Ad

Ad

Wednesday, 11 January 2012

qbar ka trail

قبر کا ٹرائل۔۔۔!
طیبہ ضیائ
محترمہ کے شوہر آصف علی زرداری نے ایک نیا ڈرامہ شروع کر دیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات ری اوپن کرنا” بی بی کی قبر کا ٹرائل ہے“ اوروہ اپنے دور حکومت میں یہ گستاخی نہیں ہونے دیں گے۔ اس قسم کے جذباتی جملوں سے جیالوں کو تو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اللہ کے احکامات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ بندے کی قبر میں صرف اس کے اعمال ساتھ جاتے ہیں۔نیک و بد کا فائنل ٹرائل اللہ کی عدالت میں ہو گا،بہتر ہے کہ انسان دنیا کی مہلت سے فائدہ اٹھائے اور اپنی غلطیوں اور گناہوں کا کفارہ اسی جہان میں ادا کر دے ، اگلے جہان میں جزا و سزا کا فیصلہ کیا جائے گا ،وہ فائنل ٹرائل ہوگا، بندے کے سامنے اس کے اعمال رکھے جائیں گے ،کوئی دلیل اورجواز کارگر ثابت نہ ہو گی ۔ بعد از موت ہر ذی شعور کو اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے،مردوں کو زندہ کیا جائے گا،اس روزبندوں کے لب سی دئے جائیں گے،ان کے اعضاءگواہی دیں گے،اس وقت کسی کی سفارش اور گواہی کام نہ آئے گی،عقل مند وہی ہے جو اس دنیا میں اپنی غلطیوں اور گناہوں کا احتساب کرے اور ہٹ دھرمی کا ثبوت نہ دے،دنیا کے مقدمات دنیا کی عدالت میں بھگت لے ۔ اللہ کی عدالت میں کسی کی پیش نہیں چل سکتی،کسی کو دفاع کا موقع نہیں ملے گا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی بخشش کے لئے بعد از موت بھی صدقہ جاریہ اور دعا کاوسیلہ رکھاہے تا کہ صاحب قبر سے عذاب ٹل سکے۔مقروض کا نماز جنازہ جائز نہیں، جب تک اس کی جانب سے قرضہ ادا نہ کر دیا جائے۔ایک عام انسان اپنے گناہوں کا ٹوکرا سر پر اٹھائے پھر تا ہے جبکہ حاکم پر لاکھوں انسانوں کی ذمہداری کا بوجھ ہوتا ہے۔حاکم سے جب اس کے عوام اور رعایا کے حقوق کی بابت پوچھا جائے گا تو اس کا حال ایک عام انسان کے تصور سے بھی باہر ہے۔آخرت میں حکام کے حشر کے بارے میں سوچ کر نبی کریم ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں۔ صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کرتے کہ آپ اس جہان سے اس حال میں نہیں جانا چاہتے کہ آپ پر کسی کا قرض باقی ہو یا کسی کے ساتھ ناحق زیادتی کی ہو۔
 آصف علی زرداری نے حضرت علی ؓ کے دو اقوال یاد کرر کھے ہیں جو وہ بغیر سیاق و سباق کے اپنے ہر انٹرویو میں سنا دیتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا ہوتا تو ”بی بی کے ٹرائل“ کے جواز کی نوبت پیش نہ آتی ۔زرداری صاحب کے مسلک کے پیش نظر
” نہج البلاغہ“ سے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے چند ملفوظات پیش کرنا چاہتی ہوں ۔امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کا فرمان ہے ”بلا شبہ فتنہ و فساد کا وقوع خواہشات نفس اورخود ساختہ احکام کی پیروی کے باعث ہوتا ہے جن میں کتاب خدا کی مخالفت کی جاتی ہے یا دین خدا کے خلاف لوگوں کو انسانوں کا حاکم بنا دیتے ہیں۔کچھ حق ہوتا ہے اور کچھ باطل اور ان دونوں کو ملا دیا جاتاہے ،یہی وجہ وہ مرحلہ ہے جہاں شیطان اپنے حلقہ بگوشوں پر قابو پا لیتا ہے اور صرف وہی لوگ گمراہی اور ضلالت سے نجات پاتے ہیں جو اس کی چال کو سمجھتے ہیں “۔قبر کا ٹرائل خدا کرتا ہے مگر انسان غفلت کا شکار ہے۔میت کو منوں مٹی تلے دفن کرنے والے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں جبکہ قبر کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے۔قبر میں دو فرشتے آتے ہیں اور صاحب قبر سے سوالات کرتے ہیں،صاحب قبر ٹرائل میں کامیاب ہو گیا تو اس کے لئے بہشت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اگر فیل ہو گیا تو دوزخ کا دروازہ کھل جاتا ہے اور پھر اللہ فرماتا ہے کہ پڑے رہو اس گڑے میں اس روز تک جس روز حشر کا میدان سجے گا اور تم اپنے اعمال کے ساتھ اٹھائے جاﺅ گے۔اللہ کے حبیب نے فرمایا کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کا ایک گڑا ہے۔لواحقین مرنے والے کے لئے ایصال ثواب کی محافل کا اہتمام کرتے ہیں۔برسیاں مناتے ہیں۔ نوڈیرو کے قبرستان میں بھی فاتحہ خوانی جاری رہتی ہے ۔اہل قبور کی مغفرت کے لئے دعائیں کی جاتی ہیںتا کہ مرحومین اللہ کی عدالت کے ٹرائل سے
با عزت بری ہو سکیں۔ہر انسان خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہی کیوں نہ ہو،ایصال ثواب کا محتاج ہے۔ بے نظیر بھٹو کی قبر پر فاتحہ خوانی کا مقصد بھی انہیں روز حشر کے ٹرائل سے محفوظ رکھنا ہے ۔ کمزور اور گناہگار بندے اپنے پیاروں کے لئے دعا کرسکتے ہیں اور دعا اللہ کے حضور عرضی ہوتی ہے ،بخشش کی ضمانت نہیں۔گمراہ اور خود پسند حاکموں کی تعظیم کرنے والوںکے بارے میں حضرت علی ؓ فرماتے ہیں”خدا کی قسم !اس سے تمہارے حاکموں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اس طرح تم اپنے اوپر دنیا میں مشقت اٹھاتے ہواور اس کے بدلے آخرت میں بد بختی لیتے ہو اور اس کے بعد آخرت کی تکلیف بڑی نقصان دہ ہے جس میں عذاب ہے“۔امام عالی حضرت علیؓ نے فرمایا”جو شخص اپنے تئیں عوام کا قائد جتائے اسے چاہئے کہ دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنی ذات کو تعلیم دے اور اس کا کردار اس کی زبان سے پہلے نمونہ دکھائے اور اپنے نفس کو مودب کرنے اور قابل بنانے والادوسروں کو تعلیم دینے والے سے زیادہ قابل عزت ہے“۔انسان عزت و قار اپنے عمل سے حاصل کرتا ہے،مال و اقتدار سے نہیں۔زرداری اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمات کو ری اوپن کرنا قبر کا ٹرائل نہیں بلکہ قبر کو زندہ رکھنا ہے۔دنیا کا مال دنیا میں ہی رہ جانا ہے پھر اس مال کے لئے دنیا کی عدالت سے کیوں کر خوف کھایاجائے،ڈرنا تو اس ٹرائل سے چاہئے جو قبر جاتے ہی شروع ہوجاتا ہے۔”زندہ ہے بی بی زندہ ہے“ نعرہ کی حد تک تو اچھا ہے مگر حقیقت میں بی بی زندہ ہو جائے تو وہ سوئس بینکوں میں رکھا تمام مال غریب عوام میں تقسیم کر دے کہ ٹرائل کی حقیقت مرنے کے بعد منکشف ہوتی ہے۔ایک شخص امیرالمومنین حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ؓ سے خیرات مانگی۔آپ ؓ نے فرمایا’اللہ کی قسم! رات کی بچی ہوئی روٹی بھی ہوتی تو تمہیں دے دیتا مگر میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیںہے‘۔اس شخص نے کہا ،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میرے اس سوال کے متعلق آپ سے پوچھے گا۔اس پر آپ ؓ
رو دئے اور اپنے ملازم سے اپنی زرہ لانے کو کہا۔آپ ؓ نے اس شخص کو اپنی زرہ دیتے ہوئے کہا کہ ’دیکھنا کوئی اس کی قیمت میں تجھے دھوکہ نہ دے ۔ میں نے کئی دفعہ اس زرہ کے ذریعے سے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور سے حملوں کو روکا ہے۔آپ ؓ کے ملازم نے استفسار کیا تو امیر المونینؓ نے فرمایا’ اللہ کی قسم ! مجھے اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ میرے پاس دنیاکی زینت کا انبار ہو اورمیں اسے اللہ کی راہ میں لٹا دوں اور اللہ اسے قبول بھی کر لیں لیکن مجھ سے قیامت کے روز اس سوالی کے میرے سامنے کھڑے ہونے کے متعلق پوچھ بیٹھے“۔۔۔بندوں کی بابت سوال کے خوف سے انبیاءو ائما کرام بھی کانپ اٹھتے تھے۔سوئس بینک کو خط نہ لکھنے کا سبب ”بی بی کی قبر کا ٹرائل“ نہیں بلکہ اندر کا خوف ہے، آخرت سے بے اعتنائی کا ثبوت ہے۔ 

No comments:

Post a Comment