Ad

Ad

Friday, 13 January 2012

History of Peer Mardan Shah Pakara

پیر صاحب پگارا........کِنگ میکر
تحریر............ سالک مجید
 یہ بات بلا شک و شبہ کہی جاسکتی ہے کہ پیر صاحب پیگارا جیسا کوئی دوسرا سیاستدان پاکستان کو نہیں ملا۔ ان کا انداز سیاست ہمیشہ سب سے جدا اور منفرد رہا۔ سیاسی بصیرت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ عزت اور احترام میں انہیں جو مرتبہ اور مقام حاصل ہوا اس کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ ان کا دیدار‘ ان سے گفتگو اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا۔ یہ سب کچھ ایک اعزاز اور شرف کہلایا جو نصیبوں والوں کے حصے میں آیا۔ ان کے در پر جو آیا وہ کچھ فیض پاکر ہی گیا اور جو ایک بار ان سے مل لے تو بار بار ملاقات کی خواہش لازم۔
ان کی شخصیت میں ایک پراسرار طلسم‘ ملنے والے پر ایک سحر طاری‘ ان کا عمل‘ ان کی یاد داشت اور ان کی باتیں سامنے والے کو لاجواب کر دیں۔ ملنے والا اپنی عزت اپنے ہاتھ سوچ کر خاموش میں عانیت جانے۔
حضرت پیر سیّد مردان شاہ المعروف پیر پگارا 22دسمبر 1928ءکو پیر جو گوٹھ (سندھ) میں پیدا ہوئے وہ 1952ءمیں پیر پگارا بنے۔ ان کے والد حضرت سیّد محمد صبغت اللہ شاہ کو 20مارچ 1943ءکو برٹش گورنمنٹ نے حروں کو تحریک آزادی کے لئے سر اٹھانے پر تیار کرنے کے جرم میں سزائے موت دیدی تھی۔
سیاسی حلقوں میں ان کو حقیقی اور اصلی کنگ میکر قرار دیا جاتا ہے وہ خود ملک کے صدر یا وزیراعظم نہیں بنے اگرچہ الیکشن میں حصہ لیتے رہے لیکن انہوں نے اپنے حروںا ور مریدوں میں سے حکمران اس ملک کو دیئے۔ محمد خان جونیجو اس ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کا نام پیر صاحب پگارا نے ہی جنرل ضیاءالحق کو دیا تھا۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پیر صاحب پگارا اپنا اور اپنی طارٹی کا وزن جس پلڑے میں ڈال دیں وہی حکومت کرتا ہے اور اگر مخالفت کر دیں یا ساتھ نہ دیں تو پھر اس کی حکومت برقرار رہنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ سیاسی اعتبار سے پیر صاحب پگارا کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) جسے عام طور پر فنکشنل لیگ بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں حکومت سازی کے حوالے سے ایک تاریخی پس منظر رکھتی ہے اس کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور بڑے بڑے حکمران اور حاکم وقت پیر صاحب کے پاس حاضری دے حکے ہیں اور ان سے صلاح مشورے کر کے ہی اپنی حکومت کو بجاتے رہے یا مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیئے۔ موجودہ وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کی پیر صاحب پگارا سے رشتے دار بھی اور گہری روحانی روحانی وابستگی بھیاور ہر اہم موڑ پر پیر صاحب پگارا نیازی مندی رکھتے اور ان سے رہنمائی حاصل کرتے نظر آئےے۔
جو لوگ پیر صاحب پگارا کو مل چکے ہیں وہ ان کی خوش مزاجی اور خوش خوراکی کی خود گواہی دے سکتے ہی۔ حالات کیسے بھی ہوں‘ ملاقاتی کوئی بھی ہو۔ ان کا انداز روایتی رہتا اور ان کی باتوں کے بہت وسیع اور بہت گہرے مطلب نکلتے۔ وہ تاریخی حوالے بھی دیتے اور ذو معنی الفاظ بھی استعمال کرتے لیکن شائستگی اور خوش مزاجی کے ساتھ۔
