Ad

Ad

Saturday, 7 January 2012

Pakistan ka Bunyadi Masla

پاکستان کا بنیادی مسئلہ
    جب تک کسی قوم کا قبلہ درست نہ ہووہ ترقی اور خوشحالی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ پاکستان میں ہم ایسے امور پر غیر معمولی وقت اور ذہنی صلاحیت صرف کردیتے ہیں جن کا ملکی ترقی کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ آجکل میڈیا پر ایسے ٹاک شوز کی بہتات ہے جن میں عارضی نوعیت کے ایشوز پر گرما گرم بحثیں کی جاتی ہیں اور جن کا زیادہ تر تعلق شخصیات یا جماعتوں سے ہوتا ہے۔دکھ تو یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بھی ان وقتی اور عارضی بحثوں کو بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں۔ پاکستان کے بنیادی مسائل بری طرح نظر انداز ہورہے ہیں ۔ رب کائنات نے اپنے پیارے نبی ﷺ پر پہلی وحی نازل کی تو ارشاد ہوا۔ ”پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے۔ پڑھیے آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم کے واسطہ سے۔ اسی نے سکھایا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا“۔ [العلق :5-1] رب نے انسانوں کو اپنے پہلے ہی حکم میں ترقی کرنے کا گُر سکھادیا۔ جن قوموں نے اس ارشاد ربانی کے مطابق تعلیم کی حکمت اور دانائی کو پالیا وہ چاند و ستاروں کو مسخر کرنے میں کامیاب ہوئے اور جن قوموں نے پیغام ربانی کو نظر انداز کیا وہ ترقی یافتہ جدید دور میں بھی پسماندہ اور غریب ہیں۔محسن انسانیت حضور اکرم ﷺ کی بھی حدیث ہے کہ ”علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے“۔
    پاکستان کا بنیادی مسئلہ تعلیم اور تربیت ہے۔ جو سماجی اور معاشی ترقی کا اہم اور بنیادی عنصر ہے۔ پاکستان کے باقی تمام مسائل جہالت کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ تعلیم ہی ایک ایسا نسخہ کیمیا ہے جس سے سیاسی ، معاشی، سماجی، معاشرتی، آئینی اور عالمی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ فن لینڈ چالیس لاکھ آبادی والا ملک ہے جس کے شہری تعلیم یافتہ ہیں ۔ تعلیم کا کرشمہ ملاحظہ فرمائیے کہ فن لینڈ کی صرف ایک کمپنی کی برآمدات پاکستان کی کل برآمدات سے دگنی ہیں۔ 1960ءمیں جنوبی کوریا کی برآمدات کا حجم 30 بلین ڈالر تھا۔ تعلیم پر خصوصی توجہ کی بناءپر 2010ءمیں کوریا کی برآمدات 360 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اسلامی ملک ملائیشیانے 30 سال قبل تعلیم پر جی ڈی پی کا 30 فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ملائیشیاایشین ٹائیگر ہے اور اسلامی دنیا کی کل ہائی ٹیک برآمدات کا 85 فیصد برآمد کرتا ہے۔ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا کیمونسٹ ملک ہے۔ اس نے اپنی افرادی قوت پر سرمایہ کاری کرکے اور اسے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے چین کو دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بنادیاہے۔ آج امریکہ چین سے خوف زدہ ہے۔ بنگلہ دیش بھی تعلیم اور صحت کے میدان میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
    پاکستان خدا کے فضل سے ایک ایٹمی قوت ہے مگر تعلیم کے میدان میں دنیا کے 132 ممالک میں سے صرف چھ ممالک سے آگے ہے۔ ہر حکومت اقوام متحدہ سے تحریری طور پر وعدہ کرتی رہی ہے کہ تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا 4 فیصد بجٹ رکھا جائے گا مگر عملی طور پر صرف 1.8 فیصد بجٹ خرچ کیاجاتا ہے جس میں سے کم و بیش کل تعلیمی بجٹ کا 60 فیصد کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ گھوسٹ سکولوں، گھوسٹ اساتذہ کے نام پر ہرسال کروڑوں روپے خرد برد کرلیے جاتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی معیار بھی انتہائی ناقص ہے۔ ریاست پر جاگیرداروں کی بالادستی ہے۔ وہ کروڑوں ان پڑھ کسانوں اور کاشتکاروں کا استحصال کر رہے ہیں۔ اسی طرح تاجر اور صنعت کار جاہل مزدوروں کو ان کی محنت کی پوری اجرت نہیں دیتے لہذا وہ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت تعلیم کے بجٹ میں اضافے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے اپنے بچے بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں نیز پاکستان میں بھی ان کے بچوں کے لیے ایچی سن کالج موجود ہیں۔اس لیے ان کو معیاری سکول اور کالج نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ صوبائی اور قومی اسمبلی میں کبھی تعلیم پر بحث نہیں کی جاتی کیونکہ پارلیمانی اداروں کے اراکین کی اکثریت کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے 18 کروڑ شہری تعلیم یافتہ ہوتے تو آج پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہوچکا ہوتا۔ تعلیم پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ پاکستان میں تعلیمی ایمر جنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ قومی سلامتی اور پاکستان کا مستقبل تعلیم کے ساتھ وابستہ ہے۔
    پاکستان سے برین ڈریں تیزی کے ساتھ ہورہا ہے۔ بیڈ گورنینس کی وجہ سے پڑھے لکھے باوسائل افراد کا پاکستان سے اعتماد ہی اُٹھتا جارہا ہے کیونکہ پاکستان میں میرٹ کی قدر ہی نہیں کی جاتی یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اچھے مینجرز کا فقدان ہے اور قومی ادارے زوال پذیر ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم ناقص ہے۔ انگلش میڈیم، اُردو میڈیم اور مذہبی مدارس تین قسم کے نظام تعلیم بیک وقت چل رہے ہیں۔ ماہرین تعلیم کا اتفاق ہے کہ تعلیمی نظام یکساں اور مساوی ہونا چاہیئے اور قومی زبان اُردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جانا چاہیئے تاکہ پاکستانی قوم تشکیل پاسکے اور ہر لحاظ سے ایک معیاری نسل وجود میں آئے جو پورے اعتماد کے ساتھ دوسری قوموں کا مقابلہ کرسکے۔دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے اپنے قومی زبانوں کو تعلیمی اور دفتری میڈیم بنا کر ہی ترقی کی ہے۔ جس سماج میں استاد کا احترام نہ ہو وہ نشونما نہیں پاسکتا۔ جب تک جاگیردارانہ ذہنیت کو ختم نہیں کیا جاتا۔ جمہوریت، تعلیم اور ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔ قابل ستائش ہیں وہ لوگ جو حکومت کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنے علاقوں میں ارشاد ربانی کے مطابق تعلیم کے فروغ کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان کے لاکھوں ریٹائرڈ اساتذہ شرح خواندگی بڑھانے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ قوم کو اگر ایک ایسا لیڈر میسر آجائے جس کی تعلیم اور صحت کے ساتھ کمٹ منٹ ہوتو پاکستان چند سالوں کے اندر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment