Ad

Ad

Friday, 13 January 2012

History of Hazrat Data Ali Hajveeri

مخدومِ پاک حضرت سےد علی بن عثمان الہجوےری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ
حالات وتعلےمات
تحرےر: پےر سےد محمد کبےر علی شاہ
سجادہ نشےن چورہ شرےف
برصغےر کو نُورِ اسلام سے منور کرنے والے صوفےائے عظام مےں حضرت سےّد علی بن عثمان الہجوےری المعروف حضرت داتا گنج بخش صاحبؒ کی ہستی اےک ممتاز مقام کی حامل ہے۔ ےہ انہی کا فےضان ہے کہ کفروشرک کے اس گڑھ مےں لاتعداد لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کا اسمِ گرامی علی، کنےت ابوالحسن، والد بزرگوار کا نام عثمان بن علی ہے۔ آپ حسنی سےّد ہےں اور آپ کا سلسلہ ¿ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے۔ طرےقت مےں آپ کے مرشد پاک حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلیؒ ہےں جن کا سلسلہ ¿ طرےقت نو واسطوں سے حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے۔ آپ نے جن دےگر مشائخ سے فےض حاصل کےا، ان مےں شےخ ابوالقاسم گرگانی ؒ، شےخ ابو سعےد ابی الخےرؒ، شےخ ابوالقاسم قشےریؒ اور شےخ ابوالعبّاس اشقانی ؒ شامل ہےں۔ آپ کے مرشد پاک سلسلہ ¿ جنےدےہ سے تعلق رکھتے تھے اور آپ خود بھی اس سلسلے سے تعلق رکھنے پر فخروانبساط کا اظہار فرماےا کرتے تھے۔ آپ 400ھ کے لگ بھگ غزنی شہر (افغانستان) کے اےک محلّے ہجوےر مےں پےدا ہوئے۔ ےہ سلطان محمود غزنوی کا دور تھا۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو علمائے غزنی سے علومِ ظاہری کے حصول کے بعد دےگر شہروں مےں تشرےف لے گئے اور وہاں سے بھی علومِ ظاہری وباطنی حاصل کئے۔ دراصل زمانہ ¿ قدےم مےں ےہ دستور تھا کہ صوفےائے کرام ابتدائی تعلےم کے بعد اپنے وطن سے نکل کر قرب وجوار کے کے علمائے کرام واولےائے کرام سے دےنی علوم حاصل کرنے کےلئے سفر پر نکل پڑتے تھے اور جب تک ان علوم مےں کمال حاصل نہ کرلےتے تھے، واپس نہ آتے تھے۔ تکمےلِ علم کے بعد اےک جگہ کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا کر خلقِ خدا کو صراطِ مستقیم کی طرف بلاتے تھے۔ اسی دستور کی پیروی کرتے ہوئے حضرت سےد علی بن عثمان الہجوےریؒ بھی مختلف ممالکِ اسلامےہ تشرےف لے گئے۔ تفسےر و احادےث کی کتابےں پڑھیں اور سےنکڑوں شےوخ سے فےض حاصل کےا۔ آپ نے چالےس برس متواتر سےروسےاحت مےں گزارے۔ ان سےاحتوں مےں آپ اکثر وبےشتر اکےلے اور کبھی کبھار مرشد پاک بھی ساتھ ہوتے۔ اس دوران آپ نے سفر کی تکالےف و مصائب برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ رےاضت و مجاہدات مےں بھی حصہ لےا اور سلوک و معرفت کی عالی شان منزلےں طے کیں۔ آپ کی شہرہ ¿ آفاق تصنےف ”کشف المحجوب“ مےں ان سےاحتوں اور پےش آنے والے حالات وواقعات کا تذکرہ جابجا ملتا ہے۔کشف المحجوب کے علاوہ آپ کی دےگر مطبوعات مےں کشف الاسرار، دےوانِ شعر، فرق فرق، منہاج الدےن، کتاب البےان لاہل العےان، اسرار الخرق والموئنات، الرعاےت بحقوق اللہ، کتابِ فناو بقائ، کتاب در شرحِ کلامِ حسےن بن منصور حلاجؒاور نحو القلوب شامل ہےں جن مےں سے اکثر اب ناپےد ہےں۔ اگر ےہ کتابےں اس زمانے مےں موجود ہوتےں تو ےقےنا علمِ معرفت کے متلاشےوں کےلئے اےک بےش قےمت خزانہ ہوتےں۔
لاہور مےں تشرےف آوری
آپ کے پےرو مرشد حضرت شےخ ابوالفضل محمد بن حسن ختلیؒ نے جب آپ کو لاہور جانے کا حکم دےا تو آپ نے فرماےا کہ وہاں تو مےرے پےر بھائی حضرت سےّد حسےن زنجانی ؒ موجود ہےں، وہاں جانے کی کےا ضرورت ہے۔ پےرِطرےقت نے فرماےا کہ تمہارا وہاں جانا ضروری ہے۔ چنانچہ جب آپ لاہور تشرےف لائے اور رات بےرون شہر قےام کرکے علی الصبح شہر مےں داخل ہوئے تو دےکھا کہ اےک جنازہ آرہا ہے اور بےشمار خلقت جنازے کے ہمراہ ہے۔ آپ کے درےافت فرمانے پر لوگوں نے بتاےا کہ ےہ جنازہ سےّد حسےن زنجانی ؒ کا ہے۔ چنانچہ اس وقت آپ پر اپنے پےرومرشد کے حکم کی حقےقت واضح ہوئی۔ آپ نے ہی نمازِ جنازہ پڑھائی اور تدفےن مےں بھی حصہ لےا۔
لاہور مےں آپ نے تبلےغِ اسلام کا کام نہاےت زور وشور سے شروع کردےا۔ سےنکڑوں لوگ اسلام لے آئے۔ سب سے پہلے جو غےر مسلم آپ کے دستِ حق پرست پر حلقہ بگوش اسلام ہوا، وہ کوئی معمولی غےر مسلم نہ تھا بلکہ اےک اےسا ہندو راجپوت تھا جو لاہور کی غےر مسلم راجدھانی کا اےک نہاےت اہم سےاسی اور کلےدی عہدےدار تھا۔ جب غزنوی مسلم حکومت قائم ہوئی تو اس حکومت مےں بھی اہم انتظامی عہدے پر فائز رہا اور بالآخر راج پاٹ گھر بارچھوڑ کر جوگ اختےار کےا اور استدراج کے مقام پر پہنچا۔ ےہ ”رائے راجو“جوگی کہلاےا۔ لاہور اور اس کے قرب وجوار مےں رائے راجو کا بہت شہرہ تھا اور اسے بہت مال ومتاع نذر ہوتا تھا۔
جب حضرت داتا گنج بخشؒ لاہور تشرےف لائے تو آپ کی فےض بخش اور عالم فاضل شخصےت کے آگے اس جوگی رائے راجو کی حالتِ شہرت ومعاش ماند پڑ گئی جس پر وہ حضرت کے سامنے آن کھڑا ہوا اور حضرت سے مقابلہ کی ٹھانی جس پر حضرت نے کمال مروّت سے سمجھاےا کہ مےں کوئی شعبدہ گر نہےں ہوں کہ تمہےں کمالات دکھاﺅں۔ مےں تو اےک عاجز بندہ ¿ اسلام ہوں۔ اگر تم مےں کچھ گُن ہےں تو پےش کرو۔ اس پر جوگی رائے راجو ہوا مےں اڑنے لگا اور حضرت داتا گنج بخشؒ نے تبسم فرماتے ہوئے اپنی پاپوش مبارک ہوا مےں پھےنک دی جو جوگی کے سر پر کفش کاری کرتی اُسے زمےن پر لے آئی۔ اس کرامت سے متاثر ہو کر جوگی آپ کے قدموں مےں گر گےا۔ حضرت نے اپنی نظرعناےت سے اس کی ظاہری وباطنی حالت بدل دی اور اسے دائرہ ¿ اسلام مےں داخل کرلےا اور اپنی بےعت مےں لے لےا اور اس جوگی کا نام بدل کر شےخ ہندی رکھا۔ اس کے بعد اس جوگی کے چےلے اور دےگر غےر مسلم جوق درجوق اسلام کے دائرہ مےں داخل ہونے لگے۔
