Ad

Ad

Monday, 9 January 2012

adaat ki by toqiri

زیر سماعت مقدمات اور حکمرانوں کا کردار
یاسر خان نیازی
اس ملک میں یہی سب کچھ ہر منتخب حکومت نے کیا ہے،اپنی ناکامیاں،کوتاہیاں اوربرے اعمال کا ذمہ دار کسی نہ کسی کو ٹھہرا کر خود کو سیاسی شہید ثابت کر نے کی کوشش کی جاتی ہے۔میمو گیٹ کا معاملہ یو یا پھر این آر او کیس کی سماعت حکومت نے بلا وجہ ہی ان معاملات میں عدالت سے نہ صرف الجھنے کی کوشش کی ہے بلکہ،عدالتی ا حکات اور آرڈرز کی پر یس کانفرنسوں اور بحث مباحثوں کے اندر خوب بے تقیری کی گئی۔یہ سب کچھ پہلی دفع ایک منتخب حکومت کے کرتا دھرتاﺅں کی جانب سے دیکھنے میں آرہا ہے۔چار سال تک حکومت میں رہنے کے بعد بھی پتا نہیں وہ ان مسائل اور بحرانوں کو حل کر نے میں ناکا می کاذمہ دار کس کو ٹھہراتے ہیں۔اپنے ناکردہ گناہوں کا بوجھ سہارنے میں ناکا می کے بعد مختلف عوامل اور اشوز کا بہانہ بنا کر چند ایسے خود ساختہ جواز تراشنے کی کوشش کی جاتی تاکہ مسائل سے توجہ ہٹائی جاسکے۔میمو گیٹ سکینڈل اور این آر او جیسے معاملات ایسے تھے کہ جن کا براہ راست تعلق ملکی سالمیت،خود مختاری اور ملک کو درپیش دوسرے بہت سے اندرونی مسائل اور چیلنجز سے تھا۔جو طریقہ کار مختلف مقدمات سے متعلق عدالتوں کے اندر وضع کیا جاتا ہے،اس طریقہ کار کی پابندی نہ صرف عام آدمی کیلئے ضروری ہے بلکہ حکومت سمیت ملکی تمام ادارے ا س طریقہ کار کے مطابق پا بند ہیں کہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات کے سچ یا جھوٹ ثابت کر نے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں،میمو گیٹ اور این آر اوجیسے نازک معاملات جو کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں انسے متعلق با ر بار سپریم کورٹ کی جانب سے جواب داخل کر نے اور نوٹس جاری کئے جا نے کے بعد بھی کہنا کہ میو گیٹ سکینڈل کی کسی کاغذکے ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں ہے کیا عدالتی احکامات اور فیصلوں کی سراسر تذلیل نہیں ہے۔اگر واقعی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ این آر او کی فائل بند ہو چکی یا میمو گیٹ سکینڈل کی اہمیت کا غذکے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں تو پھر طریقہ کار کے مطا بق انھیں ان سارے الزامات اور معاملات کا کھلے دل سے سامنا کر نا چاہئے۔یوں سیاسی بحث مبا حثوں اور پریس کانفرسوں کے اندر جزباتی لہجے میں خود کو مظلوم ثابت کر نے کی کوئی کوشش شائد عوام کو متاثر نہ کرسکے۔بابر اعوان صاحب نے بحثیت وکیل جس طرح کھلے بندوں محض چند لوگوں کی خوشنودی کے حصول کی خاطر عدالت عالیہ کے فیصلوں سے م متعلق رائے دینے اور ان پر طنز کر نے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے کیا وہ توہین عدالت میں نہیں آتا۔اس ملک کا کوئی وکیل یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ یوں عدالتی فیصلوں کو بے توقیر بناتا رہے۔