پیش گوائیاں کرنے کے اعتبار سے بھی وہ ہمیشہ سب سے آگے نظر آئے۔ پیش گوئیاں کرنا ان کے علم‘ ذہانت اور دوراندیشی کا منہ بولتا ثبوت مانا گیا۔ یہ ان کا مشغلہ بھی رہا۔ ان کے دیگر نمایاں مشاغل میں شکار کھیلنا‘ گھوڑے رکھنا اور گھوڑوں کی ریس نمایاں رہے۔ کراچی ریس کلب کی بحالی بھی ان کے باعث ممکن ہوئی اور وہ ہمیشہ چھٹی والے دن کراچی پریس کلب میں گھوڑوں کی ریس دیکھنے کے لئے جلوہ افرزو ہوتے اور وہاں چٹ پٹی اور انتہائی اہمیت کی حامل گفتگو بھی کرتے۔ صحافیوں کے لئے گھوڑوں کی ریس ہمیشہ اس لئے اہمیت رکھتی کہ وہاں پیر صاحب پگارا سے ملاقات کا موقع بن جاتا۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پیر صاحب پگارا کرکٹ بھی کھیلتے رہے۔ وہ فرسٹ کلاس کرکٹر بنے۔ انہوں نے سندھ کی نمائندگی کی ان کا فرسٹ کلاس کرکٹ کیریئر 1953-54پر محیط رہا اس دوران انہوں نے ایک فرسٹ کلاس میچ بھی کھیلا۔ جس میں انہوں نے رائٹ ہینڈ سے بیٹنگ کی دو مرتبہ ان کی باری آئی انہوں نے کوئی بڑی لمبی اننگ نہیں کھیلی۔ مجموعی طور پر پندرہ رنز بنائے۔ جبکہ بولنگ نہیں کی۔ انٹرنیٹ پر آج بھی ان کے فرسٹ کلاس کرکٹ کیرئیر کے بارے میں یہ اعداد و شمار دستیاب ہیں۔
پیر صاحب پگارا کے شکار کھیلنے کے شوق کے پیش نظر وہ علاقہ صرف ان کے لیے مخصوص کیا گیا جہاں وہ شکار کھیلتے۔ وہاں کسی اور کو شکار کھیلنے کی اجازت نہیں ۔ ان کے شکار کے حوالے سے پسندیدہ علاقوں میں (Awadh)اوادھ کا علاقہ نمایاں بتایا جاتا ہے۔
پیر صاحب پگارا کی ابتدائی تعلیم پیر جو گوٹھ میں ہی ہوئی تھی۔ ان کے والد صاحب کی گرفتاری کے بعد ان کی تعلیم کی دیکھ بھال خلیفہ درگاہ شریف کرتے رہے۔
1946ءمیں انہیں چھوٹے بھائی اور دیگر فیملی ممبرز کے ہمراہ کراچی میں ہاﺅس اریسٹ کر دیا گیا تھا جبکہ 1943 سے 1946ءکے دوران 3سال تک وہ علیگڑھ میں رہے تھے۔ 1946ءمیں ان کو بحری جہاز کے ذریعے لیور پول (انگلینڈ) منتقل کر دیا گیا اور وہاں ان کو Majiovr Davis پرائیویٹ اسکول میں داخل کر دیا گیا تھا لیکن وہ وہاں بھی زیر حراست تھے اور یہ پرائیویٹ اسکول بھی دوزخ سے کم نہیں تھا یہ دور دراز علاقے میں تھا جہاں بمشکل 13-12طلبا تھے وہ بھی مختلف ملکوں سے لائے گئے تھے ان کا تعلق ایسے خاندانوں سے تھا جنہوں نے برطانوی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس اسکول میں مرضی کے مضمون اختیار کرنی اجازت نہیں تھی وہی کچھ پڑھنا پڑتا تھا جو انتظامیہ چاہتی تھی انہیں عسائیت کی تعلیم دینے اور فرانسیسی اور لاطینی زبان سیکھنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔
1949ءمیں پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ان سے ملاقات کی اور ان کا پیر پگارا کا اسٹیٹس بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی اور 4فروری 1952ءکو سرکاری طور پر وہ پیر پگارا کی حیثیت پر بحال کئے گئے اور ان کی باقاعدہ دستار بندی کی گئی۔
گردی بحال ہونے کے بعد پیر صاحب پگارا کو کن چیلنجوں کا سامنا تھا جن میں سے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ حر جماعت کا امیج کیسے بحال کیا جائے۔ انگریزوں نے 30سال کے دوران حر جماعت کو ایک دہشت گرد جماعت کے طور پر پیش کر کے اس کا امیج بگاڑ دیا تھا اور حر ادھر ادھر بکھر گئے تھے ان کا اعتماد بحال کرنا اور حر جماعت کو ڈسپلن میں لانے کی جدوجہد کرتے ہوئے پیر صاحب پگارا نے بہت محنت اور غریب حروں کے لئے تعلیمی و ظائف بھی حکومت سے مقرر کرائے۔ جماعت کے مخیر حضرات نے بھی غریبوں کی بہت مدد کی اور تعلیمی میدان میں حروں کو آگے بڑھایا جانے لگا۔ خود پیر صاحب پگارا نے اپنے پاس سے وسائل پیدا کئے اور حروں کے بچوں کو تعلیم پر توجہ دینے پر زور دیا ۔ خصوصاً بچیوں کو بھی پڑھانے پر زور دیا گیا۔
پیر صاحب پگارا نے مذہبی تعلیم پر بھی زور دیا اور 1952ءمیں درگاہ شریف پر جامعہ راشدیہ کا قیام عمل میں لائے۔ مینجمنٹ اور اخراجات کی ذمہ داری درگاہ شریف کی تھی۔اب اس جامہ راشدیہ کی سندھی کے مختلف شہروں میں آٹھ برانچیں جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں تھی‘ حافظ قرآن‘ مولوی‘ عالم اور فاضل سامنے آرہے ہیں اور سندھ بھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے درگاہ شریف میں ایک انتہائی اعلیٰ معیار کی خوبصورت لائبریری قائم کی جس میں لاکھوں کتابیں پڑھنے والوں کے علم میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود یہ جداگانہ انداز بھی صرف پیر صاحب پگارا کے حصے میں آیا کہ انہوں نے ٹیلی فون کرنے والوں کی کالز خود ریسیو کرنے کا انداز اپنایالہٰذا ہر دور میں پیر صاحب پگارا سے بات کرنا سب سے آسان رہا۔ پاکستان میں یہ انداز اختیار کرنے والے وہ واحد سیاستدان قرار دیئے جاسکتے ہیں لوگ براہ راست ان سے بات کرتے اور اپنے مسائل سے آگاہ کرتے اور ان کا حل بھی پاتے۔
پیر صاحب پگارا نے 1954ءمیں مخدوم ملک غلام میرن شاہ کی صاحبزادی سے شادی کی جو وزیراعظم گیلانی کی خالہ ہیں۔ ان سے پیر صاحب پگارا کے تین صاحبزادے ہوئے۔ صبغت اللہ شاہ (راجہ سائیں) علی گوہر شاہ اور صدر الدین شاہ (یونس سائیں)۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیر صاحب پگارا کا کوئی اکاﺅنٹ یا پراپرٹی بیرون ملک نہیں ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ پیر صاحب پگارا نے سوائے برطانیہ (دوران حراست) اور سعودی عرب (مذہبی فرائض کی ادائیگی کیلئے) اور کسی ملک کا سفر نہیں کیا۔ ساری عمر پاکستان میں گزار دی اور پھر ڈاکٹروں کے مشورے پر بہتر علاج کی غرض سے ان کو لندن لے جایا گیا۔
خود کو کئی مرتبہ جی ایچ کیو کا نمائندہ کہنے والے پیر صاحب پگارا نے ہمیشہ دفاع وطن کے لئے جان قربان کرنے کا درس دیا اور 1965ءکی جنگ ہو یا 1971ءکی جنگ‘ ان کے حکم پر حروں نے دشمن بھارت کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ 1965ءکی جنگ میں پیر صاحب پگارا کے حکم پر 20ہزار حروں نے بھارتی فوج کا مقابلہ کیا اور اس کی کئی پوسٹوں پر قبضہ کرلیا تھا۔
پیر صاحب پگارا بنیادی طور پر امن پسند رہے اور انہوں نے ہمیشہ امن کی بات کی۔ سندھ میں جب لسانی جھگڑے فسادات ہوئے تو سندھ کے مختلف علاقوں سے لوگ پیر صاحب پگارا کے زیر اثر علاقوں میں پناہ گزین ہوئے۔
1967ءمیں جب کارو مچھ ڈاکو اور اس کے ساتھیوں نے سندھ میں تباہی مچا رکھی تھی اور سندھ میں حکومت حالات پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی تھی تو پیر صاحب پگارا نے اپنے مریدوں کو حکم دیا تو ان کے مریدوں نے ڈاکوﺅں کا قلع قمع کر کے سندھ میں امن بحال کرا دیا تھا۔
1969ءمیں عباس کاٹھور نامی ڈاکوﺅں کے گینگ نے جب حالات خراب کئے تو پھر ایک بار پیر صاحب پگارو کے مریدوں نے ان ڈاکوﺅں کا خاتمہ کر کے سندھ میں امن قائم کیا۔ ان خدمات کی وجہ سے پیر صاحب پگارا کو ”محسن ملت“ کا خطاب بھی دیا گیا۔
پیر صاحب پگارا نے 1970 میں ایک اخبار بھی نکالا۔ اخبار کا نام ”اسٹیٹس مین“ تھا اس کے ایڈیٹر اویس صاحب تھے۔

No comments:

Post a Comment