جسٹس امےر علی لکھتے ہےں کہ جب حضرت داتا گنج بخشؒ کے ہاتھوں غےر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو ہندو راجہ جے سنگھ کے سپاہیوں نے اس سے شکاےت کی کہ سےّد علی ہجوےری اےک زبردست سےاسی شخصےت بنتے جارہے ہےں، آپ اس کی طرف توجہ دےں۔ چنانچہ راجہ جے سنگھ نے سلطان مسعود غزنوی سے اس کا ذکر کےا تو اس نے ےہ بات سن کر ٹال دی اور کہا کہ آپ اےک برگزےدہ ہستی ہےں۔ ان کی طرف سے کسی کو کوئی تکلےف نہےں پہنچ سکتی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مسلمانوں نے بھاٹی دروازہ کو ہجویری دروازہ کہنا شروع کردےا۔ بھٹی راجپوتوں نے اس کا بُرا مناےا اور انہوں نے بھاٹی دروازہ کا نام جے سنگھ دروازہ رکھ دےا۔ جب حضرت علی ہجویریؒ کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے دونوں قوموں کے عمائدےن کو بلاےا اور کہا کہ نام بدلنے سے کچھ نہےں ہوتا جب تک کہ دلوں مےں انقلاب نہ آئے۔ پھر کہا کہ آپ لوگ جو بھی نام رکھےں گے، ہمےں منظور ہوگا۔ اگر بھاٹی دروازہ ہی نام رہے تو اچھا ہے۔ راجہ جے سنگھ آپ کے فےصلے اور اخلاق سے بہت متاثر ہوا اور اسلام قبول کرلےا اور عرض کی کہ اس کا نام ہجویری دروازہ رکھنے کی اجازت عناےت فرمائی جائے مگر آپ نے فرماےا کہ ہجویری کی نسبت بھٹی قوم کا حق اس دروازے پر زےادہ ہے جو ےہاں صدےوں سے آباد ہے۔ جسٹس امےر علی نے مزےد لکھا ہے کہ اس واقعہ کے تقرےباً اےک ماہ کے اندر ساری بھٹی قوم حلقہ بگوش اسلام ہوگئی۔
آپ کی وفات
آپ کی تارےخِ وفات پر کتبِ قدےم و جدےد مےں بہت اختلاف ہے کےونکہ نہ تو کشف المحجوب مےں اور نہ ہی آپ کے ہم عصر مصنفےن کی کتب سے ہی آپ کی تارےخِ وفات کا پتہ چلتا ہے۔ تاہم مختلف تفصےلات اور مباحث سے اور آپ کے مزارِ مبارک کی اندرورنی ڈےوڑھی پر سنگِ مرمر پر لکھے ہوئے قطعہ ¿ تاریخِ وفات سے ےہ نتےجہ اخذ کےا جاسکتا ہے کہ آپ کا وصال 465ھ کے لگ بھگ ہوا ہوگا۔ آپ کا عرس چونکہ اسلامی کےلنڈر کے مہینے صفر المظفر کی 20 تارےخ کو ہر سال منعقد ہوتا ہے، اس لئے قےاس کےا جاسکتا ہے کہ اسی تارےخ کو ےا کم ازکم اسی مہینے مےں آپ نے وصال فرماےا ہوگا۔
مزار کی تعمیر
سلطان ابراہےم بن سلطان مسعود غزنوی جب لاہور آےا تو اس نے حضرت داتا صاحبؒ کے مرقد پر مزار تعمےر کرواےا۔ تعوےز مزار جو 1 وُرعہ طول اور 7 وُرعہ عرض کا ہے، اےک ہی سنگِ مرمر کے پتھر کی سِل سے بناےاگےا ہے۔ ےہ شہزادہ دارا شکوہ نے نافذ کےا تھا۔ خدا جانے ےہ تختہ سنگِ مرمر کا کتنا بڑا ہوگا جس مےں سے ےہ تعوےز نکالاگےا تھا۔ اردگرد جو دو چھوٹی چھوٹی قبرےں موجود ہےں، وہ شےخ احمد سرخسی اور شےخ ابوسعےد ہجویری کی ہےں۔ مزارِ عالےہ پر ہروقت اےک غلافِ کمخواب پڑا رہتا ہے۔ تعوےز کے گرد اےک پنجرہ چوبی ہشت پہلو تھا جس کو مےاں عوض خاں فےلبان راجہ رنجےت سنگھ نے سن1240ھ بمطابق 1824ءبنواےا تھا۔ پہلے مزار پر گنبد نہےں تھا۔ سن1278ھ بمطابق 1861ءمےں حاجی احمد سادھو کشمےری نے مزار پُرانوار پر اےک مدوّر گنبد نہاےت خوبصورت بنواےا نےز روضہ کے گرد جو ہشت پہلو آئےنے لگے ہےں، ےہ خان بہادر ڈاکٹر محمد حسےن مرحوم نے 1914ءمےں لگوائے تھے۔ اس کے بعد مرمت مےاں جان محمد گنائی کشمےری رئےس امرت سر نے کرائی تھی۔ چبوترہ کے گرد چاندی کا کٹہرہ ہے۔ ےہ نواب غلام محبوب سبحان کا نذرکردہ ہے۔
بلور کا اےک جھاڑ بھی روضہ ¿ اقدس کے تعوےز سے کچھ اوپر لٹک رہا ہے جو خان بہادر شےخ نصےر الدےن المتوفی 1920ءکا نذرانہ ہے۔
روضہ کا گنبد ہشت پہلو بےضوی شکل کا ہے۔ اندر کا فرش سنگِ مرمر کا ہے۔ چھت پر قےمتی مخمل کی چھت گےری لگی ہوئی ہے جس پرکار چوبی کا کام کےا ہوا ہے۔
1938ءمےں ماسٹر فےروزالدےن قلمکار نے پےتل پر رسول پاکﷺ کے روضہ ¿ مقدس کا نقشہ کھود کربناےا اور اس پر گل کاری کی۔ 1823ءمےں راجہ رنجےت سنگھ نے روضہ ¿ انور کی مرمت کروائی تھی اور نئی چھت ڈلوائی تھی۔
”جہادِ زندگی“ مرتبہ فےروز سنز مےں مولوی فےروز دےن لکھتے ہےں کہ وہ داتا دربار مےں قرےباً ساٹھ برس سے روزانہ حاضر ہورہے ہےں۔ 1943ءمےں انہوں نے (مولوی فےروزدےن مالک فےروز پرنٹنگ ورکس لاہور) مترجم کشف المحجوب وکشف الاسرار نے روضہ ¿ اقدس کی لکڑی کی کھڑکےاں نکلواکر اس مےںسنگِ مرمر کی دےدہ زےب جالےاں لگوادیں جو سنگ تراشی کا حسےن ترےن نمونہ ہےں۔ مزےد برآں مولوی صاحب نے گنبدِ اقدس پر بےش قےمت اور چمک دار چےنی کی ٹائلےں لگوائیں جس سے مقبرہ کی خوبصورتی مےں اضافہ ہوگےا ہے۔ مرقدِ اقدس کی چوکھٹ مےاں عبدالمنان اور مےاں غلام محمد جےلانی تاجران لاہور نے بنائی۔ روضہ کا سنہری کلس مستری امےر مرحوم نے اےک ہزار روپےہ کا سونا لگوا کر بناےا تھا۔ موجودہ غلام گردش امےرالنساءاہلےہ مےاں شاہ نواز نے سنگِ مرمر کی تعمےر کرائی تھی۔
آپ کا مزارِ پُرانوار صدےوں سے مرجع ¿ خلائق ہے اور ملک وبےرونِ ملک سے زائرےن جوق درجوق ےہاں حاضری دیتے ہےں۔ عرس کے موقع پر تو عقےدت مندوں کی ےہ تعداد کروڑوں تک جاپہنچتی ہے۔ اسے اللہ کی خاص مہربانی ہی کہا جائے گا کہ آپؒ کے دربار اور ملحقہ مسجد کی جس حکمران کے ہاتھوں توسےع ہوئی اور زائرےنِ کرام کو سہولےات فراہم کرنے کےلئے مختلف منصوبوں کا آغاز کرکے انہےں انتہائی سرعت سے پاےہ ¿ تکمےل تک پہنچاےا گےا، اسی حکمران ےعنی مےاں محمد نواز شرےف کو آپؒ کے سالانہ عرس مبارک سے چند ہی روز قبل اللہ تعالیٰ نے اےک بار پھر پاکستانی عوام کے روبرو سُرخروئی عطا فرمائی ہے۔ ہمےں ےقےن ہے کہ اُن کی اس کامےابی مےں اولےائے عظام سے ان کی قلبی وروحانی وابستگی اور خدمت کا بڑا دخل ہے اور ہم توقع رکھتے ہےں کہ وہ اس حوالے سے اپنی مساعی ¿ جمےلہ کو جاری وساری رکھےں گے کےونکہ اللہ تعالیٰ کے اولےائے پاک کی نظرِ کرم ہی کے طفےل اُنہےں مخلوقِ خدا کی خدمت کا اےک اور موقع مےسر آےا ہے۔
مرےدوں کےلئے نصےحتےں
حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنے مرےدوں کو بہت سی ہدائےتےں اور نصےحتےں کی ہےں۔ کہےں ان کو دل کا ٹکڑا فرماےا ہے، کہےں ان کو بادشاہِ وقت کی تعرےف کی ہداےت کی ہے اور کہےں اس سے کنارہ کشی کی۔ غرض مرےد کا ظاہر وباطن درست کرنے کےلئے جو لاجواب خےالات آپ نے تحرےر فرمائے ہےں، وہ نہ صرف آپ کے مرےدوں بلکہ ہر طالب حق کےلئے حرزِ جان ہونے چاہئےں۔ فرماتے ہےں:-
”اے مےرے مرےد! دنےا پانی پر کشتی کی مانند تےر رہی ہے۔ ےا مثل برےنہ کے ہے پس تو غوطہ خور بن، نہ کہ غرقِ آب ہو۔ کسی کا دل تجھ سے رنجےدہ نہ ہو۔ بادشاہ دےن پناہ جو زور وظلم کے اکھاڑنے اور رعےت کے نفع وضرر کا جاننے والا ہو اس کی تعرےف کر لےکن اس کی مداحی کسی دنےاوی غرض کےلئے نہ ہو۔ خوب ےاد رکھ کہ طمع مےں خواری ہے۔ مرشد کو اپنا قبلہ جان اور جان و دل سے اس کی خدمت کرتا رہ۔
اے مےرے مرےد! تو مےرے دل کا ٹکڑا ہے کےونکہ تو نےک بخت ہے۔ اپنے وقت کو ہمےشہ پےدا کرنے والے کی ےاد مےں بسر کر، سختی اور محنت سے نہ گھبرا کہ ےہی جوانمردی کی نشانی ہے۔ تجرےد (ےعنی مجرد رہنا) اےک انمول چےز ہے (اگر تو برداشت کرسکے)۔ درود شرےف کو اپنا وظےفہ بنا کہ درود شرےف کے بعد جو دعا مانگی جائے، وہ قبول ہوجاتی ہے۔ ےتےموں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ کہ اس کا بڑا اجر ہے۔ فرض کی رکعتےں جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہئےں۔
اے مےرے مرےد! علم پڑھ، علم سےکھ اور پھر عمل کر۔
اے مےرے مرےد! ماں باپ کے ادب سے خداوند تعالیٰ صدر جنت مےں جگہ دے گا۔
اے مےرے مرےد! جو کچھ اللہ تعالیٰ عناےت کرے، اس پر راضی رہ۔ اگر جنگل رہنے کو دے تو وہےں رہ۔ اگر آبادی عطا فرمائے تو اسی مےں خوشی سے گزارہ کر۔ وطن مےں رکھے تو وہےں رہ، غربت نصےب کرے تو اسی پر جم جا۔ اگر گدڑی دے تو پہن لے اور اگر قاقم دے تو اس سے بھی انکار نہ کر۔ گدھا دے تو سوار ہوجا، گھوڑا دے تو اسے بھی دُور نہ کر۔ غرض جو کچھ دے بخوشی لے اور اگر کچھ بھی نہ دے تو صبر کر۔ صبر عجےب چےز ہے“۔
غافل عالموں اور جاہل صوفےوں کی صحبت سے پرہےز کی ہداےت
حضرت داتا صاحبؒ نے ہر اےسے آدمی کی صحبت سے کنارہ کشی کی ہداےت فرمائی ہے جس کے اثر سے دےن واےمان اور اخلاق کو صدمہ پہنچنے کا احتمال ہو۔
غافل عالموں کی تشرےح مےں لکھا ہے کہ ےہ وہ لوگ ہےں جنوں نے دنےا کو اپنے دل کا قبلہ بنالےا ہے اور شرع سے روگردانی کرکے بادشاہوں اور ظالموں کی پرستش اختےار کرلی ہے اور ان کی درگاہوں کو اپنا طواف بنالےا ہے۔ ےعنی امےروں اور بادشاہوں کی خوشامد اور پائے بوسی اختےار کرلی ہے اور اپنے ضمےر کو بےچ دےا ہے اور علم کی قدر نہےں کی اور نفاق وحسد کو اپنا مذہب بنالےا ہے۔
جاہل صوفی وہ ہےں جو کسی پےر کی صحبت مےں نہ رہے ہوں۔ کسی بزرگ سے ادب نہ سےکھا ہو، زمانہ کی گوشمالی اور تکالےف ومصائب کا مزہ نہ چکھا ہو اور ہےچمدانی پر اپنے آپ کو ہمہ دان سجھتے ہوں۔ اےسے آدمےوں سے بچو کہ وہ دعوﺅں مےں جھوٹے ہےں اور رفتار مےں ناکامل۔
آپؒ کے کلماتِ طےبات
حضرت داتا گنج بخشؒ کی زبانِ مبارک کا اےک اےک لفظ گوہرِ آبدار ہے۔ دنےا داروں اور دےن داروں کے لئے انہوں نے کلماتِ طےبات کا اےک لازوال خزانہ اپنی ےادگار مےں چھوڑا ہے۔ کوئی عمل کرنے والا ہو تو بقول شخصے اےک ہی لفظ کافی ہے۔
ہم طالبانِ حق کی روحانی غذا کےلئے آپ کے کچھ کلمات اور اقوال ےہاں درج کرتے ہےں جو کشف المحجوب اور کشف الاسرار سے منتخب کئے گئے ہےں:-
(1حال وہ حقےقت ہے جو خدا کی طرف سے انسان کے دل مےں آتی ہے۔ جب آئے تو اسے دور نہےں کرسکتے اور جب جائے تو اسے حاصل نہےں کرسکتے۔
(2نفس کی مخالفت سب عبادتوں کا اصل اور سب مجاہدوں کا کمال ہے۔
(3ےہ ضروری نہےں کہ جو زےادہ مجاہد ہو وہ زےادہ امن مےں ہو بلکہ جس پر خداتعالیٰ کی زےادہ عناےت ہوتی ہے، وہی قربِ الٰہی کا زےادہ مستحق ہوتا ہے۔
(4نفس اےک باغی کتا ہے۔ کتے کا چمڑا جب تک دباغت اور رنگ نہ کےا جائے، پاک نہےں ہوتا۔
(5جو ولی کی معرفت کے نہ ہونے کے قائل ہےں، ان کا قول معتبر نہےں۔
(6کرامت ولی کے صدق کی علامت ہے۔
(7ولی مخصوص ہے کرامتوں سے اور نبی معجزوں سے۔
(8پےغمبر کی بزرگی اور رتبہ کی بلندی صرف معجزہ ہی سے نہےں بلکہ عصمت کی صفائی سے ہے۔
(9سب نبی ولی ہوتے ہےں مگر ولےوں مےں سے کوئی نبی نہےں ہوسکتا۔
(10روح اےک لطےف شے ہے جو خدائے بزرگ وبلند کے حکم سے آمدورفت رکھتی ہے۔
(11عارف عالم بھی ہوتا ہے مگر ضروری نہےں کہ عالم بھی عارف ہو۔
(12بندہ کےلئے سب چےزوں سے مشکل خدا کی پہچان ہے۔
(13جس کو خدا گمراہ کردے، اس کو کوئی راستہ پر نہےں لاسکتا اور جس کو خدا سےدھی راہ دکھا دے، اسے کوئی گمراہ نہےں کرسکتا۔
(14خدا کے راستے کے سالکوں کا پہلا مقام توبہ ہے۔
(15محبت حال ہے اور حال کبھی قال نہےں ہوتا۔ ےعنی اگر محبت زبردستی پےدا کرنا چاہو تو نہےں کرسکتے کےونکہ ےہ عطائے الٰہی ہے۔ ےہاں زور وزر کا کام نہےں۔
(16علم سے بے پرواہی کرنا کفرِ محض ہے۔
(17مشاہدہ مردوں کا مےدان ہے اور مجاہدہ لڑکوں کا کھےل ہے۔
(18بوڑھوں کو چاہئے کہ نوجوانوں کا پاس خاطر کرےں کےونکہ ان کے گناہ بہت کم ہےں اور جوانوں کو چاہئے کہ بوڑھوں کا احترام کرےں کےونکہ وہ ان سے زےادہ عابد اور زےادہ تجربہ کار ہےں۔
(19غذا کے بغےر چارہ نہےں کےونکہ طبےعتوں کا برقرار رکھنا کھانے اور پےنے کے بغےر ممکن نہےں ہے لےکن شرطِ مروت ےہ ہے کہ حد سے زےادہ نہ بڑھ جائے۔
(20مجردوں کو چاہئے کہ وہ نا شائستہ اوامر سے اپنی آنکھ بچائےں اور جو چےزےں دےکھنے کے لائق نہ ہوں، ان کو نہ دےکھےں اور جو سوچنے کے لائق نہ ہوں، ان کو نہ سوچےں۔
(21فقےر کو مناسب ہے کہ بادشاہوں کی ملاقات کو سانپ اور اژدہوں کی ملاقات کے برابر سمجھے۔ (بشرطےکہ وہ ملاقات) اپنے نفس کےلئے ہو۔
(22فقےر کی معرفت، آزمائش اور پہچان کےلئے سےردنےا سے بہتر کوئی ذرےعہ نہےں۔
(23پروانہ ہمےشہ شمع پر ہی جاتا ہے۔ پس اگر پروانہ کی طرح ےہ جان بھی اسی (شمع ¿ حقےقت) کے غم مےں جل مرے تو بڑی بات ہے۔
(24آنکھوں سے پانی بہا اور خوشی تھوڑی کر۔
(25تحفہ وہدےہ وخےرات وغےرہ کے طور پر جو چےز (بے طلب) خود بخود حاضر ہو، اسے رد نہ کر۔
(26اگر کسی مزار پر سے گزر ہو تو کچھ پڑھ کر بخش تاکہ صاحبِ مزار کو خوشی حاصل ہو اور وہ بھی تےرے حق مےں دعا کرے۔
(27اگر کسی کی اےک کھجور کی گٹھلی بھی تجھ پر نکلتی ہو، اس سے سبکدوشی حاصل کر۔
(28ماں باپ کو اپنا قبلہ سمجھنا چاہئے جےسا کہ قرآن شرےف کی تفاسےر مےں بھی آےا ہے۔
(29اگر تم ہفت ہزاری بھی ہوجاﺅ تو کےا بنے گا۔ آخر کو مٹھی بھر خاک ہی رہو گے۔
(30سچ جانو! کہ تم ناپاک منی کا صرف اےک قطرہ ہو، پھر اس تکبر ونخوت سے کےا حاصل۔
(31بےگانوں کا حق اپنے پاس نہ رکھ۔
(32مال کی محبت کو عذاب سمجھ کر فاقہ کشوں (اور مستحقوں) پر لٹاتا رہے اور ےہ سب کچھ اس دن سے پہلے کر جبکہ قبر مےں تجھے کےڑے کھاجائےں گے۔
(33دنےا کے ساتھی (ہاتھ، پاﺅں، آنکھےں) جو ظاہر مےں دوست نظر آتے ہےں، دراصل تےرے دشمن ہےں۔
(34استاد کا حق ضائع نہ کر۔
(35حرام کے لقمہ سے پرہےز کر۔
(36جہاں بے عزتی ہو، وہاں نہ جا۔
(37دس چےزےں دس چےزوں کو کھا جاتی ہےں:-
(1گناہوں کو توبہ(2رزق کو جھوٹ (3نےک اعمال کو غےبت (4عمر کو غم (5بلاﺅں کو صدقہ (6عقل کو غصہ (7سخاوت کو پشےمانی ےعنی دے کر بعد مےں پچھتانا(8علم کو تکبر (9بدی کو نےکی (10ظلم کو عدل (38فقےر کو چاہئے کہ مرشد ہی کی حضوری رکھے۔ مرشد وہ ہوتا ہے جو درےائے معرفت کا غوطہ خور ہو نہ کہ کنارہ پر رہنے والا۔
(39مرےد کو بےعت کرتے وقت اپنے زہدورےاضت کی قوت کو دےکھ لےنا چاہئے ورنہ اس کے دونوں جہان خراب ہوجائےں گے۔
(40ےاالٰہی! علی کو پہلے شکر کا خزانہ بخش اور پھر فقر کی دولت عطا فرما۔ پہلے اسے کدورت سے پاک کر اور پھر اپنے بھےد مرحمت فرما۔ پہلے صبر کی لذت عناےت کر اور پھر رنج وبےماری بھی بخش۔
(41مبتدی کو چاہئے کہ راگ اور سماع سے پرہےز کرے کےونکہ ےہ راستہ اس کےلئے بہت مشکل ہے۔
(42بھےد کو نہ کھول اور نماز کو نہ بھول۔
(43اولےاءخدا کے رحم اور غضب کے اظہار کا ذرےعہ اور احادےثِ نبویﷺ کی تجدےد کا باعث ہےں۔
آپ کی وصےت
اپنی بے مثال اور معرکتہ الآراءکتاب ”کشف المحجوب“ کو ختم کرتے ہوئے آپؒ نے اےک فقرہ تحرےر فرماےا جو ہمارے خےال مےں ساری کتاب ہی نہےں‘ ساری طرےقت کا خلاصہ ہے۔ آپؒ نے فرماےا: ”مےں اس کتاب کے قارئےن کو وصےت کرتا ہوں کہ اس کتاب مےں جو احکام لکھے گئے ہےں‘ ان کی رعاےت کرےں اور ان پر عمل کرےں۔ اللہ ہی مدد کرنے والا اور جمع و تفرےق کرنے کا مالک ہے۔ وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترےن ساتھی“۔
ہزارسالہ جشنِ ولادت کا سرکاری سطح پر اہتمام
مخدوم پاک حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ کی ذاتِ عالیشان کی بدولت ہی اس خطے میں کفر و شرک کے قلعے مسمار ہوئے ۔آپؒؒ کے انوار و تجلیات کی بدولت آج بھی یہاں دینِ حق پوری آب و تاب سے جلوہ فگن ہے۔ آپؒ ؒکی مساعیِ جمیلہ کی بدولت ہی بحمدللہ آج ہم خاکساروں کا شمار بھی حضور پاک ﷺ کے اُمیتوں میں ہوتا ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ آپؒؒ کے احساناتِ عظیم کو ہروقت یاد رکھیں۔ آپؒؒ کی ولادت باسعادت کو ایک ہزار سال ہوچکے ہیں اور آپؒ کی حیات ِ پاک کے تذکرے اور تعلیمات کو فروغ دینے کا اس سے احسن طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ حکومتِ پنجاب کی طرف سے آپؒؒ کے ہزار سالہ جشنِ ولادت کو منانے کا سرکاری سطح پر اہتمام کیا جائے۔ ہزار سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے انتظام و انصرام کے لئے مشائخ عظام اور علمائے کرام پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ جشن ولادت کے حوالے سے عالمی سطح کے سیمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے جن میں دنیا بھر سے مسلمان اہل علم و دانش کو آپؒؒ کی دینی و ملی خدمات پرمقالے پیش کرنے کے لئے مدعو کیا جائے۔ آپؒؒ کی ذاتِ بابرکات کے حوالے سے ملک بھر کے طلباءو طالبات کے مابین مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کروائے جائیں اورنسلِ نو کو آپؒؒ کی تعلیمات سے روشناس کروانے کے لیے کتابچے شائع کئے جائیں۔ اُمید واثق ہے کہ حکومتِ پنجاب اپنے دامن کو حضرت داتا گنج بخش صاحبؒ کے ہزارسالہ جشنِ ولادت کے سرکاری سطح پر اہتمام سے ضرور منور کرے گی۔

No comments:

Post a Comment