Ad

Ad

Saturday, 7 January 2012

Media nai Tareekh lakh raha hay

میڈیا ئنی تاریخ لکھ رہا ہے"
     آج کے دور میں میڈیا نے جس طرح دنیا بھر کے فیصلہ سازوں اور حکمرانوں کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔اس کی مثالیں بکھری پڑی ہیں۔واٹر گیٹ سکینڈل کی خبر نے اس وقت کے امریکی صدر نکسن کو اقتدار سے محروم کر دیا۔ مونیکا لیونسکی کے سکینڈل کی خبر نے ایک اور امریکی صدر کلنٹن کے جھوٹ کو اس طرح ثابت کیا کہ اسے مواخذے سے بچنے کے لیے پوری قوم سے معافی مانگنی پڑی۔وکی لیکس نے تو تیسری دنیا کے تمام حکمرانوں کے پول کھول دئیے۔ پاکستانی میڈیا نے بھی اپنے حکمرانوں کے کرتوت جس طرح نمایاں کرنے شروع کیے ہیں اس کی وجہ سے ہر بد عنوان مقتدر شخص جھنجلاہٹ کا شکار ہے۔ امریکی بزنس اور میڈیا مین منصو ر اعجاز نے میمو گیٹ سکینڈل کو جس طرح نمایاں کیا اس نے پاکستان کی سیاست میں ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو استعفیٰ دینا پڑا اور پوری حکومت سپریم کورٹ کے سامنے جوابدہ ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی عدلیہ عدلیہ کے تابع نظر آ رہے ہیں۔ ان معاملات کی وجہ سے صدر زرداری کا ذہنی دباﺅ کا شکار ہونا کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔
    ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کو ایک مٹھی میں بند کر دیا ہے۔ ٹی وی کا ریموٹ ہو، انٹرنیٹ کا ماﺅس یا موبائل فون یہ سب ایسی علامتیں ہیں جنہوں نے دنیا کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ٹی وی ریموٹ کا ایک بٹن دباتے ہی لاکھوں میل دور کی آواز، تصویر اور حرکات آپ کے سامنے ہوتی ہیں۔ ماﺅس کو چھیڑتے ہی علم ،تحقیق اور اخلاقیات کے جدید رجحانات لمحہ بھر میں الیکٹرانک صفحات پر بکھر جاتے ہیں ۔اسی طرح موبائل فون کے ذریعے ہم اپنے پیاروں سے لمحہ بھر میں ہر طرح کی بات کر سکتے ہیں اور اب تو تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔آج کے دور میں طرز فکر کو تشکیل دینے اور انسانی رویوں پر اثر انداز ہونے میں ،مٹھی میں بند یہ تین چیزیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ جن قوموں کا کنٹرول ان تین چیزوں پرہے، وہی عملاً دنیا پر کمانڈ کر رہی ہیں۔
    آج کے دور میں کوئی قوم یا ملک اس وقت تک عالمی سطح پر اپنی برتری ثابت نہیں کر سکتا جب تک وہ ذرائع ابلاغ یا میڈیا کو دانش مندانہ طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو۔ جس طرح زمانہ امن میں حکومتوں کو اپنی پالیسیوں اور تجارتی اداروں کواپنی مصنوعات کو مقبول بنانے کے عمل میں میڈیا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس طرح جنگ کے دوران جدید عسکری صلاحیتیں ہونے کے باوجود دشمن کے مورال کو کمزور کرنے اور اپنی فوج کا حوصلہ بڑھانے کے لیے میڈیا کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کسی بھی ملک یا علاقے پر زمینی قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے بھی میڈیا کی مدد درکار ہوتی ہے۔میڈیا جہاں قابض فوجوں کے نقطہ نظر کو عوام میں عام کرتا ہے وہاں مخالف پراپیگنڈے کابھی مقابلہ کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اسی بنا پر نفسیاتی جنگ میں کامیابی کے لیے میڈیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ افغانستان پر امریکی حملہ ہو یا عراق پر فوج کشی ان ممالک پر حملے سے پہلے امریکہ نے میڈیا کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ دنیا میں امن کے قیام، دہشت گردی کے خاتمے اور ان ملکوں کے عوام کو جابر قیادتوں سے آزاد کرانے کے لیے یہ اقدامات کر رہا ہے۔ حالانکہ پس پردہ امریکی مقاصد سے سب ہی ذی شعور آگاہ تھے۔
    ہمارے ہاں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ سی این این اوربی بی سی خبروں کے معاملے میں بڑی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بین الااقومی امور کے بارے میں پینٹاگون جو گائیڈ لائن دیتا ہے سی این این اور دوسرے امریکی ادارے اپنی خبریں اور تبصروں میں اس کی پابندی کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہنا کہ امریکہ اور برطانیہ کے ذرائع ابلاغ ہر معاملے میں غیر جانبدار رپورٹنگ کرتے ہیں زیادہ درست نہیں۔ تاہم یہ ادارے اپنی خبروں کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ بظاہر وہ غیر جانبدار لگتی ہیں خبر میں شامل سلانٹ کا اکثر عام آدمی کو پتہ ہی نہیں چل سکتا ۔ اپنی اس مہارت کی بدولت ان اداروں نے اپنی ساکھ قائم رکھی ۔
    اگر ہم امریکی اور یورپی میڈیا پالیسی کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ دنیا سے دہشت گردی ختم کرنے کی میڈیا مہم میں اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات کو تنگ نظر اور تشددانہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور جذبہ جہاد کو دہشت گرد سو چ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
    امریکی عزائم پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کو بھی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئیے امریکہ کی وسیع تر عالمی سلطنت کے خواب میں وہ کسی بھی اسلامی ملک کو بھر پور فوجی قوت اور ایٹمی طاقت نہیں دیکھنا چاہتا۔ کیونکہ امریکہ کے نئے ورلڈ آرڈر کا اہم مقصد اپنی تہذیب و تمدن کا پھیلاﺅ اور دنیا کے وسائل پر اجارہ داری قائم کرنا ہے۔
    اس وقت اندرونی اور بیرونی طور پر پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان پر مقامی اور قومی سطح پر اتفاق رائے سے حکمت عملی کی تیاری وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ روشن خیال یا اعتدال پسندی کا نظریہ ہو ،دینی مدرسوں کی تنظیم نو ہو یا عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ڈیم تعمیر کرنا، نظام تعلیم یا میڈ یم آف انسٹرکشن(INSTRUCTION )کا مسئلہ ان سب کا حل میڈیا ڈائیلاگ کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
     عدلیہ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے معاملات ہوں یا ملک کو درپیش چیلنجز کو حل کرنے کے لیے میڈیا سے مدد حاصل کرنا ضروری ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں حکومت کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کا اگر غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر میڈیا کے حوالے سے حکومت نے پہلے سے ہوم ورک کیا ہوتا تو سیاسی اور ابلاغی منظر نامہ مختلف ہوتا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ کسی بھی اہم فیصلے کو کرتے وقت یہ جائزہ بھی ضروری ہے کہ جب اس معاملے پر عمل درآمد کیاجائے گا تو میڈیا کا ردعمل کیا ہو گا۔ کیونکہ آج کے دور میں" زبان خلق"میڈیا کا نام ہے۔ڈائیلاگ چاہے افراد کے درمیان ہو یا میڈیا کے ذریعے تین نکات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
(1    برداشت ، ایک دوسرے کی بات کو تحمل اور رواداری سے برداشت کرنا۔
(2    صبر، ایک دوسرے کے نقطہ نظر کوتنگ آئے بغیر اطمینان سے سننا ۔
(3    گنجائش ، ایک دوسرے کے نقطہ نظرکو سمونے کے لیے گنجائش پیدا کرنا۔
    دنیا بھر میں میڈیا کے منظر نامے کو دیکھنے اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ آج کے دور میں میڈیا حکمرنواں اور عوام کا ترجمان ہے۔ میڈیا سے متعلق افراد جو لکھتے اور بیان کرتے ہیں وہ آج کی خبر اور کل کی تاریخ ہوتی ہے اس لحاظ سے میڈیا سے منسلک افراد کی ذمہ داریاں اور بڑھ گئی ہیں۔   
    ٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment