حضرت مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد
مولانا مفتی مبشر احمد نظامی
مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد کو رب ذوالجلال نے علم و عمل درس و تذکیر تصنیف و تالیف کی دولتوں سے نوازا تھا۔ آپ کا شمار ان افراد میں ہوتا تھا جن کی پوری زندگی سعی و محنت عزم و ارادے کی ایک داستان ہے جس کے ہر ورق اور ہر صفحے پر ایک مرد مومنین کی زندگی کا عکس جھلکتا ہے اور ایک دردمند انسان کے نقوش ابھرتے ہیں۔ مولانا آزاد کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ ان کی خدمات کسی ایک دائرے تک محدود نہ تھیں بلکہ بین الاقوامی عالم اسلام اور خاص کر پاکستان میں ان کی خدمات کا سورج چمکتا رہا اور اس مملکت خداداد پر تو مولانا آزاد اسکے دفاع کے لئے کفن بدوش ہو گئے۔ جب بھی کسی فتنے نے سر اٹھایا تو مولانا آزاد اس کی سرکوبی کے لئے میدان عمل میں نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے ہمیشہ قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ وہ عزیمت کے بلند مقام پر فائز تھے، اگرچہ ان کا تعلق اہلسنت والجماعت دیوبند سے تھا مگر انہوں نے تمام مکاتب فکر کو ہمیشہ متحد کئے رکھا۔ وہ سپہ سالار کی حیثیت رکھتے تھے۔
ابتدائی تعلیم
مولانا آزاد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مکرم حضرت مولانا پیر سید سعید سے حاصل کی اور ایسی تربیت پائی کہ بچپن سے جوانی تک اور جوانی سے جولانی تک زندگی کا ہر لمحہ بے داغ رہا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ نے قاسم العلوم ملتان میں داخلہ لیا اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔
مادر علمی قاسم العلوم کا مقام:
جامعہ قاسم العلوم ملتان تمام اپنی مدارس میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا جس کے مہتممین میں بطل حریت مولانا مفتی محمود نامی سرفہرست ہے اور اس کے معلمین میں ایک نام شیخ المعقول و منقول مولانا محمد موسیٰ اور الروحانی البازی کا نام چمک رہا ہے۔ قاسم العلوم ملتان میں قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم جس معیار پر اور جس انداز سے دی جاتی تھی اور اس کو جو امتیاز حاصل ہے وہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ ایشیاء اور تمام عالم اسلام میں اپنی مثال آپ ہے کہ وہ علم و عمل کے پھولوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے اور علم کے موتیوں کو اپنے دامن میں بھر لینے کا آرزومند رہتا ہے۔ یہی جذبہ مولانا سید محمد عبدالقادر آزاد میں ابھرا اور وہ زندگی بھر علم و حکمت کے حصول میں منہمک رہے اور یہ سلسلہ زمانہ کہولت تک وسیع ہوتا چلا گیا۔ بالآخر مولانا آزاد ملک کی اعلیٰ ڈگری جس کو پی ایچ ڈی کہا جاتا ہے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ”حکیم الامت، مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی بحیثیت مفسر قرآن“ میں پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اس پر مولانا آزاد کو تفسیر قرآن مجید میں ایسا ملکہ پیدا ہوا کہ جب بھی کسی آیت کا مفہوم پوچھا جاتا تو فی البدیہہ اس کو ایسے انداز سے بیان فرماتے کہ ہر خاص و عام بآسانی اس آیت کا پس منظر دلنشیں کر لیتا۔
آپ کی تصانیف
(1)آپ کی تصانیف 100سے بھی زیادہ ہیں۔ ان میں زیادہ مشہور مضامین قرآن (2)اور سیرت النبی (3)ارکان اسلام، (4)بین الاقوامی شخصیات کی کہانی مولانا آزاد کی زبانی (5)اردو انگلش ٹرانسلیشن وغیرہ ہیں۔
ضرورت مند لوگوں کا مجمع ان کی رہائش گاہ پر ہر وقت موجود رہتا تھا۔ کوئی مالی سائل کوئی سفارشی سائل، سب کو جیب میں ہاتھ ڈال کر جو نکلتا مٹھی بند کر کے دے دیتے۔ دسترخوان ہر وقت بچھا رہتا جو آتا کچھ نہ کچھ کھا کر جاتا۔ اگر کوئی اجنبی سے اجنبی مہمان بھی آ جاتا اس سے کشادہ جبینی سے ملتے، مہمان کی خوب خاطر تواضع کرتے، اکثر مہمان رخصت ہوتے وقت دعا کی درخواست کرتے تو پوری یکسوئی کے ساتھ ان کے لئے دعا فرماتے۔ مہمانوں کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ جتنے بھی مہمان آتے آپ سب سے گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے اور اپنے ہاتھوں سے ان کو چائے اور کھانا ڈال کر دیتے۔
ذوق مطالعہ
جب بھی فارغ وقت ہوتا کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہوتے تھے اوران کی تصنیفی مصروفیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ کم از کم 100کتابیں ان کی تصنیفات ہیں اور ہر عنوان پر انہوں نے لکھا ہے اور بیرونی ممالک میں ان کے مقالات عربی اردو اور انگلش میں ہوتے ان کو ترتیب دینا، جب بھی دیکھا ان کو قلم و قرطاس کے رشتہ سے جڑا ہوا دیکھا۔ آپ کے گھر میں اب بھی جائیں تو ایک ضخیم لائبریری نظر آئے گی۔ ہر موضوع ہر فن پر کتاب ملے گی۔
عشق و محبت رسول اللہ
محبت ایک لطیف جذبے اور ایک حسین کیفیت کا نام ہے، محبت میں جب شدت کی آمیزش ہو جائے اور روح جب اس کی لطافت سے مہکنے لگے، دل و دماغ جب اس کی گہرائی میں ڈوب جائے اور ہوش و حواس جب اس کی وسعتوں میں کھو جائیں تو یہی محبت عشق کے نام سے جلوہ نما ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص دولت عشق سے سرفراز ہونا چاہتا ہے تو اسے عشق رسول اللہ کے نورسے اپنے دل کی دنیا کو جگمگانا ہو گا۔ ہمارے مخدوم حضرت مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد بھی اپنے اکابر کی طرح جذبہ عشق رسول سے لبریز تھے۔ تحفظ ناموس رسالت کی ہر تحریک میں حصہ لیا۔ 1977ء میں جب تحریک نظام مصطفی چلی تو مولانا آزاد نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور محراب و منبر سے حق کی آواز کو بلند کیا۔ امت مسلمہ کو پیغام دیا کہ ہم اپنا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ مسلمان کی سوچ کیا ہونی چاہئے۔ ہر انسان آکسیجن سے سانس لیتا ہے لیکن مسلمانوں کی سانس کا دوسرا نام عشق رسول ہے ہر انسان پانی پی کر جیتا ہے لیکن مسلمان حب رسول کی آب و ہوا میں زندہ رہتا ہے۔ ہر انسان کے پہلو میں دل دھڑکتا ہے لیکن مسلمانوں کے دل کی دھڑکن یاد رسول اللہ ہے۔ ہر انسان کی رگوں میں خون دوڑتا ہے لیکن مسلمانوں کی رگوں میں محبت رسول اللہ گردش کرتی ہے۔ ہر انسان زندگی کو زندگی سمجھ کر بسر کرتا ہے لیکن مسلمان خدا اور رسول کی خوشنودی کے لئے زندگی بسر کرتا ہے۔ ہر مسلمان آزادی کا خواہاں ہے لیکن مسلمان غلامی رسول کا طلبگار ہے۔ ہر انسان نفع و نقصان کے حوالے سے سوچتا ہے لیکن مسلمان ہر چیز کو عقیدہ ایمان کے ترازو میں تولتا ہے۔ ہر انسان اپنی عزت و جان کا تحفظ کرتا ہے لیکن مسلمان اپنی عزت و آبرو حرمت رسول پر اپنی جان لٹا دینے کو سعادت سمجھتا ہے۔
جب مولانا آزاد نے بہاولپور سے ہجرت بجانب لاہور کی یہ 1970ء کا سال تھا۔ مولانا آزاد دینی علوم میں دسترس کے ساتھ ساتھ روحانی و سیاسی بصیرت کے بھی حامل رہے ہیں۔ انہوں نے امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری، مولانا مفتی محمود اور مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا غلام غوث ہزاروی، سیاسی اور مولانا خان محمد کندیاں شریف والے اور اپنے والد گرامی حضرت پیر سید سعید سے دینی و روحانی فیض حاصل کیا۔ جنرل ضیاالحق مرحوم کے دور اقتدار میں مولانا آزاد مجلس شوریٰ کے اہم اراکین میں شمار ہوتے تھے اور صدر جنرل محمد ضیاالحق کو جب بھی کوئی مشکل مرحلہ پیش ہوتا تو مولانا آزاد سے مشورہ حاصل کرتے۔
مولانا آزاد کی ملی خدمات
مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد نے تمام طبقات میں اپنا علمی لوہا منوایا جس کی بنا پر محکمہ اوقاف میں آپ کو ایڈمنسٹریٹر اور رئیس شعبہ تبلیغ اور ڈائریکٹر شعبہ صلوٰة و فلاح پنجاب بانی اتحاد بین المسلمین کے عہدے آپ کو حاصل رہے۔ 1974ء میں جب صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے سربراہی کانفرنس بلائی تو بادشاہی مسجد میں عالم اسلام کے سربراہان مملکت کی امامت کی سعادت حاصل کو حاصل ہوئی۔ اس وقت آپ کو امام السلاطین کا لقب حاصل ہوا۔
شاہ فیصل مرحوم کی طرف سے اعزاز
اسلامی سربراہی کانفرنس میں شاہ فیصل مرحوم کی شرکت پاکستان کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ خادم الحرمین شریفین نے پاکستان کو خصوصی مقام دیا اور اسلام آباد میں الفیصل مسجد اور الفیصل یونیورسٹی قائم کی اس پوری کانفرنس میں مولانا ڈاکٹر سید عبدالقادر آزاد شاہ فیصل شہید کے ساتھ رہے۔ ان کی علمی قابلیت اور عربیت اور روانی دیکھ کر شاہ فیصل نے سعودی عربیہ میں خدمات سرانجام دینے کی دعوت دی مگر مولانا نے پاکستان میں ضرورت کو ترجیح دیتے ہوئے انکار کر دیا اور صرف اتنی درخواست کی کہ مجھے حرمین شریفین میں ہر سال حج کے موقع پر حاضری کی اجازت دی جاوے تو شاہ فیصل آباد نے سولہ افراد کا کوٹہ آپ کو دیا۔ آپ ہر سال سولہ آدمیوں جن میں علمائ، وکلائ، صحافی حضرات پر مشتمل وفد لے کر فری حج کی سعادت حاصل کرتے تھے۔
بیرون ممالک کے اسفار
مولانا آزاد دنیا کے اکثر ممالک میں اشاعت اسلام کے لئے تشریف لے جاتے رہے جن میں امریکہ، برطانیہ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، انڈونیشیا، ملیشیا، سعودی عرب، کویت، عراق، ایران، سوڈان، برونائی دارالسلام مصر، لیبیا چارٹ وغیرہ جیسے ممالک شامل ہیں۔
بادشاہی مسجد کی خطابت
1970ء میں جب آپ نے بادشاہی مسجد کی خطابت کا عہدہ سنبھالا تو ہم عصر معاندوں اور رقیبوں نے چاروں طرف سے تنقیدی تیراندازی شروع کی، مولانا آزاد ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ تازیست اس عہدے پر فائز رہے۔
اتحاد بین المسلمین کا قیام
مولانا آزاد میں تواضع و انکشاف اور تحمل کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس لئے مخالف کی بات کو تحمل سے سن کر عفو و درگزر کا معاملہ کرتے تھے۔ بادشاہ مسجد کے منبر و محراب سے ہمیشہ اتحاد و اتفاق یکجہتی کی دعوت دیتے رہے۔ تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو قریب کیا اور نفاق کی آگ بجھاتے رہے۔ آج بھی ان کو ہم سے جدا ہوئے سات سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر وہ تمام مکاتب کے لوگوں میں دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں ایسے نظر آتا ہے گویا کہ ہماری مجلس میں زندہ موجود ہیں۔
اتحاد بین المذاہب کا قیام
مولانا آزاد اسلامی اصولوں کے مطابق عوام و خواص کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے رہے جن میں خاص کر کرسچین، ہندو، سکھ شامل ہیں۔ گرجوں میں جا کر خطاب کئے اور ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک رہے۔ جب شانتی نگر بہاولپور کا واقعہ پیش آیا تو مولانا آزاد شانتی نگر میں پہنچ کر مذاکرات کرتے رہے اور اپنے ہاتھوں سے ان کے گرے مکانوں کو لیتے رہے۔ اسی وجہ سے تمام مذاہب کے لوگ آپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
برطانیہ کی شہزادی لیڈی ڈیانا جب بادشاہی مسجد آئی تو آپ نے اس کے سر پر چادر اوڑھا دی۔ اس طرح جب بھی کوئی سربراہ یورپ مسجد میں آیا تو انزلو والناس علی مراتبھم کے ضابطہ کے تحت ان کا استقبال کرتے رہے۔
15جنوری 2003ء کو یہ علم و عمل کا سورج غروب ہو گیا۔ ہم سے جدا ہوئے ان کو 9سال کا عرصہ بیت گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مرقد پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے، آمین!
جانشین امام السلاطین مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
مولانا آزاد نے اپنے پیچھے چھ بیٹے اور بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ سب بیٹے تعلیم یافتہ اور علم دین و دنیا سے بہرہ مند ہیں مگر ان سب میں اپنے والد کی صحیح جانشینی مولانا محمد سید عبدالخبیر آزاد کو حاصل ہے۔
مولانا مفتی مبشر احمد نظامی
مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد کو رب ذوالجلال نے علم و عمل درس و تذکیر تصنیف و تالیف کی دولتوں سے نوازا تھا۔ آپ کا شمار ان افراد میں ہوتا تھا جن کی پوری زندگی سعی و محنت عزم و ارادے کی ایک داستان ہے جس کے ہر ورق اور ہر صفحے پر ایک مرد مومنین کی زندگی کا عکس جھلکتا ہے اور ایک دردمند انسان کے نقوش ابھرتے ہیں۔ مولانا آزاد کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ ان کی خدمات کسی ایک دائرے تک محدود نہ تھیں بلکہ بین الاقوامی عالم اسلام اور خاص کر پاکستان میں ان کی خدمات کا سورج چمکتا رہا اور اس مملکت خداداد پر تو مولانا آزاد اسکے دفاع کے لئے کفن بدوش ہو گئے۔ جب بھی کسی فتنے نے سر اٹھایا تو مولانا آزاد اس کی سرکوبی کے لئے میدان عمل میں نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے ہمیشہ قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ وہ عزیمت کے بلند مقام پر فائز تھے، اگرچہ ان کا تعلق اہلسنت والجماعت دیوبند سے تھا مگر انہوں نے تمام مکاتب فکر کو ہمیشہ متحد کئے رکھا۔ وہ سپہ سالار کی حیثیت رکھتے تھے۔
ابتدائی تعلیم
مولانا آزاد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مکرم حضرت مولانا پیر سید سعید سے حاصل کی اور ایسی تربیت پائی کہ بچپن سے جوانی تک اور جوانی سے جولانی تک زندگی کا ہر لمحہ بے داغ رہا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ نے قاسم العلوم ملتان میں داخلہ لیا اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔
مادر علمی قاسم العلوم کا مقام:
