پروفیسر غلام سرور رانا
امام العارفین سید مخدوم علی ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخشؒ نے کشف المحجوب شریف مےں بڑی اعلیٰ و ارفع بات فرمائی ہے۔ ”تمام مشائخ اس بات پر متفق ہےں کہ جب بندہ مقامات کی قید سے خلاصی حاصل کر لیتا ہے اسے احوال کی کثافتوں سے رہائی نصیب ہو جاتی ہے وہ دنیا کے تغیر و تبدل سے بے نیاز ہو جاتا ہے تمام حالتوں مےں پسندیدہ اوصاف کا مالک بن جاتا ہے اس وقت وہ اپنے تمام اوصاف حمیدہ سے جدا ہو جاتا ہے یعنی اپنی کسی بھی صفت کا خیال بھی دل مےں نہیں لاتا، نہ اسے دیکھتا اور نہ اس پر فخر کرتا ہے تاکہ اس کا مقام عقل کی رسائی سے بلند اور حال وہم و گمان کی دسترس سے بلند ہو جائے“
اسی پہلو کی مزید وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہےں:
”جب سالک اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو دنیا و آخرت کے لئے فنا ہو جاتا ہے اور اس وقت وہ انسانی جسم مےں روح ربانی ہوتا ہے اس کی نگاہ مےں سونا اور مٹی برابر ہو جاتے ہےں، اس وقت اس کے لئے احکام شریعت کی ادائیگی نہایت سہل اور آسان ہو جاتی ہے، جو دوسروں کے لئے مشکل ہوتی ہے۔“
محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم وہی کام کریں اور وہی بات کریں محبوب خدا نے جس کا حکم فرمایا ہو لیکن ہماری محبت کی ابتری کا یہ عالم ہے کہ سنت مطہرہ کی پیروی مےں شرم محسوس کرتے ہےں۔ شعوری اور غیر شعوری طور پر دشمنان مصطفی کے شعار کو اپناتے جا رہے ہےں، اس سلسلے مےں بالکل شرم محسوس نہیں ہوتی۔ سبحان اللہ! جو بات عزت و افتخار کی ہے وہاں شرم محسوس ہوتی ہے اور جو بات ذلت و رسوائی کی ہے وہاں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ اسی لیے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ دربار رسالت مےں اس طرح عرض رساں ہےں....
نعشش پیش طبیباں بردہ ام
درحضور مصطفی آوردہ ام
اور اس طرح عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کی درخواست کرتے ہےں:
اے کہ از احسان تو ناکس، کس است
یک دعایت مزد گفتارم بس است
انسان کی بہتری کےلئے مزید فرماتے ہےں، کیونکہ انہیں رسالت مآب اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دلی محبت تھی۔ ہاں دیکھنا ان اللہ کے پیاروں کے پاس بیٹھنا جن کی صحبت مےں آتش عشق بھڑکتی ہے، خبردار! ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھنا جن کی صحبت دل کے ہنگامے سرد کر دیا کرتی ہے۔
شریک حلقہ رندان بادہ پیما باش
حذر زبیعت پیرے کہ مرد غوغا نیست
دامن رسالت سے اس وابستگی اور پیوستگی کی وجہ سے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کو دابستگان دامن رسالت مآب سے بھی بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ وہ اس جھوٹی محبت کے قائل نہیں جو صرف محبوب کو چاہے اور اس کے چاہنے والوں کو نہ چاہے۔ اسی نسبت کی وجہ سے وہ اہل بیت کی محبت و الفت کو اپنی زندگی سمجھتے ہےں، وہ فرماتے ہےں کہ مےں اس خاندان عالی القدر کی محبت سے زندہ ہوں، نہ صرف زندہ ہوں بلکہ عالم مےں مثل گوہر تابندہ ہوں۔
مسلم اول شہ مرداں علی
عشق را سرمایہ ایمان علی
از ولائے دوز مانش زند ام
درجہاں مثل گوہر تابندہ ام
کلیات اقبال، مطبوعہ ایران (اسرار خودی) مےں ایک اور مقام پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی عظمت و شوکت کو ان الفاظ مےں بیان کرتے ہےں:
زیر پائیش ایں جاشکوہ خیبر است
دست او آں جا قسیم کوثر است
از خود آگاہی یداللٰہی کند
از یداللٰہی شہنشاہی کند
دراصل حقیقی شہنشاہ وہ ہے جو یداللہ ہے، اور ید اللہ وہ ہے جو خود آگاہ ہے، شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ یہ اوصاف حمیدہ بیان کر کے امت مسلمہ کو نصیحت کرنا چاہتے ہےں اور یہ بتانا چاہتے ہےں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قوت و شوکت کس طرح حاصل کی تھی، وہی خوبی ہم بھی اگر پیدا کر لیں تو ان کے در سے فیض یاب ہوسکتے ہےں وہ کسی کو ناامید نہیں کرتے، سب کے دامن بھرتے ہےں۔ ان کے مولیٰ نے ان کو بہت کچھ دیا ہے۔
شریعت اور حقیقت کشف المحجوب شریف کی روشنی مےں
امام العارفین سید مخدوم علی ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش نے شریعت اور حقیقت اور ان کے باہمی ربط اور فرق و امتیاز کو کیا احسن طریق واضح کیا ہے، فرماتے ہےں:
”پس حقیقت ایسے معنی کی تعبیر ہوتی ہے جس مےں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔“
حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قیامت تک اس کی حیثیت ایک جیسی رہتی ہے جیسے معرفت خداوندی اور خاص نیت پر مبنی اعمال شریعت سے مراد وہ معنی ہےں جن مےں تغیر و تبدل جائز ہے، جسے احکام و اوامر۔ پس شریعت انسانی فعل ہے اور حقیقت اللہ تعالیٰ کی نگہداشت اس کی طرف سے حفظ و عصمت۔ حقیقت کے باوجود بغیر شریعت مطہرہ کا قائم کرنا مشکل ترین ہے اسی طرح حقیقت کا قیام شریعت کی حفاظت کے بغیر ناممکن ترین ہے مثال کے طور پر یہ ہے کہ جسم مےں جان موجود ہے تو انسان زندہ ہے۔ جان نکل جائے تو تن مردہ ہے اور جان (روح) ہوا ہے جسم و جان کی اہمیت باہم ملاپ سے ہے اسی طرح شریعت، حقیقت کے بغیر ریا اور حقیقت بغیر شریعت کے منافقت ہے، ارشاد خداوندی ہے:
والدین جاھد و افینا لنھدینھم سبانا (سورة عنکبوت: ۹۲)
”جنہوں نے ہماری راہ مےں جدوجہد کی، ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے“
”مجاہدہ شریعت ہے اور ہدایت اس کی حقیقت۔ شریعت بندہ کے لئے ظاہری احکام کی حفاظت اور حقیقت بندہ کے باطنی احوال کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ شریعت کا تعلق انسانی کسب سے ہے اور حقیقت کا واسطہ لطف خداوندی سے لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی اور دونوں کے درمیان فرق خودبخود واضح ہوگیا۔
(کشف المحجوب شریف)
اولیائے کرام و عظام چونکہ ہدایت ربانی اور شریعت مطہرہ پر پورے اخلاص سے عمل پیرا ہوتے ہےں۔ اس لیے وہ شریعت مطہرہ اور حقیقت خداوندی ہر دو کا حسین ترین امتزاج بن جاتے ہےں اور ان کی مثال ایک ایسے مہکتے ہوئے پھول کی ہوتی ہے کہ ان کی صحبت مےں بیٹھنے والا اپنے روح و قلب مےں ایک سکون، اطمینان اور خوشگوار پن محسوس کرتا ہے۔
ایک انگریز، مفکر نے کیا ہی خوب کہا ہے:
(یعنی عظیم لوگوں کی زندگی ہمیں یاد دلاتی اور دعوت فکر و عمل دیتی ہے کہ ہم بھی اپنی زندگی کی تعمیر کر کے شاہراہ ترقی پر گامزن ہو سکتے ہےں۔ عظیم لوگوں کی زندگی زمانے کی شاہراہ پر اپنے نقوش قدم چھوڑ جاتی ہےں تاکہ سالکین راہ، ان پر چل کر اپنی منزل مقصود کو پا لیں) اور یہ ایک امر مسلمہ ہے کہ حضور قبلہ حضرت داتا گنج بخشؒ کی پاکیزہ زندگی مےں ان کے مرشد کامل حضرت ابوالفضل الختلی کی حیات مبارکہ کا عکس پوری تابانیوں کے ساتھ جھلکتا ہے۔
حضرت مولانا روم اسی لیے کیا خوب فرماتے ہےں:
صحبت صالح ترا صالح کند
محمد طالح ترا طالح کند
کسی مغربی مفکر و دانشور نے سادگی کی عظمت و تعریف بیان کرتے ہوئے ایک جگہ اس نے سادگی کی صفت سے خود متصف ہونے کی شدید آرزو کا اظہار کیا ہے۔ کسی نے اس بارے مےں کیا بے مثال کہا ہے:
مےں سادہ ہوں تو کیا ہے، سادگی ہی عین فطرت ہے
ہزاروں رنگ مٹتے ہےں اک سادہ حقیقت پر
بناوٹ کفر ہے اور سادگی نور خدا وندی
نماز عشق بھاری ہے دکھاوے کی عبادت پر
حضور قبلہ داتا گنج بخشؓ، حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کا نصیحت آموز قول فرماتے ہےں:
”یعنی ہمارا ٹھکانا فانی ہے، ہمارے احوال عارضی ہےں ہمارے سانس گنے ہوئے ہےں اور ہماری سستی نمایاں ہے“
اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے سید ہجویرؓ فرماتے ہےں:
”فانی گھر کی تعمیر جہالت ہے عارضی احوال پر اعتماد بےوقوفی ہے گنتی کے سانوں پر دل لگانا غفلت ہے اور کاہلی و سستی کو دین سمجھنا خیانت ہے کیونکہ جو چیز عاریة لی گئی ہے وہ واپس جائے گی جو چیز فانی ہے وہ نہ رہے گی، جو شے گنتی مےں آتی ہے وہ ضرور ختم ہوگی اور کاہلی و سستی کا کوئی علاج نہیں، گویا ہمیں حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے متنبہ فرمایا کہ دنیا اور اسباب دنیا اس قابل نہیں کہ ان سے دل لگایا جائے۔“
(کشف المحجوب شریف ترجمہ سید محمد فاروق القادری ص:۱۸۱)
امام شریعت و طریقت، دانائے حقیقت و معرفت، سرتاج الاولیاءو اصفیا حضرت السید مخدوم علی ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش لاہوریؓ کی بارگاہ کی گداگدی فقیر عرصہ 50سال سے کر رہا ہے۔ یہ سرکار داتا کے کرم کی انتہا ہے کہ مجھ جیسے سیاہ کار کو اپنی آغوش رحمت مےں پناہ دے رکھی ہے۔ سرکار داتا کے سجادہ نشین حضرات مےں سے قبلہ الحاج میاں خوشی محمد ہجویری دامت برکاتہم العالیہ کا یہ طرہ ¿ امتیاز ہے کہ عشق مصطفی سے سرشار ہو کر کئی کتب چھپوا کر فری تقسیم کر چکے ہےں اور بحمد اللہ اس سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہےں۔ رب کائنات سے دست بدعا ہوں کہ سید ہجویر کے صدقہ مےں راقم سگ درگاہ داتا گنج بخشؓ کو نسبت حضرت داتا گنج بخشؓ پر زندگی اور موت عطا فرمائے۔ (امین بحرمة سید المرسلین)
سید المرسلین، اولیاءکاملین و اکملین کا فیض ان کی حیات طیبہ اور بعد ازوصال یکساں جاری و ساری رہتا ہے، حضور قبلہ عالم خود بھی فرماتے تھے، ولی اللہ جب اس دارفانی سے داربقا کی طرف منتقل ہوتے ہےں تو ان کا فیض کئی گنا بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی حین حیات مےں خداوند قدوس کو یاد کرتے ہےں اور بعداز وصال صد ملال خداوند قدوس مخلوق خدا کی زبان سے ان کو یاد کرتا ہے اور ان کا مزار پر انوار انوار و تجلیات کا مرکز بن جاتا ہے۔
قولہ تعالیٰ فاذکرونی اذکرکم یعنی تم مجھے یاد کرو مےں تمہیں یاد کروں گا، حضور قبلہ عالم میاں عمر الدین ہمیشہ شہباز عظیم حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی اس رباعی کا ورد کرتے تھے۔
خوا ہم کہ ہمیشہ در ہوائے تو زیم
خاکے شوم وزیر پائے تو زیم
مقصود من بندہ زکونین توئی
بہر تو یرم وزبرائے تو زیم
ترجمہ: میری سنای ہے کہ اے دوست تیرے قدموں مےں رہوں، سراپا خاک ہو جاﺅں اور تیرے قدموں تلے روندا جاﺅں کیونکہ میرا مطلوب دوجہاں مےں تیرے سوا کچھ نہیں۔ تیرے لئے زندہ ہوں اور تیرے ہی لیے مرتا ہوں کیونکہ۔
پیر کامل صورت ظل الٰہ
یعنی دیدہ پیر دیدہ کبریا
چونکہ ذات پیر را کر دی قبول
ہم خدا در ذاتش آمد ہم رسول
گرجدا بینی زحق تو خواجہ را
گم کنی ہم متن وہم دیباچہ را
ترجمہ: ”اگر آپ اطاعت پیر مےں درجہ کمال پیدا کرے تو اسی مےں تمہیں قرب خداوند تعالیٰ اور عشق رسول مقبول حاصل ہوگا۔ اگر تم اطاعت شیخ کو شرک سمجھتے رہے تو کتاب توحید کے مطلب و معنی سے کورے رہ جاﺅ گے۔
بزرگوں نے فرمایا ہے:
پیر رہ کبریت احمر آمد است
سینہ او بحر اخضر آمد است
یعنی شیخ طریقت کبریت احمر سرخ گندھک یا کیمیا ہے جو اس کے ساتھ لگا سونا ہوگیا۔ پیر کا سینہ وہ چشمہ ¿ آب حیات ہے جہاں مردہ قلوب کو زندگی (جاودانی) ملتی ہے۔
جو بھی ستایا ہوا زمانے کا
سہارا لیتا ہے داتا کے آستانے کا
اسی پہلو کی مزید وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہےں:
”جب سالک اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو دنیا و آخرت کے لئے فنا ہو جاتا ہے اور اس وقت وہ انسانی جسم مےں روح ربانی ہوتا ہے اس کی نگاہ مےں سونا اور مٹی برابر ہو جاتے ہےں، اس وقت اس کے لئے احکام شریعت کی ادائیگی نہایت سہل اور آسان ہو جاتی ہے، جو دوسروں کے لئے مشکل ہوتی ہے۔“
محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم وہی کام کریں اور وہی بات کریں محبوب خدا نے جس کا حکم فرمایا ہو لیکن ہماری محبت کی ابتری کا یہ عالم ہے کہ سنت مطہرہ کی پیروی مےں شرم محسوس کرتے ہےں۔ شعوری اور غیر شعوری طور پر دشمنان مصطفی کے شعار کو اپناتے جا رہے ہےں، اس سلسلے مےں بالکل شرم محسوس نہیں ہوتی۔ سبحان اللہ! جو بات عزت و افتخار کی ہے وہاں شرم محسوس ہوتی ہے اور جو بات ذلت و رسوائی کی ہے وہاں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ اسی لیے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ دربار رسالت مےں اس طرح عرض رساں ہےں....
نعشش پیش طبیباں بردہ ام
درحضور مصطفی آوردہ ام
اور اس طرح عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کی درخواست کرتے ہےں:
اے کہ از احسان تو ناکس، کس است
یک دعایت مزد گفتارم بس است
انسان کی بہتری کےلئے مزید فرماتے ہےں، کیونکہ انہیں رسالت مآب اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دلی محبت تھی۔ ہاں دیکھنا ان اللہ کے پیاروں کے پاس بیٹھنا جن کی صحبت مےں آتش عشق بھڑکتی ہے، خبردار! ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھنا جن کی صحبت دل کے ہنگامے سرد کر دیا کرتی ہے۔
شریک حلقہ رندان بادہ پیما باش
حذر زبیعت پیرے کہ مرد غوغا نیست
دامن رسالت سے اس وابستگی اور پیوستگی کی وجہ سے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کو دابستگان دامن رسالت مآب سے بھی بے پناہ عقیدت و محبت تھی۔ وہ اس جھوٹی محبت کے قائل نہیں جو صرف محبوب کو چاہے اور اس کے چاہنے والوں کو نہ چاہے۔ اسی نسبت کی وجہ سے وہ اہل بیت کی محبت و الفت کو اپنی زندگی سمجھتے ہےں، وہ فرماتے ہےں کہ مےں اس خاندان عالی القدر کی محبت سے زندہ ہوں، نہ صرف زندہ ہوں بلکہ عالم مےں مثل گوہر تابندہ ہوں۔
مسلم اول شہ مرداں علی
عشق را سرمایہ ایمان علی
از ولائے دوز مانش زند ام
درجہاں مثل گوہر تابندہ ام
کلیات اقبال، مطبوعہ ایران (اسرار خودی) مےں ایک اور مقام پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی عظمت و شوکت کو ان الفاظ مےں بیان کرتے ہےں:
زیر پائیش ایں جاشکوہ خیبر است
دست او آں جا قسیم کوثر است
از خود آگاہی یداللٰہی کند
از یداللٰہی شہنشاہی کند
دراصل حقیقی شہنشاہ وہ ہے جو یداللہ ہے، اور ید اللہ وہ ہے جو خود آگاہ ہے، شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ یہ اوصاف حمیدہ بیان کر کے امت مسلمہ کو نصیحت کرنا چاہتے ہےں اور یہ بتانا چاہتے ہےں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قوت و شوکت کس طرح حاصل کی تھی، وہی خوبی ہم بھی اگر پیدا کر لیں تو ان کے در سے فیض یاب ہوسکتے ہےں وہ کسی کو ناامید نہیں کرتے، سب کے دامن بھرتے ہےں۔ ان کے مولیٰ نے ان کو بہت کچھ دیا ہے۔
شریعت اور حقیقت کشف المحجوب شریف کی روشنی مےں
امام العارفین سید مخدوم علی ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش نے شریعت اور حقیقت اور ان کے باہمی ربط اور فرق و امتیاز کو کیا احسن طریق واضح کیا ہے، فرماتے ہےں:
”پس حقیقت ایسے معنی کی تعبیر ہوتی ہے جس مےں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔“
حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قیامت تک اس کی حیثیت ایک جیسی رہتی ہے جیسے معرفت خداوندی اور خاص نیت پر مبنی اعمال شریعت سے مراد وہ معنی ہےں جن مےں تغیر و تبدل جائز ہے، جسے احکام و اوامر۔ پس شریعت انسانی فعل ہے اور حقیقت اللہ تعالیٰ کی نگہداشت اس کی طرف سے حفظ و عصمت۔ حقیقت کے باوجود بغیر شریعت مطہرہ کا قائم کرنا مشکل ترین ہے اسی طرح حقیقت کا قیام شریعت کی حفاظت کے بغیر ناممکن ترین ہے مثال کے طور پر یہ ہے کہ جسم مےں جان موجود ہے تو انسان زندہ ہے۔ جان نکل جائے تو تن مردہ ہے اور جان (روح) ہوا ہے جسم و جان کی اہمیت باہم ملاپ سے ہے اسی طرح شریعت، حقیقت کے بغیر ریا اور حقیقت بغیر شریعت کے منافقت ہے، ارشاد خداوندی ہے:
والدین جاھد و افینا لنھدینھم سبانا (سورة عنکبوت: ۹۲)
”جنہوں نے ہماری راہ مےں جدوجہد کی، ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے“
”مجاہدہ شریعت ہے اور ہدایت اس کی حقیقت۔ شریعت بندہ کے لئے ظاہری احکام کی حفاظت اور حقیقت بندہ کے باطنی احوال کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ شریعت کا تعلق انسانی کسب سے ہے اور حقیقت کا واسطہ لطف خداوندی سے لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی اور دونوں کے درمیان فرق خودبخود واضح ہوگیا۔
(کشف المحجوب شریف)
اولیائے کرام و عظام چونکہ ہدایت ربانی اور شریعت مطہرہ پر پورے اخلاص سے عمل پیرا ہوتے ہےں۔ اس لیے وہ شریعت مطہرہ اور حقیقت خداوندی ہر دو کا حسین ترین امتزاج بن جاتے ہےں اور ان کی مثال ایک ایسے مہکتے ہوئے پھول کی ہوتی ہے کہ ان کی صحبت مےں بیٹھنے والا اپنے روح و قلب مےں ایک سکون، اطمینان اور خوشگوار پن محسوس کرتا ہے۔
ایک انگریز، مفکر نے کیا ہی خوب کہا ہے:
(یعنی عظیم لوگوں کی زندگی ہمیں یاد دلاتی اور دعوت فکر و عمل دیتی ہے کہ ہم بھی اپنی زندگی کی تعمیر کر کے شاہراہ ترقی پر گامزن ہو سکتے ہےں۔ عظیم لوگوں کی زندگی زمانے کی شاہراہ پر اپنے نقوش قدم چھوڑ جاتی ہےں تاکہ سالکین راہ، ان پر چل کر اپنی منزل مقصود کو پا لیں) اور یہ ایک امر مسلمہ ہے کہ حضور قبلہ حضرت داتا گنج بخشؒ کی پاکیزہ زندگی مےں ان کے مرشد کامل حضرت ابوالفضل الختلی کی حیات مبارکہ کا عکس پوری تابانیوں کے ساتھ جھلکتا ہے۔
حضرت مولانا روم اسی لیے کیا خوب فرماتے ہےں:
صحبت صالح ترا صالح کند
محمد طالح ترا طالح کند
کسی مغربی مفکر و دانشور نے سادگی کی عظمت و تعریف بیان کرتے ہوئے ایک جگہ اس نے سادگی کی صفت سے خود متصف ہونے کی شدید آرزو کا اظہار کیا ہے۔ کسی نے اس بارے مےں کیا بے مثال کہا ہے:
مےں سادہ ہوں تو کیا ہے، سادگی ہی عین فطرت ہے
ہزاروں رنگ مٹتے ہےں اک سادہ حقیقت پر
بناوٹ کفر ہے اور سادگی نور خدا وندی
نماز عشق بھاری ہے دکھاوے کی عبادت پر
حضور قبلہ داتا گنج بخشؓ، حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کا نصیحت آموز قول فرماتے ہےں:
”یعنی ہمارا ٹھکانا فانی ہے، ہمارے احوال عارضی ہےں ہمارے سانس گنے ہوئے ہےں اور ہماری سستی نمایاں ہے“
اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے سید ہجویرؓ فرماتے ہےں:
”فانی گھر کی تعمیر جہالت ہے عارضی احوال پر اعتماد بےوقوفی ہے گنتی کے سانوں پر دل لگانا غفلت ہے اور کاہلی و سستی کو دین سمجھنا خیانت ہے کیونکہ جو چیز عاریة لی گئی ہے وہ واپس جائے گی جو چیز فانی ہے وہ نہ رہے گی، جو شے گنتی مےں آتی ہے وہ ضرور ختم ہوگی اور کاہلی و سستی کا کوئی علاج نہیں، گویا ہمیں حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے متنبہ فرمایا کہ دنیا اور اسباب دنیا اس قابل نہیں کہ ان سے دل لگایا جائے۔“
