تاریح اسلام سے ایک ورق
حضرت عبداللہ شادی کے کچھ مہینے بعد ہی مر گئے۔ حضرت محمد ان کی وفات کے تین مہینے بعد پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ حضرت آمنہ نے آپ کو پالا۔ مگر ابھی آپ چھ سال ہی کے ہوئے تھے کہ وہ بھی فوت ہوگئیں۔ اب آپ کو آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اپنی نگرانی مےں لے لیا مگر دو سال بعد آپ کے دادا بھی چل بسے۔ تو آپ اپنے چچا ابوطالب کے پاس آگئے اور انہیں کے گھر جوان ہوئے۔ آپ کے چچا تاجر تھے اور تجارت کے لئے اکثر ملک شام جایا کرتے تھے۔ جب آپ ذرا بڑے ہوئے تو آپ بھی اپنے چچا کے قافلہ کے ساتھ ملک شام کو جانے لگے۔حضرت محمد لڑکپن ہی سے صاف ستھرے اور نیک تھے۔ آپ غریبوں کی مدد کرتے اور کمزور آدمیوں کی حمایت۔شہر کے اکثر لوگ اپنے زیور اور دوسری قیمتی چیزیں آپ کے پاس حفاظت کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس لئے مکہ کے لوگ آپ کو جوانی مےں ہی امین کہا کرتے تھے۔ (امین کے معنی ہےں وہ شخص جو دوسروں کی رکھوائی ہوئی چیز کی حفاظت کرے اور دیانت دار ہو) اور آپ کی ہر بات کو لوگ پکا اور سچا سمجھتے تھے۔آپ کی سچائی، ہمدردی اور نیک کاموں کی خبر مکہ کے ایک بڑے گھرانے کی مالدار بیوہ حضرت خدیجہ کے کانوں تک پہنچی۔ ان کا کاروبار بہت زیادہ تھا اور انہیں اپنا کام سنبھالنے کے لئے ایک ایمان دار آدمی کی ضرورت تھی۔ اس لئے انہوں نے ہمارے رسول حضرت محمد سے درخواست کی کہ وہ ان کا کام سنبھال لیں۔ چنانچہ آپ حضرت خدیجہؓ کے مختار کار بن گئے۔ اسی سلسلے مےں آپ نے کئی سفر کئے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ کو اتنا ایماندار، سچا اور نیک پایا کہ آپ کی طرف شادی کا پیغام بھجوایا۔ آپ نے ان سے شادی کرنا منظور کر لیا۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس سال تھی۔
نےا سال
نئے گےت گاو ¿ نےا سال آےا
محبت بڑھاو ¿ نےا سال آےا
مسرت کے موتی لوٹاتے چلوتم
غم زندگی کو بھلاتے چلو تم
ےہی ہے تقاضا بتاتے چلو تم
خوشی کے ترانے سناتے چلو تم
چلو گنگناو ¿ نےا سال آےا
محبت بڑھاو ¿ نےا سال آےا
صداقت کے رسےا ہمےشہ سے ہم ہےں
محبت کے نغمے دلوں پر رقم ہےں
جُدا ہےں بدن گرچہ، جذبے بہم ہےں
کراچی سے خےبر تک اےک ہم ہےں
رقابت مٹاو ¿ نےا سال
محبت بڑھاو ¿ نےا سال
بڑے شوق سے منہ اٹھائےں اندھےرے
ےہ ممکن نہےں اب ڈرائےں اندھےرے
ہمےں دیکھ کر سرچھپائیںاندھےرے
کہ سورج کے گھر کےسے آئےں اندھےرے
دلوں کو جلاو ¿ نےا سال آےا
محبت بڑھاو ¿ نےا سال آےا
(جان کاشمےری)
لطائف
ریس شروع ہونے کا اعلان ہوا 1،2،3گو
ایک بچہ اپنی جگہ پر کھڑا رہا
کوچ نے پوچھا: بیٹا تم تو ریس میں حصہ لینے کےلئے اتنے پرجوش تھے پھر جب اعلان ہوا تو بھاگے کیوں نہیں ؟
بچہ بولا:سر ابھی تو 1,2اور3کے بھاگنے کا اعلان ہوا ہے میرا نمبر تو 4ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بچہ امتحانات میں فیل ہو گیا اور گھر آ کر زور زور سے رونے لگا
باپ نے اسکو چپ کرواتے ہوئے کہا بیٹا صبر کرو تمہاری قسمت میں یہی لکھا تھا
بچہ (جلدی سے) جی پاپا ،یہ تو اچھا ہوا کہ میں نے سارا سال کچھ نہیں پڑھا ورنہ ساری محنت ضائع جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرایہ دار نے نصف شب کو مالک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا ،مالک مکان نیند سے بیدار ہو کر جلدی سے دروازے پر آیا تو کرایہ دار بولا
میں اس مہینے کا کرایہ ادا نہیں کر سکوں گا
مگر یہ اطلاع دینے کا کونسا وقت ہے ؟ مالک مکان غصہ سے بولا
تم یہ بات مجھے صبح بتا سکتے تھے
وہ تو ٹھیک ہے مگر میں نے سوچا اس پریشانی میں میںاکیلا کیوں جاگتا رہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر:معلوم ہوتا ہے آپ کو میرے مشورے سے بہت فائدہ ہوا ہے
مریض:اتنا نہیں جتنا کہ آپ کو مجھ سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے مریض کو دیکھا اور بولا ”یہ مر چکا ہے“
مریض تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول کر اٹھ بیٹھا،گھر والوں نے کہا کہ ” تم آنکھیں بند کرکے لیٹ جاﺅ اور اٹھنے کی کوشش نہ کرو کیا تم ڈاکٹر سے بہتر جانتے ہو“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریض:ڈاکٹر صاحب کیا میں کچھ کھا سکتا ہوں؟
ڈاکٹر:آپ میری فیس کے علاوہ سب کچھ کھا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استا:(شاگرد سے) اس شعر کا دوسرا مصرع بتاﺅ؟
جس کھیت سے کسان کو میسر نہ ہو روزی
شاگرد:اس کھیت میں فوراً ٹیوب ویل لگا دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد:(بچوں سے) بتاﺅ بادل کیوں گرجتا ہے؟
ایک بچے نے معصومیت سے کہا کہ ”استاد صاحب وہ پہاڑے یاد کرتا ہے“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالک:نوکر سے مجھے پانچ بجے جگا دینا
نوکر:جناب پانچ تو بج گئے ہیں
مالک:تو پھر منہ کیا دیکھتا ہے مجھے جگاو ¿
۔۔۔۔۔
حضرت عبداللہ شادی کے کچھ مہینے بعد ہی مر گئے۔ حضرت محمد ان کی وفات کے تین مہینے بعد پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ حضرت آمنہ نے آپ کو پالا۔ مگر ابھی آپ چھ سال ہی کے ہوئے تھے کہ وہ بھی فوت ہوگئیں۔ اب آپ کو آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اپنی نگرانی مےں لے لیا مگر دو سال بعد آپ کے دادا بھی چل بسے۔ تو آپ اپنے چچا ابوطالب کے پاس آگئے اور انہیں کے گھر جوان ہوئے۔ آپ کے چچا تاجر تھے اور تجارت کے لئے اکثر ملک شام جایا کرتے تھے۔ جب آپ ذرا بڑے ہوئے تو آپ بھی اپنے چچا کے قافلہ کے ساتھ ملک شام کو جانے لگے۔حضرت محمد لڑکپن ہی سے صاف ستھرے اور نیک تھے۔ آپ غریبوں کی مدد کرتے اور کمزور آدمیوں کی حمایت۔شہر کے اکثر لوگ اپنے زیور اور دوسری قیمتی چیزیں آپ کے پاس حفاظت کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس لئے مکہ کے لوگ آپ کو جوانی مےں ہی امین کہا کرتے تھے۔ (امین کے معنی ہےں وہ شخص جو دوسروں کی رکھوائی ہوئی چیز کی حفاظت کرے اور دیانت دار ہو) اور آپ کی ہر بات کو لوگ پکا اور سچا سمجھتے تھے۔آپ کی سچائی، ہمدردی اور نیک کاموں کی خبر مکہ کے ایک بڑے گھرانے کی مالدار بیوہ حضرت خدیجہ کے کانوں تک پہنچی۔ ان کا کاروبار بہت زیادہ تھا اور انہیں اپنا کام سنبھالنے کے لئے ایک ایمان دار آدمی کی ضرورت تھی۔ اس لئے انہوں نے ہمارے رسول حضرت محمد سے درخواست کی کہ وہ ان کا کام سنبھال لیں۔ چنانچہ آپ حضرت خدیجہؓ کے مختار کار بن گئے۔ اسی سلسلے مےں آپ نے کئی سفر کئے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ کو اتنا ایماندار، سچا اور نیک پایا کہ آپ کی طرف شادی کا پیغام بھجوایا۔ آپ نے ان سے شادی کرنا منظور کر لیا۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس سال تھی۔
نےا سال
نئے گےت گاو ¿ نےا سال آےا
محبت بڑھاو ¿ نےا سال آےا
مسرت کے موتی لوٹاتے چلوتم
غم زندگی کو بھلاتے چلو تم
ےہی ہے تقاضا بتاتے چلو تم
خوشی کے ترانے سناتے چلو تم
چلو گنگناو ¿ نےا سال آےا
محبت بڑھاو ¿ نےا سال آےا
صداقت کے رسےا ہمےشہ سے ہم ہےں
محبت کے نغمے دلوں پر رقم ہےں
جُدا ہےں بدن گرچہ، جذبے بہم ہےں
کراچی سے خےبر تک اےک ہم ہےں
رقابت مٹاو ¿ نےا سال
محبت بڑھاو ¿ نےا سال
بڑے شوق سے منہ اٹھائےں اندھےرے
ےہ ممکن نہےں اب ڈرائےں اندھےرے
ہمےں دیکھ کر سرچھپائیںاندھےرے
کہ سورج کے گھر کےسے آئےں اندھےرے
دلوں کو جلاو ¿ نےا سال آےا
محبت بڑھاو ¿ نےا سال آےا
(جان کاشمےری)
لطائف
ریس شروع ہونے کا اعلان ہوا 1،2،3گو
ایک بچہ اپنی جگہ پر کھڑا رہا
کوچ نے پوچھا: بیٹا تم تو ریس میں حصہ لینے کےلئے اتنے پرجوش تھے پھر جب اعلان ہوا تو بھاگے کیوں نہیں ؟
بچہ بولا:سر ابھی تو 1,2اور3کے بھاگنے کا اعلان ہوا ہے میرا نمبر تو 4ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بچہ امتحانات میں فیل ہو گیا اور گھر آ کر زور زور سے رونے لگا
باپ نے اسکو چپ کرواتے ہوئے کہا بیٹا صبر کرو تمہاری قسمت میں یہی لکھا تھا
بچہ (جلدی سے) جی پاپا ،یہ تو اچھا ہوا کہ میں نے سارا سال کچھ نہیں پڑھا ورنہ ساری محنت ضائع جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرایہ دار نے نصف شب کو مالک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا ،مالک مکان نیند سے بیدار ہو کر جلدی سے دروازے پر آیا تو کرایہ دار بولا
میں اس مہینے کا کرایہ ادا نہیں کر سکوں گا
مگر یہ اطلاع دینے کا کونسا وقت ہے ؟ مالک مکان غصہ سے بولا
تم یہ بات مجھے صبح بتا سکتے تھے
وہ تو ٹھیک ہے مگر میں نے سوچا اس پریشانی میں میںاکیلا کیوں جاگتا رہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر:معلوم ہوتا ہے آپ کو میرے مشورے سے بہت فائدہ ہوا ہے
مریض:اتنا نہیں جتنا کہ آپ کو مجھ سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے مریض کو دیکھا اور بولا ”یہ مر چکا ہے“
مریض تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول کر اٹھ بیٹھا،گھر والوں نے کہا کہ ” تم آنکھیں بند کرکے لیٹ جاﺅ اور اٹھنے کی کوشش نہ کرو کیا تم ڈاکٹر سے بہتر جانتے ہو“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریض:ڈاکٹر صاحب کیا میں کچھ کھا سکتا ہوں؟
ڈاکٹر:آپ میری فیس کے علاوہ سب کچھ کھا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استا:(شاگرد سے) اس شعر کا دوسرا مصرع بتاﺅ؟
جس کھیت سے کسان کو میسر نہ ہو روزی
شاگرد:اس کھیت میں فوراً ٹیوب ویل لگا دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد:(بچوں سے) بتاﺅ بادل کیوں گرجتا ہے؟
ایک بچے نے معصومیت سے کہا کہ ”استاد صاحب وہ پہاڑے یاد کرتا ہے“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالک:نوکر سے مجھے پانچ بجے جگا دینا
نوکر:جناب پانچ تو بج گئے ہیں
مالک:تو پھر منہ کیا دیکھتا ہے مجھے جگاو ¿
۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment