ابراہم لنکن کا ایک اہم خط
شاید ہی کوئی دوسرا امریکی صدر اتنے سخت اور نامساعد حالات مےں امریکی صدارت پر فائز ہوا ہو جتنے مشکل حالات سولہویں امریکی صدر ابراہم لنکن کو نصیب ہوئے۔ 6 نومبر 1860ءکو جب وہ منتخب ہوئے تو امریکہ مکمل طور پر تقسیم شدہ ملک تھا۔ اس سے پہلے 1858ءمےں ابراہم لنکن نے سینیٹ کی سیٹ کےلئے انتخاب لڑا مگر وہ ہار گئے۔ اس مہم کے دوران ان کی اپنے مخالف سٹیفن ڈگلس کے ساتھ جو تقاریر کا تبادلہ ہوا وہ آج بھی ایک تاریخی دستاویز ہے۔ وہ انتخاب تو ہار گئے مگر اپنی تقاریر اور خیالات کی بدولت ان کا مقام ملکی سطح پر اتنا بلند ہوا کہ ری پبلکن پارٹی نے دو سال بعد ہی انہیں اپنا صدارتی امیدوار بنا دیا جہاں ان کا مقابلہ ایک بار پھر سٹیفن ڈگلس کے ساتھ تھا، اس بار قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوئی اور وہ 40فیصد پاپولر ووٹ لے کر امریکی صدر بن گئے۔ آج بھی ان کو چند کامیاب ترین امریکی صدور مےں گنا جاتا ہے اور غلامی ختم کرنے اور آزادیوں کے محافظ کے طور پر اسے دنیا مےں ایک اعلیٰ ترین شخصیت گردانا جاتا ہے۔ مجھے آج ابراہم لنکن کو ایک سیاست دان، دانشور یا سٹیٹس مین کے طور پر پیش نہیں کرنا بلکہ ایک باپ کی حیثیت سے اس کا تعارف کرانا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہےں کہ ابراہم لنکن نے ایک دفعہ اپنے بیٹے کے ٹیچر کو ایک خط لکھا تھا یہ ایک تاریخی خط ہے اور ہمارے آج کل کے اساتذہ کے لئے ایک سبق۔ مےں جب بھی یہ خط پڑھتا ہوں تو مجھے اپنے تعلیمی ماحول کی کم مائےگی اور ناکامی و زوال کی داستان اور اس کی وجوہات سامنے آ جاتی ہےں۔
”مجھے معلوم ہے کہ میرے بیٹے کو یہ سیکھنا اور جاننا پڑے گا کہ تمام لوگ اچھے اور ایماندار نہیں ہوتے مگر (استادِ محترم) اسے یہ ضرور سکھایئے گا کہ جہاں گھٹیا اور کم ظرف لوگ موجود ہےں وہاں ہیرو بھی ہےں۔ ہر خودغرض سیاستدان کے ساتھ ایک نہ ایک نیک نام اور دیانتدار رہنما بھی ہے۔ اسے سکھایئے گا کہ ہر دشمن کے ساتھ کہیں نہ کہیں دوست بھی ہوگا۔ میرے بیٹے کو اگر ہو سکے تو حسد سے روکیئے گا اور اسے خاموش مسکراہٹ اور قہقہے کے راز سے ضرور واقف کیجئے گا۔ اسے بتایئے گا زندگی کے آغاز مےں ہی کہ جھگڑالو اور متشدد لوگوں سے گھبرائے نہیں وہ سب سے زیادہ جلدی خوشامد پر مائل ہوتے ہےں۔ اگر ہو سکے تو میرے بیٹے کو کتابوں کے حیران کن خصائص سے آگاہ کیجئے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے آسمانوں پر تیرتے ہوئے پرندوں کے آفاقی اور سر بستہ رازوں پر سوچنے کے لئے خاموش وقت بھی مہیا کیجئے گا۔ تاکہ وہ چمکتے سورج مےں ہمہ تن مصروف شہد کی مکھیوں اور سرسبز و شاداب پہاڑوں پر کھلے ہوئے پھولوں کی بھی ستائش کر سکے۔ سکول مےں اسے بتایئے گا کہ نقل لگانے یا دھوکہ دینے سے کہیں زیادہ قابل عزت بات ناکام ہو جانا ہے۔ اسے سبق دیجئے گا کہ وہ اپنے خیالات پر مکمل بھروسہ رکھے خواہ سارے لوگ کہتے رہیں کہ وہ غلط ہےں۔ اسے کہیئے گا کہ شریف لوگوں کے ساتھ شریف اور سختی سے پیش آنے والوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرے۔ میرے بیٹے کو یہ طاقت دینے کی کوشش کیجئے گا کہ وہ ہوا کو دیکھ کر زمانے کی تقلید محض نہ کرے۔ اسے کہیئے گا کہ وہ ہر شخص کی بات کو سنے لیکن اسے یہ بھی سکھایئے گا کہ وہ جو سنے اس مےں اسے اچھائی کو فلٹر کیسے کرے۔ اسے غم مےں بھی مسکرانے کا سبق دیجئے گا اور یہ بھی کہ آنسوﺅں مےں کوئی شرم نہیں۔ اسے اپنے ناقدین سے نہ گھبرانے اور ضرورت سے زیادہ میٹھا پن ظاہر کرنے سے روکیئے گا۔ اسے یہ سبق ضرور دیجئے گا کہ اپنی محنت اور ذہنی کاوشوں کو مارکیٹ مےں اعلیٰ ترین خریدار کو بیچے مگر اپنے دل اور روح پر کبھی کوئی پرائس ٹیگ نہ لگائے۔ اسے سکھایئے گا کہ اگر وہ صحیح راستے پر ہو تو تنقید کرنے والے جم غفیر کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھے۔ میرے بچے کے ساتھ شریفانہ برتاﺅ کیجئے گا مگر اسے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار بالکل نہ دیجئے گا کیونکہ بہترین سٹیل وہی ہوتا ہے جو سخت ترین آگ مےں سے گزرتا ہے، اسے بہادری کا سبق دیجئے گا اور اپنے اوپر مکمل اور اعلیٰ ترین اعتماد کرنا سکھایئے گا کیونکہ تب ہی وہ انسانیت پر اعلیٰ ترین اعتماد کرنے کے قابل ہوگا۔ یہ کافی مشکل کام ہے مگر دیکھئے، آپ اس مےں کیا کیا حاصل کر سکتے ہےں۔ ابراہم لنکن“
آج ہمارے تعلیمی نظام مےں بچوں پر کتابوں کا برداشت نہ ہونے والا بوجھ تو لاد دیا گیا ہے خواہ وہ دینی طرز کے ادارے ہوں یا نام نہاد مغرب سے متاثر.... مگر کوئی نہیں جانتا کہ کردار سازی کہاں ہے.... اور کیسے ہوگی۔ نبی کریم نے فرمایا کہ بہترین راستہ درمیانی راستہ ہے۔ انتہاﺅں سے واپس لوٹ کر میانہ روی پر آ جایئے اور ڈگری کے علاوہ کردار پر بھی کچھ زور دیجئے۔
”مجھے معلوم ہے کہ میرے بیٹے کو یہ سیکھنا اور جاننا پڑے گا کہ تمام لوگ اچھے اور ایماندار نہیں ہوتے مگر (استادِ محترم) اسے یہ ضرور سکھایئے گا کہ جہاں گھٹیا اور کم ظرف لوگ موجود ہےں وہاں ہیرو بھی ہےں۔ ہر خودغرض سیاستدان کے ساتھ ایک نہ ایک نیک نام اور دیانتدار رہنما بھی ہے۔ اسے سکھایئے گا کہ ہر دشمن کے ساتھ کہیں نہ کہیں دوست بھی ہوگا۔ میرے بیٹے کو اگر ہو سکے تو حسد سے روکیئے گا اور اسے خاموش مسکراہٹ اور قہقہے کے راز سے ضرور واقف کیجئے گا۔ اسے بتایئے گا زندگی کے آغاز مےں ہی کہ جھگڑالو اور متشدد لوگوں سے گھبرائے نہیں وہ سب سے زیادہ جلدی خوشامد پر مائل ہوتے ہےں۔ اگر ہو سکے تو میرے بیٹے کو کتابوں کے حیران کن خصائص سے آگاہ کیجئے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے آسمانوں پر تیرتے ہوئے پرندوں کے آفاقی اور سر بستہ رازوں پر سوچنے کے لئے خاموش وقت بھی مہیا کیجئے گا۔ تاکہ وہ چمکتے سورج مےں ہمہ تن مصروف شہد کی مکھیوں اور سرسبز و شاداب پہاڑوں پر کھلے ہوئے پھولوں کی بھی ستائش کر سکے۔ سکول مےں اسے بتایئے گا کہ نقل لگانے یا دھوکہ دینے سے کہیں زیادہ قابل عزت بات ناکام ہو جانا ہے۔ اسے سبق دیجئے گا کہ وہ اپنے خیالات پر مکمل بھروسہ رکھے خواہ سارے لوگ کہتے رہیں کہ وہ غلط ہےں۔ اسے کہیئے گا کہ شریف لوگوں کے ساتھ شریف اور سختی سے پیش آنے والوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرے۔ میرے بیٹے کو یہ طاقت دینے کی کوشش کیجئے گا کہ وہ ہوا کو دیکھ کر زمانے کی تقلید محض نہ کرے۔ اسے کہیئے گا کہ وہ ہر شخص کی بات کو سنے لیکن اسے یہ بھی سکھایئے گا کہ وہ جو سنے اس مےں اسے اچھائی کو فلٹر کیسے کرے۔ اسے غم مےں بھی مسکرانے کا سبق دیجئے گا اور یہ بھی کہ آنسوﺅں مےں کوئی شرم نہیں۔ اسے اپنے ناقدین سے نہ گھبرانے اور ضرورت سے زیادہ میٹھا پن ظاہر کرنے سے روکیئے گا۔ اسے یہ سبق ضرور دیجئے گا کہ اپنی محنت اور ذہنی کاوشوں کو مارکیٹ مےں اعلیٰ ترین خریدار کو بیچے مگر اپنے دل اور روح پر کبھی کوئی پرائس ٹیگ نہ لگائے۔ اسے سکھایئے گا کہ اگر وہ صحیح راستے پر ہو تو تنقید کرنے والے جم غفیر کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھے۔ میرے بچے کے ساتھ شریفانہ برتاﺅ کیجئے گا مگر اسے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار بالکل نہ دیجئے گا کیونکہ بہترین سٹیل وہی ہوتا ہے جو سخت ترین آگ مےں سے گزرتا ہے، اسے بہادری کا سبق دیجئے گا اور اپنے اوپر مکمل اور اعلیٰ ترین اعتماد کرنا سکھایئے گا کیونکہ تب ہی وہ انسانیت پر اعلیٰ ترین اعتماد کرنے کے قابل ہوگا۔ یہ کافی مشکل کام ہے مگر دیکھئے، آپ اس مےں کیا کیا حاصل کر سکتے ہےں۔ ابراہم لنکن“
آج ہمارے تعلیمی نظام مےں بچوں پر کتابوں کا برداشت نہ ہونے والا بوجھ تو لاد دیا گیا ہے خواہ وہ دینی طرز کے ادارے ہوں یا نام نہاد مغرب سے متاثر.... مگر کوئی نہیں جانتا کہ کردار سازی کہاں ہے.... اور کیسے ہوگی۔ نبی کریم نے فرمایا کہ بہترین راستہ درمیانی راستہ ہے۔ انتہاﺅں سے واپس لوٹ کر میانہ روی پر آ جایئے اور ڈگری کے علاوہ کردار پر بھی کچھ زور دیجئے۔
No comments:
Post a Comment