حسن سید علی بن عثمان ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخشؒ
465-400ھ/ 1072-1010ئ
حضرت داتا گنج بخشؒ کی لاہور میں آمد
حضرت داتا گنج بخش لاہور کب تشریف لائے؟ اس بارے میں مﺅرخین کی آراءاور ان کی تنفیح حسب ذیل ہے:۔
-1 اس بارے میں مشہور قدیم روایات حضرت نظام الدین اولیاءسے منقول ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت داتا گنج بخش اور شیخ حسین زنجانی لاہوری دونوں پیر بھائی ہیں۔ شیخ حسین زنجانی پہلے سے لاہور میں مقیم تھے۔ایک دن حضرت داتا گنج بخش کے مرشد نے آپ کو حکم دیا کہ لاہور جاﺅ۔ چنانچہ حضرت داتا گنج بخش لاہور روانہ ہ وگئے۔ جس دن لاہور پہنچے رات ہو گئی تھی شہر کے دروازے بند ہو گئے تھے لہٰذا باہر رات گزاری۔ صبح اٹھے تو دیکھا کہ لوگ ایک جنازہ اٹھائے شہر سے باہر آرہے ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہا کہ یہ جنازہ شیخ حسین زنجانیؒ کا ہے۔ آپ کو اس وقت اپنے مرشد کے حکم کی حکمت سمج میں آئی۔ (خواجہ سجزی: فوائد الفواد، ص 57 طبع لاہورو 1966ئ)۔ یہ روایت ثمرات القدس میں بھی ہے، مگر کسی اور قدیم تذکرے میں نہیں ہے۔
-2 حضرت داتا گنج بخش نے کشف المحجوب میں معاصرین کا ذکر کرتے ہوئے شیخ حسین زنجانی کا اور اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا ہے البتہ اس میں ایک اخی زنجانیؒ کا ذکر ملتا ہے مگر وہ آذر بائی جان کی شخصیت ہے نہ کہ لاہور کی۔ (کشف المحجوب: 135)
-3 تذکرے واضح کرتے ہیں کہ شیخ حسین زنجانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے معاصر تھے اور دونوں کی باہم ملاقاتوں کا حال ملتا ہے۔ (سیرالعارفین مخطوطہ/ پروفیسر محمد اسلم: تاریخی مقامات: 28 طبع لاہور 1970ئ۔ محمد صالح کنبوہ: عمل صالح، 50:1 طبع لاہور)
-4 حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی وفات 633ھ میں ہوئی۔ مفتی غلام سرور لاہوری نے حضرت داتا صاحب کی وفات 465 ھ اور شیخ حسین زنجانی کی وفات 600 ھ دی ہے۔ (خزینة الاصفیائ، 252:2)۔ مولوی نور احمد چشتی نے یہ سال 604ھ دیاہے۔ (تحقیقات چشتی: 125 طبع لاہور۔ 1964ئ)
حضرت داتا گنج بخش متفقہ روایات کی رو سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے پہلے ہوئے تھے۔ ان کی تاریخ وفات عام تذکروں میں 465ھ درج ہے۔ اس طرح واضح ہوتا ہے کہ حضرت داتا صاحب اور شیخ حسین زنجانی معاصر نہیں۔
-5 جدید آراءتین ہیں: -1 محمود غزنوی کے ساتھ آئے (سبحان رائے: خلاصة التواریخ اردو، ص 106)
-2 مسعود غزنوی کے حملہ ہانسی کے وقت 429ھ میں اس کے ساتھ آئے۔ ہاشمی فرید آبادی: مآثر لاہور ص، 186)
-3 مسعود غزنوی کی ترکمانوں سے شکست کے بعد 431ھ میں آئے۔ محمد حسین تسبیحی: مقالہ ڈاکٹریٹ کشف المحجوب، ص 16,15)
ان آراءمیں سے درست یہی ہے کہ حضرت داتا داحب 431ھ میں غزنی سے لاہور تشریف لائے۔ ان دنوں غزنی میں سلطان مسعود غزنوی حکمران تھا اور سلطان الپ ارسلان سلجوتی نے غزنی پر حملہ کر کے اسے شکست فاش دے دی تھی۔ اس بدامنی کے دور میںغزنی کے مقامی لوگ خصوصاً علماءو صلحاءدوسرے علاقوں کو ہجرت کر گئے تھے جبکہ خود سلطان مسعود بھی لاہور آتے ہوئے جہلم کے کنارے گرفتار ہو کر ماراگیا۔ اسی افراتفری کے زمانے میں حضرت داتا صاحب اپنے دو ساتھیوں ابو سعید ہجویری اور حماد سرخی کے ساتھ لاہور پہلی مرتبہ تشریف لائے۔ (محمد دین فوق: سوانح حضرت علی بن عثمان ہجویری، ص /137 مولانا سید محمد متین ہاشمی: سید ہجویر، ص 175)
آپ کے مزار سے فیض پایا ہے مثلاً چشتی سلسلہ کے پیشوا حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ اور مجدد الف ثانیؒ نے آپ کے مزار مبارک پر حاضری دی۔ درحقیقت آپ کی حیثیت برصغیر پاک و ہند میں تبلیغ دین اور دعوت ارشاد کے باب میں مقدمة الجیش کی ہے۔ آج بھی لاہور کی شناخت پورے پاکستان میں داتا کی نگری کے طور پر ہے۔
حضرت داتا گنج بخش کی شادی کا معاملہ
