Ad

Ad

Saturday, 7 January 2012

Naye Soboin ka Shosha

 نئے صوبوں کا شوشہ........ !

دو ایک روز پہلے قومی اسمبلی میں ہزارہ اور جنوبی پنجاب کو نئے صوبے بنانے کے معاملے پر زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی۔ مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم میں شدید جھڑپ بھی ہوئی جبکہ اے این پی اجلاس سے واک آ ¶ٹ کر گئی۔ اجلاس کے دوسرے روز نئے صوبوں سے متعلق قرارداد ایجنڈے میں نہ شامل ہونے پر ایم کیو ایم کے ارکان بائیکاٹ کر گئے۔ جنوبی پنجاب اور ہزارہ کو صوبہ بنانے کا مطالبہ وہاں کے عوام کا ہے یا بعض سیاسی قوتیں نمبر سکورنگ کیلئے یہ سب کر رہی ہیں اور ان کو لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کے طور پر تقسیم کرنے کی بات کی جا رہی ہے یا پھر انتظامی بنیادوں پر ان کی تقسیم مقصود ہے۔ ان سوالوں کو نظرانداز کر کے ہزارہ اور جنوبی پنجاب کو نئے صوبوں میں تقسیم کرنے کی بات غیر سنجیدگی پر مبنی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی باتیں کرنے والی سیاسی جماعتیں اور حکومت خود اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں کیونکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی خود کہہ چکے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے سرائیکی صوبہ نہ بنا تو کب بنے گا۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں بھی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے صوبوں کیلئے کام نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہم نئے صوبوں کے حق میں ہیں جبکہ سرائیکی صوبے پر دو تہائی اکثریت حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پنجاب اسمبلی میں قرارداد کی اجازت نہ ملے تو قومی اسمبلی میں لائی جائے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایم کیو ایم نے جنوبی پنجاب اور ہزارہ کو صوبے کا درجہ دینے کے لئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں دو قراردادیں جمع کروا رکھی تھیں جن کو بنیاد بنا کر قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم نے نئے صوبوں کی بحث شروع کرنی چاہی تو ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی اور قائم مقام سپیکر نے بھی کہا کہ ان کو تاحال قرارداد موصول نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ ن کا م ¶قف تھا کہ وہ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کے خلاف نہیں مگر لندن میں بیٹھے شخص کو نئے صوبوں کے نام پر ڈرامہ بازی نہیں کرنے دیں گے۔ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر بحث غیر آئینی ہے۔ ایم کیو ایم نئے صوبوں کے نام پر اپنی سیاسی دکانداری چلانا چاہتی ہے۔ اس پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایم کیو ایم اور اے این پی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئیں حاالانکہ دونوں جماعتیں حکومتی اتحاد میں شامل ہیں مگر ایم کیو ایم کے غیر لچکدار م ¶قف نے دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا۔ کسی بھی صوبے میں نئے صوبے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کی صوبائی اسمبلی اسے دوتہائی اکثریت سے منظور کرے اس کے بعد قومی اسمبلی سے بھی اس کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظوری لی جائے۔ اس کے بعد نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے مگر ایم کیو ایم موجودہ قانون اور آئین سے بالاتر ہو کر تمام زمینی حقائق اور متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کے عوامی مینڈیٹ کا احترام کئے بغیر جنوبی پنجاب اور ہزارہ ڈویژن میں اپنی سیاست چمکانا چاہتی ہے جس کی غرض سے گذشتہ روز قومی اسمبلی کو مچھلی منڈی بنا دیا گیا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے ایم کیو ایم کے اس رویے پر درست کہا ہے کہ کسی کی دادا گیری نہیں چلنے دیں گے۔ لندن میں بیٹھے ایم کیو ایم کی طاقت کو کنٹرول کرنے والی اصل شخصیت دراصل کراچی کو صوبہ بنانا چاہتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے ملک بھر میں نئے صوبوں کا شوشہ چھیڑا جا رہا ہے۔ کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے اور ایک زمانے میں وفاقی دارالحکومت بھی رہ چکا ہے۔ کراچی اور سندھ میں کسی بھی مقام پر الگ صوبہ بنانے کا کوئی مطالبہ اور تجویز نہیں ہے اگر ایم کیو ایم کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی خواہاں ہے تو اس مقصد کی تکمیل بھی عین اسی طرح ناممکن ہے جس طرح ہزارہ اور سرائیکی صوبہ کی تکمیل کے لئے وزیراعظم تک کو کامیابی حاصل نہیں ہو پا رہی۔
اس وقت ہمارے ہاں حکومتی شاہ خرچیوں کا جو شوروغل اور واویلا ہے اور جس طرح صوبائی اور وفاقی کابینہ کے ممبران کے اخراجات کا میڈیا پر تذکرہ کر کے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ نئے صوبوں کا قیام کسی بھی لحاظ سے ایک احسن فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ زمینی حقائق کے مطابق ہزارہ اور جنوبی پنجاب کے عوام قطعی طور پر اس اکثریت کے ساتھ نئے صوبوں کے قیام کے حامی نہیں ہیں جس قدر تاثر فراہم کیا جاتا ہے۔ ملک بھر کے دیگر صوبوں اور علاقوں کے لوگوں کی طرح ان علاقوں کے عوام کا بھی ایک ہی مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے وہ حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں اور گاہے گاہے احتجاج کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ بھی اپنے بنیادی حقوق تلاش کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے سروں سے مہنگائی‘ بے روزگاری اور لاقانونیت کے سیاہ سائے ہٹا دئیے جائیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کو انسان کی طرح جینے کا حق میسر آسکے اور اگر دیکھا جائے تو انتظامی بنیادوں پر یہ سب وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کو موجودہ انتظامی انفراسٹرکچر کے ذریعے بھی فراہم کر سکتی ہیں اور اگر ایسا نہیں کیا جا سکتا تو پھر حکمران اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کا اعتراف کر کے نئے صوبوں کے قیام کی باتیں نہایت ہی غیرضروری ہیں۔کیا حکمران نئے صوبوں کے قیام کا شوشہ چھیڑ کر وطن عزیز اور اس کے عوام پر نت نئے اخراجات اور ٹیکسوں کا بوجھ تھونپنا چاہتے ہیں اور کیا اس کا مقصد اقتدار وڈیروں اور جاگیرداروں کی جھولیوں میں منتقل کرنا ہے۔ جنوبی پنجاب کا نیا صوبہ بننے سے اقتدار ان وڈیروں اور جاگیرداروں کو منتقل ہو جائے گا جو آج تک جنوبی پنجاب کے عوام کے حقوق غصب کرتے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو آج نئے صوبوں کی یاد ستا رہی ہے کہ وہ صرف ان علاقوں میں اپنی سیاسی مضبوطی کی خواہاں ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں۔ وزیراعظم بھی سرائیگی صوبے کی جو باتیں کر رہے ہیں‘ وہ سیاسی نمبر سکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔ صرف مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک تقسیم کرنے کی خواہش میں پنجاب جیسے ملک کی آبادی کے 60 فیصد صوبے کو تقسیم کرنا درست فیصلہ نہیں ہو گا۔ ہزارہ اور جنوبی پنجاب میں نئے صوبوں کا قیام وہاں کے عوام کا خالصتاً مطالبہ نہیں بلکہ طاقتور قوتیں اپنے مخصوص مفادات کے لئے اُچھال رہی ہیں اور مخصوص علاقائی جماعتیں بھی اپنے نیٹ ورک میں اضافے کیلئے اس میں شامل ہو گئی ہیں۔ یہ شوشہ اس وقت نہ چھیڑا جائے تو بہتر ہو گا۔


No comments:

Post a Comment