Ad

Ad

Friday, 13 January 2012

Gas-crisis

گیس کے سنگین بحران کا حل....
تحریر: افتخار علی ملک
ایک سکھ کا انتقال ہوگیا، اُس کی بیوی اُس کی میت پر پچھاڑیں کھاتے اور بین کرتے ہوئے کہہ رہی تھی "تم کہاں چلے گئے ہو جہاں بجلی نہ پانی نہ گیس" ، پاس بیٹھے ہوئے اُس کے چھوٹے سے بیٹے نے بڑی معصومیت سے کہا "اماں ابّا کیا پاکستان چلا گیا ہے" ۔ پاکستان کے حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔ گیس غائب ، بجلی ندارد اور پانی نایاب ہے۔ بلاشبہ موجودہ حالات پتھر کے دور کی عکاسی کررہے ہیں جب انسان ان سہولیات کے بغیر بھی کسی نہ کسی طرح زندہ رہ لیا کرتا تھا۔ اگر دنیا بھر کے حالات ایسے ہی ہوتے تو بھی صبر کرلیتے لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ وہ ممالک ان مسائل سے کبھی کا چھٹکارا پاچکے ہیں جنہوں نے کسی زمانے میں پاکستان کو بطور رول ماڈل اپنے سامنے رکھا ہوا تھاجبکہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ دلدل میں مزید دھنستے جارہے ہیں۔
گذشتہ ایک دہائی سے پاکستانی صنعت و تجارت پر مسائل کی یلغار یوں ہورہی ہے جیسے روس کے شہر "یاکٹسک " (Yakustsk)میں تقریباً ہر وقت آسمان سے اولے برستے رہتے ہیں۔ ان ہی مسائل میں سے ایک مسئلہ گیس کی بدترین قلت کا ہے جو گذشتہ تین سالوں سے پوری آب و تاب کے ساتھ نازل ہورہا ہے اور اب شدید ترین و سنگین ترین رُخ اختیار کرچکا ہے جس کی وجہ سے صنعتکار، صنعتی ورکرز اور گھریلو ہر کوئی بہت بُری طرح پریشان ہے۔ گیس کی قلت تو خیر گرمیوں میں ہی شروع ہوگئی تھی لیکن سردیاں شروع ہوتے ہی صنعتوں کو گیس کی مکمل بندش کا پیغام دے دیا گیا جنہیں پہلے ہی عالمی منڈی میں بقاءکی جنگ لڑنے میں شدید ترین مشکلات کا سامنا ہے ۔ اب حالات یہ ہیں کہ صنعتوں کے لیے گیس مکمل طور پر بند ہے، سی این جی سٹیشنوں کو ہفتے میں بمشکل دو تین دن گیس فراہم کی جارہی ہے جبکہ گھروں کے چولہے گیس نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں۔
جن چھوٹے بڑے صنعتی یونٹس نے مکمل طور پر گیس پر انحصار کررکھا تھا وہ تو کب کے بند ہوچکے اور ان کی تعداد بلاشبہ ہزاروں میں ہے ۔ ان صنعتی یونٹس کی بندش سے پنجاب بھر میں بے شمار صنعتی ورکرز اور روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے بے روزگار ہوگئے ہیں او ر یہ انتہائی تکلیف دہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اور کوئی کام نہ ملنے کی وجہ سے بھیک مانگ کر اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔ جو بڑے صنعتی یونٹس گیس کے علاوہ دوسرے ایندھن پر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اِس استطاعت سے محروم ہیں کہ فرنس آئل اور ڈیزل پر پیداواری عمل جاری رکھ سکیں کیونکہ اِس سے پیداواری لاگت بہت زیادہ ہوجاتی ہے جس کے وہ موجودہ حالات میں ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ عالمی منڈی میں سخت مقابلے کا رحجان ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر گیس کسی بھی شعبے کو میسر نہیں تو پھر ملک میں پیدا ہونے والی گیس جاکہاں رہی ہے؟اگر حکومت یہ جواز پیش کرتی ہے کہ سردیوں کی وجہ سے گیس کم ہوجاتی ہے تو پھر دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ سردیوں کے موسم میں روس میں گیس کم کیوں نہیں ہوتی جہاں درجہ حرارت نکتہ انجماد سے کم رہنا روز مرّہ کا معمول ہے؟ صرف گیس کی قلت ہی پاکستان کا واحد مسئلہ نہیں بلکہ کبھی بجلی کا سنگین ترین بحران پیدا ہوجاتا ہے تو کبھی امن و امان کے حالات بگڑ کر سب کچھ تہہ و بالا کردیتے ہیں جبکہ سیاسی چپقلش اب روز مرّہ کا معمول بن چکی ہے۔
مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اٹھارہ کروڑ آبادی والے پاکستان میں ایسے مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں اور چین و بھارت جن کی ایک ایک ارب سے بھی زیادہ ہے وہ ایسے مسائل سے محفوظ کیوں ہیں؟مجھے تو اس کی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ وہ ممالک واقعی ترقی کرنے کے خواہشمند ہیں اور اپنے ملک کو سنگین مسائل سے محفوظ رکھنے کے لیے نت نئے راستے تلاش کرتے رہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں حسب معمول کسی نہ کسی طرح وقت گزارنے کی روش جاری ہے خواہ اِس سے ملک و قوم اور صنعت و تجارت کو جتنا بھی نقصان ہوجائے حالانکہ وسائل کے حوالے سے پاکستان دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں سونے اور تانبے کے ذخائر رکھنے والا پانچواں، کوئلے کے ذخائر رکھنے والا تیسرا جبکہ کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ صرف کوئلے کے ذخائر کا یہ عالم ہے کہ عام سے اندازے کے مطابق ان کی مالیت تقریباً 30کھرب ڈالر ہے جو پاکستان کے جی ڈی پی سے 187گنا زیادہ ہے۔ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کی مالیت سعودی عرب اور ایران میں تیل کے مجموعی ذخائر سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ان ذخائر کا صرف 2%حصّہ استعمال میں لایا جائے تو تقریباً 50سال تک 20ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود ہماری معاشی حالت بہت پتلی ہے، ملک کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا ہے اور ملک ساٹھ ارب ڈالر کے قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
چونکہ میں نے قلم توانائی کے بحران بالخصوص گیس کی قلت پر اٹھایا ہے چنانچہ فی الحال اسی سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کا ایک بڑا حصہ گیس کے ذریعے پیدا کیا جارہا ہے جس کے دوہرے تہرے نقصانات ہورہے ہیں۔ سردیوں میں جب گیس کی کھپت بڑھتی ہے یا پھر پائپ لائنوں میں گیس جمنے سے قلت ہوجاتی ہے تو پاور سٹیشنوں کو بھی گیس کی سپلائی بند کرنا پڑتی ہے جس سے بجلی کا سنگین بحران بھی پیدا ہوجاتا ہے اور جب ان پاور سٹیشنوں کو گیس سپلائی کی جارہی ہوتی ہے تو صنعت کے لیے گیس کی قلت رہتی ہے۔ حکومت کو ہائیڈل ذرائع اور کوئلے سے بجلی کی پیداواربڑھانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے تاکہ جو گیس پاور سٹیشنوں کو دی جارہی ہے وہ صنعت کو دیکر صنعتی پیداوار جاری رکھی جاسکے جو کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے پاس ایک محتاط اندازے کے مطابق 185ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں اورپاکستانی نہیں بلکہ غیرملکی ماہرین کے مطابق پاکستان اِن ذخائر سے تین سو سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے لیکن فی الحال صرف ایک فیصد کے لگ بھگ بجلی کوئلے سے پیدا کی جارہی ہے۔ اس میں ہرگز کوئی شبہ نہیں کہ ملک بھر میں بجلی کی طرح گیس کی چوری بھی دھڑلے سے جاری ہے اور یہ متعلقہ اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ہرگز ممکن نہیں۔ گیس چور مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے صنعتکاروں، تاجروں اور لاکھوں صنعتی ورکرز کے پیٹ پر لات ماررہے ہیں اور یہ کسی طرح بھی قابلِ معافی نہیں۔ گیس چوری روکنے کے لیے محکمہ گیس نے ماضی قریب میں اچھے قدم اٹھائے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروباری برادری کی مشاورت سے گیس چوروں کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کیا جائے ۔ ملک میں بڑے ڈیموں کی تعمیر اب ناگزیر ہوچکی ہے کیونکہ پانی کی قلت اور سستی بجلی کی پیداوار کا یہ واحد حل ہیں۔ کوئلے اور پانی سے بجلی پیدا ہونے کی صورت میں پاکستان کا گیس اور انتہائی مہنگے تھرمل ذرائع سے بجلی کی پیداوار پر انحصار ختم ہوجائے گا اور نہ صرف صنعت و تجارت بلکہ عوام کو بھی بجلی اور گیس سال بھر میسر آئے گی۔

No comments:

Post a Comment