سفینة الاولیاءنفحات الانس، نزہتہ الخواطر اور خزینة الاصفیاءنے اس کا ذکر نہیں کیا۔ عبدالماجد دریا بادی کی رائے میں آپ نے شادی نہیں کی۔ ڈاکٹر ظہورالدین احمد کے مطابق آپ نے شادی نہیں کی، تجرد میں زندگی گزار دی (پاکستان میں فارسی ادب، 124:1 طبع لاہور)۔ مولانا سید عبدالمتین ہاشمی کی رائے بھی یہی ہے۔ (سید ہجویر، ص 207-206) محمد دین فوق نے لکھا ہے کہ آپ کی دو شادیاں والدین نے کی تھیں۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد گجارہ سال تک علائق زواج سے بچے رہے، پھر دوسری شادی کی مگر ایک سال بعد یہ بیوی بھی فوت ہوگئی (سوانح حیات علی ہجویری، 25-24)۔ حضرت داتا صاحب کے تفصیلی حالات معلوم نہیں ہیں۔ کشف المحجوب میں ان کی عبارت نکاح و تجرید کے ضمن میں نہایت مجمل ہے جس سے کچھ واضح نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ گیارہ سال وہ آفت تزویج سے بچے رہے پھر اس میں اسیر ہو گئے۔ (کشف المحجوب ژووکو فسکی، ص 276)
تصانیف
ان کی بعض تصانیف کے نام یہ ہیں مگر ان کا نام جس سدابہار کتاب کی بناءپر زندہ ہے وہ کشف المحجووب ہے۔ -1 دیوان شعر۔ -2 کتاب فنا و بقائ۔ -3 اسرار الخقرق والمﺅنات۔ -4 الرعایہ لحقوق اللہ تعالیٰ۔ 5 کتاب البیان لابل العیان۔ -6بحرالقلوب۔ -7 منہاج الدین۔ -8 ایمان۔ -9 فرق الفرق۔ -10 کشف الاسرار۔ (کشف المحجوب: 337, 97, 96,63, 67,2، صبع تہران)۔ میں ان میں سے صرف کشف الاسرار اور کشف المحجوب دستیاب ہیں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ کی تعلیمات
حضرت داتا گنج بخش علم و فضل میں مجتہدانہ شان رکھتے تھے، وہ صاحب صحو، صاحب مقام اور صاحب مسلک صوفی تھے اور تصوف کے مدونین فن میں ان کا نام امام قشیریگ اور عبدالرحمان سلمی کے بعد اور امام غزالی اور شیخ عبدالقادر جیلانی سے پہلے آتا ہے لہٰذا ان کی تعلیمات جن کا واحد سرچشمہ ان کی کتاب کشف المحجوب ہے، نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ کتاب حقیقت میں علوم تصوف کا ایک جامع اور مختصر انسائیکلو پیڈیا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش نے اس میں تصوف کی شرعی حجیت کو بیان کرنے کے بعد اس کی مختصر اورو جامع تاریخ پر قلم اٹھایا ہے اور اسے اپنے زمانے تک بیان کیا ہے۔ صوفیاءکے مختلف فرقوں پر بحث و تنقید کی ہے۔ بعدازاں بعد تصوف کی رسوم، حقائق اور اخلاق پر فصول تحریر کی ہیں اور آخر میں اس کی 165 اصطلاحات کی تشریح قلمبند کی ہے۔ اس اجمالی جائزہ کے بعد آپ کی تعلیمات سے چند فقرات ذیل میں بطور تبرک قارئین کی تنویر بصیرت کےلئے درج ہیں جو کشف المحجوب اور کشف الاسرار سے منتخب ہیں:۔
-1 نفس ایک باغی کتاب ہے۔ کتے کا چمڑا جب تک دباغت اور رنگت نہ کیا جائے، پاک نہیں ہوتا۔
-2 نفس کی مخالفت سب عبادتوں کا اصل اور سب مجاہدوں کا کمال ہے۔
-3 پیغمبر کی بزرگی اور رقبہ کی بلندی صرف معجزہ ہی سے نہیں بلکہ عصمت کی صفائی سے ہے۔
-4 عارف عالم بھی ہووتا ہے مگر ضروری نہیں کہ عالم بھی عارف ہو۔
-5 بندہ کےلئے سب چیزوں سے زیادہ مشکل خدا کی پہچان ہے۔
-6 بوڑھوں کو چاہئے کہ وہ جوانوں کا پاس خاطر کریں کینوکہ ان کے گناہ بہت کم ہیں اور جوانوں کو چاہئے کہ بوڑھوں کا احترام کریں کیونکہ وہ ان سے زیادہ عابد اور تجربہ کار ہیں۔
-7 فقر کی معرفت (تعلیم اور پہچان) کےلئے سیر دنیا سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔
-8 دنیا کے ساتھی (ہاتھ۔ پاﺅں۔ آنکھیں) جو بظاہر دوست نظر آتے ہیں، دراصل تیرے دشمن ہیں۔
-9 دس چیزیں دس چیزوں کو کھا جاتی ہیں:
-1 توبہ گناہوں کو -2 جھوٹ رزق کو، -3 غیبت نیک اعمال کو۔ -4 غم عمر کو۔ -5 صدقہ بلاﺅوں کو۔ -6 غصہ عقل کو۔ -7 پریشانی سخاوت کو یعنی دے کر بعد میں پچھتانا۔ -8 تکبر علم کو۔ -9 نیکی بدی کو، -10 عدل ظلم کو۔
-10 سماع بلاضرورت نہیں سننا چاہئے اور اس کا عادی نہ بننا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment