مکتوب امریکہ ۔۔۔ طیبہ ضیاء
موبائل فون پر پابندی !
پنجاب اسمبلی نے صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں میںموبائل فون کے استعمال پر مکمل اور فوری پابندی عائد کرنے کی قرارداد منظور کی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سکولوں میں موبائل فون کے بے جا استعمال سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ موبائل فون کے استعمال سے بچے پڑھائی کی طرف دھیان نہیں دیتے اور سکول میں اپنے دوستوں کو ایس ایم ایس کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ درسگاہوں میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد موبائل فون استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں موبائل فون کمپنیوں نے مختلف پیکج متعارف کرائے ہیں جن کے تحت انتہائی کم پیسوں میں طویل بات کی جا سکتی ہے اور یہ پیکج طلبہ میں کافی مقبول ہیں۔ اس کے علاوہ بھی سنجیدہ نوعیت کا ایک مسئلہ درپیش ہے وہ یہ کہ بعض والدین اپنے بچوں کو مہنگے موبائل فون سیٹ خرید کر دیتے ہیں لیکن ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں کو مہنگے موبائل نہیں دلا سکتے اس طرح بچوں میں احساس محرومی پیدا ہوتی ہے۔ پنجاب کے سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی کی قرارداد کی منظوری سے پہلے یقیناً فائدہ اور نقصان دونوں پہلوﺅں پر غور کیا ہو گا۔ امریکہ میں بھی اس ایشو پر بحث رہتی ہیں۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے سکیورٹی ایشو کو مدنظر رکھتے ہوئے سکولوں میں موبائل کے استعمال کے بارے میں لچک کا مظاہرہ کرنا پڑا جبکہ والدین کی ایک بڑی تعداد سکیورٹی ایشو سے زیادہ بچوں کی تربیت کو اہمیت دیتی ہے۔ پاکستان میں بھی سکیورٹی ایشو کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ رابطہ میں رہنا چاہتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر والدین اپنے بچوں کی سکیورٹی کے معاملہ میں متفکر ہیں۔ موبائل فون بند ہو جائے اور بچے کے ساتھ رابطہ منقطع ہو جائے تو والدین خبردار ہو جاتے ہیں کہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے۔ جس زمانے میں موبائل فون ایجاد نہیں ہُوا تھا یا پاکستان میں اس کا استعمال عام نہیں ہوا تھا، اس زمانے میں جرائم کی شرح بھی کم تھی۔ اغوا برائے تاوان اور بم دھماکوں کا کلچر نہیں تھا۔ والدین بچوں کی طرف سے بے فکر تھے۔ سکول آنے جانے میں تاخیر ہو جاتی تو والدین اسے بچے کی غفلت سمجھتے مگر آج بچہ چند منٹوں کے لئے بھی ادھر سے ادھر ہو جائے والدین کی جان نکل جاتی ہے اور منفی خیالات آنے لگتے ہیں۔ پاکستان جیسی غیر محفوظ ریاست میں تعلیم و تربیت سے زیادہ بچوں کی زندگی کی فکر لاحق رہنے لگی ہے۔ موبائل فون کا مثبت پہلو والدین کا بچوں کے ساتھ مسلسل رابطہ میں رہنا ہے۔ ہنگامی صورتحال میں بچے اپنے والدین کو مطلع کر سکتے ہیں یا فون بند ہونے کی صورت میں والدین خبردار ہو سکتے ہیں۔ بچوں کا سکولوں میں ”بھی“ موبائل فون کے استعمال میں اہم منفی پہلو وقت کا ضیاع اور پڑھائی سے بے رغبتی ہے۔ دوران امتحان بذریعہ ایس ایم ایس نقل کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ بطور مذاق ایس ایم ایس کی جانے والی افواہوں اور دھمکیوں سے بھی بچوں کے ذہنوں پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔کئی مذاق مہنگے پڑتے ہیں، بعض اوقات سچی خبر کو بھی جھوٹ سمجھ لیا جاتا ہے۔ بچوں میںموبائل فون کے استعمال کے منفی پہلوﺅں میں ایک نقصان دہ پہلو مخالف جنس میں تیزی سے بڑھتی ہوئی رغبت اور تعلقات ہیں جو سرطان کے مرض کی طرح بچوں کے ذہن و دل پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بچہ اپنی عمر سے پہلے بالغ ہو جاتا ہے جبکہ والدین کی نظرمیں وہ بچہ ہی رہتا ہے۔ فطری جذبات کے اظہار کا آسان اور سستا ذریعہ موبائل فون ہے اس کے بعد انٹرنیٹ پر فیس بک اور چیٹ ہے۔ موبائل پر طے ہونے والی ملاقاتیں اور دیگر معاملات بچوں کو والدین اور اساتذہ کے ساتھ جھوٹ بولنے پر اکساتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہے لہٰذا بچے کمپیوٹر پر زیادہ وقت صرف نہ کر سکنے کی وجہ سے بھی موبائل فون کا زیادہ استعمال کرنے لگے ہیں۔ کمپیوٹر پر والدین کی بھی نظر رہتی ہے مگر موبائل فون ایک ایسا جادو کا آلہ ہے اگر اس کا گلہ دبا دیا جائے تو قریب بیٹھے شخص کو بھی خبر نہیں ہو سکتی۔ ایس ایم ایس کے خطرناک استعمال نے بچوں کو دماغی طور پر غیر حاضر کر دیا ہے۔ اساتذہ اور والدین کی بات سُنی ان سُنی کر دیتے ہیں۔ ان کے دماغ میں ایس ایم ایس گھومتا ہے۔ بچوں کو سبق یاد کرنے میں بھی دقت پیش آتی ہے۔ پڑھائی کی جانب پوری توجہ دینے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں احساس کمتری کا مرض بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ مقابلہ کی دوڑ میں مہنگا موبائل فون خریدنا بھی فیشن بن چکا ہے جبکہ امریکہ احساس کمتری کی اس دوڑ میں پاکستان سے ابھی بہت پیچھے ہے۔ اس ملک میں بچوں کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے موبائل فون اور فیس بُک کے استعمال پر والدین کی کڑی نظر ہوتی ہے۔ صدر اوباما کی اہلیہ مشعل نے اپنی ٹین ایجر بیٹیوں کو اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے فیس بُک بنانے کی اجازت نہیں دی ۔ صوبہ پنجاب میں بچوں کے سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد تو منظور ہو گئی مگر اس پر عمل والدین ہی کرا سکتے ہیں۔ والدین سمجھائیں گے تو بچے شاید مان جائیں مگر موبائل فون کے اس استعمال کی قرارداد کس ملک سے منظور کرائی جائے جس کے استعمال سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ مساجد تو درکنار حرم بیت اللہ اور مسجد نبوی کے اندر بھی اس شیطانی آلہ کا استعمال بے دریغ ہو رہا ہے۔ حرمین شریفین کے اندر موبائل فون کے استعمال کے خلاف سعودی حکومت نے قانون بنایا تھا مگر مسلمان فون چھپا کر لے جاتے تھے اور موبائل کے کیمرے سے حرم کے اندرون تصاویر بھی بناتے تھے۔ سعودی قانون جب ناکام ہو گیا تو حرمین کے اندرموبائل لے جانے پر پابندی اٹھا لی گئی البتہ کیمرے والا موبائل لے جانے کی اجازت نہیں دی مگر مسلمان ہر قانون سے بالا ہے موبائل کے واہیات استعمال سے عبادت میں یکسوئی کا تصور بھی ختم ہو تا جا رہا ہے حتیٰ کہ دوران طواف موبائل فون پر بات ہو رہی ہوتی ہے، روضہ اطہر کے سامنے بیٹھ کر فون پر گپ شپ لگ رہی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنی عبادت اور ثواب تو غارت کر تے ہیں ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کی عبادت بھی غارت کر تے ہیں۔ موبائل فون کا یہ استعمال مقدس مقامات کی بے حرمتی میں شمار ہوتا ہے۔ موبائل فون زحمت بھی ہے اور رحمت بھی مگر عقل مند انسان وہی ہے جو رحمت کو زحمت بننے اور جائز کو ناجائز بننے سے بچائے اور نہ صرف خود بلکہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو بھی نعمتوں کا جائز اور درست استعمال کرنا سکھائے۔!
No comments:
Post a Comment