بنو نجّار کا اےک ذہےن و فطےن بچہ
حضرت زےد بن ثابت ؓ ان جلےل القدر صحابہ مےں سے ہےں جو اپنے زمانہ کے بڑے عالم اور مفتی شمار ہوتے تھے۔ جب نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ہجرت کرکے مدےنہ طےبہ تشرےف لائے تو اس وقت ےہ کم عمر بچے تھے دس گےارہ برس کے لگ بھگ۔ ہجرت سے پانچ برس قبل ےتےم ہوچکے تھے۔
آقائے نامدار جب مدےنہ منورہ پہنچے تو لوگ جوق درجوق اپنے آقا کی زےارت کے لئے آ رہے تھے اور کچھ نئے لوگ دامن اسلام کی ٹھنڈی چھاو ¿ں مےں قرار لےنا چاہتے تھے۔ لوگ خود بھی آرہے تھے اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لا رہے تھے۔ حضرت زےدؓ کہتے مجھے بھی آپ کے سامنے پےش کےا گےا اور ساتھ ہی ےہ بھی بتاےا گےا بنو نجّار کا ےہ بچہ بہت ذہےن و فطےن ہے اس نے محض اپنے شوق سے قرآن پاک کی سترہ سورتےں زبانی ےاد کر لی ہےں۔
حضور نے امتحان کے طور مجھے کچھ پڑھ کر سُنانے کا حکم دےا تو مےں نے سورہ قٓ آپ کو پڑھ کر سُنائی۔ رسولِ رحمت نے مےرا پڑھنا پسند فرماےا اور مےری تحسےن فرمائی۔
بچے کا دانش مندانہ جواب :
سےدنا سہل بن سعدؓ فرماتے ہےں کہ دربار رسالت میں اےک مرتبہ پانی لاےا گےا جو آپ نے نوش جاں فرماےا۔ کچھ پانی بچ گےا آپ نے اپنے دائےں بائےں دےکھا دائےں طرف اےک بچہ اور بائےں طرف قوم کے بڑے افراد بےٹھے ہوئے تھے تو آپ نے ارشاد فرماےا: بےٹا! اگر آپ کی اجازت ہو تو مےں آپ بائےں طرف جو بڑے لوگ (عمراور رتبے کے لحاظ سے) بےٹھے ہےں ان کو ےہ پانی دے دوں؟
سبحان اللہ العظےم ....وہ دانا، خوش قسمت اور بےدار معزز بچہ بولا : حضور! مےں آپ کے بچے ہوئے اس پانی کے لئے اپنے اوپر کسی کو ترجےح نہےں دے سکتا۔ آپ مسکرائے اور خوش دلی سے وہ پانی اس کے بچے کو دے دےا اور اس نے جام سعادت بڑے مزے سے پی لےا۔ (صحےح مسلم، کتاب الاشربہ)
دانائی نے اس بچے کو بڑے عظےم رتبے دلائے، آپ بڑی بڑی علمی مجالس مےں شرےک ہوتے اور بڑی شائستگی سے ہر بات کا جواب دےتے۔ آپ کو حضور نے اےک بار دعاو ¿ں سے نوازا تھا جس کی برکت سے اللہ نے آپ کو بلند مقام عطا فرما دےا۔ دنےا انہےں رےئس المفسرےن سےدنا عبداللہ بن عباس کے نام سے جانتی ہے۔
جنت مےں پہنچ جائے گا
شےخ سعدیؒ فرماتے ہےں کہ اےک رئیس زادے کی گفتگو اےک غرےب زادے سے ہوئی۔ رئیس کا بےٹا کہنے لگا دےکھو۔ ہمارے باپ کی قبر کےسی عمدہ اور مضبوط ہے اوراس پر شان وشوکت برس رہی ہے اور تمہارے باپ کی قبر کچی اور شکستہ ہے جوکہ بے بسی کی تصوےر بنی ہوئی ہے۔
غرےب زادے نے بڑے تحمل اور دانائی کے ساتھ جواب دےا بے شک ظاہر مےں ےہ فرق تو ہے لےکن اےک بات سُن لو کہ مےرے باپ کی قبر کچی ہے اور تمہارے باپ کی قبر پر اےنٹ اور پتھر لگے ہےں روزِ قےامت وہ تو اٹھ کر پتھر اور اےنٹےںہٹاتا رہے گا اور مےرا باپ اتنی دےر مےں بہ آسانی قبر سے نکل کر جنت مےں پہنچ جائے گا۔
ادب مانع رہا!
ادب مانع رہا!
سےدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہےں کہ اےک روز حضور نبی کرےم مسجد مےں جلوہ افروز تھے اور صحابہ ؓ آپ کی محفل مےں لطف اےماں پارہے تھے۔ باتوں باتوں مےں آپ نے ارشاد فرماےا : مجھے وہ درخت بتاو ¿ جو بندہ مومن کی مثل ہوتا ہے؟
صحابہ کرامؓ سوچنے لگے جنگلوں اور وادےوں مےں اپنے ذہن دوڑا نے لگے۔ سےدنا عبداللہ بن عمرؓ چھوٹے بچے تھے لےکن بہت عقل مند تھے فرماتے ہےں کہ مےرے دل مےں آےا کہ وہ درخت کجھور ہی کا ہو سکتا ہے لےکن مجلس مےں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ موجود تھے ان کی موجودگی مےں مجھے اس پہےلی کا جواب دےتے ہوئے حےا سی آ گئی اور مےں ادب کی وجہ سے خاموش رہا۔
بعد مےں صحابہ ؓ نے عرض کےا آقا! آپ ہی ہمےں بتلائےے آخر کون سا درخت ہے؟ رسول اللہ نے فرماےا وہ کجھور کا درخت ہے۔ پھر جب مےں اپنے ابا جان سےدنا عمر ؓ کے ساتھ محفل سے اٹھ کر جا رہا تھا تو مےں نے کہا ابا حان مےرے دل مےں تو اسی وقت اس پہےلی کا جواب آگےا تھا لےکن مےں ادب کی وجہ خاموش ہوگےا کےونکہ مےں کمسن تھا حےا کی وجہ سے بول نہ سکا۔ سےدنا عمرؓ نے فرماےا لےکن اگر تم اس موقع پر بتا دےتے تو مجھے بہت زےادہ مال ودولت پا لےنے سے بڑھ کر ےہ بات عزےز ہوتی ےعنی اس سے مجھے بے حد خوشی ہوتی۔
علماءو محدثےن نے لکھا ہے کہ کھجور کے درخت کی بندہ مومن سے مماثلت اور مشابہت کئی طرح سے ہے مثلاً : ٭ اس کے اعضا ٹوٹ کر نہےں گرتے دوسرے درختوں کی طرح ! ٭اور انسان کے اعضاءبھی پت جھڑکے موسم مےں نہےں گرتے۔ ٭کھجور کے درخت کے سارے اجزاءکارآمد ہوتے ہےں۔ ٭ انسان کے بھی سارے اعضاءکارآمد ہوتے ہےں۔ ٭اس کا ساےہ ہر موسم مےں رہتا ہے اور اس کا پھل بھی بہت لذےذ ہوتا اور ہر اےک کو پسند آتا ہے۔ ٭بندہ مومن کے کارخےر کا فائدہ ہمہ وقت پہنچتا ہے اس کی اطاعت شعاری اور مکارم اخلاق کی وجہ سے ہر آدمی اس سے محبت کرتا ہے۔
نےز ےہ بھی ہے کہ جب بندے کا سر کٹ جاتا ہے تو وہ زندہ نہےں رہتا۔ اےسے ہی جب کھجور کا سرکاٹ دےا جائے تو پھر وہ کبھی ہرا نہےں ہوتا۔ دوسرے درختوں کے برعکس، کہ ان کا سر تنے سے کاٹ بھی دےا جائے تو پھر بھی شاخےں اس کے اردگرد سے نکل آتی ہےں۔ ےاد رہے کہ اس مےں کچھ مماثلت تو اےسی ہے جو ہر انسان مےں پائی جاتی ہے اور جو بندہ مومن کے ساتھ وابستہ ہے وہ اس کے اچھے اخلاق، بہترےن عادات اور دےگر بعد نےک خصلتےں ہےں جن کی وجہ سے ےہ تشبےہ دی گئی ہے۔
دوسری بات جو حضرت عمرؓ نے اپنے بےٹے سے فرمائی کہ اگر تم اس کا جواب بتا دےتے تو مجھے دنےا کے خزانوں سے بھی زےادہ ےہ بات مجبوب ہوتی۔ تو اس فرمان مےں ےہ خوبی ہے کہ آپ دنےا کے خزانوں پر دےن کی بات کو فوقےت دے کر اپنے فرزند کو دےن کی قدر و قےمت سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ تربےت کے لحاظ سے ےہ بات بہت اہم ہے۔
نےز اولاد سے جب کوئی اےسا قابل رشک کام صادر ہو تو انسان کو اس سے دلی خوشی اور قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے اور پھر بھری محفل مےں ہو تو خوشی اور بڑھ جاتی ہے کہ ےہ صلاحےت سب کے سامنے آشکارا ہوئی ہے۔ اور پھر اس سے بھی زےادہ مزے کی بات ےہ ہے کہ اگر وہ صلاحےت آقائے دو عالم کے دربار پُربہار مےں ظاہر ہو اور آپ کی جناب سے شاباش کا تمغہ ملے اور دعاو ¿ں کے ساتھ مسکرانے کا تحفہ عطا ہوتا ہو تو پھر والدےن ہی کےا ، سارے جہان ہی اس پر رشک کرنے لگتے ہےں۔
کمال دانائی
ابو عبداللہ محمد بن اسماعےل بخاریؒ جنہوں نے حدےث کی کتاب صحےح بخاری لکھی ہے اور جنہےں دنےا امام بخاری کے نام سے جانتی ہے اللہ تعالیٰ نے انہےں بے حد قوت حافظہ ، ذہانت، عقل مندی اور دانائی سے نوازا تھا اپنی کمسنی مےں بصرہ کے مشائخ کے پاس جب آپ حدےث پاک کا سبق پڑھتے تھے تو اس کو لکھتے نہ تھے۔ اےک بار آپ کے ساتھےوں نے آپ نے کہا کہ آپ کچھ بھی نہےں لکھتے کےا وجہ ہے؟ تو آپ نے جواب دےا تمہارے پاس جو احادےث لکھی ہوئی ہےں تم وہ سناو ¿۔ انہوں نے وہ احادےث پڑھ کر سنا دےں ان مےں وہ احادےث بھی شامل تھےں جو ان کے ہاں لکھی ہوئی تھےں اور وہ بھی جو ان کے ہاں لکھی ہوئی نہ تھےں اس سے وہ سب طلبہ حدےث آپ کے کمال دانائی کی تحسےن کرنے لگے۔
امام بخاری ؒ جب سمرقند تشرےف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ کی دانائی اور قوت حافظہ کا امتحان لےنا چاہا اور اےک مجلس منعقد کی جس مےں بہت سے لوگ لوگ شرےک ہوئے، سامنے بےھٹے ہوئے دس آدمےوں نے آپ کو دس دس اےسی احادےث سُنائےں جن مےں کہےں سند مےں اور کہےں متن حدےث مےں تقدےم و تاخےر اور ترمےم کی گئی تھی۔ آپؒ نے وہ سب احادےث سُن کر پھر ان کا جواب دےنا شروع کےا تو لوگوں کی آنکھےں پھٹی کی پھٹی رہ گئےں۔ آپ کے جواب دےنے کا طرےقہ ےہ تھا کہ اولاً آپ اس آدمی کی سُنائی ہوئی دس احادیث کا ذکر فرماتے جس طرح تقدیم و تاخیر کے ساتھ اس نے سنائی تھیں پھر آپ ہر حدیث صحیح سند اور درست متن کے ساتھ سناتے جاتے۔ یوں اس مجلس میں آپ نے ان دس آدمیوں کی سنائی ہوئی کل سو احادےث پہلے اغلاط کے ساتھ پھر درست الفاظ کے ساتھ سنائےں جس پر سب حاضرےن دنگ رہ گئے۔
امام بخاری ؒ نے پہلی ہی بار سو احادےث ان لوگوں سے سنےں اور پھراسی ترتےب کے ساتھ انہےں سنا دےں۔ ےہ کتنی عجےب بات ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ دانائی کا بہت بڑا کمال ہے۔
مجھے ماں چاہئے !
حافظ ابن قےمؒ فرماتے ہےں کہ اےک ماں دروازے مےں کھڑی اپنے سات سالہ بچے کو مار رہی تھی بچہ بہت دانا تھا لےکن بہرحال اس سے کچھ غلطی ہوگئی تھی۔ مارتے مارتے ماں نے بچے کو دھکا دے کر گھر سے باہر نکال دےا اور کہنے لگی جا تو مےری بات نہےں مانتا مےرے گھر سے نکل جا، مےں اب تےری شکل نہےں دےکھنا چاہتی ےہ کہہ کر ماں نے گھر کا دروازہ بند کر لےا۔
بچہ کچھ دےر وہاں بےٹھ کر روتا رہا پھر وہاں سے اٹھ کر چل دےا جےسے اب کہےں انجانی منزلوں کی جانب جانا چاہتا ہو لےکن گلی کی نکڑ تک جا کر کچھ سوچ کر وہ واپس لوٹ آےا اور ماں کے دروازے پر آکر بےٹھ گےا اور وہےں روتے روتے سوگےا کافی دےر گزرنے کے بعد ماں نے کسی ضرورت سے دروازہ کھولا تو دےکھا کہ اس کا بچہ دہلےز پر سر رکھ کر سو رہا ہے ۔ اس نے بچے کو بالوں سے پکڑ کر اٹھاےا اور غصے مےں کہنے لگی : اٹھ جا ےہاں سے، اور مےری نظروں سے دور ہو جا! ماں کی بات سُن کر بچہ پھر بلک بلک کر رونے لگا اور نہاےت دانش مندی سے کہنے لگا امی جان ! آپ نے دھکا دے کر جب گھر سے مجھے نکال دےا تو مےں ےہ سوچ کر ےہاں سے چل پڑا کہ مےں واقعی ےہاں سے چلا جاتا ہوں کہےں جا کر محنت مزدوری کرکے پےٹ بھر لےا کروں گا اور رات کے وقت کہےں سو جاےا کروں گا لےکن تمہےں ماں نہےں ملے گی، ےہ سوچ کر مےں واپس آ گےا ہوں۔ مجھے اب کہےں نہےں جانا بس مجھے ماں کے قدموں مےں رہنا ہے۔ تم مجھے معاف کر دو ماں ! مےں نے تمہارے پاس ہی رہنا ہے۔
ماں نے ےہ سوچا کہ اب اسے سمجھ آگئی ہے اور غلطی کا احساس بھی ہو رہا ہے تو اس کی ممتا غالب آ گئی اُس نے آگے بڑھ کر اپنے لخت جگر کو سےنے سے لگا لےا اور نہ صرف اسے معاف کر دےا بلکہ خوش ہوکر اسے گھر مےں لے آئی اور کہنے لگی کہ اب خوشی خوشی ےہاں رہو تمہارے اس اچھے جواب کیوجہ سے مےں تم پر راضی ہوں، تم بہت سمجھ دار ہو اللہ تمہےں سدا سلامت رکھے!
زندگی مےں نہاےت سمجھ داری سے کام لو اور ہمےشہ والدےن و اساتذہ کی فرماں برداری کرتے رہو اور اگر غلطی ہو جائے تو عقلمندی کا تقاضا ےہی ہے کہ معافی مانگنے مےں دےر نہ کرو۔ اور اگر ماں باپ غصے مےں کچھ کہہ بھی دےں تو ےہ مت جانو کہ وہ دل سے تم سے نفرت کرتے ہےں ےہ سمجھنا بہت بڑی خطا ہے اور جو بچے گھر سے ےا والدےن سے روٹھ کر بھاگ جاتے ہےں خوب جان لوکہ زندگی ہمےشہ کے لئے ان سے روٹھ جاتی ہے پھر انہےں کہےں اطمےنان نہےں ملتا۔
کتاب سے محبت
بخارا کا اےک بادشاہ کسی بےماری مےں متبلا ہوگےا۔ شاہی طبےب نے اس کا بہت علاج کےا لےکن مرض کی شدت مےں کمی نہ آئی چنانچہ پورے ملک مےں ےہ اعلان کروا دےا گےا کہ جو شخص بادشاہ کا علاج کرنے مےں کامےاب ہو جائے اسے منہ مانگا انعام دےا جائے گا۔ اس اعلان پر بھی بہت سے اطباءآئے اور بادشاہ کا علاج معالجہ کےا لےکن کسی کو کامےابی نہ ہوئی آخر اےک روز سترہ سالہ ایک نوجوان شاہی دربار مےں حاضر ہوا اور بادشاہ کا علاج معالجہ کرنے کی خواہش ظاہرکی۔
مصاحبےن اور خود بادشاہ نے ازراہِ تعجب کہا : مےاں! ابھی تم بہت چھوٹے ہو ےہاں بڑے بڑے حکماءآئے لےکن ناکام لوٹے۔ ےہ سُن کر وہ لڑکا بولا : مےں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ کوئی مرض لاعلاج نہےں ہے۔
ےہ سن کر اسے بادشاہ کا علاج کرنے کی اجازت مل گئی ادھر علاج شروع ہوا اُدھر بادشاہ کے مرض مےں روز بروز کمی آنا شروع ہوگئی ےوں چند ہی روز بعد بادشاہ تندرست ہوگےا اور صحت پا لےنے کے سبب اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
بادشاہ اس طبےب لڑکے سے مخاطب ہو کر بولا : تم نے ہمارا علاج کےا اور تمہاری درست تشحےص اور موزوں تجوےز سے اللہ نے مجھے شفا عطا کردی اب جی مےں جو آئے وہ ہم سے مانگو! بہت سے مال و دولت کے علاوہ تمہاری ہر خواہش کو بھی پورا کےا جائے گا۔ دربار مےں موجود لوگ سوچ رہے تھے کہ اس لڑکے کو بہت اچھا موقع ہاتھ آےا ہے اب ےہ بہت سے ہےرے جواہرات مانگے گا ےا سلطنت کا کچھ حصہ لےنے کا مطالبہ کرے گا لےکن جب اس دانا لڑکے نے اپنی خواہش کا اظہار کےا تو درباری حےران رہ گئے۔ لڑکا بولا:
بادشاہ سلامت ! مجھے اچھی کتابوں سے بہت محبت ہے مےری خواہش ہے کہ آپ شاہی لائبرےری سے چند ناےاب اور عظےم کتابےں مجھے پڑھنے کے لئے دے دےں۔ بادشاہ اس کے جواب سے بہت خوش ہوا اور اس کی خواہش کو بصد اکرام پورا کےا۔ اس دانا بچے کو اللہ تعالیٰ نے بعد مےں بڑی عزت و شہرت عطا کی! وہ دانا بچہ علم طب کا عظےم اور نامور ستارہ تارےخ کے روشن درےچوں مےں بو علی سےنا کے نام سے ےاد کےا جاتا ہے۔
ےہ روشنی کہاں سے واپس آرہی ہے؟
خواجہ حسن بصری تابعےن مےں سے ہےں اور خاصے معروف بزرگ ہےں، فرماتے ہےں اےک شام ڈھلے مےں نے اےک بچے کو دےکھا کہ وہ شمع دان اٹھائے جا رہا ہے جس مےں شمع روشن کرکے رکھی ہوئی تھی مےں نے اسے روک کر پوچھا: بےٹا! کےا تم ےہ بتا سکتے ہو کہ ےہ روشنی کہاں سے آ رہی ہے؟
بچے نے جب مےرا سوال سُنا تو اےک لمحہ خاموش ہو کر سوچنے لگا اور پھر اس نے شمع کو بجھا دےا اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا: چچا جان ! آپ مجھے ےہ بتا دےجئے کہ روشنی اب کہاں چلی گئی ہے تو مےں آپ کو بتا دوںگا کہ ےہ روشنی کہاں سے آ رہی تھی۔ خواجہ حسن بصری ؒ فرماتے ہےں کہ اس عقل مند بچے کے جواب نے مجھے لاجواب کر دےا۔ اگر غور کےا جائے تو بسا اوقات اسی سوال مےں جواب بھی چھپا ہوتا ہے جوکہ ذرا سی سوچ و بچار کے بعد سامنے آ جاتا ہے اور مشکل آسان ہو جاتی ہے اور ےوں دانائی کی اےک اےک بات دل پہ نقش کرتے کرتے انسانی دل سنہرے نقوش سے تابندہ ہو جاتا ہے اور زندگی تانباک بن جاتی ہے۔
لڑکے مجھے کچھ نصےحت کرو!
حضرت عبداللہ بن مبارک بڑے مشہور تابعی، عظےم محدث، نامور مجاہد اور اسلامی تارےخ کے اےک روشن ستارے ہےں۔ فرماتے ہےں کہ اےک روز مےں نے جنگل مےں اےک لڑکا دےکھا دل مےں خےال سا گزرا کہ شاےد ےہ لڑکا اہل علم کی صحبت مےں نہےں بےٹھتا اور بغےر علم کے تو آدمی اپنے خالق کو بھی پہچان نہےں پاتا لہٰذا ےہ اپنے رب کرےم کو کےسے پہچانے گا؟ آپ نے اسے قرےب بلا کر پوچھا: بےٹا! تم نے کچھ علم بھی پڑھا ہے؟ اس نے جواب دےا : مےں چار قسم کا علم جانتا ہوں۔
٭ سرکا علم، ٭ کانوں کا علم، ٭....زبان کا علم ! اور ٭ دل کا علم !
اور پھر اس کی تفصےل ےوں بےان کی ک سر اللہ کرےم کے سامنے جھکانے کے لئے ہے۔کان اس کا کلام سننے کے لئے ہےں۔ زبان اس کے ذکر کی خاطر ہے۔ اور دل اس کی ےاد بسانے کے لئے ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہےے کہ وہ کسی بھی وقت ان چےزوں کا حق ادا کرنے سے غافل نہ رہے۔
لڑکے کی ان باتوں پر حضرت عبداللہ بن مبارک حےرت مےں پڑگئے اور پھر اسے مارنے لگے لڑکے! تم مجھے کچھ نصےحت کرو!
وہ بولا : شےخ! آپ مجھے عالم معلوم ہوتے ہےں، اگر آپ نے علم اللہ کے لئے پڑھا ہے تو مخلوق سے کسی بات کی امےد اور لالچ نہ رکھےں اور اگر مخلوق کے لئے پڑھا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس پر کسی چےز ےا اجر کی امےد نہ رکھےں۔
انگوٹھی کا نگےنہ
ایک مرتبہ خلےفہ معتصم باللہ گھوڑے پر سوار ہو کر خاقان کی عےادت کو تشرےف لے گئے۔ اس وقت فتح بن خاقان بالکل بچہ تھا۔ معتصم باللہ نے اس سے پوچھا کہ بتاو ¿ : امےرالمومنےن کا گھر اچھا ہے ےا تمہارے والدکا؟
بچے نے جواب دیا : جب امیر المومنین میرے والد کے گھر میں ہوں تو میرے والد کا گھر اچھا ہے ورنہ امیر المومنین کا۔
اس کے جواب سے خوش ہوکر امےرالمومنےن نے چاہا کہ اس سے کچھ اور بھی پوچھا جائے۔ امےر المومنےن نے اس بچے کو اپنی انگوٹھی دکھاتے ہوئے پوچھا بتاو ¿ کہ تم نے اس سے بہتر کوئی چےز دےکھی ہے؟
بچے نے جواب دےا بالکل اس سے بہتر چےز مےں نے دےکھی ہے۔
بادشاہ نے کہا کون سی چےز؟
بچہ بولا : وہ انگلی جس مےں ےہ انگوٹھی ہے۔
معتصم باللہ نے اس عقل مند بچے کے گال تھپتھپائے اور اس کے جواب پر دےر تک مسکراتا رہا۔
مےں کےسے ڈوب سکتا ہوں؟
ہندوستاں مےں اےک رےاست کے ہندو راجہ کا انتقال ہوگےا اس کی اولاد مےں اےک نابالغ بچہ تھا جو اس کا جانشےن ہونا چاہےے تھا۔ مرنے والے کے بھائی کو طمع ہوئی کہ رےاست مجھے ملنی چاہےے بچہ اس کو نہےں چلا سکتا۔ وزراءرےاست کی خواہش تھی کہ ےہ بچہ ہی اپنے باپ کی رےاست کا وارث بنے۔ معاملہ بادشاہ وقت اورنگزےب عالم گےر کی خدمت مےں پےش ہونا تھا۔
وزراءاس بچہ کو لے کر دہلی پہنچے اور راستہ مےں بچے کو کچھ باتےں اور جوابات سکھاتے رہے کہ ہو سکتا ہے بادشاہ تم سے ےہ سوالات کرے لہٰذا پہلے سے ہی تمہارے علم مےں ہونے چاہئےں۔ بچے نے ان سے کہا کہ ےہ جوابات تو مےں نے ےاد کر لئے ہےں بادشاہ سلامت نے ان کے علاوہ کوئی سوال کر ڈالا تو کےا ہوگا؟ وزراءنے کہا اب ہمےں کچھ فکر نہےں جس کے ذہن مےں ےہ سوال پےدا ہو سکتا ہے اس کو جواب بھی اللہ تعالیٰ خود ہی سکھلا دے گا۔ جب ےہ لوگ دربار مےں پہنچے تو دربار برخواست ہو چکا تھا اور بادشاہ عالم گےر اپنے محل مےں جا چکے تھے جب انہےں ان کی آمد کی اطلاع دی گئی تو آپ نے اس بچے کو اندر ہی بلوا لےا خود تہبند باندھے تالاب مےں نہانے لگے تھے کہ بچہ وہاں حاضر ہوگےا۔ بادشاہ سلامت نے خوش طبعی کے طور پر بچے کے دونوں بازو پکڑ کر تالاب کی طرف اٹھا کر فرماےا: ڈال دوں تالاب مےں؟ بچہ ےہ سن کر ہنس پڑا اور عرض کرنے لگا کہ آپ کی ذات تو اےسی ہے کہ جس کی اےک انگلی پکڑ لےں اس کو کوئی درےا غرق نہےں کر سکتا مےرے تو دونوں بازو آپ نے تھامے ہوئے ہےں مےں کےسے تالاب مےں ڈوب سکتا ہوں؟ بادشاہ عالم گےر اس کی دانائی سے بھری اس بات پر بہت خوش ہوئے اور رےاست اس کے نام لکھ دی۔
چھوٹی لکڑےاں پہلے جلاتی ہےں
حضرت عبداللہ بن واسان فرماتے ہےں کہ مےں نے بصرہ کے بازار مےں اےک لڑکے کو دےکھا جوکہ رو رہا تھا۔
مےں نے اس سے پوچھا بےٹا! کےوں روتے ہو؟
وہ بولا: دوزخ کی آگ سے ڈر کر روتا ہوں۔
مےں نے کہا: تم تو کمسن ہو تمہےں دوزخ کی آگ کا کےا ڈر؟
وہ بولا : مےں نے اپنی ماں کو دےکھا ہے کہ جب وہ آگ جلاتی ہےں تو بڑی لکڑےاںکوجلانے کے لئے چھوٹی چھوٹی لکڑےاں پہلے جا کر ان مےں رکھتی ہےں اس لئے مےں بھی ڈرتا ہوں کہےں بڑے بڑے نافرمانوں کو جلانے کے لئے مجھ جےسے چھوٹوں کو پہلے آگ مےں نہ ڈال دےا جائے۔ فرماتے ہےں مےں اس کی باتوں سے بہت حےران ہوا کہ اس عمر مےں ماشاءاللہ کس قدر دانائی اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرما دی ہے۔
سب سے چھوٹا امام!
سےدنا عمرو بن سلمہؓ فرماتے ہےں کہ ہم لوگ مدےنہ طےبہ کے راستے مےں اےک جگہ سکونت رکھتے تھے آنے جانے والے راہ گےر ہمارے پاس سے گزرتے تھے جو لوگ مدےنہ طےبہ کی طرف سے آتے ہم ان سے حالات پوچھتے تو وہ بتاتے کہ اےک نئے نبی کا ظہور ہوا ہے وہ ہمےں اس طرح کی باتےں بتاتے ہےں نےز ان پر وحی آتی ہے اور اس طرح کی آےات وہ سناتے ہےں۔ فرماتے ہےں کہ مےں بڑی دلچسپی سے وہ آےات پوچھتا، سُنتا اور ےاد کر لےتا اس طرح مےں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی بہت سا قرآن پاک ےاد کر لےا۔ ےہاں تک کہ مکہ مکرمہ فتح ہوگےا بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لےا اور اردگرد کے قبائل کے لوگ بھی مسلمان ہوگئے مےرے والد بھی چند آدمےوں کے ہمراہ ساری قوم کی طرف سے نمائندہ بن کر رسول کرےم کے پاس حاضر ہوئے اور دےن اسلام کے پےروکار بن گئے۔ ان مےں سب سے کمسن مےں ہی تھا۔ اللہ کے پےارے اور آخری رسول حضرت محمد نے ہمےں اسلام کے بہت سے احکام سکھائے اور نماز کی تعلےم بھی دی اور فرماےا جو تم مےں سب سے زےادہ قرآن جانتا ہو اسے اپنا امام بنا لےنا۔ لہٰذا جب سب سے سُنا گےا تو مےں نے سب سے زےادہ سُناےا لہٰذا مجھے امام بنا لےا گےا حالانکہ مےں سب سے چھوٹا تھا لےکن اللہ تعالیٰ نے مجھے عقل و فہم، قوت حافظہ سے نوازا تھا اور مےں نے اسے اچھی راہ پر خرچ کےا اس وجہ سے مجھے سب پر فوقےت مل گئی۔
شاباش ! اے طفلِ ذی قدر!
سےدنا عبداللہ بن ز بےرؓ اپنے بچپن کے زمانہ مےں اےک دن اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھےل رہے تھے اُدھر سے حضرت عمرفاروقؓ کا گزر ہوا آپ کو دےکھتے ہی سب لڑکے بھاگ گئے مگر عبداللہ بن زبےرؓ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔
حضرت عمرؓ نے ان کی ےہ جرا ¿ت مندی دےکھ کر پوچھا:
دوسرے بچوں کی طرح تم کےوں نہےں بھاگے؟
عبداللہ بن زبےر ؓ عام بچوں کی طرح نہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہےں بڑی فہم و دانش سے نوازا تھا آپ نے ادب ملحوظ خاطر رکھا اور جرا ¿ت سے جواب دےا : مےں نے کوئی جرم نہےں کےا کہ بھاگ جاتا اور نہ راستہ اس قدر تنگ تھا کہ آپ کے لئے چھوڑ کر مےں وہاں سے ہٹ جاتا۔ حضرت عمرؓ ےہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے، شاباس دی اور اپنے سےنے سے لگا کر ڈھےروں دعائےں دےں۔
ایک دفعہ دور نبوی مےں انہوں نے مدےنہ طےبہ کے چند بچوں کو جمع کےا اور ان سے کہنے لگا جس طرح لوگ حضور سے بےعت کرتے ہےں آو ¿ ہم بھی چل کر آقا سے بےعت کرتے ہےں۔ چنانچہ بچوں کی قےادت کرتے ہوئے آپ کے پاس پہنچے آپ نے انہےں شفقت و رحمت کی نگاہوں سے دےکھا۔ انہوں نے عرض کےا:
پےارے آقا! ہم آپ سے بےعت کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہےں باقی شرم کے مارے کھسک گئے لےکن ےہ کھڑے رہے رسول رحمت حضرت محمد مصطفیٰ نے فرماےا: اپنا ہاتھ آگے بڑھاو ¿ چنانچہ عبداللہ بن زبےرؓ نے اپنا ہاتھ حضور نبی کرےم کے ہاتھ پر رکھ دےا، آپ نے پےار سے انہےں فرماےا۔ .... اَنتَ ابنُ اَبِےکَ .... تو اپنے باپ ہی کا بےٹا ہے ےعنی تو اپنے باپ پرگےا ہے، مراد ےہ تھی کہ اُن جےسی صفات تجھ مےں بھی موجود ہےں۔ ان کے والد حضور نبی کرےمکے پھوپھی زاد بھائی سےدنا زبےر بن العوامؓ تھے جوکہ عشرہ مبشرہ مےں بھی شامل ہےں بڑے دل صاحب اوصاف، دانا، بہادر اور جی دار شخصےت کے حامل تھے۔
تم ٹھےک کہہ رہے ہو!
سےدنا سنان بن مسلمہ ؓ جوکہ بڑے ہوکر بحرےن کے اےک عرصہ تک گورنر بھی رہے۔ اپنے بچپن کا واقعہ خود ہی بےان فرماتے ہےں کہ مدےنہ منورہ مےں اےک دفعہ ہم سب جولی مل کر کھجورےں چُن رہے تھے کہ اچانک امےر المومنےن سےدنا عمرؓ اس جانب تشرےف لے آئے۔
آپ کو اپنی جانب دےکھ کر سب لڑکے بکھر گئے لےکن مےں اپنی جگہ پر کھڑا رہا امےر المومنےن جب مےرے بالکل قرےب آئے تو نے اپنے دماغ سے کام لےتے ہوئے ذرا آگے بڑھ کر عرض کےا، دےکھئے ! مےں نے تو صرف وہی کھجورےں چُنی ہےں جو خود بخود تےز ہَوا چلنے سے گری ہوئی تھےں۔
حضرت عمرؓ بولے: تم اپنی کھجورےں دکھاو ¿ مجھے پتہ چل جاتا ہے چنانچہ آپ نے جھک کر مےری گود مےں دےکھا اور فرماےا: سمجھ دار بچے ! تم ٹھےک کہتے ہو۔ ےہ کہہ کر آپ جانے لگے تو مےں نے کہا امےر المومنےن، مجھے ڈر ہے کہ آپ کے جانے کے بعد بچے مجھ پر جھپٹےں گے اور مےری کھجورےں چھےن کر بھاگ جائےں گے۔ ےہ سُن کر آپ نے مجھے اپنے ساتھ لے لےا اور محفوظ جگہ پہنچا کر لوٹ گئے۔
ہم کھےل کے لئے پےدا ہوئے ہےں؟
حضرت بہلول ؒ فرماتے ہےں کہ مےں اےک مرتبہ بصریٰ کی اےک سڑک پر جا رہا تھا راستے مےں چند لڑکے اخروٹ کھےلنے مےں مصروف تھے۔ قرےب ہی اےک لڑکا رو رہا تھا مےں نے سوچا شاےد اس کے پاس اخروٹ نہےں ہےں جس کے باعث ےہ رو رہا ہے۔
مےں نے اس بچے سے ہمدردی کے لہجے مےں پوچھا: بےٹا ! شاےد تم اخروٹ نہ ہونے کی وجہ سے رو رہے ہو....آو ¿ ! پےارے بچے! مےں تمہےں اخروٹ لے دوں تاکہ تم بھی ان بچوں کے ساتھ کھےل سکو۔ وہ بچہ بظاہر خاموش کا تھا لےکن بہت گہری سمجھ بوجھ رکھنے والا تھا....!
وہ بولا: چچا جان ! کےا ہم کھےل کے لئے پےدا ہوئے ہےں؟
مےں نے کہا : بیٹا! تم ہی بتا دو! پھر ہم کسی لئے پیدا ہوئے ہیں۔
بچے نے کہا : علم حاصل کرنے اور اللہ کی عبادت کی خاطر پےدا ہوئے ہےں۔ مےں نے کہا، اللہ تجھے بڑا آدمی بنائے تُو نے ےہ بات کہاں سے سےکھی؟ وہ کہنے لگے.... اس ارشاد باری تعالیٰ سے....!
کےا تم ےہ گمان رکھتے ہو کہ تمہےں ہم نے بے کار پےداکر دےا ہے اور ےہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہےں آو ¿ گے ؟ (سورہ مومنون : آےت : 115)
مےں نے کہا : بےٹا ! ابھی تمہاری عمر بہت تھوڑی ہے اور تمہےں ابھی سے آخرت کی فکر لگی ہوئی ہے اور ےہ تم رو کےوں رہے ہو ؟ تو اس نے کہا چچا: جان! مےں نے اپنی والدہ کو ہمےشہ دےکھا ہے کہ وہ جب آگ جلاتی ہےں تو سب سے پہلے چھوٹی چھوٹی لکڑےاں رکھ کر تےل چھڑکتی ہےں اور پھر پہلے ان کو آگ لگتی ہے بعد مےں بڑی لکڑےوں کو .... اس لئے مجھے ےہ خوف ہے کہ جہنم کی آگ مےں چھوٹی لکڑےوں کے طور پر کہےں مجھے نہ جلاےا جائے۔
حضرت بہلول فرماتے ہےں کہ مےں نے بچے سے کہا تم مجھے کوئی نصےحت کی بات بتاو ¿ تو اس نے فکرآخرت اور اصلاح نفس والے چند اشعار پڑھ کر سنائے اور چل دےا ۔ مےں نے ارد گرد کھےلتے بچوں سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتاےا کہ ےہ بچہ سےدنا حسےنؓ کی اولاد مےں سے ہے۔ فرماےا مےں خود سوچ رہا تھا کہ ےہ پھل کسی شاندار درخت ہی کا ہو سکتا ہے۔
ہم تمہےں وہ صندوق دے دےں گے!
ےہ اس وقت کی بات ہے جب امام محمد بن ادرےس شافعی ؒ کی عمر چھ برس تھی وہ مدرسے جاےا کرتے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ اولادِ بنی ہاشم مےں سے تھےں وہ بڑی عبادت گزار اور امانت دار تھےں لوگ اپنی امانتےں ان کے پاس رکھواےا کرتے تھے۔ اےک دن دو آدمی ان کے پاس اےک صندوق بطورِ امانت رکھوا کرگئے۔ چند دن کے بعد ان مےں سے اےک شخص آےا اور وہ صندوق مانگنے لگاآپ نے اسے وہ صندوق دے دےا۔ دوسرے دن دوسرا آگےا اور اسی صندوق کا تقاضا کرنے لگا انہوں نے کہا وہ صندوق تو تمہارا ساتھی کل لے گےا تھا۔
اس شخص نے کہا: ہم نے تو آپ سے ےہ کہا تھا کہ جب تک ہم دونوں نہ آئےں صندوق نہ دےجئے گا وہ بولےں بے شک ےہ تو کہا تھا۔ اس نے کہا: تب پھر آپ نے وہ صندوق اس کو کےوں دے دےا اس کی ےہ بات سُن کر امام شافعی کی والدہ پرےشان ہوگئےں اور سوچنے لگےں کہ کےا کےا جائے؟ اسی دوران مدرسہ سے چھٹی کے وقت امام شافعی تشرےف لے آئے انہوں نے والدہ سے پوچھا: آپ اس قدر پرےشان کےوں ہےں؟ اس پر ان کی والدہ نے سارا قصہ کہہ سناےا۔
آپ نے کہا: پرےشان نہ ہوں مےں اس سے بات کرتا ہوں۔ پھر اس شخص کی جانب متوجہ ہو کر فرماےا: تم اپنے ساتھی کو اپنے ہمراہ لے آو ¿ تاکہ شرط کے مطابق وہ صندوق تم دونوں کے حوالے کےا جا سکے۔ آپ کی ےہ بات سن کر اس کے طوطے اڑ گئے۔ وہ دوسرے ساتھی کو کےوں اور کےسے اپنے ہمراہ لا سکتا تھا وہ تو ملی بھگت سے چاہتے تھے کہ ہمےں شاےد کچھ اور مال مل جائے گا لےکن ےہ جواب سن کر بس وہ اپنا سا منہ لے کر لوٹ گےا۔
دانائی جس پر نثار تھی
امام محمد بن ادرےس شافعی ؒ کو اللہ کرےم نے بے شمار خداداد صلاحتےوں سے نوازا تھا ان کے فہم و ذکا نے انہےں علم کا متلاشی بنا دےا تھا، پھر شوق علم نے انہےں شہروں شہروں پھراےا۔ خود فرماتے ہےں کہ مےری عمر جب چودہ برس تھی مےں مکہ مکرمہ سے مدےنہ منورہ کی جانب روانہ ہوا۔آٹھوےں دن عصر کے وقت کے وقت شہر مدےنہ مےں ہمارا داخلہ ہوا مسجد نبوی مےں نماز پڑھی، پھر آقا علےہ السلام کی قبر اطہر کے سامنے حاضری دی اور درود و سلام پڑھا۔ بعدازاں اےک بڑے تعلےمی حلقے مےں امام مالکؒ دکھائی دےئے جو بڑے باوقار انداز مےں بآواز بلند حدےث کا سبق پڑھا رہے تھے ان کے الفاظ ےہ تھے مجھ سے نافع نے سےدنا ابن عمرؓ کے واسطے سے اس قبر شرےف کے مکےن (حضرت محمد) سے رواےت کےا۔ ےہ کہہ کر انہوں نے اپنا ہاتھ پھےلا کر قبر شرےف کی طرف اشارہ کےا۔
ےہ نظارہ دےکھ کر امام مالک کی ہےبت مےرے دل پر چھا گئی اور اس حلقے مےں جہاں جگہ ملی وہےں بےٹھ گےا ۔ مےرے پاس قلم دوات اور کاغذ تو تھا نہےں جب امام مالک نے درس حدےث شروع کےا تو مےں نے جلدی سے اےک تنکا اٹھا لےا۔ اس تنکے کو اپنے لعاب دہن مےں تر کرکے اپنی ہتھےلی پر لکھتا رہا امام مالک مےرا ےہ عمل دےکھ رہے تھے مگر مجھے خبر نہ تھی آخر مجلس علم ختم ہوگئی اور سب طلبہ چلے گئے لےکن مےں بےٹھا رہا آپ نے مجھے اشارے سے بلاےا۔ مےں قرےب پہنچا تو کچھ دےر بڑے غور سے مجھے دےکھتے رہے پھر فرماےا:....
حرم کے رہنے والے ہو؟
مےں نے عرض کےا جی ہاں !
فرمانے لگے : قرےشی ہو؟ عرض کےا، جی ہاں!