جامعہ قاسم العلوم ملتان تمام اپنی مدارس میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا جس کے مہتممین میں بطل حریت مولانا مفتی محمود نامی سرفہرست ہے اور اس کے معلمین میں ایک نام شیخ المعقول و منقول مولانا محمد موسیٰ اور الروحانی البازی کا نام چمک رہا ہے۔ قاسم العلوم ملتان میں قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم جس معیار پر اور جس انداز سے دی جاتی تھی اور اس کو جو امتیاز حاصل ہے وہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ ایشیاء اور تمام عالم اسلام میں اپنی مثال آپ ہے کہ وہ علم و عمل کے پھولوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے اور علم کے موتیوں کو اپنے دامن میں بھر لینے کا آرزومند رہتا ہے۔ یہی جذبہ مولانا سید محمد عبدالقادر آزاد میں ابھرا اور وہ زندگی بھر علم و حکمت کے حصول میں منہمک رہے اور یہ سلسلہ زمانہ کہولت تک وسیع ہوتا چلا گیا۔ بالآخر مولانا آزاد ملک کی اعلیٰ ڈگری جس کو پی ایچ ڈی کہا جاتا ہے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ”حکیم الامت، مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی بحیثیت مفسر قرآن“ میں پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اس پر مولانا آزاد کو تفسیر قرآن مجید میں ایسا ملکہ پیدا ہوا کہ جب بھی کسی آیت کا مفہوم پوچھا جاتا تو فی البدیہہ اس کو ایسے انداز سے بیان فرماتے کہ ہر خاص و عام بآسانی اس آیت کا پس منظر دلنشیں کر لیتا۔
آپ کی تصانیف
(1)آپ کی تصانیف 100سے بھی زیادہ ہیں۔ ان میں زیادہ مشہور مضامین قرآن (2)اور سیرت النبی (3)ارکان اسلام، (4)بین الاقوامی شخصیات کی کہانی مولانا آزاد کی زبانی (5)اردو انگلش ٹرانسلیشن وغیرہ ہیں۔
ضرورت مند لوگوں کا مجمع ان کی رہائش گاہ پر ہر وقت موجود رہتا تھا۔ کوئی مالی سائل کوئی سفارشی سائل، سب کو جیب میں ہاتھ ڈال کر جو نکلتا مٹھی بند کر کے دے دیتے۔ دسترخوان ہر وقت بچھا رہتا جو آتا کچھ نہ کچھ کھا کر جاتا۔ اگر کوئی اجنبی سے اجنبی مہمان بھی آ جاتا اس سے کشادہ جبینی سے ملتے، مہمان کی خوب خاطر تواضع کرتے، اکثر مہمان رخصت ہوتے وقت دعا کی درخواست کرتے تو پوری یکسوئی کے ساتھ ان کے لئے دعا فرماتے۔ مہمانوں کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ جتنے بھی مہمان آتے آپ سب سے گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے اور اپنے ہاتھوں سے ان کو چائے اور کھانا ڈال کر دیتے۔
ذوق مطالعہ
جب بھی فارغ وقت ہوتا کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہوتے تھے اوران کی تصنیفی مصروفیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ کم از کم 100کتابیں ان کی تصنیفات ہیں اور ہر عنوان پر انہوں نے لکھا ہے اور بیرونی ممالک میں ان کے مقالات عربی اردو اور انگلش میں ہوتے ان کو ترتیب دینا، جب بھی دیکھا ان کو قلم و قرطاس کے رشتہ سے جڑا ہوا دیکھا۔ آپ کے گھر میں اب بھی جائیں تو ایک ضخیم لائبریری نظر آئے گی۔ ہر موضوع ہر فن پر کتاب ملے گی۔
عشق و محبت رسول اللہ
محبت ایک لطیف جذبے اور ایک حسین کیفیت کا نام ہے، محبت میں جب شدت کی آمیزش ہو جائے اور روح جب اس کی لطافت سے مہکنے لگے، دل و دماغ جب اس کی گہرائی میں ڈوب جائے اور ہوش و حواس جب اس کی وسعتوں میں کھو جائیں تو یہی محبت عشق کے نام سے جلوہ نما ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص دولت عشق سے سرفراز ہونا چاہتا ہے تو اسے عشق رسول اللہ کے نورسے اپنے دل کی دنیا کو جگمگانا ہو گا۔ ہمارے مخدوم حضرت مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد بھی اپنے اکابر کی طرح جذبہ عشق رسول سے لبریز تھے۔ تحفظ ناموس رسالت کی ہر تحریک میں حصہ لیا۔ 1977ء میں جب تحریک نظام مصطفی چلی تو مولانا آزاد نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور محراب و منبر سے حق کی آواز کو بلند کیا۔ امت مسلمہ کو پیغام دیا کہ ہم اپنا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ مسلمان کی سوچ کیا ہونی چاہئے۔ ہر انسان آکسیجن سے سانس لیتا ہے لیکن مسلمانوں کی سانس کا دوسرا نام عشق رسول ہے ہر انسان پانی پی کر جیتا ہے لیکن مسلمان حب رسول کی آب و ہوا میں زندہ رہتا ہے۔ ہر انسان کے پہلو میں دل دھڑکتا ہے لیکن مسلمانوں کے دل کی دھڑکن یاد رسول اللہ ہے۔ ہر انسان کی رگوں میں خون دوڑتا ہے لیکن مسلمانوں کی رگوں میں محبت رسول اللہ گردش کرتی ہے۔ ہر انسان زندگی کو زندگی سمجھ کر بسر کرتا ہے لیکن مسلمان خدا اور رسول کی خوشنودی کے لئے زندگی بسر کرتا ہے۔ ہر مسلمان آزادی کا خواہاں ہے لیکن مسلمان غلامی رسول کا طلبگار ہے۔ ہر انسان نفع و نقصان کے حوالے سے سوچتا ہے لیکن مسلمان ہر چیز کو عقیدہ ایمان کے ترازو میں تولتا ہے۔ ہر انسان اپنی عزت و جان کا تحفظ کرتا ہے لیکن مسلمان اپنی عزت و آبرو حرمت رسول پر اپنی جان لٹا دینے کو سعادت سمجھتا ہے۔
جب مولانا آزاد نے بہاولپور سے ہجرت بجانب لاہور کی یہ 1970ء کا سال تھا۔ مولانا آزاد دینی علوم میں دسترس کے ساتھ ساتھ روحانی و سیاسی بصیرت کے بھی حامل رہے ہیں۔ انہوں نے امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری، مولانا مفتی محمود اور مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا غلام غوث ہزاروی، سیاسی اور مولانا خان محمد کندیاں شریف والے اور اپنے والد گرامی حضرت پیر سید سعید سے دینی و روحانی فیض حاصل کیا۔ جنرل ضیاالحق مرحوم کے دور اقتدار میں مولانا آزاد مجلس شوریٰ کے اہم اراکین میں شمار ہوتے تھے اور صدر جنرل محمد ضیاالحق کو جب بھی کوئی مشکل مرحلہ پیش ہوتا تو مولانا آزاد سے مشورہ حاصل کرتے۔
مولانا آزاد کی ملی خدمات
مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد نے تمام طبقات میں اپنا علمی لوہا منوایا جس کی بنا پر محکمہ اوقاف میں آپ کو ایڈمنسٹریٹر اور رئیس شعبہ تبلیغ اور ڈائریکٹر شعبہ صلوٰة و فلاح پنجاب بانی اتحاد بین المسلمین کے عہدے آپ کو حاصل رہے۔ 1974ء میں جب صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے سربراہی کانفرنس بلائی تو بادشاہی مسجد میں عالم اسلام کے سربراہان مملکت کی امامت کی سعادت حاصل کو حاصل ہوئی۔ اس وقت آپ کو امام السلاطین کا لقب حاصل ہوا۔
شاہ فیصل مرحوم کی طرف سے اعزاز