عدالت سے باہر عدالت عظمیٰ کے کردار اور تشکیل دئے گئے معزز بنچ سے متعلق اپنے خدشات اور جزبات کا برملا اظہار کیا عدالتی احکامات اور اسکی عزت و تکریم کی خلاف نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے جان بوجھ کر اس اشو کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے اور وہ عدالت میں زیر سماعت براہ راست حکومت سے متعلقہ کیسوں کی سماعت عوام کی توجہ ہٹا نے کی کوشش کر رہی ہے اگر ا ن اشوز سے ہٹ کر بھی دیکھا جاتے تو پھر بھی ہمیں کہیں سے نظر نہیں آتا کہ حکومت نے ان چار سالوں میں کسی شعبے میں ترقی کی منازل طے کی ہوں،مشرف دور میں ورثے میں ملے مسائل اب حل نہ ہو سکنے کی وجہ سے بحرانوں کا روپ دھار چکے ہیں،ملک میں غربت،بیروزگاری،مہنگائی تو اپنی جگہ بر قرار ہیں تو دوسری طرف لوڈ شیڈنگ،بجلی و گیس کا بحران،موثر خارجہ پالیسیاں وضع کر نے میں ناکا می جیسے معاملات ایسے مسائل ہیں کہ جن کے حل کر نے میں حکو مت مکمل طور پر ناکامی سے دوچار نطر آتی ہے،حالت یہ ہے کہ خود پیپلز پارٹی کے جیا لوں نے گزشتہ روز بلاول ہاﺅس کے سامنے مسائل حل نہ ہو نے کی بناءپر دھرنا دیا ہے اور وہ اتنے مشتعل اور غصے میں تھے کہ انھیں منتشتر کر نے کیلئے پولیس کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کر نا پڑا۔ یہ ایسی جماعت کے جیلالے ورکر تھے کہ جس کے اپنے کرتا دھرتا یہ دعوہ کرتے نہیں تھکتے کہ یہی ورکر تو ان کا سرمایہ ہیں۔عدالتی فیصلوں کی اس درجہ بے توقیری کا یہ سلسلہ جا نے کہاں جا کر ٹھہرے مگر ،حالیہ حکومتی ذمہ داران کے رد عمل سے یہ بات بڑی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ حکومت عدالت عالیہ میں زیر سماعت مقدمات کا کسی صورت سامنا نہیں کر نا چاہتی۔یہ مثالیں ہمارے سامنے اگر چہ ماضی میں بھی آتی رہیں مگر اس سے کسی کو فائدہ ہو نے کی بجائے ہمیشہ نقصان ہی اٹھا نا پڑا۔جب ہمارے لیڈر اور عوامی خدمت گری کے دعویدار خود عدالت کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتے تو پھر عوام کا کیا پوچھنا،یہ ہم کیسی مثالیں اور ریت روائیت قائم کر رہے ہیں ،کیا ہمارا واحد مقصد صرف اور صرف اقتدار بچانا اور کرسی کی خاطر من چاہے فیصلوں پر عملدر آمد ہی رہ گیا ہے۔ہمارے ان دعوںکی اور نعروں کی تصدیق اور سچائی کب اصل روپ اختیار کرے گی۔کیا ہمارے ہر فیصلے پر عوام یوں آنکھیں بند کرکے لبیک کہتی چلی جائے گی نہیں اب وقت اور حالات بدل چکے ہیں،محض کرسی بچانے کی خاطر اداروں کی تزلیل اور عدل و انصاف کو یوں روندنے کی کسی کوشش کا حصہ عوام نہیں بنیں گے،اس ملک کو حکمرانوں کے اقتدار کی خواہشات اور صرف اور صرف ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر شخصی فیصلوں نے پہلے بھی بہت نقصان پہنچا یا ہے اور یہ ملک اور اس ملک میں بسنے والے سولہ کروڑ عوام اب ایسی کسی بھی کوشش کو اس ملک میں کامیاسب نہیں ہو نے دیں گے جو اس ملک میں عدل و انصاف کے اداروں کے کردار پر انگلی صرف اس وجہ سے اٹھا تے ہیں کہ ان کے اپنے اور پارٹی مفادات کو زک پہنچتی ہے،اس ملک کا قانون سب کیلئے برابر ہے قانون کی نظر میں سب ایک ہیں ،ہم کیوں آج بھی قانون سے ماوراءعہدے تشکیل دینے کیلئے کوشاں ہیں۔ہم میں کیوں حوصلہ نہیں کہ ہم سچ اور حق کا سامنا کر سکیں۔

No comments:

Post a Comment