فرماےا: شرافت و وقار اور حصول علم کے سب اوصاف تو پورے ہےں مگر تم مےں اےک بے ادبی بھی ہے وہ ےہ کہ رسول اللہ کی احادےث مبارکہ سنا رہا تھا اور تم تنکا لئے کھےل رہے تھے۔ مےں نے عرض کےا کا غذ مےرے پاس نہےں تھا اس لئے جو کچھ آپ سے سنتا تھا اسے ہتھےلی پر لکھتا جاتا تھا۔ اس پر امام مالک نے مےرا ہاتھ اپنے سامنے کرکے دےکھا اور فرماےا: پر تو کچھ بھی نہےں لکھا ہوا۔ مےں نے عرض کےا جی ہاں ےہ سچ ہے کہ ہاتھ پر لعاب باقی نہےں رہتا لےکن آپ نے جتنی حدےثےںسنائی ہےں مجھے سب ےاد ہو چکی ہےں۔
امام مالک کو تعجب ہوا، فرمانے لگے سب نہےں! صرف اےک ہی سنا دو! مےں نے فوراً انہی کے انداز مےں سنانا شروع کر دےا۔ ہم سے مالک نے نافع اور ابن عمرؓ کے واسطے سے اس قبر شرےف کے مکےن (حضرت محمد) سے رواےت کےا ہے۔ اور امام مالک ہی کی طرح مےں نے بھی ہاتھ پھےلا کر قبر شرےف کی طرف اشارہ کےا پھر وہ پوری 25 حدےثےں سنا دےں جو انہوں نے اپنے بےٹھنے کے وقت سے مجلس کے اختتام تک سنائی تھےں۔ آپ بہت خوش ہوئے مجھے شاباش دی، مےری ذہانت کو خوب سراہا اور مجھے اپنے ہاں ٹھہرا کر دوران سبق خصوصی توجہ سے نوازا۔ ےوں مےں امام مالک کے ہاں آٹھ مہےنے رہا اور آپ کی جمع کردہ احادےث کی کتاب (موطا امام مالک) مےں نے ساری حفظ کر لی۔
اےام حج کے بعد مدےنہ طےبہ کی زےارت کرنے اور موطا سُننے کے لئے مصر کے لوگ شہر مدےنہ مدےنہ آئے۔ مےں نے ان مصرےوں کو اور ان کے بعد آنے والے عراقےوں کو مذکورہ کتاب حدےث پوری پڑھائی۔ اےک روز قبر شرےف اور منبر کے درمےان مجھے اےک نوجوان دکھائی دےا، صاف ستھرے کپڑے پہنے کھڑا تھا اس کی نماز بھی اچھی تھی اور حرکات و سکنات بھی خوب شائستہ۔ مےں نے اس سے نام پوچھا اور علےک سلےک کی جس سے معلوم ہوا کہ وہ کوفہ کا باشندہ ہے۔
مےں نے اس سے پوچھا: کوفہ مےں کتاب و سنت کا بڑا عالم و مفتی کون ہے؟
اس نے جواب دےا: ابو ےوسف اور محمد بن حسن۔ (یہ دونوں امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں) ۔
ےہ سُن کر مےرے دل مےں عراق جانے کا شوق پےدا ہوا تو مےں نے امام مالک کے پاس آکر اپنا ارادہ ظاہر کےا انہوں نے حصول علم کے لئے مےری ہمت افزائی کی اور زاد سفر کا انتظام کرکے مجھے رخصت کرنے کے لئے علی الصباح جنت البقےع تک آئے۔ حاجےوں کے اےک قافلے کے ساتھ چوبےس دن مےں کوفہ پہنچا، وہاں مسجد مےں عصر کے وقت اپنے زمانے کے بڑے علماءامام محمد بن حسن اور امام ےوسف سے ملاقات ہوئی۔ مےری گفتگو سے انہوں نے اندازہ کر لےا کہ ےہ نوجوان صاحب علم ہے نےز محمد حسن نے اثنائے گفتگو ےہ بھی درےافت کےا کہ امام مالک کو تم نے دےکھا ہے؟ مےں نے کہا جی ہاں! امام مالک ہی کے پاس سے آ رہا ہوں۔
پوچھا ان کی کتاب موطا بھی دےکھی ہے؟
مےں نے کہا جی ہاں! حفظ بھی کر چکا ہوں۔
محمد بن حسن ؒ اس پر متعجب ہوئے، اس وقت لکھنے کا سامان طلب کےا اور اےک بڑے کاغذ پر فقہ کے دو مسئلے لکھ کر مےری طرف بڑھاتے ہوئے بولے ان مسائل کا جواب موطا کے حوالے سے تحرےر کرو۔ مےں نے جواب لکھ کر آپ کے سامنے پےش کر دئےے جوکہ انہوں نے درست قرار دےے۔ اس کے بعد امام محمد بن حسن نے مےری بہت قدر افزائی کی، اچھی سواری پر اپنے گھر لے آئے اور اےک ہزار درہم کا قےمتی جوڑا مجھے پہناےا، اور اپنے کتب خانہ سے اپنے استاد امام اعظم ابوحنےفہ کی تالےف نکال کر دی جسے مےں نے رات کو ےاد کرنا شروع کر دےا اور صبح ہونے سے پہلے مجھے حفظ ہو چکی تھی، پھر کےا تھا، ےکے بعد دےگرے اللہ تعالیٰ نے ڈھےروںکامرانےاں مےرے قدموں پر نثار کر دےں۔
اس پر اللہ کے نبی بہت خوش ہوئے
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مسجد نبوی مےں تشرےف فرما تھے آپ نے اےک صحابی کو اپنے قرےب بلا کر فرماےا : تمہاری بےٹی کا رشتہ مطلوب ہے وہ بولے : آقا کی بات سر آنکھوں پر .... اس سے بڑی خوش قسمتی مےرے لئے اور کےا ہوگی ےہ تو آپ کی عناےت ہے۔ آپ نے ارشاد فرماےا مجھے آپ کے اچھے جذبات دےکھ کر خوشی ہو رہی ہے لےکن اپنے لئے نہےں مےں نے جُلَےبِےبؓ کے لئے ےہ رشتہ مانگا ہے۔ وہ بولے : تو پھر مےں بچی کی ماں سے مشورہ کرکے بتاتا ہوں۔ ےہ کہہ کر وہ اپنے گھر کی جانب چل پڑے۔ گھر پہنچ کر اپنی اہلےہ سے بات کی تو وہ کہنے لگےں ہم نے تو فلاں کا رشتہ بھی قبول نہےں کےا تھا کہ ہماری بچی اتنی سمجھ دار اور خوبصورت ہے اور ےہ تو کالے رنگ کے اور قبول صورت آدمی ہےں۔ ابھی ےہی کہا تھا کہ ان کی دانا بچی جو پس دےوار ےہ باتےں سن رہی تھی.... بولی : امی جان! مجھے حضور کا بھیجا ہوا رشتہ منظور ہے چاہے وہ کیسا ہی ہو، بس آپ حضور کی بات کو رد نہ کرےں۔ وہ صحابی رحمت دوعالم کے پاس آئے اور ساری بات کہہ سنائی تو آپ اس دانا بچی کی باتوں پر بہت خوش ہوئے اور اسے ڈھےروں دعائےں دےں۔
دانائی کامران ہوتی ہے
سپہ سالار حضرت محمد مصطفی جب کسی غزوہ کے لئے لشکر کے ہمراہ جانے لگتے تو آپ کی عادت مبارکہ ےہ تھی کہ مدےنہ منورہ سے باہر نکل کر سارے لشکر کا معائنہ فرماتے اور بڑی دور اندےشی سے اس کا جائزہ لےتے ۔ چنانچہ غزوہ اُحد کے موقع پر جب آپ معائنہ فرما رہے تھے تو آپ کو لشکر کے آخری صفوں مےں چند بچے اےسے نظر آئے جوکہ کمسن تھے جس کے باعث آپ نے انہےں واپس جانے کا حکم دے دےا۔
ان مےں دو بچے بہت سمجھ دار تھے انہوں نے اپنی ذہانت کے باعث لشکر مےں اپنی جگہ بنا لی۔ وہ اس طرح کہ سےدنا رافع ؓ اےڑےاں اٹھا کے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے اور اپنے چچا سے کہا وہ حضور کے سامنے مےری سفارش فرما دےں۔ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ! ےہ رافع تےر چلانا بہت اچھا جانتا ہے۔ آپ نے ذرا اےک نگاہ شفقت ان پر ڈالی تو بھانپ گئے کہ بچہ واقعی بہت سمجھ دار ہے لہٰذا آپ نے انہےں اجازت عطا فرما دی اور وہ خوشی مچلنے لگے۔
دوسرے بچے سےدنا سَمُرَہ بن جندبؓ تھے انہوں نے اپنے سوتےلے والد سے سرگوشی کے انداز مےں کہا کہ حضور نے رافع ؓ کو تو اجازت دے دی ہے حالانکہ مےں رافع سے بہت طاقتور ہوں اگر مےرا ان سے مقابلہ ہو جائے تو مےں ان کو پچھاڑ بھی لوں گا۔ ےہ بات چےت جب آقا علیہ السلام نے سنی تو انتہائی شفقت سے فرماےا: اچھا تم دونوں کا مقابلہ ہوگا تم رافعؓ کو گرا کردکھاو ¿!
اب بھرے مےدان مےں ان دونوں بچوں کا مقابلہ ہوا اور خوش قسمتی سے ےہ غالب آگئے اور نگاہ نبوت نے شاباش سے سرفرار فرماتے ہوے لشکر کے ہمراہ انہیں بھی جانے کی اجازت عطا فرما دی۔ ےوں ان دونوں بچوں نے اپنی دانائی اور بہادری سے مےدان مار لےا۔
علم کا خزانہ
حضرت عبداللہ خراسان کے مشہور علمی شہر مرو مےں پےدا ہوئے ان کے والدےن کی خواہش تھی کہ ان کا پےارا بےٹا علم کے آسمان پر سورج بن کر چمکے اس لئے انہوں نے آپ کی تربےت پر خاصی توجہ دی۔ ابتدا مےں آپ کی توجہ پڑھنے لکھنے کی جانب نہ تھی بعد مےں اللہ کرےم نے ان کے دل اور سےنے کو اپنے دےن کے لئے کشادہ فرما دےا اور آپ پوری ےکسوئی سے حصول علم کی راہ پر چل پڑے۔
آپ کے والد نے اےک موقع پر آپ کو اےک خطےر رقم ےعنی پچاس ہزار درہم دئےے تاکہ آپ نوجوانی کے عالم مےں ہی تعلےم کے ساتھ ساتھ کوئی تجارت بھی شروع کر دےں۔ آپ نے وہ رقم لی اور سفر پر چل دئےے اس دوران بہت سے ملکوں مےں پھرے اور بہت سے نامور علماءسے علم حاصل کےا اور اےک عرصہ بعد احادےث کے لئے لکھے ہوئے بڑے بڑے رجسٹر ہمراہ لائے۔
کچھ عرصہ بعد آپ کے والد حضرت مبارک بےٹے کی آمد کی خبر سُن کر استقبال کےلئے شہر سے باہر آئے بےٹے سے ملے اور پوچھا: کہو تمہارا تجارتی سفر کےسا رہا؟
حضرت عبداللہ بولے : ابا جان سفر بہت خوب رہا!
اللہ کا شکر ہے کہ بے حد نفع حاصل ہوا۔
پوچھا: بےٹا ! کہاں ہے وہ نفع؟ آپ نے پاس رکھے ہوئے احادےث کے رجسٹروں کی جانب اشارہ کرکے فرماےا ابا جان ےہ ہے نفع ! جو دنےا اور آخرت دونوں کے لئے ہے ےہ صرف کاغذ کے رجسٹر نہےں بلکہ ان مےں اللہ کے رسول حضرت محمد کے علم کا خزانہ موجود ہے آپ کے والدہ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا، بےٹے کو گلے سے لگاےا ماتھا چوما اور پھر رب تعالیٰ کے حضور سربسجود ہوگئے کہ اس نے ہمارے بےٹے کو دانائی کا ےہ جوہر بخشا اور اسے علم کے حقےقی اور اصلی سرماےہ سے مالا مال کر دےا ہے۔
حضرت مبارکؒ نے اپنے بےٹے کو اسی خوشی مےں تےس ہزار روپے مزےد دےے اور فرماےا: پےارے بےٹے! ےہ لے لو ! اور تمہاری منافع بخش تجارت مےں اگر کوئی کوئی کسر رہ گئی ہو تو اسے بھی پورا کرلو۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ علےہ فرماتے ہےں کہ مےں نے حصولِ علم کے لئے شام، مصر، کوفہ، بصرہ، ےمن اور حجاز وغےرہ بہت سے ملکوں کا سفر کےا اور اپنے زندگی مےں چار ہزار اساتذہ سے مےں نے علم حاصل کےا جن مےں حضرت سفےان ثوری اور امام اعظم ابو حنےفہ جےسی جلےل القدر، ہستےاں بھی شامل تھےں ےوں اللہ کرےم نے خداداد ذہانت و فطانت اور والدےن کی چاہت کے مطابق آپ کو آسمان علم کا چمکتا ستارہ بنا دےا۔
وہ لاجواب ہوکر رہ گےا
حضرت شاہ اسماعےل شہےد بچپن ہی سے بہت ذہےن اور ہوشےار تھے اےک دفعہ آپ اےک گھرےلو خادم کے ساتھ گلی مےں رہتے تھے کہ اےک شخص کو دےکھا جو اےک کتا ساتھ لئے پھر رہا تھا آپ نے پوچھا۔ ےہ کتا ہر وقت کےوں آپ ساتھ ساتھ لئے پھرتے ہےں؟ اس نے دےن کی بات کو چوٹ کرتے ہوئے کہا: مےں نے سنا ہے کہ جہاں کتا ہو وہاں فرشتے نہےں آتے لہٰذا مےں اسے ساتھ لئے پھرتا ہوں تاکہ موت کا فرشتہ مےرے پاس نہ آئے اور مےں موت سے بچا رہوں۔
آپ نے نہاےت دانائی سے فرماےا لےکن جو فرشتہ کتوں کی جان نکالتا ہے تم اس سے کےسے بچے سکو گے وہی آکر تمہاری جان قبض کر لے گا وہ شخص مبہوت کھڑا رہ گےا اور اسے کچھ جواب نہ سوجھا۔
آسمان علم کا اےک روشن ستارہ
ایک مرتبہ حلب شہر مےں دمشق کے اےک بڑے عالم آئے انہوں نے سنا کہ ےہاں اےک بچہ اےسا ہے کہ جس کا نام ”احمد بن تےمےہ“ ہے اور وہ بے حد ذہےن ہے کسی بھی چےز کو دےکھتا ہے تو فوراً ےاد کر لےتا ہے۔ اس کی دانائی کو متحےر کر دےتی ہے اور اس کی ذہانت پر لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ہےں ۔ ان کو اس کے دےکھنے اور امتحان لےنے کا شوق ہوا اور جس راستے سے ابن تےمےہ کا گزر ہوتا تھا وہاں قرےب ہی اےک درزی کی دکان پر بےٹھ گئے۔
کچھ دےر گزری تو درزی نے کہا اب وہ بچہ آتا ہی ہوگا ےہی راستہ اس کے مدرسہ کو جاتا ہے۔ اسی اثنا مےں کچھ بچے وہاں سے گزرے جوکہ مدرسہ کی طرف جا رہے تھے۔ اس درزی نے کہا دےکھئے جناب ! وہ بچہ جس کے پاس بڑی سی تختی ہے وہی ابن تےمےہ ہے۔ انہوں نے اس بچے کو پےار سے قرےب بلاےا اس کی تختی دےکھ کر فرماےا جو کچھ اس پر لکھا ہے اس کو صاف کر ڈالو۔ پھر آپ نے اس بچے کو تقرےباً گےارہ احادےث لکھوائےں اور کہا ان کو پڑھ لو۔ بچے نے اےک بار پڑھا لےا تو اس سے تختی لے لی اور کہا وہ احادےث سنا دےجئے تو اس بچے نے وہ سب حدےثےں فوراً سنا دےں اسی طرح چند بار کچھ تحرےر کرواےا اور پھر سنا تو ٹھےک ٹھےک سنا دےا۔ وہ عالم بہت خوش ہوئے اور فرماےا اس کی مثال ملنا مشکل ہے ےہ بچہ جےتا رہا تو کوئی چےز بنے گا پھر اےسا ہی ہوا بڑے ہوکر زمانے نے آپ کو شےخ الاسلام ابن تےمےہ کے نام سے پہچانا جن کا نام آسمان علم پر آج بھی ستاروں کی طرح روشن ہے۔
اللہ کی رحمت اور ماں کی دعا
حضرت جنےد بغدادی ؒ فرماتے ہےں کہ اولےاءاللہ مےں اللہ تعالیٰ نے حضرت باےزےد بسطامی کو امتےازی شان عطا فرمائی ہے۔ حضرت باےزےد بچپن مےں ےتےم ہوگئے تھے ان کی ماں ہی ان کی کل کائنات تھی۔ ماں نے آپ دےنی تعلےم کے حصول کے لئے مدرسہ مےں داخل کراےا۔ قاری صاحب سے کہا کہ مےرا بچہ بہت ذہےن ہے اس کو اپنے پاس رکھنا تاکہ زےادہ گھر آنے جانے کی عادت نہ پڑے اور علم سے محروم نہ ہوجائے۔ چنانچہ کئی دن قاری صاحب کے پاس رہنے کے بعد اےک دن اداس ہوگئے دل چاہا کہ والدہ سے مل آو ¿ں معلم صاحب سے اجازت مانگی تو انہوں نے شرط لگا دی کہ تم اتنا اور اتنا سبق ےاد کرکے سنا دو تب اجازت ملے گی۔ سبق کی مقدار معمول سے بہت زےادہ تھی مگر وہ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر آپ نے جلدی سے وہ سارا سبق ےاد کرکے سنا دےا ےوں آپ کو گھر جانے کی اجازت مل گئی۔
گھر کے دروازے پر پہنچے، دستک دی، ماں وضو کر رہی تھےں وہ پہچان گئیں اور دروازے کے قرےب آکر پوچھا : ”من دق الباب“ دروازے پر دستک کس نے دی ؟ جواب دےا باےزےد آےا ہے ماں نے کہا اےک مےرا بےٹا باےزےد تھا مےں نے تو اسے اللہ کے دےن کے لئے وقف کردےا تو کون سا باےزےد ہے؟ ماں کے ےہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ والدہ ےہ چاہتی ہےں مےرا دروازہ نہ کھٹکھلائے اب مدرسہ مےں رہ کر باےزےد اللہ کادروازہ کھٹکھٹائے چنانچہ واپس آگئے مدرسہ مےں رہے اور اس وقت نکلے جب عالم باعمل بن چکے تھے۔ ماں نے ان کی محبت کو قربان کر دےا تاکہ وہ خوب محنت کرکے بلند مقام حاصل کرلےں اور جب اللہ کی رحمت اور ماں کی دعا مل جائے تو بھلا کون سا مقام ہے جو انسان کو نہےں عطا ہوتا۔
حضرت زےد بن ثابت ؓ ان جلےل القدر صحابہ مےں سے ہےں جو اپنے زمانہ کے بڑے عالم اور مفتی شمار ہوتے تھے۔ جب نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ہجرت کرکے مدےنہ طےبہ تشرےف لائے تو اس وقت ےہ کم عمر بچے تھے دس گےارہ برس کے لگ بھگ۔ ہجرت سے پانچ برس قبل ےتےم ہوچکے تھے۔
آقائے نامدار جب مدےنہ منورہ پہنچے تو لوگ جوق درجوق اپنے آقا کی زےارت کے لئے آ رہے تھے اور کچھ نئے لوگ دامن اسلام کی ٹھنڈی چھاو ¿ں مےں قرار لےنا چاہتے تھے۔ لوگ خود بھی آرہے تھے اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لا رہے تھے۔ حضرت زےدؓ کہتے مجھے بھی آپ کے سامنے پےش کےا گےا اور ساتھ ہی ےہ بھی بتاےا گےا بنو نجّار کا ےہ بچہ بہت ذہےن و فطےن ہے اس نے محض اپنے شوق سے قرآن پاک کی سترہ سورتےں زبانی ےاد کر لی ہےں۔
حضور نے امتحان کے طور مجھے کچھ پڑھ کر سُنانے کا حکم دےا تو مےں نے سورہ قٓ آپ کو پڑھ کر سُنائی۔ رسولِ رحمت نے مےرا پڑھنا پسند فرماےا اور مےری تحسےن فرمائی۔
بچے کا دانش مندانہ جواب :
سےدنا سہل بن سعدؓ فرماتے ہےں کہ دربار رسالت میں اےک مرتبہ پانی لاےا گےا جو آپ نے نوش جاں فرماےا۔ کچھ پانی بچ گےا آپ نے اپنے دائےں بائےں دےکھا دائےں طرف اےک بچہ اور بائےں طرف قوم کے بڑے افراد بےٹھے ہوئے تھے تو آپ نے ارشاد فرماےا: بےٹا! اگر آپ کی اجازت ہو تو مےں آپ بائےں طرف جو بڑے لوگ (عمراور رتبے کے لحاظ سے) بےٹھے ہےں ان کو ےہ پانی دے دوں؟
سبحان اللہ العظےم ....وہ دانا، خوش قسمت اور بےدار معزز بچہ بولا : حضور! مےں آپ کے بچے ہوئے اس پانی کے لئے اپنے اوپر کسی کو ترجےح نہےں دے سکتا۔ آپ مسکرائے اور خوش دلی سے وہ پانی اس کے بچے کو دے دےا اور اس نے جام سعادت بڑے مزے سے پی لےا۔ (صحےح مسلم، کتاب الاشربہ)
دانائی نے اس بچے کو بڑے عظےم رتبے دلائے، آپ بڑی بڑی علمی مجالس مےں شرےک ہوتے اور بڑی شائستگی سے ہر بات کا جواب دےتے۔ آپ کو حضور نے اےک بار دعاو ¿ں سے نوازا تھا جس کی برکت سے اللہ نے آپ کو بلند مقام عطا فرما دےا۔ دنےا انہےں رےئس المفسرےن سےدنا عبداللہ بن عباس کے نام سے جانتی ہے۔
جنت مےں پہنچ جائے گا
شےخ سعدیؒ فرماتے ہےں کہ اےک رئیس زادے کی گفتگو اےک غرےب زادے سے ہوئی۔ رئیس کا بےٹا کہنے لگا دےکھو۔ ہمارے باپ کی قبر کےسی عمدہ اور مضبوط ہے اوراس پر شان وشوکت برس رہی ہے اور تمہارے باپ کی قبر کچی اور شکستہ ہے جوکہ بے بسی کی تصوےر بنی ہوئی ہے۔
غرےب زادے نے بڑے تحمل اور دانائی کے ساتھ جواب دےا بے شک ظاہر مےں ےہ فرق تو ہے لےکن اےک بات سُن لو کہ مےرے باپ کی قبر کچی ہے اور تمہارے باپ کی قبر پر اےنٹ اور پتھر لگے ہےں روزِ قےامت وہ تو اٹھ کر پتھر اور اےنٹےںہٹاتا رہے گا اور مےرا باپ اتنی دےر مےں بہ آسانی قبر سے نکل کر جنت مےں پہنچ جائے گا۔
ادب مانع رہا!
