نصف حصہ خوراک پر خرچ کرتی ہے اورایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ایندھن مہنگا ہوتا ہے تو نا صرف خوراک مہنگی ہوتی ہے بلکہ ٹرانسپورٹیشن کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے جس کا اثر ہر چیز پر ہوتا ہے۔
     پاکستان کی آبادی کی اکثریت متوسط اور غریب طبقے پر مشتمل ہے ۔اقتصادی سست روی، توانائی کا بحران اور صنعتوں کی بندش سے بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ ایسے میں گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے باعث آنے والے دنوں میں عام آدمی کو مزید مشکل حالات کا سامنا کرنا ہو گا۔
    وفاقی وزیر پیٹرولیم عاصم حسین نے ایران اور خاص طور پر ترکمانستان سے قدرتی گیس کے حصول کے منصوبوں پر اہم پیش رفت کا دعوٰع کیا ہے۔ ترکمانستان کے پاس قدرتی گیس کے دنیا کے چوتھے بڑے ذخائر ہیں۔مجوزہ چار ملکی منصوبے کے تحت 10کھرب مکعب میٹر گیس آئندہ تیس سالوں تک بر آمد کی جا سکے گی اور افغانستان کے راستے اس مقصد کے لیے1700کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی۔وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ گھریلو صارفین کی طلب چونسٹھ اشاریہ سات کروڑ کیوبک فٹ ہے لیکن
سردی کے دنوں میں جب گیزر اور ہیٹر زچلتے ہیں تو یہ طلب ایک ارب کیوبک فٹ تک بڑھ جاتی ہے۔
    یہ تو ہے حکومتی اعداد و شمار اور اس کی تاویلیں لیکن دوسری طرف کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو حکومت عوام کے سامنے نہیںلاتی۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں گھریلوصارفین میں گیس کی کھپت صرف سات فیصد ہے جبکہ سی این جی اسٹیشنز اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ساڑھے سترہ فیصد ہے۔ اسی طرح ان دونوں شعبوں میں گیس کی کل کھپت تقریباً ساڑھے چوبیس فی صد ہے ۔ دوسری طرف کیمیائی کھاد کے کارخانے گیس کی کل پیداوار کا ساڑھے ستائیس فی صد صرف کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے عام آدمی کے گھر کے چولہے اور آمد روفت کے ذرائع بند کر کے بڑے بڑے صنعتکاروں کے کارخانے چلانے کو ترجیح دی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق فرٹیلائزر انڈسٹری میں ایک کارخانہ ملک کے مقتدر اور سب سے با اثر شخص کے دوست کا ہے۔ اس کارخانے کو بغیر کسی معاہدے یا قوائد و ضوابط کے گیس کی فراہمی کی جا رہی ہے۔ حقیقت احوال یہ بھی ہے کہ کیمیائی کھاد کے کارخانوں سے حکومت کا یہ معاہدہ بھی ہے کہ ان کو تین ماہ (سردی کے ایام) کے دوران گیس کی سپلائی نہیں دی جائے گی لیکن اطلاعات کے مطابق اس معاہدے کے باوجود ان کارخانوں کو گیس کی سپلائی جاری ہے۔اس لیے عام صارف کے چولہے اور گاڑیاں بند ہو گئی ہیں۔
    ان حقائق کی روشنی میں گھریلو صارفین اور سی این جی سٹیشنز کے ساتھ سراسرا نا انصافی کی جا رہی ہے۔ جب حکومت عام آدمی کے حقوق کی پاسداری کی بجائی با اثر افراد کو ترجیح دے تو عام آدمی اس مسئلے کے حل کے لیے سپریم کورٹ کی جانب ہی دیکھتا ہے کہ وہی سوﺅ موٹو نوٹس کے تو شایدبات بنے۔
                ٭٭٭

No comments:

Post a Comment