(کشف المحجوب شریف ترجمہ سید محمد فاروق القادری ص:۱۸۱)
امام شریعت و طریقت، دانائے حقیقت و معرفت، سرتاج الاولیاءو اصفیا حضرت السید مخدوم علی ہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش لاہوریؓ کی بارگاہ کی گداگدی فقیر عرصہ 50سال سے کر رہا ہے۔ یہ سرکار داتا کے کرم کی انتہا ہے کہ مجھ جیسے سیاہ کار کو اپنی آغوش رحمت مےں پناہ دے رکھی ہے۔ سرکار داتا کے سجادہ نشین حضرات مےں سے قبلہ الحاج میاں خوشی محمد ہجویری دامت برکاتہم العالیہ کا یہ طرہ ¿ امتیاز ہے کہ عشق مصطفی سے سرشار ہو کر کئی کتب چھپوا کر فری تقسیم کر چکے ہےں اور بحمد اللہ اس سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہےں۔ رب کائنات سے دست بدعا ہوں کہ سید ہجویر کے صدقہ مےں راقم سگ درگاہ داتا گنج بخشؓ کو نسبت حضرت داتا گنج بخشؓ پر زندگی اور موت عطا فرمائے۔ (امین بحرمة سید المرسلین)
سید المرسلین، اولیاءکاملین و اکملین کا فیض ان کی حیات طیبہ اور بعد ازوصال یکساں جاری و ساری رہتا ہے، حضور قبلہ عالم خود بھی فرماتے تھے، ولی اللہ جب اس دارفانی سے داربقا کی طرف منتقل ہوتے ہےں تو ان کا فیض کئی گنا بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی حین حیات مےں خداوند قدوس کو یاد کرتے ہےں اور بعداز وصال صد ملال خداوند قدوس مخلوق خدا کی زبان سے ان کو یاد کرتا ہے اور ان کا مزار پر انوار انوار و تجلیات کا مرکز بن جاتا ہے۔
قولہ تعالیٰ فاذکرونی اذکرکم یعنی تم مجھے یاد کرو مےں تمہیں یاد کروں گا، حضور قبلہ عالم میاں عمر الدین ہمیشہ شہباز عظیم حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی اس رباعی کا ورد کرتے تھے۔
خوا ہم کہ ہمیشہ در ہوائے تو زیم
خاکے شوم وزیر پائے تو زیم
مقصود من بندہ زکونین توئی
بہر تو یرم وزبرائے تو زیم
ترجمہ: میری سنای ہے کہ اے دوست تیرے قدموں مےں رہوں، سراپا خاک ہو جاﺅں اور تیرے قدموں تلے روندا جاﺅں کیونکہ میرا مطلوب دوجہاں مےں تیرے سوا کچھ نہیں۔ تیرے لئے زندہ ہوں اور تیرے ہی لیے مرتا ہوں کیونکہ۔
پیر کامل صورت ظل الٰہ
یعنی دیدہ پیر دیدہ کبریا
چونکہ ذات پیر را کر دی قبول
ہم خدا در ذاتش آمد ہم رسول
گرجدا بینی زحق تو خواجہ را
گم کنی ہم متن وہم دیباچہ را
ترجمہ: ”اگر آپ اطاعت پیر مےں درجہ کمال پیدا کرے تو اسی مےں تمہیں قرب خداوند تعالیٰ اور عشق رسول مقبول حاصل ہوگا۔ اگر تم اطاعت شیخ کو شرک سمجھتے رہے تو کتاب توحید کے مطلب و معنی سے کورے رہ جاﺅ گے۔
بزرگوں نے فرمایا ہے:
پیر رہ کبریت احمر آمد است
سینہ او بحر اخضر آمد است
یعنی شیخ طریقت کبریت احمر سرخ گندھک یا کیمیا ہے جو اس کے ساتھ لگا سونا ہوگیا۔ پیر کا سینہ وہ چشمہ ¿ آب حیات ہے جہاں مردہ قلوب کو زندگی (جاودانی) ملتی ہے۔
جو بھی ستایا ہوا زمانے کا
سہارا لیتا ہے داتا کے آستانے کا
No comments:
Post a Comment