ادب مانع رہا!
سےدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہےں کہ اےک روز حضور نبی کرےم مسجد مےں جلوہ افروز تھے اور صحابہ ؓ آپ کی محفل مےں لطف اےماں پارہے تھے۔ باتوں باتوں مےں آپ نے ارشاد فرماےا : مجھے وہ درخت بتاو ¿ جو بندہ مومن کی مثل ہوتا ہے؟
صحابہ کرامؓ سوچنے لگے جنگلوں اور وادےوں مےں اپنے ذہن دوڑا نے لگے۔ سےدنا عبداللہ بن عمرؓ چھوٹے بچے تھے لےکن بہت عقل مند تھے فرماتے ہےں کہ مےرے دل مےں آےا کہ وہ درخت کجھور ہی کا ہو سکتا ہے لےکن مجلس مےں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ موجود تھے ان کی موجودگی مےں مجھے اس پہےلی کا جواب دےتے ہوئے حےا سی آ گئی اور مےں ادب کی وجہ سے خاموش رہا۔
بعد مےں صحابہ ؓ نے عرض کےا آقا! آپ ہی ہمےں بتلائےے آخر کون سا درخت ہے؟ رسول اللہ نے فرماےا وہ کجھور کا درخت ہے۔ پھر جب مےں اپنے ابا جان سےدنا عمر ؓ کے ساتھ محفل سے اٹھ کر جا رہا تھا تو مےں نے کہا ابا حان مےرے دل مےں تو اسی وقت اس پہےلی کا جواب آگےا تھا لےکن مےں ادب کی وجہ خاموش ہوگےا کےونکہ مےں کمسن تھا حےا کی وجہ سے بول نہ سکا۔ سےدنا عمرؓ نے فرماےا لےکن اگر تم اس موقع پر بتا دےتے تو مجھے بہت زےادہ مال ودولت پا لےنے سے بڑھ کر ےہ بات عزےز ہوتی ےعنی اس سے مجھے بے حد خوشی ہوتی۔
علماءو محدثےن نے لکھا ہے کہ کھجور کے درخت کی بندہ مومن سے مماثلت اور مشابہت کئی طرح سے ہے مثلاً : ٭ اس کے اعضا ٹوٹ کر نہےں گرتے دوسرے درختوں کی طرح ! ٭اور انسان کے اعضاءبھی پت جھڑکے موسم مےں نہےں گرتے۔ ٭کھجور کے درخت کے سارے اجزاءکارآمد ہوتے ہےں۔ ٭ انسان کے بھی سارے اعضاءکارآمد ہوتے ہےں۔ ٭اس کا ساےہ ہر موسم مےں رہتا ہے اور اس کا پھل بھی بہت لذےذ ہوتا اور ہر اےک کو پسند آتا ہے۔ ٭بندہ مومن کے کارخےر کا فائدہ ہمہ وقت پہنچتا ہے اس کی اطاعت شعاری اور مکارم اخلاق کی وجہ سے ہر آدمی اس سے محبت کرتا ہے۔
نےز ےہ بھی ہے کہ جب بندے کا سر کٹ جاتا ہے تو وہ زندہ نہےں رہتا۔ اےسے ہی جب کھجور کا سرکاٹ دےا جائے تو پھر وہ کبھی ہرا نہےں ہوتا۔ دوسرے درختوں کے برعکس، کہ ان کا سر تنے سے کاٹ بھی دےا جائے تو پھر بھی شاخےں اس کے اردگرد سے نکل آتی ہےں۔ ےاد رہے کہ اس مےں کچھ مماثلت تو اےسی ہے جو ہر انسان مےں پائی جاتی ہے اور جو بندہ مومن کے ساتھ وابستہ ہے وہ اس کے اچھے اخلاق، بہترےن عادات اور دےگر بعد نےک خصلتےں ہےں جن کی وجہ سے ےہ تشبےہ دی گئی ہے۔
دوسری بات جو حضرت عمرؓ نے اپنے بےٹے سے فرمائی کہ اگر تم اس کا جواب بتا دےتے تو مجھے دنےا کے خزانوں سے بھی زےادہ ےہ بات مجبوب ہوتی۔ تو اس فرمان مےں ےہ خوبی ہے کہ آپ دنےا کے خزانوں پر دےن کی بات کو فوقےت دے کر اپنے فرزند کو دےن کی قدر و قےمت سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ تربےت کے لحاظ سے ےہ بات بہت اہم ہے۔
نےز اولاد سے جب کوئی اےسا قابل رشک کام صادر ہو تو انسان کو اس سے دلی خوشی اور قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے اور پھر بھری محفل مےں ہو تو خوشی اور بڑھ جاتی ہے کہ ےہ صلاحےت سب کے سامنے آشکارا ہوئی ہے۔ اور پھر اس سے بھی زےادہ مزے کی بات ےہ ہے کہ اگر وہ صلاحےت آقائے دو عالم کے دربار پُربہار مےں ظاہر ہو اور آپ کی جناب سے شاباش کا تمغہ ملے اور دعاو ¿ں کے ساتھ مسکرانے کا تحفہ عطا ہوتا ہو تو پھر والدےن ہی کےا ، سارے جہان ہی اس پر رشک کرنے لگتے ہےں۔
کمال دانائی
ابو عبداللہ محمد بن اسماعےل بخاریؒ جنہوں نے حدےث کی کتاب صحےح بخاری لکھی ہے اور جنہےں دنےا امام بخاری کے نام سے جانتی ہے اللہ تعالیٰ نے انہےں بے حد قوت حافظہ ، ذہانت، عقل مندی اور دانائی سے نوازا تھا اپنی کمسنی مےں بصرہ کے مشائخ کے پاس جب آپ حدےث پاک کا سبق پڑھتے تھے تو اس کو لکھتے نہ تھے۔ اےک بار آپ کے ساتھےوں نے آپ نے کہا کہ آپ کچھ بھی نہےں لکھتے کےا وجہ ہے؟ تو آپ نے جواب دےا تمہارے پاس جو احادےث لکھی ہوئی ہےں تم وہ سناو ¿۔ انہوں نے وہ احادےث پڑھ کر سنا دےں ان مےں وہ احادےث بھی شامل تھےں جو ان کے ہاں لکھی ہوئی تھےں اور وہ بھی جو ان کے ہاں لکھی ہوئی نہ تھےں اس سے وہ سب طلبہ حدےث آپ کے کمال دانائی کی تحسےن کرنے لگے۔
امام بخاری ؒ جب سمرقند تشرےف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ کی دانائی اور قوت حافظہ کا امتحان لےنا چاہا اور اےک مجلس منعقد کی جس مےں بہت سے لوگ لوگ شرےک ہوئے، سامنے بےھٹے ہوئے دس آدمےوں نے آپ کو دس دس اےسی احادےث سُنائےں جن مےں کہےں سند مےں اور کہےں متن حدےث مےں تقدےم و تاخےر اور ترمےم کی گئی تھی۔ آپؒ نے وہ سب احادےث سُن کر پھر ان کا جواب دےنا شروع کےا تو لوگوں کی آنکھےں پھٹی کی پھٹی رہ گئےں۔ آپ کے جواب دےنے کا طرےقہ ےہ تھا کہ اولاً آپ اس آدمی کی سُنائی ہوئی دس احادیث کا ذکر فرماتے جس طرح تقدیم و تاخیر کے ساتھ اس نے سنائی تھیں پھر آپ ہر حدیث صحیح سند اور درست متن کے ساتھ سناتے جاتے۔ یوں اس مجلس میں آپ نے ان دس آدمیوں کی سنائی ہوئی کل سو احادےث پہلے اغلاط کے ساتھ پھر درست الفاظ کے ساتھ سنائےں جس پر سب حاضرےن دنگ رہ گئے۔
امام بخاری ؒ نے پہلی ہی بار سو احادےث ان لوگوں سے سنےں اور پھراسی ترتےب کے ساتھ انہےں سنا دےں۔ ےہ کتنی عجےب بات ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ دانائی کا بہت بڑا کمال ہے۔
مجھے ماں چاہئے !
حافظ ابن قےمؒ فرماتے ہےں کہ اےک ماں دروازے مےں کھڑی اپنے سات سالہ بچے کو مار رہی تھی بچہ بہت دانا تھا لےکن بہرحال اس سے کچھ غلطی ہوگئی تھی۔ مارتے مارتے ماں نے بچے کو دھکا دے کر گھر سے باہر نکال دےا اور کہنے لگی جا تو مےری بات نہےں مانتا مےرے گھر سے نکل جا، مےں اب تےری شکل نہےں دےکھنا چاہتی ےہ کہہ کر ماں نے گھر کا دروازہ بند کر لےا۔
بچہ کچھ دےر وہاں بےٹھ کر روتا رہا پھر وہاں سے اٹھ کر چل دےا جےسے اب کہےں انجانی منزلوں کی جانب جانا چاہتا ہو لےکن گلی کی نکڑ تک جا کر کچھ سوچ کر وہ واپس لوٹ آےا اور ماں کے دروازے پر آکر بےٹھ گےا اور وہےں روتے روتے سوگےا کافی دےر گزرنے کے بعد ماں نے کسی ضرورت سے دروازہ کھولا تو دےکھا کہ اس کا بچہ دہلےز پر سر رکھ کر سو رہا ہے ۔ اس نے بچے کو بالوں سے پکڑ کر اٹھاےا اور غصے مےں کہنے لگی : اٹھ جا ےہاں سے، اور مےری نظروں سے دور ہو جا! ماں کی بات سُن کر بچہ پھر بلک بلک کر رونے لگا اور نہاےت دانش مندی سے کہنے لگا امی جان ! آپ نے دھکا دے کر جب گھر سے مجھے نکال دےا تو مےں ےہ سوچ کر ےہاں سے چل پڑا کہ مےں واقعی ےہاں سے چلا جاتا ہوں کہےں جا کر محنت مزدوری کرکے پےٹ بھر لےا کروں گا اور رات کے وقت کہےں سو جاےا کروں گا لےکن تمہےں ماں نہےں ملے گی، ےہ سوچ کر مےں واپس آ گےا ہوں۔ مجھے اب کہےں نہےں جانا بس مجھے ماں کے قدموں مےں رہنا ہے۔ تم مجھے معاف کر دو ماں ! مےں نے تمہارے پاس ہی رہنا ہے۔
ماں نے ےہ سوچا کہ اب اسے سمجھ آگئی ہے اور غلطی کا احساس بھی ہو رہا ہے تو اس کی ممتا غالب آ گئی اُس نے آگے بڑھ کر اپنے لخت جگر کو سےنے سے لگا لےا اور نہ صرف اسے معاف کر دےا بلکہ خوش ہوکر اسے گھر مےں لے آئی اور کہنے لگی کہ اب خوشی خوشی ےہاں رہو تمہارے اس اچھے جواب کیوجہ سے مےں تم پر راضی ہوں، تم بہت سمجھ دار ہو اللہ تمہےں سدا سلامت رکھے!
زندگی مےں نہاےت سمجھ داری سے کام لو اور ہمےشہ والدےن و اساتذہ کی فرماں برداری کرتے رہو اور اگر غلطی ہو جائے تو عقلمندی کا تقاضا ےہی ہے کہ معافی مانگنے مےں دےر نہ کرو۔ اور اگر ماں باپ غصے مےں کچھ کہہ بھی دےں تو ےہ مت جانو کہ وہ دل سے تم سے نفرت کرتے ہےں ےہ سمجھنا بہت بڑی خطا ہے اور جو بچے گھر سے ےا والدےن سے روٹھ کر بھاگ جاتے ہےں خوب جان لوکہ زندگی ہمےشہ کے لئے ان سے روٹھ جاتی ہے پھر انہےں کہےں اطمےنان نہےں ملتا۔
کتاب سے محبت
بخارا کا اےک بادشاہ کسی بےماری مےں متبلا ہوگےا۔ شاہی طبےب نے اس کا بہت علاج کےا لےکن مرض کی شدت مےں کمی نہ آئی چنانچہ پورے ملک مےں ےہ اعلان کروا دےا گےا کہ جو شخص بادشاہ کا علاج کرنے مےں کامےاب ہو جائے اسے منہ مانگا انعام دےا جائے گا۔ اس اعلان پر بھی بہت سے اطباءآئے اور بادشاہ کا علاج معالجہ کےا لےکن کسی کو کامےابی نہ ہوئی آخر اےک روز سترہ سالہ ایک نوجوان شاہی دربار مےں حاضر ہوا اور بادشاہ کا علاج معالجہ کرنے کی خواہش ظاہرکی۔
مصاحبےن اور خود بادشاہ نے ازراہِ تعجب کہا : مےاں! ابھی تم بہت چھوٹے ہو ےہاں بڑے بڑے حکماءآئے لےکن ناکام لوٹے۔ ےہ سُن کر وہ لڑکا بولا : مےں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ کوئی مرض لاعلاج نہےں ہے۔
ےہ سن کر اسے بادشاہ کا علاج کرنے کی اجازت مل گئی ادھر علاج شروع ہوا اُدھر بادشاہ کے مرض مےں روز بروز کمی آنا شروع ہوگئی ےوں چند ہی روز بعد بادشاہ تندرست ہوگےا اور صحت پا لےنے کے سبب اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
بادشاہ اس طبےب لڑکے سے مخاطب ہو کر بولا : تم نے ہمارا علاج کےا اور تمہاری درست تشحےص اور موزوں تجوےز سے اللہ نے مجھے شفا عطا کردی اب جی مےں جو آئے وہ ہم سے مانگو! بہت سے مال و دولت کے علاوہ تمہاری ہر خواہش کو بھی پورا کےا جائے گا۔ دربار مےں موجود لوگ سوچ رہے تھے کہ اس لڑکے کو بہت اچھا موقع ہاتھ آےا ہے اب ےہ بہت سے ہےرے جواہرات مانگے گا ےا سلطنت کا کچھ حصہ لےنے کا مطالبہ کرے گا لےکن جب اس دانا لڑکے نے اپنی خواہش کا اظہار کےا تو درباری حےران رہ گئے۔ لڑکا بولا:
بادشاہ سلامت ! مجھے اچھی کتابوں سے بہت محبت ہے مےری خواہش ہے کہ آپ شاہی لائبرےری سے چند ناےاب اور عظےم کتابےں مجھے پڑھنے کے لئے دے دےں۔ بادشاہ اس کے جواب سے بہت خوش ہوا اور اس کی خواہش کو بصد اکرام پورا کےا۔ اس دانا بچے کو اللہ تعالیٰ نے بعد مےں بڑی عزت و شہرت عطا کی! وہ دانا بچہ علم طب کا عظےم اور نامور ستارہ تارےخ کے روشن درےچوں مےں بو علی سےنا کے نام سے ےاد کےا جاتا ہے۔
ےہ روشنی کہاں سے واپس آرہی ہے؟
خواجہ حسن بصری تابعےن مےں سے ہےں اور خاصے معروف بزرگ ہےں، فرماتے ہےں اےک شام ڈھلے مےں نے اےک بچے کو دےکھا کہ وہ شمع دان اٹھائے جا رہا ہے جس مےں شمع روشن کرکے رکھی ہوئی تھی مےں نے اسے روک کر پوچھا: بےٹا! کےا تم ےہ بتا سکتے ہو کہ ےہ روشنی کہاں سے آ رہی ہے؟
بچے نے جب مےرا سوال سُنا تو اےک لمحہ خاموش ہو کر سوچنے لگا اور پھر اس نے شمع کو بجھا دےا اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا: چچا جان ! آپ مجھے ےہ بتا دےجئے کہ روشنی اب کہاں چلی گئی ہے تو مےں آپ کو بتا دوںگا کہ ےہ روشنی کہاں سے آ رہی تھی۔ خواجہ حسن بصری ؒ فرماتے ہےں کہ اس عقل مند بچے کے جواب نے مجھے لاجواب کر دےا۔ اگر غور کےا جائے تو بسا اوقات اسی سوال مےں جواب بھی چھپا ہوتا ہے جوکہ ذرا سی سوچ و بچار کے بعد سامنے آ جاتا ہے اور مشکل آسان ہو جاتی ہے اور ےوں دانائی کی اےک اےک بات دل پہ نقش کرتے کرتے انسانی دل سنہرے نقوش سے تابندہ ہو جاتا ہے اور زندگی تانباک بن جاتی ہے۔
لڑکے مجھے کچھ نصےحت کرو!
حضرت عبداللہ بن مبارک بڑے مشہور تابعی، عظےم محدث، نامور مجاہد اور اسلامی تارےخ کے اےک روشن ستارے ہےں۔ فرماتے ہےں کہ اےک روز مےں نے جنگل مےں اےک لڑکا دےکھا دل مےں خےال سا گزرا کہ شاےد ےہ لڑکا اہل علم کی صحبت مےں نہےں بےٹھتا اور بغےر علم کے تو آدمی اپنے خالق کو بھی پہچان نہےں پاتا لہٰذا ےہ اپنے رب کرےم کو کےسے پہچانے گا؟ آپ نے اسے قرےب بلا کر پوچھا: بےٹا! تم نے کچھ علم بھی پڑھا ہے؟ اس نے جواب دےا : مےں چار قسم کا علم جانتا ہوں۔
٭ سرکا علم، ٭ کانوں کا علم، ٭....زبان کا علم ! اور ٭ دل کا علم !
اور پھر اس کی تفصےل ےوں بےان کی ک سر اللہ کرےم کے سامنے جھکانے کے لئے ہے۔کان اس کا کلام سننے کے لئے ہےں۔ زبان اس کے ذکر کی خاطر ہے۔ اور دل اس کی ےاد بسانے کے لئے ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہےے کہ وہ کسی بھی وقت ان چےزوں کا حق ادا کرنے سے غافل نہ رہے۔
لڑکے کی ان باتوں پر حضرت عبداللہ بن مبارک حےرت مےں پڑگئے اور پھر اسے مارنے لگے لڑکے! تم مجھے کچھ نصےحت کرو!
وہ بولا : شےخ! آپ مجھے عالم معلوم ہوتے ہےں، اگر آپ نے علم اللہ کے لئے پڑھا ہے تو مخلوق سے کسی بات کی امےد اور لالچ نہ رکھےں اور اگر مخلوق کے لئے پڑھا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس پر کسی چےز ےا اجر کی امےد نہ رکھےں۔
انگوٹھی کا نگےنہ
ایک مرتبہ خلےفہ معتصم باللہ گھوڑے پر سوار ہو کر خاقان کی عےادت کو تشرےف لے گئے۔ اس وقت فتح بن خاقان بالکل بچہ تھا۔ معتصم باللہ نے اس سے پوچھا کہ بتاو ¿ : امےرالمومنےن کا گھر اچھا ہے ےا تمہارے والدکا؟
بچے نے جواب دیا : جب امیر المومنین میرے والد کے گھر میں ہوں تو میرے والد کا گھر اچھا ہے ورنہ امیر المومنین کا۔
اس کے جواب سے خوش ہوکر امےرالمومنےن نے چاہا کہ اس سے کچھ اور بھی پوچھا جائے۔ امےر المومنےن نے اس بچے کو اپنی انگوٹھی دکھاتے ہوئے پوچھا بتاو ¿ کہ تم نے اس سے بہتر کوئی چےز دےکھی ہے؟
بچے نے جواب دےا بالکل اس سے بہتر چےز مےں نے دےکھی ہے۔
بادشاہ نے کہا کون سی چےز؟
بچہ بولا : وہ انگلی جس مےں ےہ انگوٹھی ہے۔
معتصم باللہ نے اس عقل مند بچے کے گال تھپتھپائے اور اس کے جواب پر دےر تک مسکراتا رہا۔
مےں کےسے ڈوب سکتا ہوں؟
ہندوستاں مےں اےک رےاست کے ہندو راجہ کا انتقال ہوگےا اس کی اولاد مےں اےک نابالغ بچہ تھا جو اس کا جانشےن ہونا چاہےے تھا۔ مرنے والے کے بھائی کو طمع ہوئی کہ رےاست مجھے ملنی چاہےے بچہ اس کو نہےں چلا سکتا۔ وزراءرےاست کی خواہش تھی کہ ےہ بچہ ہی اپنے باپ کی رےاست کا وارث بنے۔ معاملہ بادشاہ وقت اورنگزےب عالم گےر کی خدمت مےں پےش ہونا تھا۔
وزراءاس بچہ کو لے کر دہلی پہنچے اور راستہ مےں بچے کو کچھ باتےں اور جوابات سکھاتے رہے کہ ہو سکتا ہے بادشاہ تم سے ےہ سوالات کرے لہٰذا پہلے سے ہی تمہارے علم مےں ہونے چاہئےں۔ بچے نے ان سے کہا کہ ےہ جوابات تو مےں نے ےاد کر لئے ہےں بادشاہ سلامت نے ان کے علاوہ کوئی سوال کر ڈالا تو کےا ہوگا؟ وزراءنے کہا اب ہمےں کچھ فکر نہےں جس کے ذہن مےں ےہ سوال پےدا ہو سکتا ہے اس کو جواب بھی اللہ تعالیٰ خود ہی سکھلا دے گا۔ جب ےہ لوگ دربار مےں پہنچے تو دربار برخواست ہو چکا تھا اور بادشاہ عالم گےر اپنے محل مےں جا چکے تھے جب انہےں ان کی آمد کی اطلاع دی گئی تو آپ نے اس بچے کو اندر ہی بلوا لےا خود تہبند باندھے تالاب مےں نہانے لگے تھے کہ بچہ وہاں حاضر ہوگےا۔ بادشاہ سلامت نے خوش طبعی کے طور پر بچے کے دونوں بازو پکڑ کر تالاب کی طرف اٹھا کر فرماےا: ڈال دوں تالاب مےں؟ بچہ ےہ سن کر ہنس پڑا اور عرض کرنے لگا کہ آپ کی ذات تو اےسی ہے کہ جس کی اےک انگلی پکڑ لےں اس کو کوئی درےا غرق نہےں کر سکتا مےرے تو دونوں بازو آپ نے تھامے ہوئے ہےں مےں کےسے تالاب مےں ڈوب سکتا ہوں؟ بادشاہ عالم گےر اس کی دانائی سے بھری اس بات پر بہت خوش ہوئے اور رےاست اس کے نام لکھ دی۔
چھوٹی لکڑےاں پہلے جلاتی ہےں
حضرت عبداللہ بن واسان فرماتے ہےں کہ مےں نے بصرہ کے بازار مےں اےک لڑکے کو دےکھا جوکہ رو رہا تھا۔
مےں نے اس سے پوچھا بےٹا! کےوں روتے ہو؟
وہ بولا: دوزخ کی آگ سے ڈر کر روتا ہوں۔
مےں نے کہا: تم تو کمسن ہو تمہےں دوزخ کی آگ کا کےا ڈر؟
وہ بولا : مےں نے اپنی ماں کو دےکھا ہے کہ جب وہ آگ جلاتی ہےں تو بڑی لکڑےاںکوجلانے کے لئے چھوٹی چھوٹی لکڑےاں پہلے جا کر ان مےں رکھتی ہےں اس لئے مےں بھی ڈرتا ہوں کہےں بڑے بڑے نافرمانوں کو جلانے کے لئے مجھ جےسے چھوٹوں کو پہلے آگ مےں نہ ڈال دےا جائے۔ فرماتے ہےں مےں اس کی باتوں سے بہت حےران ہوا کہ اس عمر مےں ماشاءاللہ کس قدر دانائی اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرما دی ہے۔
سب سے چھوٹا امام!
سےدنا عمرو بن سلمہؓ فرماتے ہےں کہ ہم لوگ مدےنہ طےبہ کے راستے مےں اےک جگہ سکونت رکھتے تھے آنے جانے والے راہ گےر ہمارے پاس سے گزرتے تھے جو لوگ مدےنہ طےبہ کی طرف سے آتے ہم ان سے حالات پوچھتے تو وہ بتاتے کہ اےک نئے نبی کا ظہور ہوا ہے وہ ہمےں اس طرح کی باتےں بتاتے ہےں نےز ان پر وحی آتی ہے اور اس طرح کی آےات وہ سناتے ہےں۔ فرماتے ہےں کہ مےں بڑی دلچسپی سے وہ آےات پوچھتا، سُنتا اور ےاد کر لےتا اس طرح مےں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی بہت سا قرآن پاک ےاد کر لےا۔ ےہاں تک کہ مکہ مکرمہ فتح ہوگےا بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لےا اور اردگرد کے قبائل کے لوگ بھی مسلمان ہوگئے مےرے والد بھی چند آدمےوں کے ہمراہ ساری قوم کی طرف سے نمائندہ بن کر رسول کرےم کے پاس حاضر ہوئے اور دےن اسلام کے پےروکار بن گئے۔ ان مےں سب سے کمسن مےں ہی تھا۔ اللہ کے پےارے اور آخری رسول حضرت محمد نے ہمےں اسلام کے بہت سے احکام سکھائے اور نماز کی تعلےم بھی دی اور فرماےا جو تم مےں سب سے زےادہ قرآن جانتا ہو اسے اپنا امام بنا لےنا۔ لہٰذا جب سب سے سُنا گےا تو مےں نے سب سے زےادہ سُناےا لہٰذا مجھے امام بنا لےا گےا حالانکہ مےں سب سے چھوٹا تھا لےکن اللہ تعالیٰ نے مجھے عقل و فہم، قوت حافظہ سے نوازا تھا اور مےں نے اسے اچھی راہ پر خرچ کےا اس وجہ سے مجھے سب پر فوقےت مل گئی۔
شاباش ! اے طفلِ ذی قدر!
سےدنا عبداللہ بن ز بےرؓ اپنے بچپن کے زمانہ مےں اےک دن اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھےل رہے تھے اُدھر سے حضرت عمرفاروقؓ کا گزر ہوا آپ کو دےکھتے ہی سب لڑکے بھاگ گئے مگر عبداللہ بن زبےرؓ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔
حضرت عمرؓ نے ان کی ےہ جرا ¿ت مندی دےکھ کر پوچھا:
دوسرے بچوں کی طرح تم کےوں نہےں بھاگے؟
عبداللہ بن زبےر ؓ عام بچوں کی طرح نہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہےں بڑی فہم و دانش سے نوازا تھا آپ نے ادب ملحوظ خاطر رکھا اور جرا ¿ت سے جواب دےا : مےں نے کوئی جرم نہےں کےا کہ بھاگ جاتا اور نہ راستہ اس قدر تنگ تھا کہ آپ کے لئے چھوڑ کر مےں وہاں سے ہٹ جاتا۔ حضرت عمرؓ ےہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے، شاباس دی اور اپنے سےنے سے لگا کر ڈھےروں دعائےں دےں۔
ایک دفعہ دور نبوی مےں انہوں نے مدےنہ طےبہ کے چند بچوں کو جمع کےا اور ان سے کہنے لگا جس طرح لوگ حضور سے بےعت کرتے ہےں آو ¿ ہم بھی چل کر آقا سے بےعت کرتے ہےں۔ چنانچہ بچوں کی قےادت کرتے ہوئے آپ کے پاس پہنچے آپ نے انہےں شفقت و رحمت کی نگاہوں سے دےکھا۔ انہوں نے عرض کےا:
پےارے آقا! ہم آپ سے بےعت کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہےں باقی شرم کے مارے کھسک گئے لےکن ےہ کھڑے رہے رسول رحمت حضرت محمد مصطفیٰ نے فرماےا: اپنا ہاتھ آگے بڑھاو ¿ چنانچہ عبداللہ بن زبےرؓ نے اپنا ہاتھ حضور نبی کرےم کے ہاتھ پر رکھ دےا، آپ نے پےار سے انہےں فرماےا۔ .... اَنتَ ابنُ اَبِےکَ .... تو اپنے باپ ہی کا بےٹا ہے ےعنی تو اپنے باپ پرگےا ہے، مراد ےہ تھی کہ اُن جےسی صفات تجھ مےں بھی موجود ہےں۔ ان کے والد حضور نبی کرےمکے پھوپھی زاد بھائی سےدنا زبےر بن العوامؓ تھے جوکہ عشرہ مبشرہ مےں بھی شامل ہےں بڑے دل صاحب اوصاف، دانا، بہادر اور جی دار شخصےت کے حامل تھے۔
تم ٹھےک کہہ رہے ہو!
سےدنا سنان بن مسلمہ ؓ جوکہ بڑے ہوکر بحرےن کے اےک عرصہ تک گورنر بھی رہے۔ اپنے بچپن کا واقعہ خود ہی بےان فرماتے ہےں کہ مدےنہ منورہ مےں اےک دفعہ ہم سب جولی مل کر کھجورےں چُن رہے تھے کہ اچانک امےر المومنےن سےدنا عمرؓ اس جانب تشرےف لے آئے۔
آپ کو اپنی جانب دےکھ کر سب لڑکے بکھر گئے لےکن مےں اپنی جگہ پر کھڑا رہا امےر المومنےن جب مےرے بالکل قرےب آئے تو نے اپنے دماغ سے کام لےتے ہوئے ذرا آگے بڑھ کر عرض کےا، دےکھئے ! مےں نے تو صرف وہی کھجورےں چُنی ہےں جو خود بخود تےز ہَوا چلنے سے گری ہوئی تھےں۔
حضرت عمرؓ بولے: تم اپنی کھجورےں دکھاو ¿ مجھے پتہ چل جاتا ہے چنانچہ آپ نے جھک کر مےری گود مےں دےکھا اور فرماےا: سمجھ دار بچے ! تم ٹھےک کہتے ہو۔ ےہ کہہ کر آپ جانے لگے تو مےں نے کہا امےر المومنےن، مجھے ڈر ہے کہ آپ کے جانے کے بعد بچے مجھ پر جھپٹےں گے اور مےری کھجورےں چھےن کر بھاگ جائےں گے۔ ےہ سُن کر آپ نے مجھے اپنے ساتھ لے لےا اور محفوظ جگہ پہنچا کر لوٹ گئے۔
ہم کھےل کے لئے پےدا ہوئے ہےں؟
حضرت بہلول ؒ فرماتے ہےں کہ مےں اےک مرتبہ بصریٰ کی اےک سڑک پر جا رہا تھا راستے مےں چند لڑکے اخروٹ کھےلنے مےں مصروف تھے۔ قرےب ہی اےک لڑکا رو رہا تھا مےں نے سوچا شاےد اس کے پاس اخروٹ نہےں ہےں جس کے باعث ےہ رو رہا ہے۔
مےں نے اس بچے سے ہمدردی کے لہجے مےں پوچھا: بےٹا ! شاےد تم اخروٹ نہ ہونے کی وجہ سے رو رہے ہو....آو ¿ ! پےارے بچے! مےں تمہےں اخروٹ لے دوں تاکہ تم بھی ان بچوں کے ساتھ کھےل سکو۔ وہ بچہ بظاہر خاموش کا تھا لےکن بہت گہری سمجھ بوجھ رکھنے والا تھا....!
وہ بولا: چچا جان ! کےا ہم کھےل کے لئے پےدا ہوئے ہےں؟
مےں نے کہا : بیٹا! تم ہی بتا دو! پھر ہم کسی لئے پیدا ہوئے ہیں۔
بچے نے کہا : علم حاصل کرنے اور اللہ کی عبادت کی خاطر پےدا ہوئے ہےں۔ مےں نے کہا، اللہ تجھے بڑا آدمی بنائے تُو نے ےہ بات کہاں سے سےکھی؟ وہ کہنے لگے.... اس ارشاد باری تعالیٰ سے....!
کےا تم ےہ گمان رکھتے ہو کہ تمہےں ہم نے بے کار پےداکر دےا ہے اور ےہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہےں آو ¿ گے ؟ (سورہ مومنون : آےت : 115)
مےں نے کہا : بےٹا ! ابھی تمہاری عمر بہت تھوڑی ہے اور تمہےں ابھی سے آخرت کی فکر لگی ہوئی ہے اور ےہ تم رو کےوں رہے ہو ؟ تو اس نے کہا چچا: جان! مےں نے اپنی والدہ کو ہمےشہ دےکھا ہے کہ وہ جب آگ جلاتی ہےں تو سب سے پہلے چھوٹی چھوٹی لکڑےاں رکھ کر تےل چھڑکتی ہےں اور پھر پہلے ان کو آگ لگتی ہے بعد مےں بڑی لکڑےوں کو .... اس لئے مجھے ےہ خوف ہے کہ جہنم کی آگ مےں چھوٹی لکڑےوں کے طور پر کہےں مجھے نہ جلاےا جائے۔
حضرت بہلول فرماتے ہےں کہ مےں نے بچے سے کہا تم مجھے کوئی نصےحت کی بات بتاو ¿ تو اس نے فکرآخرت اور اصلاح نفس والے چند اشعار پڑھ کر سنائے اور چل دےا ۔ مےں نے ارد گرد کھےلتے بچوں سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتاےا کہ ےہ بچہ سےدنا حسےنؓ کی اولاد مےں سے ہے۔ فرماےا مےں خود سوچ رہا تھا کہ ےہ پھل کسی شاندار درخت ہی کا ہو سکتا ہے۔
ہم تمہےں وہ صندوق دے دےں گے!
ےہ اس وقت کی بات ہے جب امام محمد بن ادرےس شافعی ؒ کی عمر چھ برس تھی وہ مدرسے جاےا کرتے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ اولادِ بنی ہاشم مےں سے تھےں وہ بڑی عبادت گزار اور امانت دار تھےں لوگ اپنی امانتےں ان کے پاس رکھواےا کرتے تھے۔ اےک دن دو آدمی ان کے پاس اےک صندوق بطورِ امانت رکھوا کرگئے۔ چند دن کے بعد ان مےں سے اےک شخص آےا اور وہ صندوق مانگنے لگاآپ نے اسے وہ صندوق دے دےا۔ دوسرے دن دوسرا آگےا اور اسی صندوق کا تقاضا کرنے لگا انہوں نے کہا وہ صندوق تو تمہارا ساتھی کل لے گےا تھا۔
اس شخص نے کہا: ہم نے تو آپ سے ےہ کہا تھا کہ جب تک ہم دونوں نہ آئےں صندوق نہ دےجئے گا وہ بولےں بے شک ےہ تو کہا تھا۔ اس نے کہا: تب پھر آپ نے وہ صندوق اس کو کےوں دے دےا اس کی ےہ بات سُن کر امام شافعی کی والدہ پرےشان ہوگئےں اور سوچنے لگےں کہ کےا کےا جائے؟ اسی دوران مدرسہ سے چھٹی کے وقت امام شافعی تشرےف لے آئے انہوں نے والدہ سے پوچھا: آپ اس قدر پرےشان کےوں ہےں؟ اس پر ان کی والدہ نے سارا قصہ کہہ سناےا۔
آپ نے کہا: پرےشان نہ ہوں مےں اس سے بات کرتا ہوں۔ پھر اس شخص کی جانب متوجہ ہو کر فرماےا: تم اپنے ساتھی کو اپنے ہمراہ لے آو ¿ تاکہ شرط کے مطابق وہ صندوق تم دونوں کے حوالے کےا جا سکے۔ آپ کی ےہ بات سن کر اس کے طوطے اڑ گئے۔ وہ دوسرے ساتھی کو کےوں اور کےسے اپنے ہمراہ لا سکتا تھا وہ تو ملی بھگت سے چاہتے تھے کہ ہمےں شاےد کچھ اور مال مل جائے گا لےکن ےہ جواب سن کر بس وہ اپنا سا منہ لے کر لوٹ گےا۔
دانائی جس پر نثار تھی
امام محمد بن ادرےس شافعی ؒ کو اللہ کرےم نے بے شمار خداداد صلاحتےوں سے نوازا تھا ان کے فہم و ذکا نے انہےں علم کا متلاشی بنا دےا تھا، پھر شوق علم نے انہےں شہروں شہروں پھراےا۔ خود فرماتے ہےں کہ مےری عمر جب چودہ برس تھی مےں مکہ مکرمہ سے مدےنہ منورہ کی جانب روانہ ہوا۔آٹھوےں دن عصر کے وقت کے وقت شہر مدےنہ مےں ہمارا داخلہ ہوا مسجد نبوی مےں نماز پڑھی، پھر آقا علےہ السلام کی قبر اطہر کے سامنے حاضری دی اور درود و سلام پڑھا۔ بعدازاں اےک بڑے تعلےمی حلقے مےں امام مالکؒ دکھائی دےئے جو بڑے باوقار انداز مےں بآواز بلند حدےث کا سبق پڑھا رہے تھے ان کے الفاظ ےہ تھے مجھ سے نافع نے سےدنا ابن عمرؓ کے واسطے سے اس قبر شرےف کے مکےن (حضرت محمد) سے رواےت کےا۔ ےہ کہہ کر انہوں نے اپنا ہاتھ پھےلا کر قبر شرےف کی طرف اشارہ کےا۔
ےہ نظارہ دےکھ کر امام مالک کی ہےبت مےرے دل پر چھا گئی اور اس حلقے مےں جہاں جگہ ملی وہےں بےٹھ گےا ۔ مےرے پاس قلم دوات اور کاغذ تو تھا نہےں جب امام مالک نے درس حدےث شروع کےا تو مےں نے جلدی سے اےک تنکا اٹھا لےا۔ اس تنکے کو اپنے لعاب دہن مےں تر کرکے اپنی ہتھےلی پر لکھتا رہا امام مالک مےرا ےہ عمل دےکھ رہے تھے مگر مجھے خبر نہ تھی آخر مجلس علم ختم ہوگئی اور سب طلبہ چلے گئے لےکن مےں بےٹھا رہا آپ نے مجھے اشارے سے بلاےا۔ مےں قرےب پہنچا تو کچھ دےر بڑے غور سے مجھے دےکھتے رہے پھر فرماےا:....
حرم کے رہنے والے ہو؟
مےں نے عرض کےا جی ہاں !
فرمانے لگے : قرےشی ہو؟ عرض کےا، جی ہاں!
فرماےا: شرافت و وقار اور حصول علم کے سب اوصاف تو پورے ہےں مگر تم مےں اےک بے ادبی بھی ہے وہ ےہ کہ رسول اللہ کی احادےث مبارکہ سنا رہا تھا اور تم تنکا لئے کھےل رہے تھے۔ مےں نے عرض کےا کا غذ مےرے پاس نہےں تھا اس لئے جو کچھ آپ سے سنتا تھا اسے ہتھےلی پر لکھتا جاتا تھا۔ اس پر امام مالک نے مےرا ہاتھ اپنے سامنے کرکے دےکھا اور فرماےا: پر تو کچھ بھی نہےں لکھا ہوا۔ مےں نے عرض کےا جی ہاں ےہ سچ ہے کہ ہاتھ پر لعاب باقی نہےں رہتا لےکن آپ نے جتنی حدےثےںسنائی ہےں مجھے سب ےاد ہو چکی ہےں۔
امام مالک کو تعجب ہوا، فرمانے لگے سب نہےں! صرف اےک ہی سنا دو! مےں نے فوراً انہی کے انداز مےں سنانا شروع کر دےا۔ ہم سے مالک نے نافع اور ابن عمرؓ کے واسطے سے اس قبر شرےف کے مکےن (حضرت محمد) سے رواےت کےا ہے۔ اور امام مالک ہی کی طرح مےں نے بھی ہاتھ پھےلا کر قبر شرےف کی طرف اشارہ کےا پھر وہ پوری 25 حدےثےں سنا دےں جو انہوں نے اپنے بےٹھنے کے وقت سے مجلس کے اختتام تک سنائی تھےں۔ آپ بہت خوش ہوئے مجھے شاباش دی، مےری ذہانت کو خوب سراہا اور مجھے اپنے ہاں ٹھہرا کر دوران سبق خصوصی توجہ سے نوازا۔ ےوں مےں امام مالک کے ہاں آٹھ مہےنے رہا اور آپ کی جمع کردہ احادےث کی کتاب (موطا امام مالک) مےں نے ساری حفظ کر لی۔
اےام حج کے بعد مدےنہ طےبہ کی زےارت کرنے اور موطا سُننے کے لئے مصر کے لوگ شہر مدےنہ مدےنہ آئے۔ مےں نے ان مصرےوں کو اور ان کے بعد آنے والے عراقےوں کو مذکورہ کتاب حدےث پوری پڑھائی۔ اےک روز قبر شرےف اور منبر کے درمےان مجھے اےک نوجوان دکھائی دےا، صاف ستھرے کپڑے پہنے کھڑا تھا اس کی نماز بھی اچھی تھی اور حرکات و سکنات بھی خوب شائستہ۔ مےں نے اس سے نام پوچھا اور علےک سلےک کی جس سے معلوم ہوا کہ وہ کوفہ کا باشندہ ہے۔
مےں نے اس سے پوچھا: کوفہ مےں کتاب و سنت کا بڑا عالم و مفتی کون ہے؟
اس نے جواب دےا: ابو ےوسف اور محمد بن حسن۔ (یہ دونوں امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں) ۔
ےہ سُن کر مےرے دل مےں عراق جانے کا شوق پےدا ہوا تو مےں نے امام مالک کے پاس آکر اپنا ارادہ ظاہر کےا انہوں نے حصول علم کے لئے مےری ہمت افزائی کی اور زاد سفر کا انتظام کرکے مجھے رخصت کرنے کے لئے علی الصباح جنت البقےع تک آئے۔ حاجےوں کے اےک قافلے کے ساتھ چوبےس دن مےں کوفہ پہنچا، وہاں مسجد مےں عصر کے وقت اپنے زمانے کے بڑے علماءامام محمد بن حسن اور امام ےوسف سے ملاقات ہوئی۔ مےری گفتگو سے انہوں نے اندازہ کر لےا کہ ےہ نوجوان صاحب علم ہے نےز محمد حسن نے اثنائے گفتگو ےہ بھی درےافت کےا کہ امام مالک کو تم نے دےکھا ہے؟ مےں نے کہا جی ہاں! امام مالک ہی کے پاس سے آ رہا ہوں۔
پوچھا ان کی کتاب موطا بھی دےکھی ہے؟
مےں نے کہا جی ہاں! حفظ بھی کر چکا ہوں۔
محمد بن حسن ؒ اس پر متعجب ہوئے، اس وقت لکھنے کا سامان طلب کےا اور اےک بڑے کاغذ پر فقہ کے دو مسئلے لکھ کر مےری طرف بڑھاتے ہوئے بولے ان مسائل کا جواب موطا کے حوالے سے تحرےر کرو۔ مےں نے جواب لکھ کر آپ کے سامنے پےش کر دئےے جوکہ انہوں نے درست قرار دےے۔ اس کے بعد امام محمد بن حسن نے مےری بہت قدر افزائی کی، اچھی سواری پر اپنے گھر لے آئے اور اےک ہزار درہم کا قےمتی جوڑا مجھے پہناےا، اور اپنے کتب خانہ سے اپنے استاد امام اعظم ابوحنےفہ کی تالےف نکال کر دی جسے مےں نے رات کو ےاد کرنا شروع کر دےا اور صبح ہونے سے پہلے مجھے حفظ ہو چکی تھی، پھر کےا تھا، ےکے بعد دےگرے اللہ تعالیٰ نے ڈھےروںکامرانےاں مےرے قدموں پر نثار کر دےں۔
اس پر اللہ کے نبی بہت خوش ہوئے
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مسجد نبوی مےں تشرےف فرما تھے آپ نے اےک صحابی کو اپنے قرےب بلا کر فرماےا : تمہاری بےٹی کا رشتہ مطلوب ہے وہ بولے : آقا کی بات سر آنکھوں پر .... اس سے بڑی خوش قسمتی مےرے لئے اور کےا ہوگی ےہ تو آپ کی عناےت ہے۔ آپ نے ارشاد فرماےا مجھے آپ کے اچھے جذبات دےکھ کر خوشی ہو رہی ہے لےکن اپنے لئے نہےں مےں نے جُلَےبِےبؓ کے لئے ےہ رشتہ مانگا ہے۔ وہ بولے : تو پھر مےں بچی کی ماں سے مشورہ کرکے بتاتا ہوں۔ ےہ کہہ کر وہ اپنے گھر کی جانب چل پڑے۔ گھر پہنچ کر اپنی اہلےہ سے بات کی تو وہ کہنے لگےں ہم نے تو فلاں کا رشتہ بھی قبول نہےں کےا تھا کہ ہماری بچی اتنی سمجھ دار اور خوبصورت ہے اور ےہ تو کالے رنگ کے اور قبول صورت آدمی ہےں۔ ابھی ےہی کہا تھا کہ ان کی دانا بچی جو پس دےوار ےہ باتےں سن رہی تھی.... بولی : امی جان! مجھے حضور کا بھیجا ہوا رشتہ منظور ہے چاہے وہ کیسا ہی ہو، بس آپ حضور کی بات کو رد نہ کرےں۔ وہ صحابی رحمت دوعالم کے پاس آئے اور ساری بات کہہ سنائی تو آپ اس دانا بچی کی باتوں پر بہت خوش ہوئے اور اسے ڈھےروں دعائےں دےں۔
دانائی کامران ہوتی ہے
سپہ سالار حضرت محمد مصطفی جب کسی غزوہ کے لئے لشکر کے ہمراہ جانے لگتے تو آپ کی عادت مبارکہ ےہ تھی کہ مدےنہ منورہ سے باہر نکل کر سارے لشکر کا معائنہ فرماتے اور بڑی دور اندےشی سے اس کا جائزہ لےتے ۔ چنانچہ غزوہ اُحد کے موقع پر جب آپ معائنہ فرما رہے تھے تو آپ کو لشکر کے آخری صفوں مےں چند بچے اےسے نظر آئے جوکہ کمسن تھے جس کے باعث آپ نے انہےں واپس جانے کا حکم دے دےا۔
ان مےں دو بچے بہت سمجھ دار تھے انہوں نے اپنی ذہانت کے باعث لشکر مےں اپنی جگہ بنا لی۔ وہ اس طرح کہ سےدنا رافع ؓ اےڑےاں اٹھا کے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے اور اپنے چچا سے کہا وہ حضور کے سامنے مےری سفارش فرما دےں۔ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ! ےہ رافع تےر چلانا بہت اچھا جانتا ہے۔ آپ نے ذرا اےک نگاہ شفقت ان پر ڈالی تو بھانپ گئے کہ بچہ واقعی بہت سمجھ دار ہے لہٰذا آپ نے انہےں اجازت عطا فرما دی اور وہ خوشی مچلنے لگے۔
دوسرے بچے سےدنا سَمُرَہ بن جندبؓ تھے انہوں نے اپنے سوتےلے والد سے سرگوشی کے انداز مےں کہا کہ حضور نے رافع ؓ کو تو اجازت دے دی ہے حالانکہ مےں رافع سے بہت طاقتور ہوں اگر مےرا ان سے مقابلہ ہو جائے تو مےں ان کو پچھاڑ بھی لوں گا۔ ےہ بات چےت جب آقا علیہ السلام نے سنی تو انتہائی شفقت سے فرماےا: اچھا تم دونوں کا مقابلہ ہوگا تم رافعؓ کو گرا کردکھاو ¿!
اب بھرے مےدان مےں ان دونوں بچوں کا مقابلہ ہوا اور خوش قسمتی سے ےہ غالب آگئے اور نگاہ نبوت نے شاباش سے سرفرار فرماتے ہوے لشکر کے ہمراہ انہیں بھی جانے کی اجازت عطا فرما دی۔ ےوں ان دونوں بچوں نے اپنی دانائی اور بہادری سے مےدان مار لےا۔
علم کا خزانہ
حضرت عبداللہ خراسان کے مشہور علمی شہر مرو مےں پےدا ہوئے ان کے والدےن کی خواہش تھی کہ ان کا پےارا بےٹا علم کے آسمان پر سورج بن کر چمکے اس لئے انہوں نے آپ کی تربےت پر خاصی توجہ دی۔ ابتدا مےں آپ کی توجہ پڑھنے لکھنے کی جانب نہ تھی بعد مےں اللہ کرےم نے ان کے دل اور سےنے کو اپنے دےن کے لئے کشادہ فرما دےا اور آپ پوری ےکسوئی سے حصول علم کی راہ پر چل پڑے۔
آپ کے والد نے اےک موقع پر آپ کو اےک خطےر رقم ےعنی پچاس ہزار درہم دئےے تاکہ آپ نوجوانی کے عالم مےں ہی تعلےم کے ساتھ ساتھ کوئی تجارت بھی شروع کر دےں۔ آپ نے وہ رقم لی اور سفر پر چل دئےے اس دوران بہت سے ملکوں مےں پھرے اور بہت سے نامور علماءسے علم حاصل کےا اور اےک عرصہ بعد احادےث کے لئے لکھے ہوئے بڑے بڑے رجسٹر ہمراہ لائے۔
کچھ عرصہ بعد آپ کے والد حضرت مبارک بےٹے کی آمد کی خبر سُن کر استقبال کےلئے شہر سے باہر آئے بےٹے سے ملے اور پوچھا: کہو تمہارا تجارتی سفر کےسا رہا؟
حضرت عبداللہ بولے : ابا جان سفر بہت خوب رہا!
اللہ کا شکر ہے کہ بے حد نفع حاصل ہوا۔
پوچھا: بےٹا ! کہاں ہے وہ نفع؟ آپ نے پاس رکھے ہوئے احادےث کے رجسٹروں کی جانب اشارہ کرکے فرماےا ابا جان ےہ ہے نفع ! جو دنےا اور آخرت دونوں کے لئے ہے ےہ صرف کاغذ کے رجسٹر نہےں بلکہ ان مےں اللہ کے رسول حضرت محمد کے علم کا خزانہ موجود ہے آپ کے والدہ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا، بےٹے کو گلے سے لگاےا ماتھا چوما اور پھر رب تعالیٰ کے حضور سربسجود ہوگئے کہ اس نے ہمارے بےٹے کو دانائی کا ےہ جوہر بخشا اور اسے علم کے حقےقی اور اصلی سرماےہ سے مالا مال کر دےا ہے۔
حضرت مبارکؒ نے اپنے بےٹے کو اسی خوشی مےں تےس ہزار روپے مزےد دےے اور فرماےا: پےارے بےٹے! ےہ لے لو ! اور تمہاری منافع بخش تجارت مےں اگر کوئی کوئی کسر رہ گئی ہو تو اسے بھی پورا کرلو۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ علےہ فرماتے ہےں کہ مےں نے حصولِ علم کے لئے شام، مصر، کوفہ، بصرہ، ےمن اور حجاز وغےرہ بہت سے ملکوں کا سفر کےا اور اپنے زندگی مےں چار ہزار اساتذہ سے مےں نے علم حاصل کےا جن مےں حضرت سفےان ثوری اور امام اعظم ابو حنےفہ جےسی جلےل القدر، ہستےاں بھی شامل تھےں ےوں اللہ کرےم نے خداداد ذہانت و فطانت اور والدےن کی چاہت کے مطابق آپ کو آسمان علم کا چمکتا ستارہ بنا دےا۔
وہ لاجواب ہوکر رہ گےا
حضرت شاہ اسماعےل شہےد بچپن ہی سے بہت ذہےن اور ہوشےار تھے اےک دفعہ آپ اےک گھرےلو خادم کے ساتھ گلی مےں رہتے تھے کہ اےک شخص کو دےکھا جو اےک کتا ساتھ لئے پھر رہا تھا آپ نے پوچھا۔ ےہ کتا ہر وقت کےوں آپ ساتھ ساتھ لئے پھرتے ہےں؟ اس نے دےن کی بات کو چوٹ کرتے ہوئے کہا: مےں نے سنا ہے کہ جہاں کتا ہو وہاں فرشتے نہےں آتے لہٰذا مےں اسے ساتھ لئے پھرتا ہوں تاکہ موت کا فرشتہ مےرے پاس نہ آئے اور مےں موت سے بچا رہوں۔
آپ نے نہاےت دانائی سے فرماےا لےکن جو فرشتہ کتوں کی جان نکالتا ہے تم اس سے کےسے بچے سکو گے وہی آکر تمہاری جان قبض کر لے گا وہ شخص مبہوت کھڑا رہ گےا اور اسے کچھ جواب نہ سوجھا۔
آسمان علم کا اےک روشن ستارہ
ایک مرتبہ حلب شہر مےں دمشق کے اےک بڑے عالم آئے انہوں نے سنا کہ ےہاں اےک بچہ اےسا ہے کہ جس کا نام ”احمد بن تےمےہ“ ہے اور وہ بے حد ذہےن ہے کسی بھی چےز کو دےکھتا ہے تو فوراً ےاد کر لےتا ہے۔ اس کی دانائی کو متحےر کر دےتی ہے اور اس کی ذہانت پر لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ہےں ۔ ان کو اس کے دےکھنے اور امتحان لےنے کا شوق ہوا اور جس راستے سے ابن تےمےہ کا گزر ہوتا تھا وہاں قرےب ہی اےک درزی کی دکان پر بےٹھ گئے۔
کچھ دےر گزری تو درزی نے کہا اب وہ بچہ آتا ہی ہوگا ےہی راستہ اس کے مدرسہ کو جاتا ہے۔ اسی اثنا مےں کچھ بچے وہاں سے گزرے جوکہ مدرسہ کی طرف جا رہے تھے۔ اس درزی نے کہا دےکھئے جناب ! وہ بچہ جس کے پاس بڑی سی تختی ہے وہی ابن تےمےہ ہے۔ انہوں نے اس بچے کو پےار سے قرےب بلاےا اس کی تختی دےکھ کر فرماےا جو کچھ اس پر لکھا ہے اس کو صاف کر ڈالو۔ پھر آپ نے اس بچے کو تقرےباً گےارہ احادےث لکھوائےں اور کہا ان کو پڑھ لو۔ بچے نے اےک بار پڑھا لےا تو اس سے تختی لے لی اور کہا وہ احادےث سنا دےجئے تو اس بچے نے وہ سب حدےثےں فوراً سنا دےں اسی طرح چند بار کچھ تحرےر کرواےا اور پھر سنا تو ٹھےک ٹھےک سنا دےا۔ وہ عالم بہت خوش ہوئے اور فرماےا اس کی مثال ملنا مشکل ہے ےہ بچہ جےتا رہا تو کوئی چےز بنے گا پھر اےسا ہی ہوا بڑے ہوکر زمانے نے آپ کو شےخ الاسلام ابن تےمےہ کے نام سے پہچانا جن کا نام آسمان علم پر آج بھی ستاروں کی طرح روشن ہے۔
اللہ کی رحمت اور ماں کی دعا
حضرت جنےد بغدادی ؒ فرماتے ہےں کہ اولےاءاللہ مےں اللہ تعالیٰ نے حضرت باےزےد بسطامی کو امتےازی شان عطا فرمائی ہے۔ حضرت باےزےد بچپن مےں ےتےم ہوگئے تھے ان کی ماں ہی ان کی کل کائنات تھی۔ ماں نے آپ دےنی تعلےم کے حصول کے لئے مدرسہ مےں داخل کراےا۔ قاری صاحب سے کہا کہ مےرا بچہ بہت ذہےن ہے اس کو اپنے پاس رکھنا تاکہ زےادہ گھر آنے جانے کی عادت نہ پڑے اور علم سے محروم نہ ہوجائے۔ چنانچہ کئی دن قاری صاحب کے پاس رہنے کے بعد اےک دن اداس ہوگئے دل چاہا کہ والدہ سے مل آو ¿ں معلم صاحب سے اجازت مانگی تو انہوں نے شرط لگا دی کہ تم اتنا اور اتنا سبق ےاد کرکے سنا دو تب اجازت ملے گی۔ سبق کی مقدار معمول سے بہت زےادہ تھی مگر وہ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر آپ نے جلدی سے وہ سارا سبق ےاد کرکے سنا دےا ےوں آپ کو گھر جانے کی اجازت مل گئی۔
گھر کے دروازے پر پہنچے، دستک دی، ماں وضو کر رہی تھےں وہ پہچان گئیں اور دروازے کے قرےب آکر پوچھا : ”من دق الباب“ دروازے پر دستک کس نے دی ؟ جواب دےا باےزےد آےا ہے ماں نے کہا اےک مےرا بےٹا باےزےد تھا مےں نے تو اسے اللہ کے دےن کے لئے وقف کردےا تو کون سا باےزےد ہے؟ ماں کے ےہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ والدہ ےہ چاہتی ہےں مےرا دروازہ نہ کھٹکھلائے اب مدرسہ مےں رہ کر باےزےد اللہ کادروازہ کھٹکھٹائے چنانچہ واپس آگئے مدرسہ مےں رہے اور اس وقت نکلے جب عالم باعمل بن چکے تھے۔ ماں نے ان کی محبت کو قربان کر دےا تاکہ وہ خوب محنت کرکے بلند مقام حاصل کرلےں اور جب اللہ کی رحمت اور ماں کی دعا مل جائے تو بھلا کون سا مقام ہے جو انسان کو نہےں عطا ہوتا۔
No comments:
Post a Comment