Ad

Ad

Wednesday, 11 January 2012

Idaron k Darmiyan Tasadam

اداروں کے درمیان تشویشناک تصادم
    حکمرانوں نے جس تسلسل کے ساتھ ضد اور انا کا مظاہرہ کرتے ہوئے این آر او کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد سے گریز کیا وہ تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ عدلیہ کے ججوں نے بلاشبہ بے مثال تحمل اور برداشت کا ثبوت دیا۔ عدلیہ نے حکومت کو این آر او کیس پر عملدرآمد کا آخری موقع بھی دیا مگر حکمرانوں نے اس موقع سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے توہین عدالت کا ارتکاب کیا۔ سپریم کورٹ کے پانچ معزز ججوں نے تحمل سے کام لے کر ایک بار پھر صدر اور وزیراعظم کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرنے کی بجائے حکومت کو چھ آپشنز دئیے ہیں تاکہ حکومت 16 جنوری سے پہلے اپنے لیے آبرومندانہ راستے کا انتخاب کر لے۔ کارڈ اب حکومت کی کورٹ میں ہے وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں آئینی آپشن استعمال کر کے تصادم اور محاذ آرائی کو روک سکتی ہے۔ایک بزرگ صحافی نے اس صورتحال کو ”نوشتہ اعمال“ قراردیا ہے۔ ہم نے نوائے وقت کے انہی کالموں میں پی پی پی کی مرکزی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ ”مرکزی چہرہ“ تبدیل کر دیا جائے مگر اس وقت حکومت کے ”وظیفہ خوروں“ کو ہماری بات بہت ناگوار گزری تھی مگر اب سپریم کورٹ کے پانچ فاضل ججوں نے اپنے متفقہ فیصلے میں وزیراعظم پاکستان کو بادی النظر میں نا اہل اور بددیانت قراردے کر چہرے پر ایسا داغ ملامت لگا دیا ہے جو زندگی بھر دھل نہ سکے گا۔ حکمرانوں نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو ان کا اپنا اور پارٹی کا مستقبل ہی خطرے میں پڑسکتا ہے۔
    نیب کے چیرمین نے دیدہ دلیری کے ساتھ عدالت میں رپورٹ داخل کی ہے کہ عدنان خواجہ اور ریاض شیخ کے خلاف کاروائی نہیں کی جاسکتی۔ یہ رویہ عدالت کی توہین ہے۔ عدنان خواجہ وزیراعظم اور شیخ ریاض صدر پاکستان کے قریبی دوست ہیں۔حکمرانوں کے پاس چند دن کی مہلت ہے۔انہیں ملک اور قوم کے مفاد میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سوئس کورٹ کو خط لکھ دینا چاہیئے بصورت دیگر وزیراعظم مستعفی ہوجائیں کیونکہ سپریم کورٹ کے آرڈر کی روشنی میں وہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے کا اخلاقی اور قانونی جواز ہی کھو بیٹھے ہیں۔ اگر وزیراعظم نے بلاجواز ضد اور ہٹ دھرمی نہ چھوڑی تو چند دنوں کے بعد وہ یہ شعر گنگناتے نظر آئیں گے۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلیں
    پی پی پی کے شہید لیڈروں نے نا خوشگوار حالات میں بھی ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو سپریم کورٹ میں اپنے ٓٓآخری بیان میں بھی عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے بھی عدلیہ سے تصادم اور محاذ آرائی کا راستہ اختیار نہ کیا مگر ان کے جانشین 6 کروڑ ڈالروں کے لیے سب کچھ داﺅ پر لگانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ 1988ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت بیس ماہ بعد ختم کر دی گئی مگر وہ سیاسی شہید نہ بن سکیں اور 1990ءکے انتخابات ہار گئیں۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان یہ خیال دل سے نکال دیں کہ وہ اداروں سے تصادم اور محاذ آرائی کر کے سیاسی شہید بن جائیں گے انہوں نے چار سال گزار لیے ہیں۔ عوام اپنے مسائل کی وجہ سے ان سے سخت ناراض ہیں۔ اگر ان کو سپریم کورٹ نے نا اہلی، بددیانتی اور توہین عدالت کے الزام میں فارغ کیا تو پارٹی کے حامی ان کو سیاسی شہید تسلیم نہیں کریں گے۔
    حکومت اپنے وکلا کی ٹیم تبدیل کر لے تاکہ عدلیہ میں حکومت کا بہترین دفاع کیا جاسکے ۔ جو وکیل آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات نہیں کرسکتا اور موقف دیتے وقت اپنی آنکھوں پر کالے شیشوں والی عینک سجالیتا ہے وہ حکومت کا دفاع کیسے کرسکتا ہے۔ بابر اعوان کی انتخابی کامیابی کی منطق درست نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص انتخاب جیت جائے تو اسے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے کا لائسنس حاصل نہیں ہوجاتا۔ اگر حکومتی قانونی ٹیم اہل ہوتی تو عدالت کے روبرو یہ موقف اختیار کرتی کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے میمو گیٹ کے بارے میں بیانات غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں مگر تاریخ شاہد ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے کبھی مناسب موقع کے مطابق موقف اختیار نہیں کیا۔ انہوں نے اس وقت چین کے اخبار کو انٹرویو دیا جب آرمی چیف چین کے اہم دورے پر تھے۔ اس موقع پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بیانات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قراردینا عاقبت نا اندیشانہ طرز عمل تھا جس کی کسی زیرک اور مدبر وزیراعظم سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ وزیراعظم نے سیکریٹری دفاع کو برطرف کر دیا ہے جو ہرچند کہ ایک آئینی اقدام ہے مگر اس کے لیے بھی وقت کا انتخاب موزوں نہیں تھا۔
    افسوس کا مقام یہ ہے کہ صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان ان فوجی افسروں کے ساتھ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ نہیں چل سکے جن کو انہوں نے ملازمت میں ایک سال نہیں بلکہ تین سال کی توسیع دی تھی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں وزیراعظم کے آرمی چیف کے بارے میں ریمارکس کو سنگین اور ملک کے لیے گہرے اثرات کا حامل قراردیا گیا ہے۔ فوج کی جانب سے یہ بیان ”نہلے پہ دہلہ“ ہے جس سے حکومت کے اتحادیوں اور عدلیہ کو منفی پیغام جائے گا۔ گویا سپریم کورٹ کے بعد اب فوج نے بھی حکومت کی کارکردگی اور اہلیت کو چیلنج کر دیا ہے۔ وزیراعظم کوشش کریں گے کہ پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لے کر عدالت کو باور کرائیں کہ حکومت نے چھٹے آپشن [عوام فیصلہ کریں اور عدلیہ تحمل دکھائے] پر عمل کر دیا ہے۔ جب تک سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا جاتا اور وزیراعظم عدلیہ سے معذرت نہیں کرتے بحران ختم نہیں ہوگا۔ ابھی میمو گیٹ اور رینٹل پاور کے فیصلے آنے ہیں جن سے اداروں کے درمیان تصادم اور محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا۔ خدا خیر کرے اور پاکستان پر کوئی آنچ نہ آئے۔ اداروں کو تصادم سے بچانے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا جائے کیونکہ حکمران خود ہی بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں اور عوام کی نظر میں حکومت کرنے کی اہلیت ہی کھو بیٹھے ہیں۔

No comments:

Post a Comment