اسلامی سربراہی کانفرنس میں شاہ فیصل مرحوم کی شرکت پاکستان کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ خادم الحرمین شریفین نے پاکستان کو خصوصی مقام دیا اور اسلام آباد میں الفیصل مسجد اور الفیصل یونیورسٹی قائم کی اس پوری کانفرنس میں مولانا ڈاکٹر سید عبدالقادر آزاد شاہ فیصل شہید کے ساتھ رہے۔ ان کی علمی قابلیت اور عربیت اور روانی دیکھ کر شاہ فیصل نے سعودی عربیہ میں خدمات سرانجام دینے کی دعوت دی مگر مولانا نے پاکستان میں ضرورت کو ترجیح دیتے ہوئے انکار کر دیا اور صرف اتنی درخواست کی کہ مجھے حرمین شریفین میں ہر سال حج کے موقع پر حاضری کی اجازت دی جاوے تو شاہ فیصل آباد نے سولہ افراد کا کوٹہ آپ کو دیا۔ آپ ہر سال سولہ آدمیوں جن میں علمائ، وکلائ، صحافی حضرات پر مشتمل وفد لے کر فری حج کی سعادت حاصل کرتے تھے۔
بیرون ممالک کے اسفار
مولانا آزاد دنیا کے اکثر ممالک میں اشاعت اسلام کے لئے تشریف لے جاتے رہے جن میں امریکہ، برطانیہ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، انڈونیشیا، ملیشیا، سعودی عرب، کویت، عراق، ایران، سوڈان، برونائی دارالسلام مصر، لیبیا چارٹ وغیرہ جیسے ممالک شامل ہیں۔
بادشاہی مسجد کی خطابت
1970ء میں جب آپ نے بادشاہی مسجد کی خطابت کا عہدہ سنبھالا تو ہم عصر معاندوں اور رقیبوں نے چاروں طرف سے تنقیدی تیراندازی شروع کی، مولانا آزاد ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ تازیست اس عہدے پر فائز رہے۔
اتحاد بین المسلمین کا قیام
مولانا آزاد میں تواضع و انکشاف اور تحمل کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس لئے مخالف کی بات کو تحمل سے سن کر عفو و درگزر کا معاملہ کرتے تھے۔ بادشاہ مسجد کے منبر و محراب سے ہمیشہ اتحاد و اتفاق یکجہتی کی دعوت دیتے رہے۔ تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو قریب کیا اور نفاق کی آگ بجھاتے رہے۔ آج بھی ان کو ہم سے جدا ہوئے سات سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر وہ تمام مکاتب کے لوگوں میں دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں ایسے نظر آتا ہے گویا کہ ہماری مجلس میں زندہ موجود ہیں۔
اتحاد بین المذاہب کا قیام
مولانا آزاد اسلامی اصولوں کے مطابق عوام و خواص کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے رہے جن میں خاص کر کرسچین، ہندو، سکھ شامل ہیں۔ گرجوں میں جا کر خطاب کئے اور ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک رہے۔ جب شانتی نگر بہاولپور کا واقعہ پیش آیا تو مولانا آزاد شانتی نگر میں پہنچ کر مذاکرات کرتے رہے اور اپنے ہاتھوں سے ان کے گرے مکانوں کو لیتے رہے۔ اسی وجہ سے تمام مذاہب کے لوگ آپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
برطانیہ کی شہزادی لیڈی ڈیانا جب بادشاہی مسجد آئی تو آپ نے اس کے سر پر چادر اوڑھا دی۔ اس طرح جب بھی کوئی سربراہ یورپ مسجد میں آیا تو انزلو والناس علی مراتبھم کے ضابطہ کے تحت ان کا استقبال کرتے رہے۔
15جنوری 2003ء کو یہ علم و عمل کا سورج غروب ہو گیا۔ ہم سے جدا ہوئے ان کو 9سال کا عرصہ بیت گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مرقد پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے، آمین!
جانشین امام السلاطین مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
مولانا آزاد نے اپنے پیچھے چھ بیٹے اور بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ سب بیٹے تعلیم یافتہ اور علم دین و دنیا سے بہرہ مند ہیں مگر ان سب میں اپنے والد کی صحیح جانشینی مولانا محمد سید عبدالخبیر آزاد کو حاصل ہے۔
No comments:
Post a Comment