حصول انصاف سے تحقےر انصاف تک
پروفےسر نعےم مسعود
وفاقی حکومت اس وقت اےک طرف بلاواسطہ اور بالواسطہ تےن کےسوں مےں پھنسی ہوئی ہے جن مےں اےن آر او،بھٹو پھانسی کےس اور مےمو گےٹ جےسے اہم مقدمات عدالت عظمیٰ مےں زےر بحث ہےں۔چھوٹے چھوٹے کےس اور بھی ہےں جن مےں پی پی کے اہم رہنماﺅں کے خلاف توہےن عدالت کے کےس بھی موجود ہےں تاہم دوسری طرف حکومت کے اتحادےوں سے بھی حکومت کی بگڑتی دکھائی دے رہی ہے جن مےں فی الوقت اے اےن پی سر فہرست ہے ۔اس بگاڑ کا سبب صوبوں کی بات ہے جن مےں سرائےکی صوبہ ،ہزارہ صوبہ اور بہاولپور صوبہ کے قےام پر ”حلقہ ےاراں مےں ٹھن گئی ہے ۔تاحال صورت حال عجےب و غرےب ہے ،اور کچھ معلوم نہےں کہ ،اونٹ کس کروٹ بےٹھتا ہے ۔پھر اوپر سے پی پی پی کی اےگزےکٹوباڈی نے فےصلہ کےا ہے کہ،صدر آصف علی زرداری کسی انکوائری ،بےان ےا پےشی کے تناظر مےں سوئس ےا لوکل تحقےقاتی کمےشن کے سامنے پےش نہےں ہو گے۔گوےا ان کا وہی موقف ہے کہ ،آئےنی تناظر مےں صدر مملکت کو استثنسیٰ حاصل ہے ۔
سےانے کہتے ہےں کہ،کہےں آئےن اور کہےں آئےنہ دےکھنا ضروری ہے بلکہ دونوں چےزوں کو بےک وقت دےکھنے سے خود احتسابی اور باہمی احتساب کے درےچے کھلے رہتے ہےں ،جس سے بناﺅزےادہ اور بگاڑ کم ہو جاتا ہے ۔لےکن بدقسمتی ےہ ہے کہ،مصلحتوں کی شاہراہ پر چلنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت ،مصلحتوں کی راہ پر دکھائی دےتی ہے نہ صراط مستقےم پر ۔عجےب وےرانی سی وےرانی ہے کہ ان کے انداز سےاست کو دےکھ کر ےہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے لےے کسی قانون کی اہمےت نہےں سمجھتے مگر اپنے انداز مےں اپنے تےار کردہ ”جنگل کے قانون“ ہی سے مستفیض اور مستفےد ہونے کے درپے ہےں ۔سےاست اور حکومت مےں جس چشم بےنا‘خوردبےنی فہم اور دور بےنی نظر کی ضرورت ہے اےسی ہرقسم کی نگاہ کا فقدان حکومت مےں عام ملتا ہے ۔اس کا مطلب ےہ ہر گز نہےں کہ،اس صورت حال مےں اپوزےشن بڑی فہم و فراست سے رواں دواں ہے۔سارے سےاسی منظر پر اپوزےشن کی جانب سے بھی ”پکی پکائی تازہ روٹی“پرانحصار کےا جاتا ہے کہ،حکومت ہی کوئی غلطی کرے اور وہ اس بات کو بتنگڑ بنا کر کو د پڑےں ۔اپوزےشن کی اپنی کوئی تحقےق ،اپنا کوئی واضح اےجنڈا ےا واضح پروگرام کہےں وجود نہےں رکھتا کہ،وہ قوم کو مستقبل کی کوئی نوےد سنا سکےں ےا اےسا لائحہ عمل دےں جو واقعی قابل عمل اور قابل استعمال ہو ۔بقول نسےم تقی
ےہاں قانون سے بالا ہے سلطان
نےا فتویٰ سناےا جا رہا ہے
نےا فتویٰ سناےا جا رہا ہے
ضرورت اس امر کی تھےں کہ قمر الزمان کائرہ،فردوس عاشق اعوان ،چانڈےو صاحب اور پی پی پی کے قانون سپہ سالار ڈاکٹر بابر اعوان اپنے بےانوںاور پرےس کانفرنسوں مےں بار اور بےنچ کے درمےان عمدہ رواےات کو فروغ دےتے ،تلخی کم کرتے اور قانون پسندی کو رواج پخشتے ۔ےہی نہےں بلکہ پی پی پی کے سےنئےر رہنما خورشےد شاہ تک نے عدالت عظمیٰ کے خلاف پروپےگنڈے کو عروج بخشا،اور عوام کی آنکھوں اور دلوں مےں اےسا تاثر نقش کرنے کی کو شش کی جےسے عدالت جانبداری کا مظاہرہ کرنے والی ہے ۔بابر اعوان جنہےں کئی وزارتےں بھی چھوڑنی پڑےں وہ بھی ،اور پھر گورنر پنجاب لطےف کھوسہ جےسے سےنئےر قانون دان نے کسی موقع پر بھی وہ کردار ادا کرنے کی کوشش نہےں کی جو ان کی پارٹی ،حکومت و ملک و قوم کے لےے خےر کے دروا کرتا ۔کئی سطح اور جگہوں پر لطےف کھوسہ اور بابر اعوان وسعت قلب اور دور اندےشی سے حکومت کو امتحانات سے بچا سکتے تھے مگر ان صاحبان نے تنگی داماں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نےم حکےموں کی طرح اپنی ہی حکومت اور پارٹی کو دلدل مےں پھنسا دےا۔
ان سے آگے کی کوئی شے ا نہےں تسلےم نہےں
اپنے پےچھے کے ہےولوں سے انہےں نفرت ہے
رہی سہی کسر محترمہ عاصمہ جہانگےر کی لےنگوئےج اور باڈی لےنگوئےج نے نکال دی ،انہوں نے بھی قانون دان بننے اور لگنے کے بجائے سےاستدان لگنے کو فوقےت دی ،اور ےہ کہہ دےا کہ مےمو گےٹ کی حےثےت اےک کاغذ کے پرزے کے علاوہ کےا ہے ۔حالانکہ ہم تو ےہی سنتے آئے ہیں کہ قلم و قرطاس کی اہمےت عمل تنفس سے کم نہےں ہوتی ۔جن دو حکومتی اراکےن کی کسی پاکستانی ،کسی دانش ور اور حتیٰ کہ پی پی پی کے اپنے ارکان و نمائندگان کو بالکل سمجھ نہےں آتی وہ ڈاکٹر بابر اعوان اور رحمان ملک ہےں ۔حکومت اگر ان دو صاحبان سے جان چھڑالے ےا ان کو کسی ”حدود و قےود “ سے آشنا کردے تو بہت سی مشکلوں کا حل خود بخود نکل آئے گا۔
چودھری شجاعت حسےن ےا پروےز الہیٰ بھی اظہار ےک جہتی کرلےں جب تک پی پی پی کے سنئےر رہنما خود اپنی اداﺅں پر غور نہےں کرتے تب تک مسئلہ حل نہےں سکتا ،وہ دن دور نہےں جب اےم کےو اےم دوبارہ اور اے اےن پی واقعی پی پی پی کو خدا خافظ کہنے والے ہےں ۔عدالت تو عدالت ےہ نئے صوبوں کے قےام کا مسئلہ بھی حکومت کی دھجےاں بکھےرنے والا ہے ۔اےم کےو اےم کے صوبوں کے حوالے سے جمعرات کو قومی اسمبلی کے بحث کے آغاز پر جس طرح اعوان مچھلی منڈی بنا اور جس انداز مےں اے اےن پی نے اسفند ےا ر ولی کی قےادت مےں کاروائی کا بائےکاٹ کےا ۔ےہ اےک بڑی ”کاٹ “ ہے سب جانتے ہےں کہ اے اےن پی والے اسے کم از کم سےاسی حد تک تو اسی طرح زور چاہتے ہےں جس طرح سرائےکی صوبہ اور بہاولپور صوبہ کو ”چاہتے “ہےں”چاہت “کا اےسا انداز ہی وزےر اعظم ےوسف رضا گےلانی کا بھی ہے ۔لےکن ےہ سب انداز تکلم عملی رنگ کم اور زبانی جمع خرچ زےادہ لگتے ہےں ۔پھر اےم کےو اےم نے 20 وےں ترمےم کے آغاز کو عملی جامہ پہنا کر سےاست کے اےوانوں کو اور بھی مشکل مےں پھنسا دےا ہے بظاہر تو لگتا ہت کہ،عمران خان ،مےاں نواز شرےف اور جماعت اسلامی کی عملی سےاسی صورت حال نئے الےکشن کا نقارہ بجا رہے ہےں ۔اگر اےسا ہے تو پھر بہاولپور ،ہزارہ اور سرائےکی حلقوں مےں سارے سےاستدان صوبے بنانے کے منشور اور نعرے لے کر جائےں گے ۔۔۔۔۔آہ! وہ سےاستدان جو ابھی تک اپنے آپ کو جمہوری بنانے سے قاصر ہےں وہ بھلا صوبے اور اعلیٰ رواےات کےسے بنا پائےں گے؟؟؟
ان سے آگے کی کوئی شے ا نہےں تسلےم نہےں
اپنے پےچھے کے ہےولوں سے انہےں نفرت ہے
رہی سہی کسر محترمہ عاصمہ جہانگےر کی لےنگوئےج اور باڈی لےنگوئےج نے نکال دی ،انہوں نے بھی قانون دان بننے اور لگنے کے بجائے سےاستدان لگنے کو فوقےت دی ،اور ےہ کہہ دےا کہ مےمو گےٹ کی حےثےت اےک کاغذ کے پرزے کے علاوہ کےا ہے ۔حالانکہ ہم تو ےہی سنتے آئے ہیں کہ قلم و قرطاس کی اہمےت عمل تنفس سے کم نہےں ہوتی ۔جن دو حکومتی اراکےن کی کسی پاکستانی ،کسی دانش ور اور حتیٰ کہ پی پی پی کے اپنے ارکان و نمائندگان کو بالکل سمجھ نہےں آتی وہ ڈاکٹر بابر اعوان اور رحمان ملک ہےں ۔حکومت اگر ان دو صاحبان سے جان چھڑالے ےا ان کو کسی ”حدود و قےود “ سے آشنا کردے تو بہت سی مشکلوں کا حل خود بخود نکل آئے گا۔
چودھری شجاعت حسےن ےا پروےز الہیٰ بھی اظہار ےک جہتی کرلےں جب تک پی پی پی کے سنئےر رہنما خود اپنی اداﺅں پر غور نہےں کرتے تب تک مسئلہ حل نہےں سکتا ،وہ دن دور نہےں جب اےم کےو اےم دوبارہ اور اے اےن پی واقعی پی پی پی کو خدا خافظ کہنے والے ہےں ۔عدالت تو عدالت ےہ نئے صوبوں کے قےام کا مسئلہ بھی حکومت کی دھجےاں بکھےرنے والا ہے ۔اےم کےو اےم کے صوبوں کے حوالے سے جمعرات کو قومی اسمبلی کے بحث کے آغاز پر جس طرح اعوان مچھلی منڈی بنا اور جس انداز مےں اے اےن پی نے اسفند ےا ر ولی کی قےادت مےں کاروائی کا بائےکاٹ کےا ۔ےہ اےک بڑی ”کاٹ “ ہے سب جانتے ہےں کہ اے اےن پی والے اسے کم از کم سےاسی حد تک تو اسی طرح زور چاہتے ہےں جس طرح سرائےکی صوبہ اور بہاولپور صوبہ کو ”چاہتے “ہےں”چاہت “کا اےسا انداز ہی وزےر اعظم ےوسف رضا گےلانی کا بھی ہے ۔لےکن ےہ سب انداز تکلم عملی رنگ کم اور زبانی جمع خرچ زےادہ لگتے ہےں ۔پھر اےم کےو اےم نے 20 وےں ترمےم کے آغاز کو عملی جامہ پہنا کر سےاست کے اےوانوں کو اور بھی مشکل مےں پھنسا دےا ہے بظاہر تو لگتا ہت کہ،عمران خان ،مےاں نواز شرےف اور جماعت اسلامی کی عملی سےاسی صورت حال نئے الےکشن کا نقارہ بجا رہے ہےں ۔اگر اےسا ہے تو پھر بہاولپور ،ہزارہ اور سرائےکی حلقوں مےں سارے سےاستدان صوبے بنانے کے منشور اور نعرے لے کر جائےں گے ۔۔۔۔۔آہ! وہ سےاستدان جو ابھی تک اپنے آپ کو جمہوری بنانے سے قاصر ہےں وہ بھلا صوبے اور اعلیٰ رواےات کےسے بنا پائےں گے؟؟؟
کوئی ےہ بتائے کہ،حکومت اگر افواج پاکستان ،عدلےہ اور قوم سے قطع تعلق کی راہےں اپنا کر چلنا چاہے ،تو گڈ گورنس نامی چےز کہاں ہو گی؟؟؟متذکرہ قومی اسمبلی کے اجلاس مےں قائم مقام سپےکر نے بھی جانبداری کا مظاہرہ کےا جو اپنی جگہ اےک غےر پسندےدہ عمل تھا ۔ترقی ےافتہ ممالک مےں سپےکر کی عزت و تو صےف کا ےہ عالم ہوتا ہے کہ آئندہ الےکشن مےں اس کے مقابلہ مےں کھڑا کوئی نہےں ہوتا ،کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ بلا مقابلہ منتخب ہو جائے مگر ےہاں کےا کرےں ۔حکومت کو چاہےے کہ وہ تمام اداروں کو قومی ادارے سمجھے اور خود کو قوم کے حقےقی کارکن ،اسی کا نام جمہورےت ہے ۔اپوزےشن بھی قبل از انتخابات اپنا پروگرام اور اےجنڈا بتائے ،حکومت مےں موجو د تنقےدی پہلو تو عام آدمی کو بھی نظر آرہے ہےں ،اپوزےشن کےڑے نکال کر کےا کمال کر رہی ہے؟حکومت اپنی جگہ وعدل و انصاف کو بالائے طاق رکھنے مےں ہچکچاہٹ محسوس نہےں کرتی ےہ سب کےا ہے؟ ہاں!چار دن رہ گئے ہےں حکومت حصول انصاف کو تحقےر انصاف نہ سمجھے!!!
No comments:
Post a Comment